”آپ بہت اچھا لکھتے ہیں“تقریب ختم ہونے کے بعد میں ہال سے باہر نکل رہا تھا ایک اجنبی آواز میرے پردۂ سماعت سے ٹکرائی میں نے مسکراتی نظر اس پر ڈالی اور فوراً ہی آنکھیں جھکا لیں وہ کوئی اجنبی لڑکی تھی۔
”آپ کی کہانیاں میں بہت شوق سے پڑھتی ہوں“وہ ٹھہر ٹھہر کر بول رہی تھی۔
”شکریہ محترمہ“میرے منہ سے دو لفظ نکلے ابھی وہ کچھ کہنا چاہ ہی رہی تھی میں جلدی سے آگے کی طرف بڑھ گیا میں نے بائیک نکالی اور سٹارٹ کر دی اس کے چہرے پر پژمردگی چھا گئی اس کی نظریں میرا تعاقب کرنے لگی اور جب تک میں اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوگیا وہ مجھے دیکھتی رہی میں یہ سب بائیک پر لگے مرر سے دیکھ رہا تھا دائیں مرر سے اس کا عکس صاف نظر آرہا تھا دھندلا دھندلا چہرہ،آنکھوں میں سوالات بسائے وہ مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی میں نے موڑ کاٹی تو مرر سے اس کا عکس ختم ہو گیا تب مجھے لگا اگر میں موڑ نہ کاٹتا تو وہ مجھے دیکھتی رہتی۔
اس کی آنکھوں میں سوالات کس چیز کے تھے؟ وہ کیا سپنے دیکھ رہی تھی؟ اس کے چہرے پر پژمردگی کیوں چھا گئی تھی؟ وہ شاید کچھ کہنا چاہتی تھی مگر میں نے اس کے دو جملے سننے پر ہی اکتفا کیا اور شکریہ کہتے ہوئے بائیک اٹھا کر آگیا تھاکیا میں اتنا بے حس ہو چکا تھا بائیک چلاتے ہوئے اچانک مجھے خیال آیا، مگر میں مجبور تھا میں نے دوبارہ ملازمت پر جانا تھاباس سے صرف تین گھنٹے کی ہی چھٹی مانگ کر آیا تھااگر میں اس کی باتیں سننے میں لگ جاتا تو شاید مجھے دیر ہو جاتی اور باس غصے سے گرم ہوجاتا۔ مجھے ابھی تازہ تازہ ملازمت ملی تھی ابھی تو میں اس کمپنی میں صحیح طرح اعتماد بھی نہیں جما پایا تھا تو میں چھٹی کرنے کا کیسے سوچ لیتا۔
آج ایک قومی اخبار کے زیراہتمام لکھاریوں کے اعزاز میں تقریب تھی جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھااور اس تقریب میں شرکت کرنا میرے لئے بہت ضروری تھا ملک بھر سے آئے ہوئے تمام لکھاری پروگرام کے بعد ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مصروف تھے ملنے ملانے کا سلسلہ جاری تھامگر میں کسی سے ملے بغیر ہی واپس آگیا تھا اور جو مجھ سے ملنا چاہتے تھے میں ان سے بھی نہ مل سکا میں جانتا تھا یہاں پر قارئین کی کافی تعداد مجھ سے ملنے کے لئے بے تاب ہے میری تحریریں پڑھنے والوں کی ایک کثیر تعداد مجھ سے ملاقات کی خواہش مند ہے اور شاید وہ یہاں اس وجہ سے آتے ہیں کہ ہم اپنے پسندیدہ ادیبوں سے مل سکیں گے تبھی پروگرام کے اختتام پر میں نے کچھ لوگوں کو اپنی طرف آتے دیکھا مگر میں جلدی سے باہر نکل گیا میں نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا ان کی خواہشات پر اوس پر چکی تھی اور شاید انہی میں سے ہی وہ محترمہ تھی۔ ہو سکتا ہے وہ مجھ سے یہ پوچھنا چاہتی ہو کہ میں کہانیاں کیسے لکھتا ہوں وہ شاید کچھ سیکھنا چاہتی ہومگر میری بے توجہی سے اس کے چہرے پر پژمردگی چھا گئی تھی۔
ذہن کی ایک کھڑکی کھلی اور یادوں کے دریچے باہر آگئے بچوں کا ایک اخبار میرے ہاتھ میں تھا۔
