(آخری افسانہ) تحریر حافظ نعیم احمد سیال۔ملتان
    آپی کو پتا نہیں ہم سے کیا دشمنی تھی ہم جب بھی کہانی لکھنے بیٹھتے ہمیں باہر کام کے لئے بھیج دیتیں، ہم جھنجھلا اٹھتے۔ قلم اور کاغذ دھرا کا دھرا رہ جاتا اور ہم رونی صورت بنا کر ان کا کام کر آتے۔ کیوں کہ ہمیں ان کی بددعاؤں سے بہت ڈر لگتا تھا آپی کو ہمارا ذرابھی خیال نہیں تھا۔ خود تو بہت بڑی ادیبہ تھیں مگر مجال ہے کہ ہمیں اس شعبے میں گھسنے دیتی ہوں۔
    آخر ایک دن توہم نے غصے سے کہہ ہی دیاکہ آپ چاہتی ہی نہیں ہیں کہ میں بھی ادیب بنوں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے الٹا ہمیں تھپڑ مار دیا اور اپنے کمرے میں چلی گئیں ہم روتے رہے۔
    ”آج ہم کہانی لکھ کر ہی رہیں گے۔ اور آپی کا کام کرنے سے انکار کر دیں گے۔“ سکول سے واپسی پر ہم نے سوچا۔ مگر ہوا اس کے برعکس، حسب معمول قلم کاغذ اٹھایا ہی تھا کہ آپی نے خط کا لفافہ لانے کے لئے باہر بھیج دیا۔
    ”ہوں، موصوفہ نے پھر کوئی افسانہ لکھا ہوگا۔ ہوئیں جو اتنی بڑی افسانہ نگار۔“ہم نے جلے بھنے انداز میں کہا اور چاروناچار باہر نکل پڑے۔ خط کالفافہ لے کر آئے اور آپی کو دے کر جانے ہی لگے تھے کہ انہوں نے ہمیں پھر روک دیا۔
    ”بیٹا ادھورا کام نہیں کرتے پورا کام کرتے ہیں خط کا لفافہ تو لے آئے ہو اب پوسٹ کون کر ے گا؟“ آپی نے دادی جان کی طرح نصیحتیں جھاڑیں اس وقت دل چاہا کہ اپنا سر بغل میں دے کر خوب روؤں، اوپر آسمان کی طرف دیکھا اللہ میاں سے اپنی مظلومیت کا شکوہ کیا اور دعاکی کہ یا اللہ ایک بھائی اور ہی دے دے تا کہ اگر میں خط کا لفافہ لے آؤں تو وہ پوسٹ کر آئے۔ مجبوراً وہ لفافہ بھی پوسٹ کرکے آناپڑا۔
    اب گھر میں داخل ہوتے ہوئے دل نے کہا کہ کہانی لکھوں مگر موڈ خراب ہو چکا تھا کہانی لکھنے کے لئے مکمل یکسوئی چاہیے مگر آپی صاحبہ ہمیں کہاں آرام سے بیٹھنے دیتی تھیں ایک کام سے فارغ ہوتاہی نہیں تھا کہ دوسرا تیار ہوتاتھا۔ ہم تنگ آچکے تھے۔
    اگلے دن آپی کو پھر کوئی تحریر لکھتے ہوئے دیکھا تو ہم نے اپنے آپ کو چھپانا چاہا۔ مگر آپی کی تیز نظروں سے کہا بچنے والا تھے انہوں نے پکڑ لیا۔
    ”پتا نہیں انسان ہیں یا لکھنے کی مشین، دھرا دھر کہانیاں اور افسانے لکھتی جا رہی ہیں اوپر سے بہت سے مدیروں کے فون پر فون، دماغ میں اتنا علم کا خزانہ تو بھرا ہوا ہے مجھ سے ایک کہانی نہیں لکھی جاتی اور یہ موصوفہ دن میں چار چار کہانیاں اور افسانے لکھ مارتی ہیں، کمال ہے حیرت ہے“ ہم دل ہی دل میں بڑبڑا رہے تھے کہ انہوں نے زور سے ہمارے کان مڑورے۔ ہمارے منہ سے خطرناک چیخیں نکلیں جس سے ہماری دماغ کی چو لیں تک ہل گئیں۔
    ”خبر دار اگر ہمیں برا بھلا کہا تو ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا۔“آپی نے مجھے گھورا۔
    ”ہاں آپ سے برا کوئی ہے ہی نہیں۔“ہم نے غصے جواب دیا اور پیر پٹختے ہوئے لفافہ لینے چلے گئے۔ آپی نے ہمارے اس جملے کا بالکل بھی برا نہیں منایابلکہ مسکرا کر پیار سے دیکھا ہم لفافہ بھی لے کر آئے اور پوسٹ بھی کر آئے۔
    ایک دن سکول سے پڑ ھ کر گھر واپس آئے تو پتا چلا کہ گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں آپی کمرے میں بیٹھی تھیں مجھے حیرت تھی کہ جب بھی کوئی مہمان آتا تو آپی ان کی خاطر تواضع میں لگ جاتی تھیں مگر اس دفعہ امی کو ہی ان مہمانو ں کہ خدمت کرتے ہوئے پایا۔ہم نے آپی کے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو وہ اپنا سامان ترتیب سے رکھ رہی تھیں کاغذ اور قلم بھی پاس نہیں رکھا ہواتھا۔
