(میرا مشغلہ ، میری ڈگریاں)
تحریر:حافظ نعیم احمد سیال-
زندگی کس طرح گزرتی ہے یہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔ کسی کی زندگی بہت اچھی گزرتی ہے کسی کی زندگی مشکلوں میں گزرتی ہے۔ سچ کہتے ہیں زندگی ایک امتحان ہے اور اسے پاس کرنا بہت مشکل ہے بچپن سے لے کر اب تک کا سفر کتنا کٹھن تھا میں بتا نہیں سکتا، خیالوں کی دنیا آباد ہوئی اور میں اس میں گرتا چلا گیا۔
’’بڑے ہوکر کیا بنو گے ؟ ‘‘ سر نے مجھ سے پوچھاتھا۔
’’سر میں ایک لکھاری بننا چاہتا ہوں مجھے کہانیاں لکھنے کابہت شوق ہے۔ ‘‘ میں سر کو کہہ رہا تھا ۔
’’ویری گڈ! اللہ تمہیں کامیاب کرے یہ تمہارا مشغلہ ہے مگر اپنی زندگی کو سنوارنے کے لئے کچھ بننا پڑتا ہے۔ تمہیں پتہ ہے لکھنے سے کچھ نہیں ملتا صرف اپنا شوق پوراہوتا ہے انسان کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر بھی سیکھنا چاہئے تاکہ وہ اپنی زندگی آسانی سے گزار سکے۔‘‘ سر مجھے کہہ رہے تھے۔
’’سر مجھے لکھنے کا شوق جنون کی حد تک ہے میں چاہتا ہوں کہ میں بھی ایک بہت بڑا لکھاری بنوں۔‘‘ میں سر کو کہا۔
’’ہاں بیٹا ایسا ہی ہے اگر مشغلہ ذریعہ معاش بن جائے تو اور بھی اچھی بات ہے مگر میں نے دیکھا ہے کہ لکھنے والے کو کچھ نہیں ملتا تمہیں ضرور لکھنا چاہئے لیکن پہلی ترجیح اپنے کام کو دینی چاہئے تاکہ تم اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکو،آؤ میں تمہیں کچھ لوگوں سے ملواتا ہوں۔‘‘ سر نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے باہر لے آئے ان کا رخ فروٹ منڈی کی طرف تھا۔
’’ہاں بھئی اکرم !سیب کتنے روپے کلو لگائے ہیں؟‘‘ سر نے ایک ریڑھی والے سے پوچھا۔
’’جی ساٹھ روپے کلو‘‘ ریڑھی والے نے جواب دیا۔
’’اچھا ایک کلو تول دو ‘‘ سر نے کہا اور میں سر کو دیکھ رہا تھا۔
’’ہاں بیٹا ان کو دیکھ رہے ہو؟‘‘ سر نے ریڑھی والے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا۔
’’جی سر‘‘ میں نے سعادت مندی سے جواب دیا۔
’’یہ ملک کے بہت بڑے ادیب ہیں بچوں کے لئے کافی عرصہ لکھاہے کہانیوں کی تعداد دو ہزار سے زائد پہنچ چکی ہے مگر پھلوں کی ریڑھی لگاتے ہیں لکھنا ان کاشوق تھا مگر یہ شوق صرف شوق ہی رہااگر کہانیاں لکھنے میں وقت لگانے کی بجائے کوئی ہنر سیکھ لیتے تو ٹھیک ٹھاک کما رہے ہوتے۔‘‘ سر جی نے ایک سرد آہ بھری اکرم بھی چپ چاپ سن رہا تھا اس نے سیب سر جی کو تھما دئیے ’’آؤ میں تمہیں ایک اور بہت بڑے ادیب سے ملواتا ہوں۔‘‘
’’شغف ادیب !کوئی شخص ایسا نہیں جو انہیں نہ جانتا ہو، ملک کے جانے پہچانے لکھاری سمجھے جاتے ہیں انہوں نے پاکستان کے تمام بچوں کے رسائل اور اخبارات میں لکھا ہے سب ان کی کہانیاں لے تو لیتے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں ملتا۔ انہوں نے بھی اپنی ساری زندگی کہانیاں لکھنے میں گزار دی مگر آج کل وہ صرف پروفیسر ہیں ایک پرائیویٹ ادارے میں بچوں کو پڑھاتے ہیں ان کی پاس تعلیم کافی زیادہ تھی اس طرح انہیں نوکری مل گئی اور ان کا گزر بسر اچھا ہونے لگااگر انہیں بھی نوکری نہ ملتی تو وہ بھی ایسے ہی فٹ پاتھ پر یا بازاروں میں ایسی ریڑھی لگارہے ہوتے۔ ‘‘ سر جی مجھے بتا رہے تھے میں شغف ادیب کا نام اچھی طرح جانتاتھاوہ میرے پسندیدہ لکھاری تھے بہت اچھا لکھتے تھے کہانیاں لکھنے کا فن وہ بخوبی جانتے تھے میں ان کی ہر کہانی شوق سے پڑھتا تھا مگر کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی انہوں نے جس رسالے میں بھی لکھا وہاں اپنی دھوم مچادی تھی اور زیادہ تر رسائل تو انہی کی وجہ سے ہی چلتے تھے کیوں کہ میری طرح دوسرے لوگوں کو بھی ان کی کہانیاں پڑھنے کا انتظار رہتا تھا۔ ادھرمیگزین مارکیٹ میں آتا ادھر ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتا کچھ لوگ توہاتھ ملتے بھی رہ جاتے تھے۔ جب کوئی خاص نمبرآتا تو میگزین والے پہلے ہی اعلان لگا دیتے تھے کہ اپنی کاپی جلد بک کروالیں بعد میں نہ کہنا کی خبر نہیں ہوئی۔ خیر آج سر کے ساتھ میں شغف ادیب صاحب سے بھی ملنے جا رہاتھا میری دیرینہ خواہش پوری ہورہی تھی۔ ہم چلتے چلتے اس گلی میں آگئے جہاں سر کاگھر تھا ۔ سر جی اپنے گھر کے اندر ہی چلے گئے۔
