(مہنگی کانفرنس) تحریر: حافظ نعیم احمد سیال ۔ملتان
رات گہری ہو چکی تھی نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی وہ بستر پر کروٹیں بدل رہاتھا کبھی دائیں کروٹ لیتا تو کبھی بائیں۔ سونے کی جتنی دعائیں تھیں وہ سب اس نے پڑھ ڈالی تھیں مگر پھر بھی اسے نیند نہ آئی شاید وہ پریشان تھا ۔
’’میرا مستقبل کیا ہوگا ؟‘‘اس نے ایک لمحے کے لئے سوچا ۔’’کیا میری زندگی ایسے گزر جائے گی ؟میرا آنے والا کل اچھا ہوگا یا نہیں۔۔۔‘‘ سوچ کے دھارے اس پر بہہ رہے تھے وہ جھنجھلا کر اٹھ بیٹھا ،میز پر پڑے جگ سے اس نے پانی گلاس میں انڈیلا اور غٹاغٹ پینے لگا ،آہستہ چلتے چلتے وہ اپنی الماری تک آیا، الماری میں پڑے اخبارات و رسائل اس کی زندگی کا سرمایہ تھے یہ وہ رسائل تھے جس میں اس کی کہانیاں تھیں، وہ بچوں کے لئے کہانیاں لکھتا تھا۔
ہر انسان میں کوئی نہ کوئی صلاحیت ہوتی ہے اس کے اندر لکھنے کی صلاحیت تھی دس سال کی عمر میں جب اس کی پہلی کہانی چھپی تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی اس نے وہ کہانی اپنے سب گھر والوں اور دوستوں کو دکھائی۔
’’تم بہت بڑے ادیب بنو گے ‘‘دادا ابو بولے۔
’’ہاں میرا پوتا مشہورومعروف لکھاری ہوگا ‘‘دادی جان بھی پیار سے بولیں۔گھر والوں کی حوصلہ افزائی نے اسے آگے کی طرف بڑھایا یوں اس کی یہ لکھنے کی صلاحیت نکھرنے لگی ایک وقت ایسا آیا کہ تمام اخبارات کے بچوں کے صفحات پر اس کی کہانیاں جگمگا رہی ہوتیں اس دوران اس نے ماہانہ رسالوں میں بھی لکھنا شروع کر دیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے کم عمری میں ہی ایک مشہورومعروف لکھاری بن گیا۔
ایک رسالے میں جب اس کا انٹرویو چھپا تو اپنے نام کے ساتھ’’ ادبی دنیا میں کم ہی عرصے میں تہلکہ مچا دینے والے لکھاری‘‘ کی سرخی پڑھ کر وہ پھولے نہیں سمایاکتنا خوش تھا وہ اپنے اس انٹرویو کو دیکھ کر، خوشی سے اس کے پاؤں زمین پر ٹک ہی نہیں رہے تھے اس نے جلد ہی ادبی دنیا میں اپنی جگہ بنا لی تھی ادبی دنیا میں ہر کوئی اسے شغف ادیب کے نام سے ہی جانتا تھا اسے یہ نام بہت پسند تھا اپنی منفرد کہانیوں کی طرح اس نے اپنا نام بھی منفرد چنا تھا اس نے الماری سے ایک رسالہ اٹھایا اور دیکھنے لگا۔
’’اس شمارے میں شغف ادیب کی کہانی بڑی زبردست تھی وہ بہت اچھا لکھتے ہیں ان کی کہانی پڑھتے ہی قاری اس میں کھو جاتا ہے انکل آپ شغف ادیب کی کہانی ہر شمارے میں لگایا کریں۔‘‘ ورق گردانی کرتے کرتے اچانک ہی اسے یہ جملے نظر آنے لگے ایک قاری نے خط میں اس کی کہانی کی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا اس نے اپنی تمام کہانیوں کو سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔
’’شغف ادیب کی کہانی کا پہلا حصہ بہت جاندار تھا دوسرے حصے کا بڑی شدت سے انتظار ہے۔ ‘‘ایک اور خط میں اس نے یہ جملے پڑھے تو مسکرائے بغیر نہ رہ سکااس نے رسالہ الماری میں رکھا اور واپس اپنے بستر پر لیٹ گیا۔
آہا وہ دن کتنے سہانے تھے کوئی فکر نہیں تھی اب تو وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل گیا ، صحیح کہتے ہیں زندگی ایک امتحان ہے جب آدمی اس امتحان میں پھنس جاتا ہے تو سارے مشغلے چھوٹ جاتے ہیں اسے اپنے ذریعہ معاش کی فکر ہونے لگتی ہے اس نے اپنی زندگی کو آگے بڑھانا ہوتاہے کچھ فن ایسے ہوتے ہیں جو روزگا ر کا سبب بن جاتے ہیں مگر کچھ فن ایسے ہوتے ہیں جن سے صرف شہرت اور نام کے علاوہ کچھ نہیں ملتاشاید لکھنے کا فن بھی ایسا ہی ہے، نام اور شہرت تو مل جاتی ہے مگر گھر کے چولہے نہیں جلتے اس وجہ سے بہت سارے لکھاری یاتو لکھنا چھوڑ جاتے ہیں یا لکھنا کم کر دیتے ہیں اس نے بھی اب لکھنا کم کر دیا تھا اس کی لکھی ہوئی کہانی کو اب مہینے گزر جاتے تھے وہ بس اب برائے نام ہی لکھ رہا تھا ۔
