Here I publish essays, poetries, travelogues, novels, fiction, short stories, humorous stories, moral stories, and love stories in the Urdu language.
Here I publish essays, poetries, travelogues, novels, fiction, short stories, humorous stories, moral stories, and love stories in the Urdu language.


قسط نمبر1

حافظ نعیم احمد سیال
سجاول اپنے کمرے میں بیٹھا اپنے والدین کو یاد کر رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ آج بے تحاشہ اسے اپنے والدین یاد آ رہے تھے۔ اس کے والدین کو فوت ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا تھا۔ تین سال پہلے اس کے ابو فوت ہوئے پھر اس کے ابو کے فوت ہونے کے ایک سال بعد اس کی امی بھی فوت ہوگئیں۔ جیسے ہی اس کی امی فوت ہوئیں اس کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ گھر میں سب سے زیادہ پیار کرنے والا اس کا بڑا بھائی پل بھر میں ہی پرایا ہو گیا۔ ماں باپ کی موجودگی میں اس کا بڑا بھائی اس پر جان چھڑکتا تھا، اس کی ضروریات کا خیال رکھتا تھا۔ اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دیتا۔ ابو کی وفات کے بعد بھی وہ اس سے پیار کرتا تھا، اس کی خواہشیں پوری کرتا تھا۔ مگر جیسے ہی امی فوت ہوئیں وہ بیگانہ ہو گیا۔
سجاول کے بڑے بھائی وقاص کی شادی والدین کی موجودگی میں ہی ہوئی تھی۔ بھابھی شروع سے ہی سجاول کو پسند نہیں کرتی تھی۔ اسے سجاول ایک زہریلا کانٹا لگتا تھا۔ نجانے اسے کیوں سجاول سے خدا واسطے کا بیر تھا؟ اس کی آنکھوں میں ہر وقت سجاول کے لیے نفرت بھری رہتی۔ جتنا وہ اس سے نفرت کرتی، اس کا بھائی اس سے اتنا ہی پیار کرتا۔ اپنے شوہر کا سجاول کو پیار کرنا، اس کا خیال رکھنا اسے ایک آنکھ نہ بھاتا۔ وہ ہر وقت جلتی رہتی تھی۔ پھر سجاول کے والدین فوت ہوئے تو اس کی نفرت مزید بڑھ گئی اب سجاول کا بھائی بھی اس سے نفرت کرنے لگا۔
ماں باپ کے مرنے کے بعد سجاول بالکل اکیلا ہو گیا۔ وہ اپنے والدین کو یاد کر رہا تھا کہ اسے ٹائم کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔
”اوہ“! میرا تو یونیورسٹی جانے کا ٹائم ہو رہا ہے اچانک اسے یاد آیا۔
بھوک بھی بہت زوروں کی لگ رہی تھی۔ وہ اپنے کمرے سے باہر نکل آیا اس امید پر کہ شاید بھابھی کھانا دے دے۔
”بھابھی میرا ناشتہ؟“ اس نے روزانہ کی طرح اپنا ناشتہ مانگا، اسے جس جواب کی توقع تھی وہ اسے مل گیا تھا۔
”کون سا ناشتہ؟ اپنے کھانے کا خود بندوبست کرو۔ میں تمھاری نوکرانی نہیں ہوں۔“ بھابھی نے تیوریاں چڑھا کر کہا تو وہ آنکھوں میں آنسو لیے واپس مڑ گیا۔ اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور یونیورسٹی کے لیے باہر نکل پڑا۔ راستے میں وہ بہت روتا ہوا جا رہا تھا۔
”تم صبح کیوں نہیں آئے؟“ ریحان اس سے گلہ کر رہا تھا، ”میری مما نے تمھارے لیے زبردست پراٹھے بنائے ہوئے تھے“۔
یہ سن کر سجاول نے ریحان کی آنکھوں میں دیکھا، جہاں ناراضگی بھری ہوئی تھی۔
”مجھے اچھا نہیں لگتا کہ روزانہ تمھارے گھر ناشتہ کروں، میری غیرت مجھے اجازت نہیں دیتی۔“ وہ آنسو چھپاتے ہوئے بولا۔
”خبر دار! اگر آئندہ اس طرح کی بات کی تو۔۔۔۔ میری مما نے تمھیں اہنا بیٹا مانا ہے اور کوئی ماں اپنے بیٹے کو بھوکا نہیں دیکھ سکتی، تم میرے دوست اور بھائیوں جیسے ہو۔“
ریحان اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا اور دوسرے ہاتھ سے بیگ سے ناشتہ کا ڈبہ نکالا۔
”مجھے پکا یقین ہے کہ تو ناشتہ نہیں کر آیا اور صبح تو میرے گھر بھی نہیں آیا اس لیے تیرا ناشتہ لے آیا ہوں، سچ سچ بتا بھوکا ہے نا تو۔“ ریحان جذبات میں آ کر بولا۔ اس کی آنکھوں میں بھی دوست کو بھوکا دیکھ کر آ نسو نکلنے لگے تھے۔
سجاول کا بہت دل کیا کہ وہ یہ ناشتہ لے لے اور اپنی بھوک مٹائے۔ کیوں کہ جب بھوک لگتی ہے نا پھر کچھ ہوش نہیں رہتا۔ مگر اس نے ناشتہ لینے سے انکار کر دیا۔
”نہیں مجھے بھوک نہیں لگی۔“ اس نے اپنے آنسو چھپائے۔
”مجھے بےوقوف نہ بنا، تیرے اندر کی ساری کہانی جانتا ہوں، تجھے کتنی بار کہا ہے کہ شرم نہ کیا کرو، چل کھا۔“ ریحان نے سجاول کی طرف ناشتہ بڑھایا ہی تھا کہ اس کے چہرے پر پریشانی چھا گئی۔ اور وہ گھبراتا ہوا اٹھتا چلا گیا۔
قسط نمبر 2
     ریحان نے دیکھا کہ سجاول کی آنکھیں سرخ ہوتی جا رہی ہیں۔ اچانک ہی اسے شدید بخار نے آ گھیرا تھا۔ اور وہ بے ہوش ہونے لگا تھا۔ ریحان نے گھبراتے ہوئے سجاول کو سہارا دیا اور اسے قریبی ہسپتال لے گیا۔ ہسپتال بروقت پہنچ جانے اور ڈاکٹر کا فوری چیک اپ کرنے کی وجہ سے سجاول کو ہوش آ گیا تھا۔
     ”اگر تو صبح کے وقت ناشتہ کر لیتا تو تیرا یہ حال نہ ہوتا۔“ ریحان سجاول پر غصہ ہو رہا تھا۔ سجاول اس وقت اپنے بڑے بھائی وقاص کو یاد کر رہا تھا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ چند سال پہلے وہ ایسے ہی بیمار ہوا تھا اور اس کا بڑا بھائی ساری رات اس کے پاس کھڑا ہو کر جاگتا رہا۔ اس کا خیال رکھتا رہا، مگر آج وہی بھائی تھا جس کو اس کی فکر ہی نہ تھی۔
