تحریر: کشف ادیب
وہ کالج میں داخل ہوا تو اریبہ اسے دیکھ کر ٹھٹھک گئی ساتھ بیٹھی ہوئی سمیعہ نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔
’’اٹھو سمیعہ میں کسی اور کالج میں ایڈمیشن لوں گی۔‘‘ وہ سمیعہ کو اٹھاتے ہوئے بولی۔
’’کیا پاگل ہو گئی ہے سارا پراسس مکمل ہو گیا ہے داخلہ فیس تم نے ادا کر دی ہے فارم جمع کروا دیا ہے اور تو کہہ رہی ہے کہ میں اور کالج میں داخلہ لوں گی ہے کوئی بات ‘‘ سمیعہ نے اسے ڈانتے ہوئے کہا۔
’’ہاں جہاں ایسے نکھٹو لوگ پڑھتے ہو ں میں وہاں نہیں پڑھ سکتی ،تمہیں پتا ہے ناں میٹرک تک کس طرح اس نے مجھے تنگ کیا ہے مشکل سے پانچ سال میں نے گزارے ہیں اگر مجھے پتا ہوتا کہ یہ بھی اسی کالج میں داخلہ لے رہاہے تو میں کبھی یہاں داخلہ نہ لیتی میں اپنے پاپا کو بتا دوں گی ۔‘‘اریبہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔
’’نہیں ایسا نہ کرنا تمہارے پاپا کوئی بزنس میں نہیں ہیں کہ تمہارا نئے سرے سے اور کالج میں داخلہ دلوا سکیں تمہیںیہی پڑھنا ہے جو کچھ ہوگا دیکھا جائے گا ۔‘‘ سمیعہ اسے دلاسہ دیتے ہوئے بولی اس نے ایک نظر سمیعہ کو دیکھا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ اسے بھی اپنی غریبی کا پورا پورااحساس ہے اور اس کے پاپا دوسرے کالج میں اس کا داخلہ نہیں دلوا سکیں گے۔
’’ہائے فرینڈز یقیناًآج ہمارا کالج میں پہلا دن ہے ابھی تو ہم سب ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں مگر آہستہ آہستہ جان جائیں گے‘‘ اچانک ہی اس کی نظراریبہ اور سمعیہ پر پڑ گئی وہ انہیں دیکھ کر ہنسے لگا۔
’’واؤ اریبہ اور سمیعہ تم بھی یہاں ہاہاہا ۔۔۔کیا مزا آئے گا بھئی میرے تو جاننے والے نکل آئے خوب جمے گی اریبہ کے ساتھ‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولا اسے دیکھ کر تمام کلاس ہنس پڑی۔
میڈم کلاس میں داخل ہوچکی تھیں انہیں دیکھ کر وہ اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا میڈم نے ان سب کو خوش آمدید کہااور باری باری سب کے نام پوچھنے لگیں جب اریبہ کی باری آئی وہ ابھی کھڑی ہونے ہی لگی تھی کہ وہ پھرتی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’میم میں بتاتا ہوں یہ کون ہے یہ ہمارے علاقے کی سب سے خطرناک چڑیل ہے اس سے جتنا دور رہیں گی آپ کا اپنا فائدہ ہے‘‘ گویا اس نے یہاں بھی وہی حرکتیں شروع کر دیں اریبہ شرمندگی سے اپنی نظریں جھکائے ہوئے تھی۔
’’شٹ اپ مسٹر ،پہلے تو آپ اپنا نام بتائیں۔‘‘ میڈم نے ذرا غصے کا اظہار کیا۔
’’جی میم میرا نام شہزاد ہے مگر سارے مجھے پرنس کہتے ہیں یہ جس علاقے کی چڑیل ہے میں اس علاقے کا پرنس ہوں ۔‘‘وہ کالر جھاڑتے ہوئے بولا اریبہ کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے سمیعہ اس ساری صورتحال پر پریشان ہو رہی تھی پہلے دن ہی وہ اپنی اوقات پر اتر آیاتھا۔
’’مسٹر پرنس پہلی بات تو یہ کہ کسی کا ایسے مذاق نہ اڑایا کریں اور یہ کلاس ہے یہاں پر ایسی بدتمیزیاں نہیں چلتیں آپ اپنی اوقات میں ہی رہیں تو بہتر ہے‘‘ میڈم نے ٹھیک ٹھاک اسے جھاڑ پلادی اور اریبہ سے اس کا نام پوچھ کر اگلے سٹودنٹ کی طرف متوجہ ہوگئیں۔
