(ادھوراادیب) تحریر :حافظ نعیم احمد سیال۔ ملتان
وہ ایک مشہور ادیب تھا بچوں کے لئے کہانیاں لکھنا اس کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا وہ جیسے ہی کاغذ قلم اٹھا تا لفظ خود بخود اس کے ذہن میں آتے جاتے اور وہ ان الفاظ کو صفحہء قرطاس پر بکھیر کر ایک رسالے کو بھجوا دیتا پھر اگلے ہی مہینے اس کی کہانی شائع ہو جاتی اور وہ خوشی سے پھولے نہ سماتا۔
اپنی پہلی کہانی کے شائع ہونے وہ بہت خوش تھا۔ رسالہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے وہ کبھی داداجی کے پاس جاتا تو کبھی دادی جان کے پاس ، کبھی ابو کے پاس تو کبھی امی کے پاس، اس نے اپنی یہ کہانی تمام بہن بھائیوں کو بھی دکھائی ، سب اس کی کہانی دیکھ کر خوش ہو رہے تھے اور مبارک باد بھی پیش کر رہے تھے ۔
میں اپنی یہ کہانی اپنے دوستوں کو بھی دکھاؤں گا اس نے سوچا اور رسالہ بستے میں رکھ دیا۔ اگلے دن وہ سکول میں سب اساتذہ اور دوستوں کو کہانی دکھا رہاتھا سب اس کی کہانی شائع ہونے پر حیران تھے اور خوشی کا اظہار کررہے تھے پھر تو یہ سلسلہ شروع ہو گیا اس نے ایک اور کہانی لکھی اور رسالے کو بھیج دی، وہ کہانی بھی شائع ہوگئی’’ اس کامطلب میرے اندر لکھنے کی صلاحیت ہے۔‘‘وہ سوچنے لگا۔
’’ہاں ہاں میں لکھا کروں گا میں ایک بڑا ادیب بنوں گا میں بچوں کے لئے کہانیاں لکھوں گا ‘‘وہ خوشی سے بڑبڑانے لگا۔
داداجی اس کی کہانیاں بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے، کسی زمانے میں وہ بھی ایک ادیب ہوا کرتے تھے پھر کاروباری مصروفیت کی وجہ سے انہوں نے لکھنا چھوڑ دیاان کے اس مشغلہ کاکسی کو بھی علم نہیں تھاسوائے دادی جان کے اور پھر اس کو بھی پتہ نہیں چل سکا کہ میرے داداجان بھی ایک ادیب ہیں داداجان نے اس کی کہانیاں پڑھیں وہ بہت خوش ہوئے۔ وہ واقعی بامقصد ادب تخلیق کر رہاتھا۔
اس کی کہانیاں ایسی ہو تی تھیں جو پڑھتا فوراً اس کے سحر میں گم ہو جاتا اس کی کہانیوں میں بچوں کے لئے ایک درس ہوتا تھا اچھی اچھی نصیحتیں ہو تی تھیں معاشرے میں ہونے والی برائیوں کے خلاف جہاد ہو اکرتا تھا۔ اس کی کہانیوں سے بچے بڑے سب سبق حاصل کر رہے تھے ۔کبھی وہ اپنی تحریروں میں بچوں کو نمازکے بارے میں تلقین کرتا کبھی جھوٹ، غیبت اور چغلی سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کرتا ۔ کبھی حضور اکرم ﷺ کی کسی سنت کے بارے میں بتاتا تو کبھی اچھے کام کرنے کا تذکرہ کرتا۔ غرض وہ اپنی تحریروں کے ذرئعے اسلام کی خدمت کر رہاتھا ۔ داداجی خود اس کی کہانیوں سے متاثر ہوا کرتے تھے ۔