     ”کیا سوچ رہے ہو؟“ ریحان نے اسے جھنجھوڑا۔
     ”کچھ نہیں۔“ اس نے اپنی آنکھوں میں آئے آنسو صاف کیے۔
      ”کچھ سوچ تو رہے ہو۔“ ریحان نے اسے دوائی دیتے ہوئے کہا۔ یہ سنتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
     ”کیا سگے بھائیوں میں ایک ماں باپ کا خون نہیں ہوتا؟ کیا وہ ایک ہی ماں باپ کی اولاد نہیں ہوتے؟ اگر ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوتے ہیں تو پھر آپس میں نفرتیں کیوں۔۔۔۔؟“ وہ بدستور روتا جا رہا تھا۔
     ”ہوتے تو وہ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ مگر ان کے خون سفید ہو چکے ہوتے ہیں۔ تم اپنے بھائی کو یاد کر رہے ہو نا اگر اسے تمھاری پروا ہوتی تو تمھارا یہ حال نہ ہوتا۔ میں بھی تو تمھارا بھائی ہی ہوں نا، کیا تم مجھے اپنا بھائی اور دوست نہیں سمجھتے؟“ ریحان اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
     ”نہیں، ایسی بات نہیں ہے، وہ بھی تو میرے بھائی ہی ہیں نا۔“ سجاول آنسو پونجھتے ہوئے بولا۔
     ”چلو شاباش! دوائی کھاؤ۔ ڈاکٹر صاحب نے باقاعدگی سے تمھیں دوائی لینے کو کہا ہے۔“ ریحان نے دوائی اور پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھائے، پل بھر میں ہی وہ ساری دوائی کھا گیا۔
کچھ دیر بعد اس کی طبیعت بحال ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے انھیں گھر جانے کی اجازت دے دی۔
ریحان سجاول کو اپنے ہی گھر لے آیا تھا جہاں ریحان کی امی خالدہ ان کی منتظر تھیں۔
     ”کیا ہو گیا تھا بیٹا تمھیں؟“ ریحان کی امی اسے پیار کرتی ہوئی بولیں۔ ریحان نے تھوڑی دیر پہلے ہی گھر فون کرکے سجاول کی طبیعت کے خراب ہو جانے کا بتایا تھا۔
     ”کچھ نہیں آنٹی! ذرا ہلکا سا بخار ہو گیا تھا، اب ٹھیک ہوں۔“ سجاول نے جواب دیا۔
     ”چلو شکر ہے اللہ تعالیٰ کا۔ آج تمھارے گھر جاتی ہوں اور تمھارے بھائی سے بات کرتی ہوں۔ تمھاری بھابھی تو کسی کو منھ تک نہیں لگاتی، پتہ نہیں کون سا گھمنڈ جہیز میں لے کے آئی ہے۔ جب تک میں نہ آؤں تم یہیں پہ رہنا۔“ یہ کہتے ہوئے انھوں نے برقع اوڑھا اور سجاول کے گھر کی طرف چل پڑیں۔ انہوں نے وہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ خوش قسمتی سے دروازہ وقاص نے ہی کھولا۔
     ”آنٹی آپ۔۔۔۔“ وہ انھیں اچانک اپنے گھر کے دروازے پر دیکھ کر حیران ہو گیا۔
     ”ہاں میں! مجھے دیکھ کر تمھارے چہرے پر ہوائیاں کیوں اڑنے لگیں ہیں؟ تمھاری امی کی سہیلی ہی ہوں۔ بہنیں بن کر گزارا کیا ہے ہم دونوں نے۔“ وہ آنکھیں دکھاتے ہوئے بولیں۔
      ”جی آنٹی میں جانتا ہوں، آپ کو دیکھ کر میں پریشان نہیں ہوا، میں تو بس آپ کے اچانک آ جانے سے حیران رہ گیا تھا۔“ اس نے جواب دیا۔
     ”ہاں جب یہاں چاہت کرنے والا اور عزت دینے والا کوئی نہیں ہوگا تو پھر کون آئے گا اس گھر میں؟ یاد ہے میں نے اپنا آخری قدم اس گھر میں کب رکھا تھا؟ اس وقت۔۔۔۔ جب تمھاری امی فوت ہوئیں تھیں۔ تمھاری امی کے فوت ہونے کے ساتھ ساتھ میرے لیے اس مکان کے سارے مکین بھی مر گئے تھے اگر زندہ تھا تو صرف سجاول، ارے مر تو تو بھی چکا ہے۔ جسے اپنے بھائی کی کوئی پروا ہی نہیں۔“
ابھی وہ آگے مزید کچھ  کہنا ہی چاہتی تھیں کہ انھیں یک دم وقاص بھاگتے ہوئے نظر آیا، وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگیں اور پھر اچانک ہی ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔
قسط نمبر 3
     ان کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ انہوں نے دیکھا نویدہ ہاتھ میں گلدان لیے پاگلوں کی طرح ان کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اور ساتھ چیخ بھی رہی تھی اگر وقاص جلدی سے بھاگ کر اسے نہ پکڑتا اور اسے قابو نہ کرتا تو آج خالدہ صاحبہ کو کسی بھی قسم کا خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔
     ”یہ کیوں آئی ہیں یہاں؟ میرے خلاف باتیں کرنے آئی ہیں، ان کی ہمت کیسے ہوئی مجھے برا بھلا کہنے کی؟“ وہ ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی۔
     ”نویدہ پاگل نہ بنو، ہوش میں آؤ، یہ کیا کر رہی ہو؟“ وقاص گرجا۔ اس نے مضبوطی سے نویدہ کو تھاما ہوا تھا۔ گلدان اس نے کھینچ کر دور پھینک دیا تھا۔
     ”پاگل میں ہوں یا تم۔۔۔۔ تم نے انھیں گھر کے اندر کیوں آنے دیا؟“ وہ غصے سے چیختی رہی۔
     ”آنٹی ہیں میری، امی کی سہیلی ہیں، کیا انھیں واپس بھیج دیتا؟“ وقاص چلایا۔
     ”ہاں بھیج دیتے، تم نے دروازہ کیوں کھولا؟“ وہ بدستور چیخے جا رہی تھی۔ خالدہ بیگم سے یہ سب برداشت نہ ہوا تو وہ روتے ہوئے اس گھر سے نکل گئیں۔
