(زندہ ضمیر)  تحریر:حافظ نعیم احمد سیال۔ملتان
نتائج کے اعلان کے دوران اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا اسے پکا یقین تھا کہ پوزیشن اس کی ہی آئے گی اس نے اتنی محنت کی تھی اصول و قوانین پر عمل کیا تھا۔ مقابلے میں شامل ہونے کے لئے جو شرائط بتائی گئی تھیں اس نے ان شرائط کی پیروی کرتے ہوئے مقابلے میں حصہ لیا تھا مگر رزلٹ اناؤنس ہونے کے بعد اس کی محنت پر پانی پھر گیا اس کانام پوزیشن ہولڈرز میں تو کیا حوصلہ افزائی میں بھی نہیں لیا گیاتھا اس کی آنکھوں سے آنسو جھلملانے لگے اور اس نے اپنا سر جھکا لیا۔ شغف ادیب کی محنت منٹوں سکینڈوں میں ہی ملیا میٹ ہو گئی تھی۔ ”پوزیشن ہولڈرز“اب اسٹیج پر اپنی کہانیاں سنانے میں مصروف تھے جب کہ اس کی آنکھوں سے آنسو سمندر کی طرح بہہ رہے تھے آج ایمان داری بے ایمانی سے ہار گئی تھی۔ یہ شعبہ جسے ادب کا نام دیا گیا تھا،نام نہاد لکھاریوں نے بے ادب کر دیا تھا۔ اسے وہ حدیث یاد آنے لگی جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کی بدی ہمیشہ نیکی پر غالب آجاتی ہے اگرچہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو اس نے اپنے آنسو صاف کئے اور بجھے ہوئے دل کے ساتھ ہال سے باہر نکل آیا۔ تینوں ”پوزیشن ہولڈرز“اس پر ہنس رہے تھے ایک بہت بڑے ادیب کو ہرانے کے بعد مغروریت ان کے چہروں پر چھلک رہی تھی۔
”ہوں ……!بہت بڑا ادیب سمجھتا ہے اپنے آپ کو، آج ہم نے اسے ہرا دیا ہے، ثابت کر دیا کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں ہیں،بہت پرانا لکھاری ہے تو ہونے دو،ہم جونئیر سہی،ادبی دنیا میں نئے سہی،مگر جیت تو ہماری ہی ہوئی ہے نا ……“تینوں سر جوڑے آپس میں مسکرا رہے تھے اور وہ ان کی شرگوشیاں سنتا ہوا اپنی سائیکل پر بیٹھ کر چلا گیا۔
وہ مجبور تھا کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا جج صاحبان کو بھی ان کی بے ایمانی کا پتہ نہیں چلا تھا۔ اسے تو اس وقت پتہ چلا جب تینوں نے اسٹیج پر اپنی”پوزیشن شدہ“کہانیاں پڑھ کر سنائی تھیں کیوں کہ صدر صاحب کی طرف سے حکم تھا کہ رزلٹ کے بعد پوزیشن ہولڈرز اپنی کہانیاں اسٹیج پر سنائیں گے تاکہ مقابلے میں حصہ لینے والے باقی بچوں کو پتہ چل سکے کہ کہانیاں کیسی ہوتی ہیں اور کیسے بنائی جاتی ہیں مگر یہاں تو بے ایمانی نے اپنا راج کر لیا تھاوہ کہانی سنتا جا رہاتھا اوراسے پتہ چلتا جا رہا تھا کہ یہ کہانی تو پہلے کسی میگزین میں چھپی ہو ئی ہے اور میں اسے پڑھ چکا ہوں۔
ملک کی ایک بہت بڑی ادبی تنظیم کے زیر اہتمام لکھاریوں کے درمیان کہانی نویسی کا مقابلہ کروایا گیا تھا اس تنظیم کا مقصد ہی یہی تھاکہ بچوں میں کہانیاں لکھنے کا شعور پیدا کیا جائے۔ بچوں کا رشتہ انٹر نیٹ اورکیبل سے ہٹا کرکتابوں سے جوڑا جائے اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لئے وہ تنظیم جگہ جگہ ادبی پروگرام کرواتی تھی یہ پروگرام بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھااس پروگرام میں لکھاریوں کو کہانی لکھنے کی دعوت دی گئی اور شرط یہ تھی کہ کہانی جج صاحبان کی موجودگی میں لکھنا ہوگی مقابلے کے لئے ایک گھنٹہ لکھاریوں کو دیا جائے گا کاغذ اور قلم بھی دئیے جائیں گے کہانی کسی بھی موضوع پر لکھی جا سکتی ہے مقابلے میں پندرہ سے تیس سال کی عمر کے لکھاری حصہ لے سکتے ہیں یہ شرائط پڑھتے ہی شغف ادیب کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں اس نے فوراً ہی مقابلے میں اپنا نام لکھوا لیاکیوں کہ وہ ان شرائط پر پورا اتر سکتا تھا وہ جج صاحبان کی موجودگی میں کہانی لکھ سکتا تھا۔