اچانک ہی فجر کی اذانیں ہونے لگیں اسے پتہ ہی نہیں چلا رات گزر گئی وہ اٹھا اور نہا دھو کر مسجد چلا گیا نماز کے بعد اللہ تعالیٰ سے رو رو کر اس نے حصول رزق کے لئے دعائیں مانگیں اس کے بعد وہ قرآن پڑھ کر گھر واپس آگیا امی جان نے اس کے لئے ناشتہ لگا رکھا تھا۔
’’بیٹا فکر نہ کرو تم نے اپنے ڈاکومنٹس مختلف اداروں میں جمع کروا رکھے ہیں جلد ہی کسی نہ کسی جگہ سے آفر آجائے گی ماشاء اللہ بہت پڑھے لکھے ہو۔‘‘امی جان نے اسے دلاسا دیا تو وہ چپکے سے ناشتہ کرنے لگا۔
ان دنوں ادیبوں کی ایک کانفرنس کا بہت چرچا تھا ایک ادبی تنظیم ملک بھرکے ادیبوں کے لئے ایک بڑے شہر میں کانفرنس منعقد کروا رہی تھی۔ دو روزہ تربیتی کانفرنس کی دھوم پورے ملک میں مچی ہوئی تھی ملک کے نامور اور بڑے بڑے لکھاری اس میں شرکت کر رہے تھے ٹی وی اور ڈائجسٹ میں لکھنے والے لکھاریوں کی آمد متوقع تھی تنظیم کے لوگ بڑی عزت اور احترام سے ملک بھر کے تمام لکھاریوں کو دعوت دے رہے تھے اور اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے محنت لگن اور جستجو سے کام کر رہے تھے۔ شغف ادیب بھی بہت پرجوش تھاکافی عرصے بعد ایک ادبی تقریب میں شامل ہونے کا اسے موقع مل رہاتھاوہ کانفرنس صرف خاص لکھاریوں کے لئے نہیں تھی وہ ادبی کانفرنس تھی اور اس میں کوئی بھی لکھاری شرکت کر سکتا تھا۔
’’ایک لمبے عرصے بعد میں اپنے لکھاری دوستوں کو ملوں گا زندگی نے ایسا مصروف کیا کہ ادبی دنیا سے کٹ کر رہ گیا نجانے کون کہاں ہوگا اور کیا کر رہا ہوگا زمانہ بیت گیا تھا ان سے ملے ہوئے ،دودن کاساتھ ہوگا تو مزا دوبالا ہوجائے گا۔‘‘وہ اپنے ہم عصر لکھاریوں کو یاد کرنے لگاان سے دوبارہ ملنے کی خواہش اور خوشی اسے تڑپارہی تھی وہ کانفرنس میں جانے کے لئے پروگرام ترتیب دینے لگا۔
کچھ دن بعد اسے موبائل پر پیغام موصول ہوا لکھا تھا’’ شغف ادیب صاحب! کانفرنس میں آپ کی شرکت ہمارے لئے عزت کاباعث ہوگی آپ مقررہ تاریخ تک 500 روپے رجسٹریشن فیس جمع کروادیں ۔‘‘پیغام پڑھتے ہی اس کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی۔
’’کیا کانفرنس میں شرکت کے لئے پانچ سو روپے دینے پڑیں گے؟‘‘ وہ ایک بار پھر سوچوں میں پھنس گیا اور اس کا ارادہ ڈگمگانے لگا۔
اصغر عارف اس کے محلے میں رہتا تھا وہ بھی ایک بہت بڑا ادیب تھااسے بھی ذریعہ معاش نے ادبی دنیا سے دور کر دیا تھا وہ اب مستری تھا اور تعمیراتی کام کرتا تھا اس طرح اس کے گھر کا چولہا جل رہاتھا شغف ادیب اصغر عارف کے پاس چلا آیا۔
’’ہاں یار سناؤ کانفرنس جاؤگے؟‘‘ شغف ادیب نے پوچھا۔
’’نہیں یار میں تو روزانہ کی دیہاڑی پہ کام کرتا ہوں بیرون شہر آنے جانے کا کرایہ اور رجسٹریشن فیس ملا کے تو میرے پاس کچھ بچے گا ہی نہیں چار دن کا خرچہ ختم ہو جائے گا اور میں اپنے بچوں کو چار دن بھوکا نہیں رکھ سکتا ۔‘‘یہ کہتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے۔ ’’کچھ ادیب واقعی غریب ہوتے ہیں۔‘‘ شغف ادیب نے دکھی دل کے ساتھ سوچا اور الٹے قدم گھر لوٹ آیا تھوڑی دیر بعد اس کے موبائل کی گھنٹی بجی فون کانفرنس کی طرف سے تھا ۔
’’شغف ادیب صاحب! آپ اس کانفرنس میں لازمی شرکت کریں اپنی رجسٹریشن جلد کروا لیں آپ کانفرنس میں آرہے ہیں ناں۔‘‘ اس کے پاس جواب دینے کے لئے کچھ نہیں تھا اس نے افسردگی سے موبائل آف کر دیااس کی آنکھوں سے آنسو تیز تیز بہہ رہے تھے۔ اس کی مجبوری اسے کانفرنس میں شرکت کرنے سے روک رہی تھی وہ اپنی خواہشات کو تیزی سے کچلنے لگا کانفرنس میں شرکت کرنا اس کے لئے مہنگا ہو گیاتھااسے پتہ چل گیا تھا کہ یہ کانفرنس اونچے طبقے کے ادیبوں کے لئے ہے ہم جیسے ادیبوں کے لئے نہیں۔
0 Comments