     وہ اپنے گھر پہنچیں تو سجاول اور ریحان کیرم بورڈ کھیلنے میں لگے ہوئے تھے۔ ریحان نے اپنی امی کو یوں روتے ہوئے دیکھا تو سمجھ گیا کہ نویدہ بھابھی نے اس کی امی کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔
     ”امی آپ کو وہاں نہیں جانا چاہیے تھا۔“ وہ کھیل چھوڑ کر امی کی طرف بڑھا۔ سجاول نے بھی کھیلنا چھوڑ دیا تھا۔
      ”جی آنٹی! میری بھابھی ہیں ہی ایسی، ان سے کسی اچھے سلوک کی توقع نہیں کی جا سکتی۔“ سجاول بولا۔
     ”جی بیٹا! جب انسان اکڑ میں آ جائے تو آنکھوں پر پٹی بند جاتی ہے، اسے کچھ ہی نظر نہیں آتا۔ تمھاری بھابھی کا بھی یہی حال ہے، اس لیے میں اس گھر میں قدم نہیں رکھتی۔“ خالدہ بیگم بولیں۔
     ”اچھا آنٹی اب میں چلتا ہوں۔“ سجاول نے اجازت چاہی۔
     ”کہاں بیٹے؟ اس گھر جہاں تمھارا کوئی ہے ہی نہیں، وہ گھر جو شمیم (سجاول کی والدہ) کے بعد سونا سونا لگتا ہے۔ میری سہیلی نے اتنی چاہت سے وہ گھر بنایا تھا مگر تمھاری بھابھی نے اسے جہنم بنا ڈالا، جہاں تم بھی سکھ سے نہیں رہ سکتے۔“ وہ آنکھوں کو آنسوؤں سے صاف کرتے ہوئے بولیں۔
     ”نہیں آنٹی! گھر جیسے بھی ہے، ہے تو میرا اپنا گھر ناں۔۔۔ میرے بچپن کی آوازیں اس گھر میں گونجی ہیں۔ میری شرارتیں، میرا کھیل کود اس گھر سے وابستہ ہے، مجھے اس گھر میں گزرا ایک ایک لمحہ یاد آتا ہے۔ نہیں آنٹی میں ضرور جاؤں گا اپنے گھر، اس گھر کے مکین میرے نہیں ہیں، پر گھر تو میرا اور میرے بھائی کا ہی ہے نا۔۔۔۔ میں جا رہا ہوں آنٹی۔“ وہ آنکھوں میں آنسو چھپائے ریحان کے گھر سے نکل پڑا۔
     بوجھل قدموں کے ساتھ وہ سڑک پر چلتے ہوئے اپنے گھر کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔ اس کے قدم من بھر کے ہوگئے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ وہ کسی انجان راستے کی طرف چل پڑا ہے۔ وہ راستہ جو اسے گھر کی طرف نہیں لے کے جائے گا۔ وہ راستہ جو اسے منزل مقصود کی طرف کبھی نہیں پہنچائے گا۔
     ”کہاں ہے میری منزل، کہاں ہے میرا راستہ۔۔۔؟“ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو پکڑ کر چیخ پڑا۔
     ”خیر تو ہے بیٹا۔“ بابا دینو نے اسے یوں دیکھا تو اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بولے۔ بابا دینو اس کے محلے کی بزرگ شخصیت تھے۔ ہر کوئی ان کا ادب کرتا تھا۔ بابا دینو بھی سجاول کے حال سے واقف تھے۔
     ”وہ۔۔۔۔ وہ بابا میرا گھر، میری منزل، کہاں ہیں یہ سب؟ مجھے میرا راستہ نہیں مل رہا۔“ وہ بابا دینو کا ہاتھ پکڑ کر رو پڑا۔
     ”بیٹا تم اپنے گھر کے پاس ہی کھڑے ہو، یہ دیکھو یہی تو ہے تمھارا گھر۔“ بابا دینو نے اس کے گھر کی طرف اشارہ کیا، اس نے سامنے دیکھا وہ اسے گھر نہیں ایک قبرستان ہی لگ رہا تھا۔
قسط نمبر 4
     وہ ٹکٹکی باندھے اپنے گھر کو دیکھتا رہا۔ آنسوؤں کی ایک لمبی جھری اس کے گالوں پر بہہ رہی تھی۔
     ”بابا جب اپنے ہی گھر کے رہنے والے پرائے ہو جائیں تو کیا وہ گھر ہمارا ہوتا ہے؟ یا وہ گھر گھر ہوتا ہے؟ بتاؤں نا بابا۔“ وہ روتے ہوئے بولتا رہا۔
     ”نا بیٹا نا روتے نہیں، مجھے تو تمھاری حالت بہتر نہیں لگتی۔ جاؤ اپنے گھر میں آرام کرو۔“ بابا دینو اسے پیار کرتے ہوئے بولے۔ وہ روتا ہوا اپنے گھر کے اندر داخل ہو گیا۔
     ”آ گئے ادھر ادھر منھ مار کے۔“ بھابھی نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا، وہ بھابھی کو توجہ دیے بغیر ہی اپنے کمرے میں چل پڑا۔
     ”شکر ہے کہ بھابھی نے کچھ نہیں کہا تھا ورنہ وہ تو چھوٹی سے چھوٹی بات پر ہنگامہ کھڑا کر دیتی تھی۔“ اس نے میز پر رکھے کیلنڈر کی طرف دیکھا جہاں 18 فروری لکھا ہوا تھا اور ساتھ اسلامی تاریخ بھی درج تھی 26 رجب۔۔۔
     ”تو اچھا یہی بات ہے کہ بھابھی نے آج کچھ نہیں کہا۔ یعنی کہ آج کی رات 27 رجب بڑی بابرکت والی رات ہے۔ معراج النبی ﷺ یہی وہ رات تھی جس دن ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ نے آسمانوں کی سیر کی اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی۔ شاید بھابھی کے دل میں اسی رات کی نسبت سے کچھ نرمی پیدا ہوگئی تھی۔ مگر اس عارضی تبدیلی کا کیا فائدہ؟ انسان تو ہمیشہ ناشکرا ہی ہے کوئی بھی عبادت کا تہوار آتا ہے صرف اسی دن ہی عبادت کرتا ہے۔ باقی کے دن تو عیش و عشرت اور شیطان پرستی میں گزار دیتا ہے۔ شاید بھابھی بھی انھیں میں سے ایک تھی۔ یہ 27 رجب کی رات کا ہی اثر تھا کہ ان کے اندر معمولی سی تبدیل آئی ہوئی تھی۔“ یہ سوچتے ہوئے وہ اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔
     رات آہستہ آہستہ ڈھل رہی تھی، بہت سے لوگ عبادات میں مصروف تھے۔ سجاول نے بھی وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر بیٹھ گیا۔ وہ اپنے رب کے حضور سربسجود ہو گیا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ کوئی ایک ایسی ہستی ضرور ہے جو بندوں کی پریشانیاں دور کرتی ہے۔ جو اس دنیا کا اکیلا مالک ہے۔ جس کے حکم کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ ہستی جو ماں سے ستر گنا زیادہ اپنے بندوں سے پیار کرتی ہے اور انھیں ہر قسم کی پریشانی اور مصیبتوں سے بچاتی ہے۔ ہاں وہی ہے اللہ جو ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے جو کچھ کہتا ہے، وہ ہو جاتا ہے۔ ایک وہی تو ہے سب کا آقا، یہ دنیا تو بس اسی کی محتاج ہے، وہی سب سے زیادہ طاقت ور اور عظیم ہے۔