’’آؤ بیٹا۔۔۔‘‘ سر جی مجھے اندرلے آئے میرے ذہن میں تھا کہ سر کو گھر میں کچھ کام ہوگا انہوں نے سوچاہوگا کہ پہلے وہ کام نمٹا لوں پھرشغف ادیب کے گھر چلیں گے مگر سرجی نے تو مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا اور کھانے کاآڈر دینے اندر چلے گئے میں حیرانی سے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا ڈرائنگ روم میں چار الماریاں رکھی ہوئی تھیں اور سبھی مختلف کتابوں سے بھری پڑی تھیں۔
’’شاید سر جی کوبھی میری طرح مطالعہ کرنے کاشوق ہیں۔ ‘‘ میں نے دل میں سوچا۔ میں اٹھا اور ایک ایک کرکے تمام کتابیں دیکھنے لگااس دوران سر جی کھانے کی ٹرے لے کر آگئے۔
’’لو بیٹا پہلے کھانا کھالو۔ ‘‘ سر نے میز پرٹرے رکھتے ہوئے کہا۔
’’سر تکلف کی کوئی بات نہیں بس شغف ادیب صاحب سے ملنے چلیں آپ کو تو پتہ ہے کہ وہ میرے کتنے فیورٹ لکھاری ہیں۔‘‘ میری اسی بات پرسر جی مسکرا رہ گئے۔
’’پہلے کھانا کھالو پھر سکون سے ملتے ہیں ‘‘سر جی نے مسکراتے ہوئے کہا اور میں کھانا کھانے لگا میری بے چینی عروج پر تھی میں شغف ادیب سے جلد از جلد ملنا چاہتا تھاکھانا کھانے کے بعدسر نے میرا ہاتھ پکڑا اور ڈرائنگ روم سے ملحقہ ایک اور کمرے میں لے آئے۔ وہ کمرہ بھی اخبارات و رسائل سے سے بھرا پڑا تھا ساتھ چھوٹی سی الماری تھی جہاں کچھ ایوارڈ ز پڑے ہوئے تھے۔
’’بیٹا یہ وہ اخبارات و رسائل ہیں جن میں شغف ادیب کی کہانیاں ہیں اور یہ وہ ایوارڈز ہیں جو شغف ادیب کو کہانیاں لکھنے پر ملے ہیں بس ادیب لوگ اس وجہ سے خوش ہوجاتے ہیں کہ ان کے چاہنے والے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ان کا نام کافی لوگ پڑھتے ہیں اور یہ کچھ ایوارڈز یادوں کا سہارا ہوتے ہیں‘‘ سر جی مجھے کہہ رہے تھے میں سر کو حیرت سے دیکھ رہا تھا ملک کے نامور لکھاری شغف ادیب کے نام سے لکھنے والے کوئی اور نہیں میرے سر ہی تھے۔
’’بیٹا میں نے اپنی ساری زندگی کہانیاں لکھنے میں گزار دی ان کہانیوں کو گننا بھی چاہو تو نہ گن سکو اللہ پاک کا کرم ہے کہ اس نے کبھی خالی پیٹ نہیں سلایا رزق ضروردیا ہے میں بھی تمہیں یہی کہنا چاہتاتھا کہ آپ اپنی پہلی ترجیح اپنی پڑھائی کو دیں ہو سکے تو کوئی ہنر بھی سیکھ لیں اگر نوکری نہیں ملتی تو آپ اس ہنر سے اپنا پیٹ پال سکتے ہیں لکھنے سے ادیبوں کے پیٹ نہیں پلتے ہاں جب کبھی فارغ وقت ملے تو لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ‘‘ سر جی ایک شفیق استاد کی طرح مجھے نصیحت کر رہے تھے۔ میں اپنے پسندیدہ لکھاری شغف ادیب سے مل کر گھر آگیاتھا۔
******
آج میں خود ایک بہت بڑا ادیب ہوں مگر میرا پیٹ خالی ہے صبح سے کچھ نہیں کھایا نوکری کی تلاش میں مارامارا پھر رہاہوں مگر شاید اب نوکریاں کسی کو نہیں ملتیں اپنی کہانیوں کو دیکھتا ہوں اور اپنی ڈگریوں کو دیکھتا ہوں تو دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
’’کیا ہوا بیٹا! آج پھر تجھے نوکری نہیں ملی؟‘‘ ماں جی کی آواز میرے کانوں میں گونجی تو میں خیالوں کی دنیا سے باہر نکل آیا۔
’’کچھ نہیں ماں جی میری آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے ماں جی نے میرے آنسو صاف کئے اور مجھے گلے سے لگالیا اس کے بعد انہوں نے اپنے ڈوپٹے کے پلو میں لپٹے ہوئے کچھ پیسے نکالے اور مجھے دے دئیے۔
’’لے بیٹا آج اللہ کے کرم سے سامنے کوٹھی والوں کے تین سوٹ سی کر دئیے ہیں تو کچھ پیسے ہاتھ لگے ہیں بازار سے کچھ لے آ تجھے کھانا بنا کر دیتی ہوں میرے لعل کو بھوک لگی ہوگی صبح سے کچھ نہیں کھایا ۔‘‘ماں جی نے پیار کرتے ہوئے کہا اور میں سودا لینے بازار چل دیا۔ میرا مشغلہ، میری ڈگریاں دونوں مجھ پر بھاری پڑ چکے تھے۔
0 Comments