(کچھ نہ کر سکا ) تحریر حافظ نعیم احمد سیال۔ملتان
میں نے فائل ایک طرف رکھی اور آہستہ سے اپنی آنکھیں موند لیں۔ اس وقت میں ایک گہری سوچ میں پڑگیا تھا۔ فائل میں حسن علی کے کاغذات تھے۔ جس میں اس نے میری کمپنی میں ملازمت کے لئے درخواست دی ہوئی تھی۔
’’تم جیسے غریب لوگوں کو دینے کے لئے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔ ایک دن وہ غرایا تھا۔
غلطی مجھ سے صرف یہی ہوئی تھی کہ میں نے اس سے پن مانگا تھا۔ صبح کالج دیر ہوجانے کی وجہ سے میں اپنابستہ چیک کرنا بھول گیا۔ رات کو پڑھتے پڑھتے نیند آگئی صبح جلدی میں بکھرا سامان بستے میں ڈالا اور کالج کی طرف چل پڑاپن بستے میں ڈالنا بھول گیاتھا۔
’’حسن تمہا رے پاس کافی سارے پن ہیں اگر ایک پن تم انور کو دے دو گے تو کچھ ہو نہیں جائے گا‘‘۔فیصل حسن کو کہہ رہا تھا۔
’’ہوں ۔۔۔‘‘اس نے حقارت آمیز نظریں مجھ پر ڈالیں اور اپنا بستہ اٹھا کر دوسری سیٹ پر چلا گیا اس دوران پروفیسر محبوب صا حب لیکچر روم میں داخل ہو چکے تھے۔
کالج میں داخلہ ٹیسٹ ہو رہے تھے۔ اور داخلہ انہی ٹیسٹوں کی بنیاد پر جانا تھا سالانہ امتحان میں صرف کچھ ماہ ہی باقی تھے۔ اب میری تیاری تو تھی مگر پن نہ ہونے کی وجہ سے میں کچھ لکھ نہیں سکتا تھا کسی اور کے پاس بھی اضافی پن نہیں تھا جو مجھے دے سکتا۔ سر محبوب صاحب کی غصیلی نظریں مجھ پر جمی ہوئی تھیں اور شرمندگی سے میرا سر جھکا ہوا تھا۔
’’تمہا را داخلہ نہیں جائے گا ‘‘سر محبوب صاحب کے یہ الفاظ میرے لئے کسی دھماکے سے کم نہیں تھے سر محبوب صاحب جو فیصلہ کر لیتے اس پر قائم رہتے اور داخلہ انچارج بھی وہی تھے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ایک ذہین طالب علم ہوں مگر اس دن ٹیسٹ نہ دینے کی وجہ سے انہوں نے میرا داخلہ کینسل کر دیا۔ حسن نے ایک طنزیہ مسکراہٹ مجھ پر ڈالی اور موٹر سائیکل چلاتا ہوا میرے سامنے سے گزر گیا ایسے لگتا تھا جیسے وہ چاہتا بھی یہی تھا۔
میری زندگی کا ایک سال ضائع ہو گیا فرسٹ ائیر میں میں نے کتنی محنت کی تھی اور جب آخر میں اس کا پھل ملنے کا وقت آیا تو صرف اور صرف ایک چھوٹی سی بھول کی وجہ سے میری وہ محنت غارت ہوگئی تھی۔ یہ سچ تھا کہ میں واقعی غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ میرے پاس سفارش نہیں تھی جس کی بنیاد پرمیرا داخلہ چلا جاتا ،حالاں کہ مجھ سے نالائق لڑکوں کا داخلہ چلا گیا تھا ان کے پاس سفارش پیسہ سب کچھ تھا اگر میں یہ کہوں کہ حسن بھی کوئی ذہین لڑکا نہیں تھا اس کے نمبر ہمیشہ مجھ سے کم آتے رہے ہیں تو غلط نہ ہوگامگر ایک حسد کی بنیاد پر اس نے مجھے پن نہیں دیا تھا ۔ ادھر سے اس کا حسد اور ادھر سے میرے پاس سفارش نہ ہونا میری زندگی کا ایک قیمتی سال ضائع کر گیااس دن میں گھر آکے کتنا رویا یہ صرف میں ہی جانتا تھا مگر میں نے حوصلہ نہیں ہارا اور نئے سرے سے محنت کرنے لگا۔ ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا اللہ نے اتنا دیا کہ میں نے اپنی ایک کمپنی بنا ڈالی۔ اور اس میں مجھے ا سٹاف کی اشد ضرورت تھی۔