     سجاول رو رو کر اپنے اللہ سے اپنے لیے دعائیں مانگ رہا تھا۔ وہ اللہ سے اپنے لیے آسانیاں مانگ رہا تھا۔ مشکل وقت سے پناہ مانگ رہا تھا، اس وقت جب اللہ تعالیٰ تمام بندوں کی سنتا ہے۔ صبح کی اذانوں سے اس کی عبادت کا تسلسل ٹوٹا تو وہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد کی طرف چل پڑا۔
     نماز پڑھ کر گھر آیا تو اتوار ہونے کی وجہ سے اسے چھٹی تھی۔ اسے یقین تھا کہ ناشتہ تو ملے گا ہی نہیں اس لیے نماز پڑھنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آ کر سو گیا ۔ رات جاگنے کی وجہ سے وہ فوراً ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا۔ گھر والوں کو تو اس کی کوئی پروا ہی نہیں تھی۔ انھیں یہ بھی پتہ نہ ہوتا تھا کہ سجاول گھر میں ہے یا نہیں اور اگر وہ گھر میں ہے تو کس حال میں ہے؟
اس کی آنکھ اس وقت کھلی جب ریحان نے اسے فون کیا تھا۔ موبائل کے بجنے سے وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ اس نے موبائل کا بٹن اوکے کیا اور ریحان کی کال سننے لگا۔ ریحان کی طرف سے بتائی جانے والی بات اس کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔ وہ حیرت سے اپنی جگہ سے اچھل پڑا تھا۔ ایسے جیسے اسے کرنٹ لگ گیا ہو۔ اس کے چہرے کے رنگ بدلتے جا رہے تھے۔
قسط نمبر 5
     ”کیا کہہ رہے ہو ریحان؟“ وہ گھٹی گھٹی انداز میں بولا۔
      ”ہاں۔۔ ہاں صحیح کہہ رہا ہوں، تمھاری بھابھی امی سے ملنی آئی ہیں۔ اپنے کل کے رویے پر معافی مانگنے، میں نے خود اپنی آنکھوں سے انھیں امی جان سے معذرت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا مگر جو کچھ دیکھا ہے وہی بتا رہا ہوں۔“ ریحان بم پھوڑتے ہوئے بولا۔
     ”بھابھی اور معذرت! ارے یہ دونوں چیزوں کا کمبینیشن کیسے ہو گیا؟“ وہ گلا کھنکارتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر بولا۔
      ”کوئی بات نہیں کبھی کبھی انہونی بھی ہو جاتی ہے۔ اچھا میں تمھیں بعد میں فون کرتا ہوں۔“ یہ کہہ کر ریحان نے کال کاٹ دی۔ جب کہ سجاول ادھر ادھر دیکھتا رہا ایسے جیسے اسے یقین ہی نہ آیا ہو۔
     تھوڑی دیر بعد وہ کمرے سے نکلا تو  بھابھی کو اپنا منتظر پایا۔
     ”سجاول کھانا کھاؤ گے؟“ وہ باہر نکل ہی رہا تھا کہ بھابھی کی آواز کانوں میں پڑی۔ اسے یہ لمحے بالکل ناقابل یقین لگے۔ اچانک بھابھی کا رویہ چینج ہو گیا تھا۔
     ”جی بھابھی۔۔۔۔“ وہ بمشکل بولا، آج کتنے عرصے بعد اس کے منھ سے لفظ بھابھی نکلا تھا۔ اور کتنے ہی عرصے بعد اس کے کانوں نے بھابھی کی پیار بھری آواز سنی تھی۔ اسے لگا کہ اس کی دنیا ہی بدل گئی ہے۔ وہ کائنات میں اپنے آپ کو خوش نصیب محسوس کر رہا تھا۔
      ”کہیں میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا؟“ یہ جاننے کے لیے اس نے اپنی انگلی اپنے منھ میں دبانا چاہی، اس سے پہلے کہ وہ اپنی انگلی منھ میں دباتا، بڑے بھائی کا زور دار تھپڑ اس کے منھ پر پڑا تب اسے یقین ہوا کہ یہ حقیقت نہیں بلکہ خواب ہی تھا۔ کیوں کہ بھائی کا تھپڑ خواب میں لگنے سے اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔ اس نے گھڑی پر ٹائم دیکھا تو دن کے دو بج رہے تھے۔ تب اسے یاد آیا کہ وہ تو ساری رات عبادت کرتا رہا، رات بالکل نہ سونے کی وجہ سے اس کی نیند اب مکمل ہو چکی تھی۔ اس نے جلدی سے ریحان کو فون کیا یہ سوچ کر کہ کہیں خواب سچ نا ثابت ہوا ہو۔ اس نے ریحان سے پوچھا۔ ”کیا میری بھابھی تمھارے گھر آئی تھیں؟“
     ریحان نے نفی میں جواب دیا تب سجاول نے ریحان کو اپنے خواب کے بارے میں بتایا تو دونوں دوست کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
اسے پکا یقین ہو گیا تھا کہ بھابھی اور معذرت کبھی اکھٹے نہیں ہو سکتے۔
      سجاول نے موبائل آف کیا۔ اور فریش ہونے واش روم چلا گیا اسے زوروں کی بھوک بھی لگ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ریحان کے گھر تھا جہاں دونوں دوست مل کر کھانا کھا رہے تھے۔
     اسے کھانا وہاں کھاتے ہوئے شرم تو آتی تھی مگر وہ مجبور تھا۔ باہر کا کھانا کیسے کھاتا؟ ایک تو وہ ابھی پڑھ رہا تھا اس لیے وہ مستقل جاب نہیں کر سکتا تھا۔ فرض کرو اگر کوئی جاب بھی ہوتی تو بندہ کب تک باہر کے کھانے کھاتا ہے؟ اس لیے وہ مجبوراً ریحان کی طرف کھانا کھاتا اور زیادہ تر وہیں رہتا۔
     اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا وہ کسی بھی طرح اپنی پڑھائی نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اس نے اپنے والدین کے خوابوں کو پورا کرنا تھا۔ جو اس کے والدین اپنی آنکھوں میں بسائے اس دنیا کو چھوڑ کر جا چکے تھے، اس نے ڈاکٹر بننا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ابھی مستقل نوکری نہیں کر سکتا تھا۔
     ”کیا سوچ رہے ہو؟“ ریحان نے اسے گم صم دیکھا تو اسے جھنجھوڑا۔
       ”کچھ نہیں۔“ اس نے پلکیں جھپکائیں۔
      ”مجھے پتہ ہے کہ تم کیا سوچ رہے ہو؟ تم اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہو نا۔“ ریحان اس کے قریب آتے ہوئے بولا۔ وہ چپ کر کے کھڑا رہا۔ اس  نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ریحان نے اسے زور سے کھینچا اور گلے سے لگایا پھر بھینچتے ہوئے بولا۔
     ”او میرے جگری یار پریشان نہ ہو، میں ہوں نا۔“ ریحان نے اسے کہا۔  تو وہ ہنس پڑا۔ اس کے بعد اس نے ریحان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو وہ پریشان ہو گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ریحان اچانک کیوں رونے لگ گیا ہے؟ اس نے غور سے ریحان کی آنکھوں میں دیکھا ایسے جیسے اسے حقیقت کا پتہ چلتا گیا ہو۔
قسط نمبر 6
     وہ ریحان کے قریب آیا۔ حقیقت جان کر بھی وہ وجہ پوچھے بنا نہیں رہ سکا۔
     ”تمھاری آنکھوں میں آنسو کیوں نکل آئے ہیں؟“ سجاول اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔
     ”بس ویسے ہی۔“ اس نے دھیرے لہجے میں جواب دیا۔
     ”انکل کی تمھیں یاد آ رہی ہے نا۔ کوئی بات نہیں ہم سب نے ایک نہ ایک دن یہ دنیا چھوڑ کر جانا ہی ہے، تمھاے پاس تو وہ ہستی بھی ہے جس کے پاؤں تلے جنت ہے۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ تم خوش نصیب ہو کہ تمھارے پاس بڑا بھائی بھی نہیں ہے۔ میرے بڑے بھائی کو دیکھ لو، ماں باپ نہیں ہیں تو میرے لیے اجنبی بنا ہوا ہے۔ سچ کہتے ہیں دنیا میں اگر بغیر غرض یا لالچ کے کوئی محبت کرتا ہے نا وہ والدین ہی ہیں۔ والدین کے سوا کوئی بھی ہمیں چاہنے والا یا ہمیں پیار کرنے والا نہیں  ہوتا۔ صرف والدین کا رشتہ سچا ہوتا ہے باقی سب مطلبی اور جھوٹے رشتے ہوتے ہیں۔ “ وہ بھی ریحان کے کندھوں پر سر رکھے رونے لگا۔
     تھوڑی دیر بعد دونوں کے دل کا غبار ہلکا ہوا تو دونوں چپکے سے ٹی وی لاؤنج کی طرف آ گئے جہاں ریحان کی امی خالدہ ڈنر کی تیاری کرنے میں مصروف تھیں۔
     ”آؤ بیٹا کھانا کھا لو۔ کھانا بالکل تیار ہے۔“ خالدہ صاحبہ نے انھیں دیکھا تو کہا۔ دونوں چپکے سے ڈنر کرنے لگے۔
     کھانا کھانے کے بعد سجاول تو اپنے گھر چلا گیا جب کہ ریحان اپنے کمرے میں آ کر سو گیا۔
   راستے میں سجاول کی ملاقات بابا دینو سے ہوئی تو بابا دینو اس سے کل والی حالت کے بارے میں پوچھے بغیر رہ نہ سکے۔
     ”پتر کل خیر تھی؟ کیا ہو گیا تھا تجھے؟ تو تو بڑی ادسی والی باتیں کر رہا تھا۔“
     ”جی بابا! بعض دفعہ حالات انسان کو اندھیرے میں جینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ورنہ کون انسان یہ نہیں چاہے گا کہ وہ اچھی اور خوش حال زندگی گزارے؟ یہ جو معاشرے میں رہنے والے ہمارے اپنے اور سگے خون ہوتے ہیں نا یہی ہمارے گلے کاٹتے ہیں۔ ہمارے راستوں میں یہی کانٹے بچھاتے ہیں۔“ وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ بابا دینو اس کی بات کا اشارہ سمجھ گئے تھے۔
      ”کچھ نہیں بیٹا صبر کرو۔ اس دنیا میں صبر کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں۔ اللہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے مگر اس کے بندے اللہ کی ناشکری کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے، تو پریشان نہ ہو اللہ جو کرے گا بہتر کرے گا۔“ انہوں نے سجاول کا کندھا تھپتھپایا اور آگے بڑھ گئے جب کہ سجاول اپنے گھر چلا گیا۔
     صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ پھر بخار میں تپ رہا تھا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر وہ نہ اٹھ سکا۔ اس کا جسم درد کر رہا تھا۔ نقاہت پورے جسم میں بھری ہوئی تھی، یونیورسٹی جانے کی اس کے اندر ہمت نہیں تھی۔ سو وہ مجبوراً لیٹا رہا۔ اس سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ وہ رہحان کو کال کر لیتا سو وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں اپنے بستر پر سویا رہا۔
******* 
فون مسلسل بج رہا تھا جب کہ وہ بے ہوشی کے عالم میں سویا ہوا تھا، اسے دنیا جہاں کی کوئی خبر ہی نہیں تھی۔ ریحان پریشان تھا کیوں کہ سجاول اس کی کال اٹینڈ نہیں کر رہا تھا۔ آدھا دن گزر گیا۔ اس آدھے دن میں ریحان نے کئی دفعہ کالیں اسے کر لی تھیں۔ مگر وہ تھا کہ کال اٹینڈ نہیں کر رہا تھا آخر کار ریحان کے موبائل کی بیٹری ختم ہوگئی۔ اس نے غصے سے موبائل کو اپنی جیب میں ڈالا اور پریشانی سے مٹھیاں بھیچنے لگا، وہ فوراً گھر بھی نہیں جا سکتا تھا کیوں کہ یونیورسٹی آف ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ وہ یونیورسٹی میں سجاول کا انتظار کرتا رہا مگر جب کافی ساری دیر گزر گئی اور سجاول نہیں آیا تو وہ پرہشان ہو گیا، وہ نہیں جانتا تھا کہ سجاول کی طبیعت خراب ہے وہ کچھ اور ہی وجہ سمجھ رہا تھا، وہ مسلسل سجاول کو کال کرتا رہا۔ مگر سجاول نے اس کی کالز اٹینڈ نہیں کی تھیں۔ پھر اچانک ہی اس کی آنکھوں نے وہ منظر دیکھا۔ جس سے اس کی آنکھیں پریشانی سے پھیل گئیں تھیں۔ اور وہ ادھر ہی دیکھتا رہا۔