داداجی خوش تھے کہ وہ اس چھوٹی سی عمر میں بہت اچھالکھ رہاہے اور لوگ اس کی تحریروں سے مستفیدہو رہے ہیں لیکن ایک بات داداجی کے لئے پریشانی کاباعث بنی ہوئی تھی، داداجی بہت پریشان رہتے تھے جہاں وہ اس کی کہانیاں پڑھ کر خوش ہوا کرتے تھے وہاں اسے دیکھ کر افسردہ بھی ہوا کرتے تھے ۔ وہ اپنی تحریروں سے دوسروں کو فائدہ تو پہنچارہاتھا مگر خود فائدہ حاصل نہیں کر پارہا تھا ۔ وہ دوسروں کو اچھی باتیں تو بتاتا لیکن خود اچھی باتوں سے محروم تھا ، اس کی لکھی ہوئی باتوں میں سے کوئی بات بھی اس کے اندر نہیں تھی، وہ جھوٹ بھی بولتا تھا اور نمازیں بھی قضا کر دیتاتھا۔ داداجان نے آخر ایک دن اسے اپنے کمرے میں بلالیا۔
’’جی داداجان آپ نے بلایا ؟ ‘‘وہ داداجان کے قریب آکر بولا ۔
’’جی بیٹے میرے پاس بیٹھومیں تم سے ایک بات کرنا چاہتاہوں ‘‘داداجی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ’’ماشاء اللہ بیٹے تم ایک بہت بڑے ادیب ہومیں تمہاری کہانیاں پڑھتارہتاہوں ایک زمانہ تھا میں بھی کہانیاں لکھا کرتا تھا تمہیں یہ بات معلوم نہیں، بہرحال جو بات بتانے کے لئے میں نے تمہیں بلایا ہے وہ یہ ہے کہ تم دوسروں کو تو اچھے کام کرنے کاکہتے ہو مگر خود وہی کام نہیں کرتے میں کافی دنوں سے نوٹ کر رہا ہوں کہ تم جھوٹ بھی بولتے ہو اور نمازیں بھی قضاکر دیتے ہواور جو سب سے بری بات ہے وہ یہ ہے کہ تمہارارویہ بھی گھر والوں کے ساتھ ٹھیک نہیں بہن بھائیوں سے اکثرتم لڑتے جھگڑتے رہتے ہو، بیٹا یہ اچھی بات نہیں ، تم یہی چاہتے ہونا کہ معاشرے میں میرا نام بن جائے بیٹا نام توپیدا ہو جائے گا مگر آخرت میں کچھ نہیں ملے گا سوائے شرمندگی اور افسوس کے۔
تم اچھی باتیں تو لکھتے ہو مگر ان پرعمل نہیں کرتے اس کامطلب ہے تم تحریری ادیب تو ہومگر عملی ادیب نہیں بیٹاتحریری ادیب کے ساتھ ساتھ عملی ادیب کاہونا بھی ضروری ہے پھر جاکر انسان مکمل ادیب بنتاہے ورنہ تو وہ ادھوراادیب ہی رہتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ تم ادھورے ادیب ہو ‘‘داداجان کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ داداجان کی باتوں نے اسے جھنجھور کر رکھ دیا تھا، اس نے اپنے اوپر نظر ڈالی واقعی وہ ادھورا ادیب لگ رہا تھا اس کے اندر تو وہ باتیں تھیں ہی نہیں جن کی وہ دوسروں کو نصیحت کیا کرتا تھا۔ آج اسے احساس ہورہاتھا کہ وہ کس طرح کا ادیب ہے۔
’’داداجی مجھے معاف کر دیں میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں میں اب مکمل ادیب بنوں گا، مجھے احساس ہو گیا ہے میں واقعی ادھورا ادیب ہوں جب تک خود عمل نہیں کروں گا تو مکمل ادیب کیسے بنوں گا ۔‘‘وہ روتے ہوئے بول رہاتھا داداجی نے اس کے آنسو صاف کئے اور خوشی سے اسے گلے لگا لیا۔