تحریرحافظ نعیم احمد سیال ملتان
ایک زور دار چھناکے کی آواز آئی اور گلدان نیچے گر کر ٹو ٹ پڑا۔”ارے بے وقوف اتنا قیمتی گلدان توڑ دیا“
”دیکھ نہیں سکتا کیا؟ پاگل احمق“
”چلو اکرم یہ تو ہے ہی یتیم لاوارث اسے تمیز کہاں“۔
تینوں لڑکے برے برے منہ بناتے ہوئے چلے گئے اور راجو چپ چاپ وہیں بیٹھ گیا۔اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں
”کیا ہوا راجو بیٹا تمہاری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں“؟ بیگم شوکت علی نے پوچھا۔
”کچھ نہیں آنٹی جان ویسے ہی ……“اس نے بات گول کر دی۔
”بیٹا کئی دفعہ میں نے تمہیں کہا ہے کہ کوئی پریشانی یا ایسی ویسی کوئی بات ہو تو مجھے بتا دیا کرو، تم میرے بچوں جیسے ہو“۔ بیگم شوکت علی نے کہا۔
”ٹھیک ہے آنٹی جان“۔راجو چہرے پرمصنوعی مسکراہٹ سجا کے بولا۔
”اچھا بیٹا آج شام کو تمہیں ہمارے ساتھ جانا ہے۔ مجھے بچوں کے لئے خریداری کرنی ہے تمہیں بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو لے لینا“بیگم شوکت علی نے کہا تو راجو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
”مما یہ راجو بھی ہمارے ساتھ جائے گا“۔ صائم نے پوچھا۔
”ہاں بیٹا وہ بھی ہمارے ساتھ جائے گا“۔ انہوں نے جواب دیا۔
”پھر تو مما ہم نہیں جائیں گے“۔ان کے تینوں بچے بولے۔
”کیوں بچو……“انہوں نے حیرانی سے پوچھا۔
”آپ اور پاپا ہر وقت اس کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں، پاپا کو دیکھو رات کو گھر آتے ہیں جیسے ہمیں پیار کرتے ہیں ویسے ہی اسے پیا کرتے ہیں جو چیز ہمارے لیے لاتے ہیں وہی چیز اسے دیتے ہیں جو حقوق ہمیں حاصل ہیں وہی حقوق اسے بھی حاصل ہیں۔ اب آپ اسے ہمارے ساتھ لے کر جا رہی ہیں۔ مما وہ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتا، پلیز اس کا کھانا پینا رہنا سہنا سب علیحدہ کریں“۔ اس باراکرم کھل کر بول رہا تھا اس دوران پاپابھی آگئے۔
”بچو……کیوں شور مچارہے ہو“؟ شوکت صاحب نے آتے ہی پوچھا۔
”پاپاجی ہم شاپنگ کرنے بالکل نہیں جائیں گے۔ آپ راجو کو لے جائیں اسے شاپنگ کروائیں۔ اسے ساری چیزیں لے کر دیں ہم آپ کے بیٹے نہیں ہیں آپ کا بیٹا تو وہ ہے“۔ تینوں بچے بول رہے تھے۔
”نہیں بچوں وہ بھی تم جیسا ہے آخر وہ بھی انسان ہے، وہ یتیم ہے اور یتیم کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ چھو ٹا سا بچہ ہے، وہ جب تمہیں خوب صورت کپڑے پہنے ہوئے دیکھے گا تو اس کے دل میں بھی حسرت پیدا ہو گی۔ میں تو اسے اپنے ساتھ اس لیے گھر لایا تھا تاکہ وہ تمہارے ساتھ مل کر اپنی زندگی ہنسی خوشی گزارے مگر تمہیں تو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا“۔ ان کے پاپا بولے۔
”پاپاجی ہمارے دوست ہمارا مذاق اڑاتے ہیں، یہ غریب لڑکا ہمارے ساتھ زندگی کیسے گزار سکے گا۔ آپ اس کی پرورش ضرور کریں مگر اس کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا بندوبست علیحدہ کریں “۔ تینوں بچے ناراضگی کا اظہار کر رہے تھے۔
”ہر گزنہیں! وہ اکیلا کہاں رہے گا۔ اس کا خیال کون رکھے گا میں نے اسے ا پنا بیٹا بنا لیا ہے۔تم اسے اپنا بھائی نہیں سمجھتے تو نہ سمجھو جو چیز تمہیں میسر ہو گی وہی چیز اسے بھی ملے گی، اب جسے شاپنگ کرنی ہے وہ ساتھ چلے جسے نہیں کرنی وہ گھربیٹھا رہے“۔ شوکت صاحب نے کہا تینوں بچے چپ ہو گئے اور منہ لٹکائے مجبوراً شاپنگ کے لیے چل پڑے۔
شاپنگ کے دوران وہ بار با ر ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ راجو کی پسند کی گئیں چیزوں پر وہ کڑھ رہے تھے۔ بڑی مشکل سے انہوں نے شاپنگ کی اورگھر واپس آگئے رات کے وقت تینوں سر جو ڑے بیٹھے تھے۔”پاپا راجو کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں“۔ دانیال نے بات کا آغاز کیا۔
”ہاں وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے وہ ان کا سگا بیٹا ہو“۔ صائم بو لا۔