قسط نمبر 7
     اس نے سجاول کے بھائی وقاص کو کالج سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا۔
     ”اوہ یہ یہاں کیسے آ گئے؟ کہیں یہ سجاول کی کوئی جھوٹی شکایت لگانے تو نہیں آ گئے۔ ضرور کوئی گربڑ ہے اور آج سجاول کالج بھی نہیں آیا۔ میں اس سے کال کرکے پوچھتا ہوں۔“ یہ سوچ کر اس نے اپنی جیب سے موبائل نکالنا چاہا۔
     ”اوہ شٹ! موبائل کی بیٹری تو ختم ہے۔ بیٹری نے بھی اب ختم ہونا تھا۔“ اس نے غصے سے اپنے ہاتھ کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا۔ اس دوران کالج کا ٹائم آف ہو گیا تو وہ گھر کی طرف چل پڑا، سارے راستے اسے یہ فکر لاحق رہی کہ سجاول کا بھائی وقاص کالج کیا کرنے آئے تھے؟
     گھر پہنچ کر سب سے پہلے تو اس نے اپنا موبائل چارج پر لگایا۔ پھر فریش ہونے کے لیے واش روم چلا گیا تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اتنی دیر میں موبائل کسی حد تک چارج ہو چکا تھا۔ اب اس سے مزید صبر نہیں ہو سکتا تھا۔ اس نے جلدی سے سجاول کو کال ملائی۔
*******
     سجاول کی طبیعت زیادہ خراب ہوتی جا رہی تھی۔ مگر اسے کچھ حد تک ہوش آ گیا تھا لیکن پھر بھی وہ اس قابل نہیں تھا کہ وہ اٹھ کر چل سکتا، اس سے تو بیٹھنا بھی محال ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ اس نے اسکرین کی طرف دیکھا تو ریحان اسے کال کر رہا تھا۔ اس نے بٹن آن کرکے جلدی سے موبائل کانوں تک لگایا۔ پھر آہستہ آواز میں بولا۔ ”ہاں ریحان کیا کہتے ہو؟“
     ”کیا ہو گیا ہے یار؟ صبح سے تمہیں کتنی دفعہ فون کر چکا ہوں، مجال ہے کہ تم اٹھانے کا نام لو۔“ ریحان اس سے شکوہ کر رہا تھا۔
     ”ہاں یار طبیعت ٹھیک نہیں، بہت تیز بخار ہے اور تھکاوٹ بھی محسوس کر رہا ہوں۔ ہلکے ہلکے چکر بھی آ رہے ہیں۔ چلنا بھی محال ہو رہا ہے۔“ وہ بمشکل بول رہا تھا۔
     ”اوہ کیا ہو گیا ہے تمھیں؟“ جو بات بتانے کے لیے ریحان نے سجاول کو فون کیا تھا وہ بات اس کی بیماری کا سن کر وہ بھول گیا۔
     ”یار مجھے کچھ ہوش نہیں، بار بار نیند آرہی ہے۔“ اس نے ریحان کو بتایا۔ ریحان اس کی بیماری کا سن کر پریشان ہو گیا۔
      ”تم کسی نہ کسی طرح اپنے گھر سے باہر آؤ، میں موٹر سائیکل لے کر ابھی آ رہا ہوں۔ وہی سے ہی تمھیں ہسپتال لے جاؤں گا۔“ ریحان نے یہ کہتے ہوئے موبائل آف کیا اور جلدی سے موٹر سائیکل نکالنے لگا۔ جانے سے پہلے وہ امی کو ساری حقیقت بتانا نہیں بھولا تھا۔ اس کی امی نے دونوں کو دعاؤں سے نوازا پھر سجاول کی صحت یابی کے لیے خصوصاً دعائیں کرنے لگیں۔
     ریحان جب سجاول کے گھر کے سامنے پہنچا تو سجاول بڑی مشکل سے اپنے گھر کے مین گیٹ سے نکل رہا تھا۔ وہ سجاول کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ واقعی سجاول بڑی مشکل سے چل رہا تھا۔
     ”تم خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہو۔ تمھیں خود اپنی پروا نہیں ہے۔“ ریحان غصے سے بول رہا تھا۔ وہ سر جھکائے ریحان کا غصہ دیکھتا رہا۔
     ”چلو بیٹھو موٹر سائیکل پر۔“ ریحان نے تحکمانہ انداز اختیار کیا تو وہ جلدی سے موٹر سائیکل پر ریحان کے پیچھے بیٹھ گیا۔ ریحان نے تیزی سے موٹر سائیکل سٹارٹ کی، موٹر سائیکل بجلی کی طرح چل پڑی، اگلے ہی لمحے وہ دونوں ہسپتال میں موجود تھے، ڈاکٹر نے سجاول کا چیک اپ کرنے کے بعد ریحان کو بتایا کہ ”الحمدللہ سجاول کو کوئی بیماری نہیں ہے لیکن اس کی یہ حالت خوراک کی کمی کی وجہ سے ہو جاتی ہے اگر یہ وقت پر مناسب مقدار میں بلا ناغہ کھانا کھائے تو یہ تندرست رہ سکتا ہے۔ بس اس کے کھانے پینے کا خیال کریں۔“ ڈاکٹر صاحب کو اب سجاول کے گھریلو حالات کا کہاں پتہ تھا۔ انھوں نے کچھ دوائیاں لکھ کر دونوں کو رخصت کر دیا۔ سارے راستے ریحان نے سجاول سے کوئی بات نہیں کی۔ وہ چپ چاپ موٹر سائیکل چلاتا رہا اس انداز میں جیسے سجاول سے ناراض ہو۔ اچانک ہی سجاول نے ریحان کو موٹر سائیکل روکنے کا کہا۔ ریحان حیران تھا کہ سجاول نے موٹر سائیکل کیوں روکنے کے لیے کہا ہے؟
قسط نمبر 8
     ریحان نے سجاول کو موٹر سائیکل پر لگے مرر میں دیکھا جہاں اس کاچہرہ واضح نظر آ رہا تھا۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی موٹر سائیکل روک دی۔ ایسے جیسے پوچھنا چاہ رہا ہو کہ تم نے مجھے موٹر سائیکل روکنے کے لیے کیوں کہا؟