مقررہ دن وہ ہال میں پہنچ گیا تقریب شہر کے مشہور ہال میں سجائی گئی تھی مقابلے میں شامل ہونے والے لکھاریوں کی کافی تعداد تھی مقابلے میں شامل تمام لکھاریوں کو بغیر کسی چیکنگ کے ایک جگہ پر بٹھا دیا گیا کاغذ اور قلم ان کے ہاتھوں میں دے دئیے گئے بغیر کوئی نگرانی کیے تنظیم کے لوگ ادھر ادھر ہو گئے اور مہمانوں کو سنبھالنے میں لگ گئے جج صاحبان کو ایک دوسرے سے حال احوال پوچھنے کا موقع مل گیا جب کہ فوٹوگرافر تصاویر کھینچنے میں مصروف تھے مگر شغف ادیب ان چیزوں سے لاپروا اصول و قوانین پر عمل کرتے ہوئے کہانی لکھنے میں مصروف تھاہال کے کس کونے میں بے ایمانی ہو رہی ہے اور اصول و قوانین کو توڑا جا رہا ہے کسی کو کچھ پتہ نہ چل سکا۔ آخر ایک گھنٹہ گزر گیا اور تمام حصہ لینے والے لکھاریوں سے صفحات لے لئے گئے۔ شغف ادیب نے بھی جلدی سے کہانی مکمل کی اور مطلوبہ شخص کو دے دی رزلٹ مرتب کرنے کے لئے جج صاحبان کو ایک گھنٹہ دیا گیااس دوران مہمانوں کو خطاب کے لئے اسٹیج پر دعوت دی گئی ادھرسے مہمانوں کا اظہار خیال ختم ہوا ادھر سے جج صاحبان نے رزلٹ فائنل ہو جانے کا سنگنل دے دیاکمپئر نے رزلٹ اناؤنس کیااور شغف ادیب آنکھو ں میں آنسو لئے گھر لوٹ آیا۔
شیشے میں اسے اپنا ضمیر نظر آیا۔ اس کے اور ضمیر کے درمیاں جنگ چھڑ گئی ضمیر کے چہرے پر اطمینان ہی اطمینان تھا۔ اور وہ خود ابھی تک رو رہا تھا۔
”بس کرو کتنا روؤ گے؟ مجھے دیکھو میرے چہرے پر اطمینان ہے صرف اس وجہ سے کہ تم نے قواعد و ضوابط کی پیروی کی ہے۔“ضمیر گویا ہوا۔
”مجھے اس بات کا افسوس نہیں ہے کہ میں ہار گیا ہوں افسوس اس بات کا ہے کہ وہاں بے ایمانی ہوئی ہے بے ایمانی نے مجھے نہیں ایمان داری کو ہرایا ہے ادب جیسے عظیم شعبے میں بے ایمانی کی ملاوٹ ہو گئی ہے۔“وہ گھٹنوں کے بل نیچے گر کر روپڑا۔
”نہیں شغف ادیب نہیں جیت ایمان داری کی ہی ہوئی ہے، تمہاری ہوئی ہے۔ انہوں نے تو پہلے سے چھپی ہوئی کہانیوں کو صاف ستھرا لکھ کر جج صاحبان کو دے دی تھیں جو وہ فوٹو اسٹیٹ کروا کے اپنے ساتھ لائے تھے اور جج صاحبان نے بھی خوبصورتی کو دیکھ کر ان کے نمبر لگا دئیے تم نے تو خود کہانی لکھی تھی جج صاحبان کے سامنے کہانی بنانا دل گردے کا کام ہے مگر تم نے ہمت کی اور کہانی بنا ڈالی۔ تمہیں تو لا تعداد ایواڑڈز مل چکے اب تمہیں مزید اور کیا چاہئے ادبی دنیا میں تمہارا ایک نام ہے تمہاری ایک پہچان ہے وہ نئے لکھاری ہیں ان باتوں کو نہیں سمجھ سکے اس لئے ان سے ایسی حرکت سرزد ہوئی اور تنظیم کے لوگوں کی بھی کوئی مجبوری ہوگی جو وہ نگرانی اور چیکنگ نہ کر سکے تم برا مت سوچو اور اپنا دل چھوٹا مت کرو تمہارا ضمیر زندہ ہے،شغف ادیب مجھے دیکھو میرے چہرے پر اطمینان ہی اطمینان ہے، بھول جاؤ ان باتوں کو تمہیں آگے بڑھنا ہے ہاں شغف ادیب تمہیں آگے بڑھنا ہے۔“ضمیر جذبات کی رومیں بہتا چلا گیا۔
”ہاں ……ہاں ضمیر تم ٹھیک کہہ رہے ہو تمہاری سوچ اچھی ہے میری ایمان داری ہی میری جیت ہے میں ہارا نہیں ہوں بلکہ سرخرو ہوا ہوں مجھے ان سب باتوں کو بھلاکر آگے بڑھنا ہوگا ہاں ضمیر آگے بڑھنا ہو گا۔“وہ خوشی سے بول رہا تھا ضمیر نے اسے مسکرا کردیکھا اور چلا گیاجبکہ اس کے چہرے پربھی اطمینان پھیلتا جا رہا تھا۔