    ”اس کا مطلب آج آپی نے کوئی تحریر نہیں لکھی شکر ہے جان چھوٹی ورنہ ابھی حکم آتا کہ جاؤ لفافہ لے آؤ اور پوسٹ بھی کر آؤ۔“ ہم نے خوشی سے بغلیں بجائیں اور واپسی کے لئے مڑے۔
    ”منے اب تو واقعی تمہاری جان چھوٹ گئی“آپی کے جملے نے مجھے رک جانے پر مجبور کر دیاہم حیران تھے کہ ہمارے دل میں آنے والے خیالات کوآپی نے کیسے پڑھ لیا۔
    ”جج ……جج ……جی آپی۔“ہم بالکل گھبرا چکے تھے۔
    ”ادھر آؤ میرے پاس……“ آپی نے مجھے کہا میں آپی کے پاس چلا آیا۔ انہوں نے مجھے اٹھالیا اور خوب پیا رکیا مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کی آپی کو اچانک کیا ہو گیاہے۔ اتنے میں امی اندر آگئیں وہ بھی خوش لگ رہی تھیں آپی کے کان میں کچھ کہا اور مجھے لیتے ہوئے چلی گئیں۔
    میں ان سب باتوں سے انجان تھا مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہاہے۔ مگر جب ہمارے گھر مہمانوں کی گہماگہمی شروع ہو ئی اور سب کے چہرے کھل رہے تھے ہمیں اس وقت پتا چلا کہ آج ہماری آپی صاحبہ کا نکاح ہے اور وہ ہمیں چھوڑ کر جانے والی ہیں۔ یہ باتیں سنتے ہی ہمارا دل مضطرب ہو گیا”آپی کے بغیر میں کیسے رہوں گا؟“یہ سوچتے ہی میں آپی کے کمرے میں گھس گیا جہاں آپی خوبصورت دلہن بنی بیٹھی تھیں۔
    ”آمنے اب کو ئی تجھے تنگ نہیں کرے گاتیرے پاس اب کہانیاں لکھنے کے لئے وقت ہی وقت ہو گا تجھے میں اس لئے نہیں لکھنے دیتی تھی کہ تو ابھی بہت چھوٹا ہے، نا سمجھ ہے، کہانیاں لکھنے کے اصول تو ابھی نہیں جانتا، یہ پوری کی پوری لائبریری میں تمہارے لئے چھوڑ کر جا رہی ہوں ان میں بہت سی کتابیں ایسی ہیں جن میں لکھنے کا طریقہ کار اور اصول بتائے گئے ہیں بہت سی کتابیں ایسی ہیں جو تمہیں لکھنے میں مدد دیں گی جتنازیادہ مطالعہ کرے گا اتنا ہی اچھا لکھ پائے گامیں اپنا قلم بھی تجھے گفٹ کر کے جا رہی ہوں وہ بھی اسی الماری میں پڑاہے۔“آپی نے الماری کی طرف اشارہ کیا جہاں علم کا سمندر گھسا ہوا تھا آپی کے لکھے ہوئے سینکڑوں کہانیاں اور افسانے اس میں پڑے ہوئے تھے۔
     ”میری ان کتابوں کی حفاظت کرنا ان کو ضائع مت کرنا۔“آپی مجھے نصیحتیں کر رہی تھیں آ ج آپی کی باتیں مجھے بالکل بھی بری نہیں لگ رہی تھیں۔”آج آخری بار تمہیں کام بتاؤں گی ……کرو گے؟“آپی نے مجھے پیار کرتے ہوئے کہا۔
    ”ہاں ہاں آپی ضرور کروں گا آپ بتائیں تو سہی“ میں روتے ہوئے بولا۔
    ”میں نے اپنے میکے میں یہ آخری افسانہ لکھا ہے اسے پوسٹ کرناہے کیاپتا سسرال میں لکھنے کاموقع نہ ملے کیوں کہ سسرال جانے کے بعد ایک عورت کی زندگی بالکل بدل جاتی ہے ایسے لگتا ہے جیسے دوسری زندگی میں قدم رکھا ہو“آپی نے مجھے چمکارتے ہوئے کہا میں خوشی سے گیا اور لفافہ لے آیاآپی نے اس پر ایڈریس لکھا اتنے میں مولوی صاحب نکاح پڑھانے آگئے، آپی نے جلدی سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔
    ”منے اس پر ایڈریس لکھاہے افسانہ ڈال کرپوسٹ کر دینا میں اب جانے والی ہوں“آپی نے مجھے کہامیرا دل ٹوٹ کر رہ گیا۔ مولوی صاحب اندر آئے اور نکاح کی رسم شروع ہو گئی اس کے بعد آپی چلی گئیں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ان کے جانے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میں نے ابھی ان کا افسانہ پوسٹ کرناہے میں نے ان کا افسانہ اٹھایا افسانے کے اوپر ہی خوبصورت جلی حروف میں عنوان چمک رہا تھا ”آخری افسانہ“ میں نے وہ افسانہ لفافے میں ڈالا اور پوسٹ کر دیا آپی جاتے ہوئے بھی افسانہ لکھنا نہیں بھولی تھیں۔