فری پیریڈ میں وہ لان میں بیٹھی رو رہی تھی جب سمیعہ اس کے پاس آگئی سمیعہ نے اسے دلاسا دیا اور صبر کی تلقین کی اس نے اپنے آنسو صاف کر لئے۔
’’اپنی اس بے عزتی کا بدلہ تو میں تم سے ضرور لوں گا چڑیل‘‘ اریبہ اور سمیعہ آپس میں باتیں کر ہی رہی تھیں کہ وہ ان کے پاس آدھمکا۔ ’’آج پہلے دن ہی تمہاری وجہ سے میم نے مجھے جھاڑ پلا دی، تم اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہو؟ ‘‘وہ غصے سے کھول رہاتھا وہ بت بنی بیٹھی رہی۔
’’شہزاد اس میں غلطی تمہاری ہے جب اریبہ کے انٹروڈکشن کی باری آئی تو تم خود ہی کھڑے ہوگئے تھے اس میں اس بے چاری کا کیا قصور؟ ‘‘ سمیعہ بھی اس پر پھٹ پڑی۔
’’تم دور رہو اس معاملے سے تو بہتر ہے ورنہ ۔۔۔‘‘ وہ دھمکی دیتا ہوا بھاگ گیا تھا۔
گھر آئی تو وہ بہت پریشان لگ رہی تھی ممی پاپا نے اس سے پوچھا مگر اس نے ٹال دیا پہلے تو اس لگا کہ وہ ممی پاپا کو ساری بات بتا دے اور کسی اور کالج میں داخلہ لینے کا کہے مگر اسے اپنے پاپا کے حالات کا علم تھا اللہ تعالیٰ کھانے پینے اور پہننے کو دے رہا تھا اس پر ہی وہ اپنے رب کا شکر گزار تھے اس کے پاپا مزید اپنے گھر والوں کو کچھ نہیں دے سکتے تھے۔ سمیعہ اور اس کا گھر بالکل ساتھ تھا جب کہ شہزاد تین چار گلیاں آگے رہتا تھا طالبات کے لئے کالج والوں نے فری ٹرانسپورٹ کا اہتمام کر رکھا تھا اس لئے اریبہ اور سمیعہ ایک ساتھ بس پر جاتی تھیں۔
اگلے دن وہ پھر کالج پہنچی تو شہزاد اسے تیکھی نظروں سے دیکھنے لگااس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک قہقہہ لگایا ایک دن میں اس نے کافی دوست بنا لئے تھے۔ اب اس کامعمول بن گیاوہ اریبہ کو جہاں دیکھتااس پر جملے کستاکلاس میں پروفیسرز کی غیر موجودگی میں وہ خوب اریبہ کو مذاق کا نشانہ بناتا اس کام میں وہ اپنے دوستوں کو بھی ساتھ شامل کرتا وقت گزر رہاتھا سیکنڈ ٹرم کے ایگزام شروع ہوچکے تھے وہ سب تیاریوں میں مصروف تھے۔
’’تمہاری اتنی ہمت اور جراٗت‘‘ سیکنڈ ٹرم کے رزلٹ والے دن وہ اریبہ پر برس پڑا وہ اتنا زور سے چلایا تھا کہ پوری کلاس سکتے میں آگئی۔
’’کیا ہوا پرنس ؟‘‘اس کے دوست اس سے پوچھنے لگے۔
’’پرنسپل صاحبہ کو شکایت لگانے تم آفس میں گئی تھی ناں اب اپنی خیر منانا‘‘ اس نے کھلم کھلا اریبہ کو دھمکی دے دی وہ آنکھیں پھاڑے شہزادکو دیکھ رہی تھی وہ شہزاد سے خوف کھاتی تھی اس کے سامنے تو وہ نظریں بھی نہیں اٹھا سکتی تھی تو بولتی کیا۔ وہ دھمکی دے کر چلا گیا تھا اریبہ سمیعہ کے آگے رو پڑی۔
’’یقین کرو سمیعہ میں نے اس کی شکایت نہیں لگائی یہ جھوٹ بول رہا ہے میری زندگی مسلسل کانٹوں میں گزر رہی ہے میں خود کشی کر لوں گی۔‘‘ آنسو اس کی آنکھوں سے متواتر بہہ رہے تھے۔ وہ واقعی ایسی زندگی سے بہت تنگ تھی۔
لیکچر کے دوران پھر پرنسپل صاحبہ اندر آگئیں اور انہوں نے شہزاد کو کھڑا کر دیا ’’شہزاد تمہیں آخری وارننگ دی جارہی ہے اگر تم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو تمہیں کالج سے نکال دیا جائے گا اور میڈم شبانہ اس پر نظر رکھیں کسی قسم کی بھی حرکت کرے تو جیسے آپ نے مجھے پہلے بتایا تھا اب کی بار بھی بتائیں میں اس کے فادر کو کالج بلواؤں گی۔‘‘ پرنسپل صاحبہ نے میڈم شبانہ کی طرف مڑتے ہوئے کہا اورلیکچر روم سے نکل گئیں۔ شہزاد پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہاتھااسے پتہ چل گیا تھا کہ آفس میں شکایت لگانے والی اریبہ نہیں بلکہ خود کلاس انچارج میڈم شبانہ ہیں اس نے اریبہ کی طرف دیکھا وہ بیٹھی رو رہی تھی اسے دیکھ کر اس کا دل پگل پڑا پہلی بار اسے اپنے آپ پر شرمندگی محسوس ہوئی اور وہ اپنی ہی نظروں میں گرتا چلا گیا۔