     ”دیکھو تم مجھ سے ناراض کیوں ہو؟“ سجاول ریحان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ ریحان خاموش کھڑا رہا۔
     ”بتاؤ ریحان تم مجھ سے کیوں ناراض ہو؟“ سجاول ہر ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا۔ سجاول اس کی آنکھوں میں اپنے لیے ناراضی دیکھ چکا تھا۔
     ”جب تم اپنا خیال نہیں رکھو گے۔ کھانا وقت پر نہیں کھاؤ گے تو یہ سب تو ہو گا نا۔۔۔ تم نے سنا نہیں ڈاکٹر کیا کہہ رہا تھا؟ تم اپنی اس حالت کے ذمہ دار خود ہو۔“ ریحان غصے سے بول رہا تھا۔ پھر اچانک ہی اس کا غصہ ہلکا ہوا اور وہ دھیرے لہجے میں بولا۔ ”دیکھو تم مجھے سب سے زیادہ عزیز ہو، تمھارے دکھ، تمھاری تکلیفیں، یہ سب میری ہی ہیں۔ تمھیں کسی تکلیف میں دیکھتا ہوں نا تو اک پل چین نہیں رہتا۔ ارے میرے بس میں ہو نا اپنی زندگی کی ساری خوشیاں تمھارے نام کر دوں۔ وعدہ کر مجھ سے کہ آج کے بعد تو اپنے آپ کو بھوکا نہیں رکھے گا۔ سارا دن تو نے کچھ نہیں کھایا تو تیری ایسی حالت ہو گئی۔ تو کیا سمجھتا ہے تیرا کوئی نہیں ہے؟ تو لاوارث ہے کیا؟ ارے میں ہوں ناں تیرا دوست، تیرا بھائی۔ اب کر مجھ سے وعدہ۔“ ریحان نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑا پھر اسے گلے لگاتے ہوئے بولا۔ ”چل اب گھر، تجھے پیٹ بھر کر کھانا کھلاتا ہوں۔“ سجاول کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے اسے آج احساس ہوا تھا کہ ریحان اس سے کتنی محبت کرتا ہے؟ ”جب میرے پاس ریحان جیسا قدر کرنے والا، میری تکلیفوں میں تڑپنے والا میرا دوست ہے تو پھر مجھے کیوں فکر ہو سکتی ہے؟ ایسے دوست تو خوش نصیب لوگوں کو ملتے ہیں۔ پھر میں کیوں اپنے آپ کو بد نصیب تصور کر رہا ہوں؟ میں کیوں سوچوں کہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں، میں اکیلا ہوں۔ میرا اس دنیا میں اب سب کچھ میرا دوست ہی تو ہے۔“ وہ ابھی تک ریحان کے گلے لگا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بدستور جاری تھے، دونوں دوست پھر موٹر سائیکل پر بیٹھے اور چل پڑے۔ ریحان سجاول کو اپنے گھر ہی لے آیا تھا۔
     سب سے پہلے تو سجاول نے خوب جی بھر کر کھانا کھایا، پھر دوائی کھائی تو وہ کچھ حد تک ہشاش بشاش ہو گیا، ریحان اس کے چہرے پر سجی مسکراہٹ دیکھ کر خوش ہو گیا۔ پھر اچانک ہی اسے کچھ خیال آیا اور وہ سجاول سے بولا۔
     ”جو بات صبح بتانے کے لیے میں نے تجھے فون کیا تھا۔ تیری بیماری کا تو سن کر میں وہ بات بتانا ہی بھول گیا۔“
     ”کون سی بات۔۔۔۔؟“ سجاول حیران ہوا۔
     ”ارے آج صبح میں نے تمھارے بھائی کو یونیورسٹی میں دیکھا تھا۔ پتہ نہیں وہ کیا کرنے آئے تھے مجھے تو کچھ گربڑ لگ رہی تھی۔ کہیں وہ تمھاری شکایت لگانے ہی نہ آئے ہوں۔“ ریحان حیرانی سے بول رہا تھا۔
      ”ارے نہیں وہ اپنی سالی کا ایڈمیشن کروانے آئے ہوں گے، روزانہ آتی ہے ہمارے گھر اور بڑے بھائی کا سر کھاتی ہے۔ اب چوں کہ یونیورسٹی کے داخلے اوپن ہیں تو وہ اسی کا ہی داخلہ کروانے آئے ہوں گے۔“ سجاول نے ایک نئی بات بتائی۔
     ”ارے باپ رے! تیرے بھائی کی سالی، مطلب تمھاری بھابھی کی بہن۔“ ریحان حیران ہوتے ہوئے بولا۔
      ”ہاں تو اور کیا؟ اس میں حیران ہونے والی کون سی بات ہے؟“ سجاول بھی حیرانی سے بولا۔
     ”واہ گھر میں تمھاری بھابھی اور یونیورسٹی میں تمھاری بھابھی کی بہن، تو تو گیا سجاول اب۔ گھر میں تیری بھابھی نے تیرا جینا حرام کر رکھا ہے اور یونیورسٹی میں وہ تجھے کھا جائے گی۔“ ریحان ہنستے ہوئے بولا وہ اتنا ہنسا، اتنا ہنسا کہ اس کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ سجاول اس کی آنکھوں میں آئی شرارت پڑھ چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ سجاول کوئی جواب دینے کے لیے اپنا منھ کھولتا اس نے ریحان کو بیڈ پر گرتے ہوئے دیکھا۔
قسط نمبر 9
ریحان اتنا زور سے بیڈ پر گرا تھا کہ کوئی دوسرا دیکھتا تو وہ پریشان ہو جاتا۔ ہنسی اس کی ابھی تک نہیں رک رہی تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے سجاول نے اسے کوئی فنی لطیفہ سنا دیا ہو۔
     ”اب بس کر دو۔“ سجاول ریحان سے گویا ہوا۔
     ”تو نے بات ہی ایسی بتائی ہے کہ ہنسے بنا رہا نہیں جاتا، دیکھ لیں گے تمھاری بھابھی کی بہن کی کارستانیاں۔“ وہ اب بھی ہنس رہا تھا۔ اچانک ہی خالدہ صاحبہ نمو دار ہوئیں تو ریحان کی ہنسی کو بریک لگ چکی تھی۔
     ”شکر ہے خدا کا، اس کی ہنسی تو بند ہوئی۔“ سجاول نے دل میں  سوچا۔
     ”آؤ بچو ڈنر کر لو، آج تو میں نے سجاول کی پسند کا کھانا بنایا ہے۔“ خالدہ صاحبہ نے کہا تو ریحان خوشی سے جھوم اٹھا۔
     ”مطلب آلو کوفتے اور اس کے ساتھ ساتھ مرغ پلاؤ بھی۔“ ریحان ناچنے لگا۔ جب کہ سجاول مسکرا کر رہ گیا۔ تھوڑی دیر بعد سارے کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے۔
