قسمت کا کھیل) تحریر: حافظ نعیم احمد سیال۔ ملتان -
کہانی پڑھتے ہی میں عش عش کر اٹھا میرے چہرے پر خوشگوار مسکراہٹ دور گئی۔ کہانی اتنی زبردست تھی کہ میرے منہ سے واہ واہ نکل گیا۔ لکھنے والا کوئی نیا ادیب تھا ’’شغف ادیب ‘‘پہلی دفعہ یہ نام نظروں کے سامنے سے گزرا تھا۔ ’’عجیب وغریب اور کتنا پیارا نام ہے ‘‘میں نے سوچا۔ مگر مجھے نام سے کیا غرض۔ میں نے تو اپنے رسالے کا معیار برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ کوئی بھی اچھی تحریر کسی کی بھی ملے میں فوراً اسے لگانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے نزدیک معیار نام یا جگہ نہیں صرف کہانی ہے۔ لکھنے والا کوئی بھی ہو کہانی اچھی ہوتو فوراً لگ جاتی ہے ۔ میں نے شغف ادیب کی کہانی بھی قابل اشاعت تحریروں کے ساتھ رکھ لی۔ اور وہ کہانی تھی بھی زبردست۔ بعض دفعہ ایسی تحریریں بھی آجاتی ہیں جن کو بندہ پڑھ کے مارے حیرت کے اچھل پڑتاہے اور بعض دفعہ تو تحریریں پڑھ کے دل خون کے آنسو بھی روتا ہے اس وقت ایسے لگتا ہے جیسے اوکھلی میں سر دے دیا ہو۔ مگر ایک مدیر کو یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بے چارہ مدیر جو ٹھہرا۔ کڑوی غصیلی باتوں کو میٹھا شربت سمجھ کر پینا اس کی مجبوری ہے۔ کبھی کبھی کوئی اچھی تحریر آجاتی ہے تو دل خوش ہو جاتا ہے۔ شغف ادیب کی تحریر بھی ایسی ہی تھی۔ اس لئے فوراً ہی شامل اشاعت ہوگئی۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ بعد میں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے میں آپ کو اپنا تعارف کرا دوں۔
میں ایک میگزین کا مدیر ہوں اور مدیر صرف ایک ہی چیز کا بھوکا ہوتا ہے وہ ہیں اچھی تحریریں۔ تاکہ وہ اپنے میگزین کا معیار برقرار رکھ سکے۔ اسے ایسے ادیبوں کی تلاش ہوتی ہے جو اسے اچھی اچھی کہانیاں لکھ کر دیں بعض دفعہ تو اچھے ادیب خود بخود مل جاتے ہیں اور بعض دفعہ ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ شغف ادیب بھی ایسا ہی لکھاری تھا جو خود بخود مجھے مل گیا تھا۔ پہلی تحریر ہی اس کی کمال کی تھی اس لئے میں نے بھی تحریر لگانے میں جلدی کی کیوں کہ اچھی تحریر اپنی جگہ خود بنا لیتی ہے۔
میگزین آئے ابھی آدھا دن ہی نہیں گزرا تھا کہ مجھے موبائل پر ایس ایم ایس اور ای میلز آنا شروع ہو گئیں۔ موبائل کی بار بار میسج ٹون بجنے سے میرا سر چکرانے لگا۔ شغف ادیب کی کہانی اتنی پسند کی جا رہی تھی کہ میرادل خوشی سے اچھلنے لگا۔ ای میلز میں بھی یہی حال تھا۔ اور سب کی یہی خواہش تھی کہ شغف ادیب کی کہانی ہر ہفتے شائع کی جائے۔
میں نے ڈائری میں شغف ادیب کا نمبر نکالا جو میں نے کہانی پڑھتے وقت اپنی ڈائری میں نوٹ کیا تھا اس نے اپنی کہانی کے ساتھ اپنا موبائل نمبر اور ایڈریس بھی لکھا تھا۔
میں نے اس کا نمبر ملایا تاکہ اسے مستقل لکھنے کی آفر کر سکوں اس نے میرا فون اٹھایاسلام دعا اور حال احوال پوچھنے کے بعد میں نے اسے اس کی کہانی کی پسندیدگی کی خوشحبری سنائی تو وہ بھی خوشی سے اچھل پڑا اور اس نے ہامی بھر لی کہ وہ میرے میگزین میں مستقل لکھے گا۔ اس سے بات کر کے مجھے خوشی کا احساس ہوا یقیناًاپنی کہانیوں کی طرح وہ بھی خوبصورت ہوگا۔ اب میں اس کی تحریروں کا انتظار کرنے لگا۔
