میرے ایوارڈز، میری کہانیاں
تحریر:حافظ نعیم احمد سیال ۔ملتان
لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی، قافلے کے قافلے شہروں کی طرف رخ کر رہے تھے ،گزرے ہوئے پل چھوڑ کر اپنی یادوں کو پس پشت ڈال کر وہ ہجرت کر کے جارہے تھے۔
’’اماں کیا ہمیں بھی یہ جگہ چھوڑ کر جانا پڑے گا۔‘‘ راجو نے پوچھا۔
’’ہاں بیٹا ورنہ ہم سیلاب میں ڈوب جائیں گے بس تیرا بڑا بھائی آتا ہوگا وہ آئے تو ضروری سامان باندھ کر نکلتے ہیں۔‘‘ اماں نے جواب دیا۔
ابھی ابھی گاؤں میں اعلان ہوا تھا حکومت کی طرف سے آرڈر آرہے تھے کہ جتنے جلدی ممکن ہو یہ جگہ چھوڑ دیں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے اور پانی کسی لمحے بھی یہاں آسکتا ہے یہ سنتے ہی گاؤں کے لوگوں نے ہجرت کرنا شروع کر دی تھی۔
شغف ادیب بھاگتا ہوا آیا تھا’’ اماں کیاہو گیا ہے۔‘‘ وہ گھبراتے ہوئے بولا۔
’’شکر ہے خدا کا کہ تو آگیا بیٹا ٹائم بالکل نہیں ہے گاؤں سارا خالی ہوگیا ہے میں تیرا انتظار کر رہی تھی میں نے ضروری سامان باندھ لیا ہے چل اب نکلتے ہیں۔‘‘ اماں نے راجو کو اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’اماں میری کہانیاں۔۔۔ میں اپنے انعامات و اسناد تو اٹھا لوں ۔‘‘شغف ادیب اپنے چہرے پر آنسو لاتے ہوئے بولا۔
’’نہیں بیٹا اب یہ چیزیں اٹھانے کا ٹائم نہیں رہا ،سنا ہے پانی پچھلے گاؤں میں داخل ہوچکا ہے اب اس کارخ ہمارے گاؤں کی طرف ہے۔‘‘ اماں بولیں۔
’’نہیں اماں میں اپنی محنت کو یوں بے آسرا چھوڑ کر نہیں جاسکتا، اماں میں نے بہت محنت کی ہے، راتوں کو جاگ جاگ کر لکھاہے۔ تجھے پتہ ہے ایک کہانی کو پوسٹ کرنے کے لئے مجھے شہر جانا پڑتا تھا رسالہ خریدنے کے لئے بھی شہر جانا پڑتا تھا اور جب میری کہانی چھپتی تھی تو میرے لئے اس سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی دیکھ اماں یہ وہی ایوارڈز ہیں جو مجھے ملے ہیں میری بارہ سالوں کی محنت اب پانی میں مل جائے گی میں ایسا ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ اس کے چہرے سے آنسو گرنے لگے۔ وہ جلدی جلدی اپنی چھپی ہوئیں کہانیاں سمیٹنے میں مصروف تھا اسناد، ایوارڈز اور شیلڈیں اس نے ایک ہی کپڑے میں باندھ لیں جن اخبارات ورسائل میں اس کی کہانیاں تھیں اس نے ان کو بڑے شاپربیگ میں ڈال دیا۔
’’بیٹا اب چل نا ۔۔۔‘‘اماں نے جلدی کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں اماں اب چلتے ہیں‘‘ اس نے اپنا سامان اٹھایا اور اماں کے ساتھ باہر نکل پڑا۔
’’بیٹا اب جلدی چل، گاؤں میں ہمارے علاوہ اب کوئی بھی نہیں ہے امدادی ٹیمیں بھی چلی گئیں ہیں سیلاب آگیا تو ہم بہہ جائیں گے۔ ‘‘یہ سنتے ہی راجو رونے لگ گیا۔
اس نے اپنے سامان کی طرف دیکھا، میری زندگی تو یہی ہے، میرا قیمتی سرمایہ، ایک ادیب کی زندگی انہی چیزوں میں پنہاں ہوتی ہے جب اس کی کہانی چھپتی ہے وہ کتنی خوشی محسوس کرتا ہے۔ کہانی خود لکھتا ہے پوسٹ خود کر آتاہے اور رسالہ بھی خود خریدتا ہے اسے ان چیزوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ چیزیں اس خوشی کے آگے کوئی اہمیت رکھتی ہیں ۔ دوسرے لوگ کیا جانیں ادیب کی اس خوشی کا اندازہ۔۔۔ وہ اپنی کہانیوں کو دیکھتا ہوا خیالوں کی دنیا میں گم تھا۔