’’سمیعہ میں نے فیصلہ کر لیاہے میں ایگزام نہیں دوں گی میں مزید ایک سال اسی کلاس میں لگاؤں گی تاکہ شہزاد سے جان چھوٹ جائے وہ اگلی کلاس میں چلا جائے گا اورمیں سکون سے زندگی گزاروں گی۔‘‘ وہ سمیعہ کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے بولی۔
’’پاگل ہوگئی ہے کیا ۔۔۔پورے سال کی محنت ضائع کروگی ؟‘‘وہ اریبہ کو غصے سے دیکھنے لگی۔
’’تو اور کیا کروں مجھ سے اب برداشت نہیں ہوتا اس جیسا غلیظ شخص میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا ، میرے اندر اتنی ہمت نہیں کہ اس کا مقابلہ کرسکوں یہ لوگ اتنے بے حس ہوتے ہیں کسی کی پروانہیں کرتے انہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے بلا وجہ دوسروں کو تنگ کرنا ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔‘‘ اریبہ رو رہی تھی اسے خبر بھی نہیں تھی کہ تھوڑی دور کھڑا شہزاد یہ سب سن رہا تھا اریبہ کے منہ سے نکلے یہ جملے اس کی زندگی بدلنے کا ذریعہ بن رہے تھے وہ زمین میں گرتا جا رہا تھااپنے بارے میں کسی اورکے منہ سے پہلی بار برے جملے سن کر وہ لرز اٹھا۔
’’میں واقعی برا ہوں میں نے اس کا دل دکھایا ہے‘‘ وہ روتے ہوئے الٹے قدم لوٹ گیا۔اگلے دن وہ بجھے بجھے قدموں کے ساتھ کالج چل پڑا۔
’’تمہاری ڈیٹ شیٹ آگئی ہے تم سب لکھ لو۔‘‘ میڈم شبانہ سب کو ڈیٹ شیٹ لکھوا رہی تھیں وہ بار بار اریبہ کا چہرہ دیکھ رہا تھا جہاں معصومیت ہی معصومیت تھی وہ بے دلی سے ڈیٹ شیٹ لکھ رہی تھی۔ یہ معصومیت اس کے دل میں نہ جانے کیسے اترتی گئی۔ وہ مسکرا کر رہ گیا۔
اگلے پیریڈ میں وہ لان میں سمیعہ کے ساتھ بیٹھی تھی اتنے میں شہزاد وہاں آگیا وہ شہزاد کو دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی اسے یقین ہو گیاتھا کہ اب اس کی خیر نہیں بھرے کالج میں وہ پھر اس کی بے عزتی کرے گا مگر ایسا بالکل نہ ہوا۔
’’اریبہ مجھے معاف کردوتم میری وجہ سے اپنے ایگزام کینسل نہ کرو اپنی زندگی تباہ نہ کرومیں نے تمہارا بہت دل دکھایا ہے آج سچے دل سے تم سے معافی مانگتا ہوں سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے جتنی باربھی تمہیں تنگ کیا اتنا تمہارے قریب ہوا میرے دل کو سکون نہیں تم واقعی اچھی ہوتمہاری خوش اخلاقی اور صبر نے مجھے اچھا انسان بنا دیا ہے میری زندگی بدل چکی ہے۔‘‘ وہ روتے ہوئے اس کے قدموں میں گر پڑا اسے اس بات کابھی احساس نہیں تھا کہ سارا کالج اس کے گرد جمع ہوچکاہے وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’اریبہ مجھے معاف کر دو گی ناں۔‘‘ وہ روتے ہوئے بول رہا تھا اریبہ نے پہلے سمیعہ کودیکھا پھر اس پر نظر ڈالی اور مسکراتے ہوئے بھاگ گئی شہزاد بھی اس کے پیچھے چل دیا تمام طالب علم تالیاں بجانے لگے آخر دل کو لگا قفل کھل ہی گیاتھامحبت برائی پر غالب آگئی تھی۔
0 Comments