شغف ادیب کی تحریر اس دفعہ بھی زبردست تھی اپنے منفرد قلم سے وہ الفاظ نہیں بلکہ موتی بکھیرتے تھے شروع سے لے کر اختتام تک ایسے لگتا تھا جیسے ہیروں کی مالا پروئی ہوئی ہو، لفظوں کے ساتھ لفظ جڑے ہوئے، ربط کے ساتھ ربط، قلم پر گرفت ایسی جیسے الفاط خود بخود نکلتے جا رہے ہوں۔ علم کا سمندر ان کے ارد گرد بہتا تھا ہر بار وہ اپنے قلم کے جوہر سب کو دکھاتے تھے ایک نیا اور اچھوتا انداز لے کر اور اسی انداز نے بہت جلد ہی لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کر لی تھی تمام ایڈیٹرز ان کی تحریریں شائع کرنے کو خواہش مند نظر آتے تھے اور وہ بھی دل کھول کر لکھ رہے تھے۔
شغف ادیب خود کیسے ہونگے؟یہ وہ سوال تھا جو میرے دماغ میں گونجتا تھا ان کو دیکھنے کی خواہش دل میں مچل رہی تھی خوش قسمتی سے ایک ادبی تقریب میں ان سے ملاقات ہو گئی وہ بڑے پر تپاک انداز میں ملے۔ یہ ادبی تقریبات ہی تو ہوتی ہیں جس میں قاری اور لکھاری ایک دوسرے کو مل سکتے ہیں اگر یہ تقریبات نہ ہو ں تو شاید کوئی کسی سے نہ مل سکے۔ اس تقریب میں ہی میں اپنے پسندیدہ لکھاری شغف ادیب سے مل چکا تھا۔ میری آنکھوں میں اٹھنے والا سوال انہوں نے پڑھ لیا تھا۔
”اگر انسان محنت کرے تو سب کچھ پا لیتا ہے اپنے فن سے ایمان داری، لگن، بڑھنے کی جستجو اور اسے پھیلانے کا عزم انسان کو آسمان تک پہنچاتا ہے، حسد، بے ایمانی اور دھوکا بازی جیسی بیماریاں اپنے دل سے نکال کر اپنے شوق کو پورا کرنے میں لگ جاؤ تو ایک دن بہت بڑے ادیب بن جاؤ گے“ شغف ادیب کے یہ جملے واقعی میری کامیابی کی ضمانت بن گئے اور آج میں بھی انہی کے مقام تک پہنچا چکا تھا۔
”سر اس فائل پر دستخط کر دیں“چپراسی نے آ کر مجھے جھنجھوڑا تو یا دوں کے دریچے بند ہو گئے میں اپنے آفس پہنچ چکا تھا وہ محترمہ ابھی تک میرے دماغ پر چھائی ہوئی تھی شاید میں بھی شغف ادیب کی طرح چند جملے بول لیتا تو ہو سکتا ہے وہ ان الفاظ سے بہت کچھ سیکھ لیتی۔ میرے دل میں پچھتاوہ اٹھ رہا تھا ایسے لگتا تھا جیسے میں نے بددیانتی کی ہے میں نے شغف ادیب کے جملے بھلا دیئے تھے ان کی نصیحتوں پر عمل نہیں کیا تھا پھر وہاں پرموجود لکھاریوں اور قارئین سے بغیر ملے آجانا میرے لئے شرمندگی کا باعث بن چکا تھامیں اپنے دل میں ایک بے چینی محسوس کر رہا تھا۔
گھر واپسی تک میرے دل کی یہی کیفیت رہی تقریب سے ملنے والا ایواڑد مجھے ایک خالی پلاسٹک کی مانند لگ رہا تھااگرچہ کہ وہ بہت عمدہ تھا مگر شاید میں اس ایواڑڈ کے قابل نہ تھامیں اپنے کمرے میں آیا ایواڑڈ کو ایک طرف رکھا اور حسب معمول کہانی لکھنے بیٹھ گیا مجھے روزانہ ایک کہانی لکھنا ہوتی تھی ابھی چند جملے ہی لکھ پایا تھا کہ میرا قلم رک گیا الفاظ مجھ سے روٹھنے لگ گئے تھے اور یہ سب آج والے واقعے کی صورت حال کا نتیجہ تھا جلد ہی میں نے ایک فیصلہ کر لیا۔
شاید اس دنیا کو فنکاروں کی ضرورت نہیں اس لئے شاعروں، ادیبوں، اور مصوروں کے فن کو پیٹ کی آگ ہڑپ کر لیتی ہے کیوں کہ ان کے چولہے ان کے فن سے جل نہیں پاتے اور وہ ہاتھوں سے قلم اور برش رکھ کر مزدوری کی کدال اٹھا لیتے ہیں فن مجبوریوں کی قید کو نہیں مانتابلکہ آزادی چاہتا ہے اپنی مرضی چاہتا ہے اور میں اپنے فن کو یہ چیزیں نہیں دے سکتاتھا، میں نے اپنے قلم کو آخری بار دیکھا اسے چوما اور ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا۔
0 Comments