حسن علی کی فائل جب میرے سامنے آئی تو وہ دکھ ہرے ہو گئے ایسے لگتا تھا جیسے کسی نے دکھتی رگ چھیڑ دی ہو۔
’’سر باہر کافی امید وار جمع ہیں وہ سب انتظار میں ہیں کہ ان میں سے کس کس کا انتخاب ہو گیا ہے‘‘۔ میرے سیکرٹری نے مجھے اطلاع دی۔
’’ٹھیک۔ ان امید واروں میں حسن علی ہیں ان کو میرے پاس بھیج دومیں سب کی فائلیں دیکھ چکا ہوں اب منتخب شدہ امیدواروں کی لسٹ بنانی ہے وہ میں ابھی بنائے دیتا ہوں ‘‘میں نے سیکرٹری کو کہا تو وہ چلا گیا۔ دو منٹ بعد حسن علی میرے سامنے موجود تھا۔
’’انور تم ۔۔۔‘‘وہ مجھے دیکھ کی اچھل پڑا تھا۔
’’بیٹھ جاؤ سامنے‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہنے کے لئے منہ کھولتا میں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کر دیا۔
’’تمہاری فائل میں نے دیکھی ہے مگر تمہاری قابلیت دوسرے امیدواروں کی قابلیت سے بہت کم ہے کچھ امیدواروں کا تجربہ بھی تم سے زیادہ ہے اگر میں ان میں سے کسی کو مسترد کرکے اس کی جگہ تمہیں نوکری دے دوں تو یہ اس کے ساتھ حق تلفی ہوگی‘‘۔ میں نے اسے کہا حقیقتاً میں واقعی اس کی قابلیت ، کاکردگی اور تجربہ دوسرے امیدواروں سے بہت کم تھامیں نے ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر گویا ہوا۔
’’میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اچھی نوکری دے۔ اگر میری کمپنی میں کوئی سیٹ نکل آتی ہے تو میں تمہیں اطلاع کر دوں گا۔ مگر اس وقت تمام سیٹیں مکمل ہو چکی ہیں اور ان سب کی قابلیت اور تجربہ تم سے زیادہ ہے میں نے اس لئے تمہیں بلایا ہے کہ اگر کل کو تمہیں معلوم ہو جائے کہ اس کمپنی کا مالک میں ہوں تو تمہارے دل میں یہ سوچ پیدا نہ ہو جائے کہ میں نے جان بوجھ کر تمہیں نوکری نہیں دی تم یہ نہ سمجھنے لگو کہ میں نے بدلہ لیاہے تمام امیدواروں کی قابلیت اور تجربہ تمہارے سامنے ہے میں توسب کچھ بھول گیا تھا مگر تمہاری فائل دیکھی تو وہ سب باتیں یا د آگئیں میرے دل میں تمہارے خلاف کوئی بغض یا نفرت نہیں‘‘۔ میں اسے کہہ رہا تھا اس کے چہرے پر افسردگی چھا گئی تھی اس نے چپکے سے فائل اٹھائی اور بھیگی پلکوں سے باہر نکل گیا میری آنکھوں سے بھی آنسو نکل پڑے اس نے تو میرے ساتھ’’ بہت کچھ ‘‘کیا تھا مگر افسوس میں اس کے لئے کچھ بھی نہ کر سکا۔