تحریر :حافظ نعیم احمد سیال۔ ملتان
میں یک دم اچھلا تھا۔ میرے سامنے میرا جوان بیٹا ذوالقرنین بیٹھا تھا۔ ’’کک ! کک ۔۔۔کیا ۔۔۔ تم کیا کہ رہے ہو۔۔۔ یہ وہی نور حسن ہے؟‘‘
’’جی ہاں پاپا۔۔۔یہ وہی نور حسن ہے جسے آپ نے دس سال پہلے اپنے آفس سے دکھے مار کر نکال دیا تھا۔۔۔ بے چارے کی بہت بے عزتی کی تھی اور اسے گالیاں بھی دی تھیں۔۔۔ آج وہ شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔۔۔ آپ کو تو شروع سے ہی غریبوں سے نفرت رہی ہے ناں۔‘‘
میرا بیٹا نا گواری سے بولا۔
میرے چہرے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔ میں ایک مشہور رسالے کا مالک اور مدیر ہوں۔ دوسرے مدیران کی طرح میری بھی یہی خواہش ہے کہ میرا رسالہ دن دگنی رات چگنی ترقی کرے۔ اس لیے میں اچھے اچھے ادیبوں کی تلاش میں رہتا ہوں۔ کافی عرصے سے میں ایک ایسے ہی ادیب کی کہانیاں مختلف رسائل میں پڑھ رہا تھا۔ اس کا نام نور حسن تھا۔ وہ جس رسالے میں بھی لکھتا، اسے چار چاند لگ جاتے۔آج سے چار سال قبل میں نے اس کی تحریر’’سچے رشتے‘‘ کے عنوان سے پہلی دفعہ ایک رسالے میں پڑھی۔ وہ مجھے بہت پسند آئی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں جو بھی رسالہ دیکھتا، اس میں اس کی کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہوتی اور میں وہ کہانی ضرور پڑھتا۔ اب تو میں اس کا مداح ہو گیا تھا۔ میری خواہش تھی کہ وہ میرے رسالے کے لیے بھی لکھے، مگر اس تک رسائی حاصل کرنا میرے لیے مشکل تھا۔
وہ کراچی کا رہنے والا تھا میں لاہور میں رہتا تھا۔ ملاقات تو میری اس سے ہو نہیں سکتی تھی، نہ اس کا کوئی پتا میرے پاس تھا اور نہ ہی کوئی رابطہ نمبر۔ میں نے مختلف مدیران سے رابطے کیے جن رسائل میں وہ لکھتا تھا، ان رسائل کو خط لکھے کہ اگر ہو سکے تو مجھے اس کا پتہ عنایت فرمائیں، مگر سب کی طرف سے جواب نفی میں ملا۔ کوئی مدیر اس کا ایڈریس دینے کو تیار ہی نہیں تھا یا پھر ہو سکتا ہے، اس نے اپنا ایڈریس کسی کو دیا نہ ہو۔ بہرحال میرا اس سے رابطہ نہ ہو سکا۔
آج میرے آفس میں مجھ سے ملنے ایک دوست آئے تھے۔ وہ بھی نور حسن کی کہانیاں شوق سے پڑھتے تھے۔ باتوں باتوں میں میں نے ان سے اپنی اس خواہش کا اظہار کر دیا۔ ساتھ میرا بیٹا بھی بیٹھا تھا۔ اس نے جب میری یہ باتیں سنیں تو میرے دوست کے جانے کے بعد بتایا:
’’پاپا ! یہ وہی نور حسن ہے جسے آپ نے دس سال پہلے دھکے مار کر اس آفس سے نکال دیا تھا۔‘‘ اس پر میں حیرت سے اچھل پڑا تھا۔