”بلکہ سگے بیٹوں سے بھی بڑھ کر۔ تم نے دیکھا نہیں شاپنگ سے پہلے پاپا اس کی کتنی طرف داری کر رہے تھے“۔ اکرم نے بات کی۔
”ہمیں کوئی ایسا منصوبہ بنانا چاہئے کہ وہ خود ہی یہ گھر چھوڑ کر چلا جائے“۔
آخر تینوں نے مل کر منصوبہ بنا لیا اگلے دن منصوبے پر عمل شروع ہو گیا۔ پاپا کے آفس جانے کے بعد انہوں نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ دانیال نے پانی کی بالٹی اس کے اوپر انڈیل دی۔ صائم نے اسے گھسیٹا اور گھسیٹتا چلاگیا۔ اکرم نے دو تین لاتیں اسے رسید کیں۔ مما اوپر والے پورشن میں صفائی ستھرائی کر رہی تھیں اور یہ سب کچھ نیچے ہو رہا تھا اس لیے انہیں بھی پتہ نہ چل سکا وہ تینوں اس پر ظلم کرتے رہے اور وہ بے چارہ برداشت کرتا رہا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے مگر زبان سے اس نے اف تک نہ کی۔
”مجھے یہاں سے جانا ہو گا، میں یہاں نہیں رکوں گا، میں یتیم ہو ں نا اس لئے“۔
یہ سوچتے ہوئے شام سے پہلے پہلے وہ گھر سے نکل گیا۔ آنکھوں میں آنسو لیے ایک انجان راستے کی طرف چل پڑا
شام کو آفس سے پاپا گھر آئے تو اسے نہ پا کر پریشان ہو گئے۔”بیگم راجو کہاں ہے“؟ انہوں نے بیگم سے پوچھا۔
”راجو پتہ نہیں کہاں چلا گیا وہ گھر میں ہی تو تھا میں اوپر صفائی کر رہی تھی بچے نیچے تھے صفائی کر کے جب فارغ ہوئی تو وہ تھا ہی نہیں“۔ بیگم نے روتے ہوئے جواب دیا۔
”پاپاجی وہ چلاگیا ہے وہ اب یہاں نہیں آئے گا۔ہم نے اسے بھگا دیا ہے“دانیال غصے بول رہاتھا۔
”کیا کہا……؟ وہ یہاں سے چلا گیا ہے تم نے اسے بھگا دیاہے۔ بیگم تم بھی تیاری کرو۔ اب ہم بھی یہاں نہیں رہیں گے جب اس گھر کا مالک بھی چلا گیا ہے تو ہمارا یہاں رہنے کا کیا فائدہ “۔ شوکت صاحب روتے ہوئے بول رہے تھے۔
”مالک……کک……کک……کیا وہ اس گھر کا مالک ہے آپ نے تو کہا تھا کہ میں نے یہ گھر اپنے ایک دوست سے خریداہے“۔ تینوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔
”ہاں وہ اس گھر کامالک ہے۔ یہ بات میں اور تمہاری مما جانتے ہیں۔ مجھے گھر نہیں مل رہاتھا اور میرے پاس پیسے بھی نہیں تھے میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا تھا میرے دوست نے مجھے یہ گھر دیا اس وقت اس نے بتا دیاتھا کہ یہ گھر میرے بیٹے یعنی راجو کے نام ہے ابھی وہ چھوٹا ہے آپ جب تک چاہیں رہ سکتے ہیں پھر اس کے والدین ایک حادثے میں فوت ہو گئے اور میں اسے یہاں لے آیا یہ گھر میرے پاس امانت ہے راجو کو یہ گھر واپس کرنا ہے اگر میں نے ایسا نہ کیا تو قیامت کے دن اللہ کو کیا منہ دکھاؤں گا“۔ شوکت صاحب زمین اکڑوں بیٹھ گئے اور دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔
”پاپاجی ہمیں معاف کر دیں ہم راجو کو ڈھونڈنے جاتے ہیں وہ زیادہ دور نہیں گیا ہو گا چلو میرے ساتھ“۔دانیال نے اپنے بھائیوں سے کہا اور وہ سب سائیکلوں پر بیٹھ کر راجو کی تلاش میں نکل پڑے۔
راجو اداس چہرے کے ساتھ آنکھوں میں آنسو لیے بوجھل قدموں سے بس اڈے والی سڑک کی طرف جا رہا تھا۔
”راجو……“ دانیال نے آواز دی۔
راجو نے پیچھے مڑ کر دیکھا ااور پتھر کا بت بن گیا۔
”رک جاؤ راجو ہم تمہیں لینے آئے ہیں۔ ہم تم سے معافی مانگنے آئے ہیں۔ ہم نے تمہیں بہت تنگ کیا ہم وعدہ کرتے ہیں آئندہ ایسا نہیں کریں گے“۔ صائم رندھی ہو ئی آواز میں بول رہاتھا۔
”ہاں راجو ہمیں معاف کر دو تم ہمارے بھائی ہو، ہم نے تمہیں بہت تکلیف پہنچائی ہے“وہ تینوں اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹے گئے۔
راجو نے انہیں اٹھایا اور گلے سے لگا لیا۔ تینوں اس کے گلے لگ کے خوب رو رہے تھے۔ پتہ نہیں ان کی آنکھوں سے نکلنے والے یہ آنسو خوشی کے تھے یاپھر شرمندگی کے۔ انہیں اپنی غلطی کااحساس ہو گیاتھا احساس ندامت کے ساتھ وہ تینوں اسے ساتھ لے کر گھر کی طرف چل پڑے۔
0 Comments