(دیوانے کا خواب) تحریر:حافظ نعیم احمد سیال ۔ملتان
اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اسے یقین ہی نہیںآ رہا تھا ایک خوشگوار ماحول کا احساس اسے ہوا تھا اس کی نظریں شرمندگی سے جھک گئیں اور وہ آنکھوں میں آنسو لیے ائیر پورٹ سے باہر نکل آیااس کے دل میں پچھتاوا تھا دو سال پہلے وہ جس ملک سے نفرت کرکے گیاتھا آج وہ ملک اسے بہت خوبصورت لگ رہاتھا اس نے اپنے ملک کی ہر ہر چیز بدلی بدلی دیکھی تو اور بھی اسے اپنے ملک پر بہت زیادہ پیار آیا۔
’’کیا یہ وہی پاکستان ہے ؟غلطی کی تھی جو میں نے اتنا بڑا فیصلہ کر ڈالا تھا ذرا صبر کر لیتا اپنے ملک کو چھوڑ کر نہ جاتاحمدان نے کتنا سمجھایا تھا مگر میں نے اس کی بات نہیں مانی اور اپنا پیارا ملک چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ دو سال بعد اپنے ملک کی یاد ستائی واپس آیا تو سب کچھ بدلا ہوا تھااتنی بڑی تبدیلی آخر آکیسے گئی؟ میرے ہوتے ہوئے تو کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی تھی‘‘ اتنا بڑا انقلاب بڑپا ہو گیا تھا سڑکیں اتنی صاف ستھری ،ہر کوئی ایمان داری سے اپنے کام میں مصروف ،گدا گری کا خاتمہ، اسے کسی جگہ بھی کوئی فقیر نظر نہیں آیا ورنہ پانچ سال قبل جب وہ اپنے کزن کو لینے ائیر پورٹ آیا تھا تو کتنے فقیروں نے اسے تنگ کیا تھا وہ اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے اپنے کزن کے ساتھ بھاگ نکلا تھا۔
’’بھائی جان اذان ہو رہی ہے سر پر ٹوپی رکھ لو نماز کا ٹائم ہوگیا ہے‘‘ ایک راہ گیر نے اسے چلتے ہوئے دیکھا تو کہا اس نے بیگ سے ٹوپی نکالی اور سر پر ڈال لی اذان ختم ہوئی تو لوگ نماز پڑھنے کے مسجد جانے لگے آناًفاناً مسجدیں نمازیوں سے بھر گئیں دکانیں کھلی ہوئیں کسی نے بھی دکان بند نہیں کی۔
’’بھئی دکان تو بند کرتے جاؤ‘‘ اس نے ایک دکان والے کو کہا۔ دکان والے نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔
’’بھئی نماز پڑھنے چلو دیکھ نہیں رہے نماز کا ٹائم ہو گیا ہے اب چوری وغیرہ کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا نماز پڑھ کے ابھی واپس یہی تو آنا ہے‘‘ دکان دار نے کہا تو وہ بھی اس کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے چل پڑا۔
شہرکی مشہور جامع مسجد میں وہ نماز ادا کر رہاتھااسے پکا یقین تھا کہ دہشت گرد اب اپنا کام کر جائیں گے ابھی انسانی لاشوں کے پرخچے اڑے گے ہر طرف خون بہے گامگر اس کی توقعات کے مطابق کچھ نہیں ہوا ہر انسان تسلی سے نماز پڑھ رہا تھانماز کے بعد وہ ایک جگہ بیٹھ گیا اور اس تبدیلی پر حیران تھا۔
’’بھئی کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ ایک نمازی نے اسے جھنجھوڑا۔
’’نن۔۔۔ نن۔۔۔نہیں وہ سب کے سب نمازی ۔۔۔‘‘وہ اٹک اٹک کر بولا۔
’’ہاں ملک میں اب اسلامی نظام نافذہو گیا ہے لوگ برائیوں سے دور ہو چکے ہیں دہشت گردی اور فرقہ بازی سب ختم ہو گئے ہیں سب ایک اللہ کو مانتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں رسول بھی ایک، قرآن بھی ایک، اب مسلمان بھی ایک ہوگئے ہیں کوئی کسی پر کیچر نہیں اچھالتااور نہ کسی کو برا بھلا کہتا ہے اب کسی کی جراء ت نہیں کہ ہم پر بری نظر ڈال سکے یا ہمارے ملک پاکستان کے خلاف کچھ کر سکے وہ دیکھو صدر صاحب کی گاڑی گزر رہی ہے یہ سب انہیں کے کمالات ہیں‘‘ اس آدمی نے اشارہ کرتے ہوئے اسے بتایا اس نے سڑک کی طرف دیکھا صدر صاحب ایک عام سی گاڑی میں بیٹھے جا رہے تھے اسلامی حلیہ اور سرپر عمامہ بندھا ہوا بارعب اور خوبصورت شخصیت، حضور اکرم ﷺ کی سنتوں کاعملی نمونہ، وہ یہ دیکھ کے حیران رہ گیا’’ جس ملک صدر ایسے ہوں یقیناًاتنا بڑا انقلاب تو آئے گا ناں۔۔۔‘‘