ابھی دو دن ہی گزرے تھے کہ اس کی طرف سے پانچ کہانیان ایک ساتھ مل گئیں مجھے اور چاہئے بھی کیا تھا۔ میں نے ان کہانیوں کو بھی پڑھا وہ بھی اپنی مثال آپ تھیں اور ترتیب سے ان کہانیوں کو رکھ دیا۔ وہ پانچ کہانیاں شائع ہوگئیں قارئین کا پسندیدگی کا اظہار جوں کا توں رہا موبائل پر میسجز بھی آتے رہے اور ای میلز بھی آتی رہیں اب تو خطوط بھی آنا شروع ہو گئے۔ میں خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھاکیوں کہ مجھے ایک اچھا ادیب مل گیا تھااس کے بعد اس نے پانچ کہانیاں اور بھیجیں وہ بھی شائع ہوگئیں میں نے اسے اپنے رسالے کے لئے مستقل کردیا تھا ایک سال یہ سلسلہ قائم رہا پھر اچانک ہی اس کی تحریریں آنا بند ہو گئیں ایک دن انتظار کیا دو دن، تین دن۔۔۔۔ پہلے تو میں نے یہ خیال کیا کہ کوئی مصروفیت آگئی ہوگی جلد ہی وہ تحریریں بھیج دے گا مگر پورا مہینا گزر گیا کوئی کہانی نہ آئی، مجھے پریشانی لاحق ہو گئی۔
’’جب قارئین شغف ادیب کی کہانی نہیں دیکھے گے تو اس وقت میں ان کے سوالوں کے جوابات کیا دے پاؤں گامیں ان کے سوالوں کا سامنا کیسے کروں گا؟کہیں اسے کچھ ہو تو نہیں گیا۔۔۔۔؟خدا خیر کرے ‘‘بہت سے وسوسے میرے دماغ میں گھوم رہے تھے۔ میں نے اسے فون کیا بیل جاتی رہی مگر فون کسی نے بھی نہیں اٹھایا۔ ایک مہینا مزید گزر گیامگر اس سے رابطہ نہیں ہو رہا تھاادھر سے شغف ادیب کی پانچ کہانیاں جو ہر وقت میرے پاس ایڈوانس پڑی رہتی تھیں وہ ختم ہوگئیں سب کہانیاں لگ گئیں اور میرے پاس اس کی کوئی تحریر لگانے کے لئے کچھ نہ بچا۔ جب شغف ادیب کی کہانی کے بغیر والا شمارہ قارئین کے ہاتھوں پہنچا تو سب نے میری ناک میں دم کر دیا۔ ہر کسی کی یہی رٹ تھی کہ شغف ادیب کی کہانی نہیں ہے ان کی کہانی کے بغیر شمارہ نامکمل لگتا ہے اور واقعی ایسا ہو گیا تھا میں خود کو اس کی کہانی لگانے پر بے حد مجبور پاتا تھا اور اس کی وجہ سے میرے میگزین کی مقبولیت بھی بڑھ رہی تھی۔ اچانک ایسا ہو جائے گا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ایک تو وہ فون بھی نہیں اٹھا نہیں رہا تھا۔ میں روزانہ اسے فون کرتا مگر وہ نہ اٹھاتا۔
آخر ایک دن اس نے فون اٹھا ہی لیا میری خوشی کی انتہا نہ رہی میں نے جلدی سے اس سے استفسار کیا اور کہانیاں نہ بھیجنے کی وجہ پوچھی۔ مگر دوسری طرف سے دیا گیا جواب میرے لئے کسی دھماکے سے کم نہیں تھا۔ شغف ادیب کی روتی ہوئی آواز آرہی تھی۔
ٍ ’’مدیر صاحب میں کیسے کہانیاں لکھوں ؟مجھے پتہ نہیں تھا کہ میرے ساتھ ایسا ہو جائے گا۔ میری تو دنیا ہی لٹ گئی۔ قسمت نے عجیب کھیل کھیلا میرے ساتھ۔ پورا ایک مہینا میں ہسپتال میں بے ہوشی کی حالت میں رہا ہوں اور ایک مہینا مجھ میںآپ کا فون سننے کی سکت نہیں تھی مجھے پتہ تھا کہ آپ کا یہی مطالبہ ہوگا کہ میں کہانیاں بھیجوں۔ مگر میں تو موبائل بھی نہیں اٹھا سکتا ۔ ایک حادثے میں میرے دونوں بازو کٹ گئے۔ میں دوسروں کا محتاج ہو گیا ہوں اور یہ موبائل بھی میرے بیٹے نے پکڑ کر میرے کانوں سے لگایا ہوا ہے جس سے میں آپ سے باتیں کر رہا ہوں۔‘‘
میرے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی موبائل چھوٹ کرنیچے گر گیا آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔’’ یہ کیا ہو گیا اس کے ساتھ۔۔۔۔‘‘ صرف اتنا ہی منہ سے نکلا اور میگزین میں اعلان لگانے کے لئے میں نے قلم اور کاغذ اٹھا لیا یہ خبر لکھتے ہوئے میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