(بہترین کھانا)تحریر : حافظ نعیم احمد سیال۔ ملتان -
راشد جیلانی بیٹے کی بات سن کر چونک پڑے۔ان کو بالکل بھی یقین نہیں تھا کہ ان کا بیٹا ایسی بات کرے گا۔
’’نہیں بیٹاخاندان کے لوگ کیا کہیں گے۔ برادری میں تو میری ناک کٹ کر رہ جائے گی۔ میں اپنے دوستوں کو کیا منہ دکھاؤ ں گا؟ ہو سکتا ہے وہ مجھ سے ناطہ بھی توڑ لیں‘‘۔ راشد جیلانی اپنے اکلوتے بیٹے عفان جیلانی کو کہہ رہے تھے۔
’’نہیں پاپا! میرا فیصلہ اٹل ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کی مرضی کے مطابق شادی کروں تو پھر رسم و رواج میری مرضی کے مطابق اور شریعت پرہی ہوں گے ورنہ میں کسی اور لڑکی سے شادی کر لوں گا‘‘۔ عفان جیلانی نے اپنے پاپا کو سیدھا سا جواب دے دیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی شادی پر کوئی فضول خرچی یا کسی قسم کی خرافات ہوں وہ سادگی سے اپنا نکاح کرنا چاہتا تھااس کے پاپا یہ بھی منظور کر لیتے مگر جو اس کی یہ شرط تھی کہ میرے ولیمے پر غریبوں ،مسکینوں، بیواؤں اور یتیموں کو بلایا جائے گا اور جہیزبالکل نہیں دیا جائے گاوہ اس کے پاپا کو منظور نہیں تھا۔
’’دیکھو بیٹے وہ جو کچھ دینا چاہ رہے ہیں اپنی مرضی سے اپنی بیٹی کو دے رہے ہیں ان کی بھی اکلوتی بیٹی ہے سارے جائیداد کی وارث تو وہی ہو گی اب جو کچھ آرہا ہے آنے دو کل کو تمہارے ہی کام آئے گا‘‘۔ وہ اپنے بیٹے کو سمجھانا چاہ رہے تھے۔
’’اور جو کچھ آپ نے میرے نام کیا ہوا ہے وہ کس کے کام آئے گا گھر میں سب کچھ تو ہے ،کسی سے لینے کی کیا ضرورت ہے آپ انہیں کہہ کیوں نہیں دیتے کہ جہیز کی اس رقم سے کئی غریب لڑکیوں کا گھر بس سکتا ہے بہت سے فقراء کی مدد کی جا سکتی ہے‘‘۔ عفان جیلانی نے اپنے پاپا کی بات کاٹ ڈالی۔اور وہاں سے چلا گیا۔
راشد جیلانی بالکل نہیں چاہتے تھے کہ بڑے بڑے لوگوں کے درمیاں غریب، مسکین لوگ ہوں وہ ان کو بلا کر اپنا اسٹیٹس خراب نہیں کرنا چاہتے تھے شہر کے امیر رئیس آدمی تھے تو وہ اپنے ہم منصب لوگوں کو ہی بلانا چاہتے تھے مگر ان کے بیٹے کو یہ بات بالکل بھی پسند نہیں تھی۔ ان کے بیٹے کی اس شرط نے ان کے سپنوں کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا تھا وہ جو اس بات کے خواہش مند تھے کہ میں اپنے بیٹے کی شادی اونچے گھرانے میں کروں گا جہاں سے جہیز بھی خوب آئے گا اور دنیا اسے دیکھتی رہ جائے گی اور شادی اتنی دھوم دھام سے ہو گی کہ لوگ واہ واہ کرتے رہ جائیں گے، وہ خواہش ان کی دم توڑتی نظر آرہی تھی وہ یہ دھمکی دے کر چلا گیا تھا کہ اگر آپ نے میری بات نہ مانی تو میں اپنا نکاح اپنی مرضی سے کر لوں گا۔راشد جیلانی شش و پنج میں پڑ چکے تھے وہ اپنے دوست کی بیٹی کو اپنی بہو بنانا چاہتے تھے ان کادوست بھی ماڈرن گھرانے سے تعلق رکھتاتھا اس لئے کچھ دن پہلے ہی وہ اپنے دوست کو زبان دے آئے تھے ان کے دوست نے انہیں جہیز کی فہرست بھی دی جسے دیکھ کر ان کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔
اگلے دن وہ اپنے اسی دوست کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور جہیز لینے سے انکار رہے تھے انہوں نے کسی نہ کسی طرح اپنے دوست کو جہیز نہ دینے پر قائل کر ہی لیا مگربیٹے کی ولیمے والی شرط( غریبوں مسکینوں کو شامل کرنا) کو بتا نا مناسب نہیں سمجھااور گھر واپس آگئے انہوں نے بیٹے کو ایک دفعہ پھر سمجھا نا چاہا مگر بیٹا بضد تھا آخر انہیں اپنے بیٹے کے آگے ہار ماننا پڑی سادگی سے نکاح تو ہو گیا انہوں نے ولیمے والے دن ایک بڑی تعداد میں غریبوں مسکینوں اور بیواؤں کو بھی بلا لیا۔
شہر کا بہت بڑا ہال مکمل ہی عفان جیلانی کے ولیمے سے بھرا ہوا تھا ایسا ولیمہ جہاں اغنیاء بھی تھے فقراء بھی تھے گورے بھی تھے کالے بھی تھے راشد جیلانی ناک کٹ جانے کے خوف سے رشتے داروں اور دوستوں سے نظریں نہیں ملا رہے تھے جب کہ ان کا بیٹا عفان جیلانی فخر سے یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھ کر خوش ہو رہا تھا ۔
0 Comments