وہ جلدی سے اٹھا اور اپنے کزن کے گھر کی طرف چل پڑا اس کے کزن کا گھر بذریعہ ٹیکسی آدھے گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ کیوں کہ وہ یہی پر پلا بڑا تھا صرف دو سال کے لئے ہی تو باہر گیا تھااس لئے اسے سب کچھ پتہ تھا اگر بدلا تھا تو لوگوں کی حالتیں ہی بدل گئی تھیں راستے تو وہی تھے اس نے ٹیکسی کی طرف اشارہ کیااور ٹیکسی پل بھر میں ہی اس کے سامنے آرکی۔
’’شاد کالونی کوٹھی نمبر 10 کتنا کرایہ لو گے ؟‘‘اس نے ایڈریس بتاتے ہوئے ٹیکسی والے سے پوچھا۔
’’جی صرف تیس روپے‘‘ ٹیکسی والے نے جواب دیا تیس روپے سن کے وہ ہکا بکا رہ گیا اتنی دور کا کرایہ صرف تیس روپے ،پہلے تو تین سو روپے لئے جاتے تھے۔
’’بھئی بیٹھئے، کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘ ٹیکسی والے نے کہا تو وہ مارے حیرت کے بیٹھ گیاٹیکسی سڑک پر چل رہی تھی ڈرائیور نے اللہ کاذکر کرنا شروع کر دیا۔
’’بھئی وقت ضائع کیے بغیر آپ بھی ذکر وغیرہ شروع کر دیں اللہ کے ذکرسے دلوں کو سکون ملتا ہے‘‘ ڈرائیور نے کہا تو اس کے لب بھی ہلنے لگے آدھے گھنٹے بعد وہ اپنے کزن حمدان کی کوٹھی کے باہر موجود تھا اس نے بیل بجائی حمدان باہر نکلا تو وہ اسے دیکھ کر چونک پڑا۔ حمدان تو پہچانا ہی نہیں جارہاتھا۔
’’کہیں میں غلط جگہ پر تو نہیں آگیا؟‘‘ وہ دل میں سوچ رہا تھا۔ حمدان نے اسے مسکراتے ہوئے گلے لگا لیا۔
’’اپنے آنے کا بتایا ہی نہیں‘‘ حمدان اس سے شکوہ کر رہا تھا تب اسے لگا کہ وہ صحیح ایڈریس پر آیا ہے۔
’’ آؤ صائم اندر آجاؤ ‘‘حمدان اسے اندر لے آیا۔
’’یار لائٹ ہے نا وہ میں نے کپڑے استری کرکے نہانا تھا جب تک فریش نہیں ہوں گا تو سکون نہیں ملے گا‘‘وہ حمدان سے کہہ رہاتھا۔ حمدان نے یہ سن کر اسے حیرت بھری نظروں سے دیکھا جیسے اس نے بے تکا سا سوا ل کر دیا ہو۔
’’ارے لائٹ تو اب جاتی ہی نہیں ملک میں لوڈ شیڈنگ کا تو بالکل خاتمہ ہوگیا ہے۔ آٹا ،چینی ،گھی سب کچھ وافر مقدار میں موجودہیں ارے اتنی بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں کہ یہ چیزیں کئی صدیوں تک ختم نہ ہوں گیس ہر جگہ دستیاب ہے اور بالکل سستی، پٹرول پانی کی طرح ملتا ہے کھانے کی چیزیں بالکل پاک صاف اور ایک نمبر کہ کوئی دوسرا ملک مقابلہ نہیں کر سکتا عورتوں کی عزتیں اب یہاں محفوظ ہیں کوئی کسی کو بری آنکھ سے نہیں دیکھتا ،ظالم اور لٹیرے حکمران اب چلے گئے ہیں ڈاکوؤں کا صفایا ہو چکا ہے، بے ایمانی، رشوت ،جھوٹ سب ختم ہو گیا ہے ۔یہ پاکستان ہے کوئی غیر ملک نہیں ۔۔۔دوسرے ملکوں کے لئے تو اب یہ آئیڈیل ہے۔ آؤ میں تمہیں غسل خانہ دیکھاتا ہوں ،تم نہاؤ کپڑے تمہاری بھابھی استری کر دیتی ہے‘‘ یہ کہہ کر حمدان اسے لے کر غسل خانے کی طرف چل پڑاوہ حمدان کی بتائی ہوئیں باتوں پر حیران ہو رہا تھا اس نے نہانے کے لئے ٹوٹی کھولی اور پانی کسی ٹھنڈے آبشار کی طرح اس کے اوپر گرنے لگا۔
’’آج پھر تم نے میرے اوپر پانی ڈال دیا ‘‘وہ ہربڑاتے ہوئے اٹھ بیٹھا اور بیگم پر برسنے لگا۔
’’ہاں جی دیوانے کی طرح خواب دیکھتے رہو گے توپھر تو آفس سے دیر ہوجائے گی یہاں ٹائم کی پاپندی ضروری ہے یہ کوئی پاکستان نہیں کہ اپنی مرضی کرتے پھریں‘‘ بیگم نے دو ٹوک جواب دیا اور غصے کااظہار کیا۔
’’ہاں بیگم تم ٹھیک کہتی ہو جو کچھ میں نے دیکھا وہ دیوانے کا خواب تھا ‘‘اس نے دل میں سوچا اور ناشتہ کرنے لگا۔
0 Comments