(ہائے یہ امتحان) تحریر :حافظ نعیم احمد سیال ۔ملتان
طالب علمی کا زمانہ بھی کیا زمانہ ہوتا ہے۔ پہلے لوگ بچپن کے دن یاد کرتے تھے مگر اب طالب علمی کے دن یاد کیے جاتے ہیں ۔بچپن میں ایک گانا سنا کرتے تھے جس کا پہلا مصرعہ یہ ہوتا تھا’’ میرے بچپن کے دن کتنے اچھے ہی تھے‘‘ مگر ہم کہتے ہیں ہمارے طالب علمی کے دن کتنے اچھے ہی تھے اگر ہمیں بچپن نہ بھی ملتا تو ہمیں اس کا کوئی غم نہ ہوتا شکر کرتے ہیں کہ ہمیں طالب علمی کے دن ملے اگر یہ دن ہمیں میسر نہ آتے تو شاید ہم غم سے مر جاتے اور کسی کو نظر بھی نہ آتے۔
طالب علمی میں ہم جس لفظ سے گھبراتے تھے وہ لفظ تھا’’ امتحان‘‘ امتحان آتے ہی ہم نڈھال سے ہو جاتے ہمارا وزن کم ہوجاتا اور ہم کلاس میں رونی صورت بنا کر بیٹھ جاتے، جب سر کلاس روم میں آکر بتاتے امتحان آرہے ہیں تو ہم ڈر کے مارے کونے میں ہی دبک کر بیٹھ جاتے گھر میں امی کو تنگ کرتے تو امی فوراً کہتیں’’ وہ دیکھو امتحان آرہا ہے۔‘‘ امتحان کا نام سنتے ہی ہماری جان نکل جاتی اور امی کو تنگ کرنا بند کر دیتے۔
امتحان وہ جن ہے جس کا سامنا تمام طالب علموں کو کرنا پڑتا ہے بلکہ گلے لگانا پڑتا ہے اسے سر آنکھوں پر بٹھانا پڑتا ہے اگر ایسا نہ کریں تو شاید ہمارا مستقبل خراب ہو جائے اور ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں اور ان پڑھ جاہل کہلائیں۔
اس لئے ہمیں بھی مجبوراً امتحان کو گلے لگانا پڑتابعض دفعہ تو اسے گود میں بٹھا کر خوب پیار بھی کرنا پڑتا، ہاں جب امتحان گزر جاتا تو اسے خوب جی بھر کرصلواتیں سناتے ،کئی کئی دنوں سے جواسے گلے لگا رکھا ہوتااسے خوب زمین پر پٹخ کر مارتے اور جان چھوٹ جانے پر خوشی کا اظہار کرتے مگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوتی تھی اگلے سال وہ پھر آدھمکتا تھا۔ امتحانوں سے جہاں ہمیں چڑ تھی وہاں ہمیں مزا بھی خوب آتا تھاہماری کلاس میں ایک خان صاحب آگئے خوب جوشیلے اور پڑھائی میں لائق فائق، سبق’’ منٹوں سیکنڈوں میں ہی ‘‘یاد ہوجاتا تھامگر سنا نہیں پاتے تھے ان کا دعویٰ تھا کہ ہم امتحان سے نہیں گھبراتے جب امتحان دیں گے تو دیکھ لینا ہماری پوری دنیا میں’’ پہلی پوزیشن‘‘ آئے گی کلاس میں سینہ تان کر یوں چلتے جیسے امریکا کے صدر ہوں یا امریکا انہوں نے ہی ایجاد کیا ہوبے چارہ کولمبس اگر زندہ ہوتا تو خان صاحب کو خوب چانٹے مارتا۔
امتحان کے دن نزدیک آئے اور ہم ڈر کے مارے کونے میں دبک کر بیٹھ گئے مگر خان صاحب سینہ تانے کبھی ادھر کبھی ادھر دندناتے پھرتے گویا انہیں امتحانوں کی کوئی فکر ہی نہیں تھی۔
امتحان شروع ہوئے تو کمرہ امتحان میں خان صاحب کودرمیان میں جگہ ملی ساتھ ہی کسی اور سکول کی طالبہ بیٹھی ہوئی تھی خان صاحب نے اس کی نقل لگانا شروع کر دی ممتحن نے دو چار بار ٹوکامگر خان صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے اوربرابر نقل کرتے رہے آخر ممتحن نے تنگ آکر ان کو دوسری جگہ پر بٹھا دیااب خان صاحب کی شکل رونی والی ہو گئی اور اس امتحان نے خان صاحب کوبھی رلانے پر مجبور کر دیاتھا مگر تھوڑی دیر بعد ہی ان کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھرنے لگیں اور وہ اپنا پیپر نگران صاحب کو دے کرخوشی خوشی باہر نکل گئے ہم حیرت سے انہیں جاتے ہوئے دیکھتے رہے اور سوچنے لگے خان صاحب نے اتنی جلدی پیپر کیسے حل کر لیا ہے ؟پیپرسے فارغ ہونے کے بعد ہم باہر آئے اور خان صاحب کو گھیرلیا پھر پوچھا ’’خان صاحب کیا بنی۔۔۔؟ ‘‘خان صاحب کا جواب واقعی ہمارے لئے مسکراہٹ کا سبب بن گیا ان کا جواب تھا،
’’ہم نے بھی لکھ دیا پیپر کا بقیہ حصہ ہمارے ساتھ بیٹھی ہوئی باجی کے پیپر میں ملاحظہ کریں ‘‘خان صاحب بتا رہے تھے اور ہم ہنس ہنس کرلوٹ پوٹ ہو رہے تھے خان صاحب کو جو ہم لائق فائق سمجھتے تھے وہ ساری حقیقت اب ہم پر آشکارا ہو رہی تھی۔