نور حسن میرے بیٹے کا دوست اور ہم جماعت تھا۔ دس سال پہلے وہ لاہور میں رہتا تھا۔ اس کے والد بہت غریب تھے۔ محنت مزدوری کرکے اپنے گھر کا خرچ چلاتے تھے۔ مجھے غریبوں سے شروع سے ہی نفرت رہی ہے۔ میں صرف اپنے منصب کے لوگوں کو پسند کرتا ہوں، مجھے غریب لوگ ذرا بھی اچھے نہیں لگتے۔ میں تو صرف یہ جانتا تھا کہ جتنے بھی غریب لوگ ہیں، یہ سب چالاک، مکار اور دھوکے باز ہوتے ہیں۔ جھوٹ بول کر مختلف بہانے بنا کر ہم جیسے شریف لوگوں سے پیسے بٹورتے ہیں۔ مجھے جب پتا چلا کہ ذوالقرنین کی دوستی ایک غریب لڑکے سے ہے تو میں نے اسے سختی سے منع کر دیا کہ وہ ایسے لوگوں کو منہ نہ لگایا کرے۔ پر وہ میری بات مانتا ہی نہیں تھا۔ کبھی وہ اس کے گھر چلا جاتا اور کبھی وہ میرے بیٹے سے ملنے آجاتا۔ آج سے دس سال پہلے جب وہ میرے بیٹے سے ملنے آیا تو اس وقت میں آفس میں بیٹھا رسالے کی تیاری میں مصروف تھا۔ میں نے اپنا آفس اپنے گھر میں ہی بنایا ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی میںآگ بگولا ہو گیا، کام چھوڑا اور اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔ ساتھ میں دو چار گالیاں بھی بکیں۔ میرا بیٹا میرے اس رویے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ اپنے دوست کی بے عزتی برداشت نہ کرسکا اور اس کا دوست بھی رنجیدہ ہو کر چلا گیا۔
’’پاپا آپ کتنے ظاہم ہیں، آپ کے سینے میں دل نہیں ہے۔ اللہ پاک نے آپ کو سب کچھ دیا ہے، لیکن آپ مغرور ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے۔‘‘ وہ روتے ہوئے بول رہا تھا۔
’’چپ ہو جاؤ!‘‘ میں غرایا اور دوبارہ وہیں سے کام کرنا شروع کر دیا جہاں چھوڑا تھا۔
’’سر آپ کے لیے کراچی سے ایک خط آیا ہے۔‘‘
میرے ملازم نے مجھے ایک خط دیا۔ میں خیالوں کی دنیا سے باہر نکل آیا، میرا بیٹا جو میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا، اٹھ کر چلا گیا۔ میں نے خط کھولا۔ خط کسی نئے آدمی کا تھا اور اس پر ایڈریس بھی کوئی اور لکھا ہوا تھا۔ شاید کوئی نیا لکھنے والا ہے جس نے میرے رسالے کے لیے خط لکھا ہے۔ میں نے خط کھول کر پڑھنا شروع کر دیا۔ ساتھ ایک کہانی بھی تھی۔
’’السلام علیکم مدیر صاحب! امید ہے خیریت سے ہوں گے۔ آپ کے رسالے میں پہلے دفعہ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں، ویسے مختلف اخبارات ورسائل میں کافی کہانیاں لکھ چکا ہوں۔ ایک کہانی ارسال خدمت ہے۔ اپنے رسالے میں جگہ دے کر شکریے کا موقع دیں۔ دعاؤں کا طالب۔ نور حسن۔‘‘
’’نن۔۔۔نن۔۔۔نور حسن۔۔۔‘‘
نور حسن کانام پڑھ کر میں ایک دفعہ پھر خوشی سے اچھل پڑا تھا۔ نور حسن نے میرے رسالے کے لیے کہانی بھیجی تھی شکر ہے خدا کا۔ میں اس کی یہ کہانی ضرور شائع کروں گا۔ کہانی دیکھتے ہی میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔
اس کا مطلب ہے نور حسن کو یہ معلوم نہیں کہ اس رسالے کا مدیر میں ہوں۔ وہی مدیر جس نے اس کی بے عزتی کی تھی۔ اگر اسے پتا ہوتا تو وہ میرے رسالے کے لیے کہانی نہ بھیجتا اور ویسے بھی یہ بات دس سال پہلے کی ہے۔ اب تک تو شاید وہ اسے بھول چکاہو گا۔ اس وقت تو وہ کافی چھوٹا تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ میں نے خیالات کو ذہن سے جھٹکا اور سونے کی تیاری کرنے لگا۔
کچھ دنوں بعد مجھے ایک اور خط موصول ہوا۔ وہ خط بھی کراچی سے آیا تھااور اسے بھی نورحسن نے لکھا تھا۔ میں نے کھول کر پڑھنا شروع کیا۔
’’السلام علیکم مدیر صاحب! کہیے کیسے ہیں آپ؟ میرا ایک خط اور کہانی بھی آپ کو مل چکی ہو گی۔ میں آپ کے رسالے میں انشاء اللہ وقتاً فوقتاً لکھتا رہوں گا۔ بچپن میں آپ سے ملاقات ہوئی تھی۔ مجھے نہیں پتا کہ آپ کی عادت اب بھی وہی ہے یا بدل چکی ہے۔ آپ کا بیٹا میرا بہت اچھا دوست ہے، اس سے رابطہ رہتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو فون کرتے رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، اس نے یہ بات آپ سے چھپائی ہوئی ہو، کچھ دن پہلے فون پر اس نے بتایا تھا کہ آج بھی آپ غریبوں سے ویسے ہی نفرت کرتے ہیں۔ انہیں دھتکارتے ہیں اور برا بھلا کہتے ہیں۔ غریب لوگ بھی اللہ کے بندے ہیں۔ غریبوں سے محبت کرنا انسان کی خوش بختی کی علامت ہے۔ مغرور لوگ اللہ کو پسند نہیں۔ آپ کو یہ بھی نہیں پتا کہ سچے رشتے کیا ہوتے ہیں، سچے رشتے وہ ہوتے ہیں جن میں پیار، محبت اور بھائی چارہ ہو۔ میرا رشتہ آپ سے مسلمان بھائی کا تھا، انسانیت کا تھا، باپ بیٹے کا تھا، اس کے باوجود آپ نے مجھے دھتکارا، دھکے دیے اور گھر سے باہر نکال دیا۔ ہم کراچی منتقل ہو رہے تھے۔ میں نے سوچا، آخری بار اپنے دوست سے مل لوں مگر آپ نے ملنے بھی نہ دیا۔ آپ کی بے حسی عروج پر پہنچی ہوئی تھی۔ جیسے تیسے کرکے میں نے اپنا رابطہ نمبر ذوالقرنین کو دے دیا تھا۔ آج دس سال ہو گئے۔ ہم ایک دوسرے سے فون پر خوب باتیں کرتے ہیں۔ وہ آج تک مجھ سے سچے رشتے نبھا رہا ہے۔ اچھا اب اجازت چاہوں گا۔ انشاء اللہ کچھ کہانیاں اور بھی بھیج دوں گا۔ نور حسن۔‘‘
خط پڑھنے کے بعد میں کتنی ہی دیر سکتے کی حالت میں بیٹھا رہا۔ میرے بیٹے کا رابطہ نور حسن سے تھا اور مجھے پتا ہی نہیں تھا۔ مگر ان باتوں سے آج نور حسن نے میری آنکھوں پر بندھی ہوئی تکبر کی پٹی کھول دی تھی۔ میں اب مغرور نہیں بنوں گا۔ تمام انسانوں سے محبت کروں گا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں سچے رشتے نہ نبھا سکا مگر اس بات کی خوشی ہے کہ میرا بیٹا سچے رشتے نبھا رہا تھا۔
0 Comments