’’بیٹا کہاں کھوئے ہو۔‘‘ اماں نے اسے جھنجھوڑا۔
’’کچھ نہیں اماں۔‘‘ وہ چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولا۔پھر اچانک اس کی نظریں اپنے ایورڈز پر پڑیں ایک ایوارڈ کو دیکھتے ہی اس کی نظریں جم گئیں۔ یہ ایوارڈ اسے بہت پیارا لگتا تھا، یادوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔
’’اب ملک بھر کے ان ادیبوں کو ایوارڈز دئیے جائیں گے جنہوں نے بچوں کے ادب میں اپنی کہانیوں کے ذریعے بھر پور خدمات سر انجام دی ہیں‘‘ کمپئر اعلان کر رہا تھا ان ادیبوں کی لسٹ میں اس کانام بھی شامل تھا ۔’’ہاں یہی وہ ایوارڈ ہے جو مجھے بچوں کے ادب میں بھر پور خدمات کے صلے میں ملا ہے‘‘ اس نے اس ایواڑڈ کو اٹھا کر چوم لیا اس کی نظر ایک اور ایوارڈ پر پری۔
’’اماں یہ وہی والاایوارڈ ہے ناں جب میں نے مقابلہ کہانی نویسی میں حصہ لیا تھا اور میری اول پوزیشن آئی تھی۔‘‘ وہ اماں کو ایوارڈ دکھاتے ہوئے بولا۔
اماں نے ایک نظر اس پر ڈالی’’ ہاں بیٹا مگر ابھی ان چیزوں کو دیکھنے کا ٹائم نہیں ہے جلدی چل۔‘‘ اماں نے اسے بازو سے کھینچتے ہوئے کہا۔ راجواماں کے کندھوں پر سو گیا تھا اماں اسے پکڑ کر بھاگنے لگیں۔
سیلاب گاؤں میں داخل ہو گیا تھااور شہر کی حدود آنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ ’’بیٹا بھاگ جلدی بھاگ۔‘‘ اماں ہانپتے ہوئے بولیں۔شہر کی حدود آنے ہی والی تھی کہ اچانک ہی انہیں پانی نے گھیر لیا پانی چاروں طرف پھیل گیا امدادی ٹیمیں جلدی سے پانی میں کودیں اور انہیں دپوچ لیا اس عالم میں شغف ادیب کے ہاتھوں میں پکڑا سارا سامان گر کر پانی میں بہہ گیا۔
’’اماں میرے ایوارڈز، میری کہانیاں‘‘ وہ ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ امدادی ٹیمیں انہیں مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھیں اور انہوں نے انہیں محفوظ مقام تک پہنچا دیا۔
’’اماں میری محنت ضائع ہوگئی میرے ایوارڈز چلے گئے ،میری کہانیاں بہہ گئیں ،میرا سب کچھ ختم ہوگیا۔‘‘وہ روتے ہوئے بولا۔
’’نہیں نہیں بیٹا صبرسے کام لو تم ادیب ہو تمہاری محنت ضائع ہوگئی ہے مگر تم ابھی بھی اپنے پڑھنے والوں کے دلوں میں زندہ ہوتم نے ان کی خاطر دوبارہ لکھنا ہے دوبارہ محنت کرنی ہے وہ لوگ تمہیں اپنا آئیڈیل کہتے ہیں تم سے پیار کرتے ہیں تم سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں یہی چیزیں انسان کے زندہ رہنے کا سہارا ہوتی ہیں کہ جب اسے کوئی غم ملتا ہے تو وہ اپنے چاہنے والوں کی محبت اور پیارمیں اپنے غم بھول جاتا ہے۔ ‘‘اماں نے روتے ہوئے اسے سمجھایا۔
’’ہاں اماں تم ٹھیک کہہ رہی ہو میں دوبارہ لکھوں گا ،دوبارہ محنت کروں گا ،میرے ایوارڈز ،میری کہانیاں مجھے دوبارہ مل جائیں گی۔‘‘وہ اماں کی گود میں سر رکھ کر سسک پڑا۔