*****
     ”میں یہ کھانا بالکل نہیں کھاؤں گا۔“ سجاول نے سالن کا برتن اپنے آگے سے ہٹا لیا۔ اس نے سالن کا برتن اتنی زور سے آگے کیا تھا کہ سارا سالن برتن سے اچھل کر نیچے گر پڑا۔ جس کے کچھ چھینٹے ریحان کے کپڑوں پر بھی گر گئے تھے۔ یہ سب کچھ اتنا آناً فاناً ہوا تھا کہ کسی کو کچھ پتہ بھی نہ چل سکا۔
     خالدہ بیگم حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ ریحان کو بھی اس سے اس حرکت کی بالکل توقع نہیں تھی۔ وہ بھی آنکھیں پھاڑے سجاول کو دیکھ رہا تھا۔ سجاول کا رد عمل ان سب کو عجیب لگ رہا تھا۔
     ”نہیں بیٹے ایسا نہیں کرتے۔“ شمیم بیگم نے اسے سمجھایا۔
     ”کوئی بات نہیں شمیم! بچہ ہے، پوچھو اس سے کیا کھائے گا؟“ خالدہ بیگم نے پوچھا۔
     ”خالدہ! یہ آلو کوفتے بہت شوق سے کھاتا ہے، صبح سے ہی اس نے رٹ لگائی ہوئی تھی کہ آنٹی کو کہو کہ وہ آلو کوفتے بنائیں۔“ شمیم بیگم نے جواب دیا۔
     ”تو مجھے بتا دیتیں، میں بنا لیتی، اب بچے کا دل تھوڑی توڑنا ہے؟“ خالدہ بیگم نے کہا۔
      ”وہ۔۔۔۔ وہ خالدہ! آب آپ نے دعوت پہ بلایا تھا تو میں کیسے کہتی کہ آپ ہماری پسند کا کھانا بنائیں؟ کیا ایسا کرنا کوئی اچھا لگتا ہے؟ دعوت کرنے والے کو جس طرح آسانی ہو وہ دعوت کرتا ہے۔ مہمانوں کو زبردستی میزبانوں سے اپنی پسند کی چیزیں نہیں بنوانی چاہیے۔ ہمارا مذہب اسلام تو ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے۔ اب بچے کیا جانیں؟ مجھے نہیں پتہ تھا کہ سجاول ایسا کرے گا۔ میں تو سمجھی کہ بچہ ہے وہیں جا کر سب بھول جائے گا۔ میں سجاول کی اس حرکت پر معذرت کرتی ہوں۔“ شمیم بیگم نے معذرت والے انداز میں کہا۔
     ”کوئی بات نہیں شمیم! تم کہاں کی مہمان ہو؟ تم اس گھر کو اپنا گھر ہی سمجھو، ساری دوستی بھول گئی ہو، اب جب ہم ایک دوسرے کے گھر جائیں گے تو کیا مہمان بن کر جائیں گے؟ اچھا میں ابھی سجاول بیٹے کے لیے آلو اور کوفتے بنا دیتی ہوں۔ قیمہ بھی پڑا ہے اور آلو بھی۔ اور ساتھ مرغ پلاؤ بھی تیار ہے۔ بس تمھیں ذرا میری تھوڑی سی ہیلپ کرنا ہوگی تاکہ جلدی سے سب کچھ تیار ہو جائے۔“ خالدہ بیگم نے شمیم بیگم کو کہا تو دونوں مسکرانے لگیں۔
      ”سجاول! یہ تھوڑا سا کھانا کھا لو، آلو کوفتے بنانے میں ذرا دیر لگے گی۔ جیسے ہی کھانا بنے گا میں اپنے بچے کو کھلاؤں گی۔“ خالدہ بیگم نے سجاول کو پیار کرتے ہوئے کہا تو سجاول خوشی سے جھومنے کے ساتھ ساتھ چلا اٹھا۔
     ”دیکھا مما میں نے کہا تھا نا کہ آنٹی کو کہو تو وہ ضرور میری پسند کا کھانا بنائیں گی۔ مگر آپ نے میری بات نہیں مانی۔“ سجاول نے تھوڑا ناراض ہوتے ہوئے کہا تو سارے اس معصوم کی باتیں سن کر ہنسنے لگے۔ اور آج بھی وہی خالدہ بیگم سجاول کو اپنا بیٹا ہی سمجھتی تھیں۔ آج انہوں نے اس کے کہے بنا ہی اس کی پسند کا کھانا بنایا لیا تھا۔
قسط نمبر 10
     خالدہ بیگم سجاول کو بڑی رغبت سے کھانا کھاتے ہوئے خوشی سے دیکھ رہی تھیں۔ ان کو بھی سجاول سے اپنے ریحان کی طرح ہی انسیت تھی۔ پسند تو وقاص کو بھی کرتی تھیں۔ آخر دونوں ان کی مرحومہ سہیلی شمیم کی اولاد تھے۔ انہوں نے اپنی جان سے بڑھ کر اپنی سہیلی کو چاہا تھا۔ دونوں سہیلیاں ایک دوسرے پر جان چھڑکتی تھیں۔ بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے جوانی، جوانی سے بڑھاپا، بڑھاپا تو خیر ابھی تک آیا ہی نہیں تھا۔ اسی بات کا تو خالدہ بیگم کو افسوس تھا۔ زندگی کے تین مراحل ایک ساتھ گزار دینے والی شمیم چوتھا مرحلہ (بڑھاپا) نہ گزار سکی اور بھری جوانی میں ہی داغ مفارقت دے گئی اور ساتھ ان کا شوہر بھی۔ شوہر تو خالدہ بیگم کے بھی نہیں رہے تھے، وہ بھی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ مگر وہ کہتے ہیں نا کہ اللہ کے کاموں میں کون دخل اندازی کر سکتا ہے؟ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ ہر انسان کی موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جو دن اس کی موت کا لکھا ہے وہ آ کر رہتا ہے۔
     خالدہ بیگم اپنی سہیلی شمیم کو یاد کرکے بہت روتی تھیں۔ اوپر سے جب وقاص نے اپنی بیگم نویدہ کی وجہ سے سجاول سے نظریں پھیریں تو یہ بات ان کو بہت دکھی کر گئی۔ وہ جانتی تھیں کہ وقاص ایسا نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی بیگم کی وجہ سے مجبور ہے۔ کیوں کہ اس کی بیگم اتنہائی لڑاکا عورت تھی، کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتی تھی۔ وہ ہر کسی کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتی تھی۔ دو تین دفعہ تو ساس سے بھی لڑ چکی تھی۔ کیوں کہ جب وقاص کی شادی ہوئی تھی تو اس وقت شمیم بیگم حیات تھیں۔
     شمیم بیگم کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد نویدہ کے تو مزید پر نکل آئے۔ بنا بنایا ساری سہولتوں سے مزین ایک خوبصورت بنگلہ جو اسے مل گیا تھا۔ اور وہ اس کوشش میں رہتی کہ کسی طرح سجاول بھی اس بنگلے سے نکل جائے تاکہ وہ اکیلی اس بنگلے کی مالکن بن بیٹھے، اس لیے اس نے سجاول کا بھی جینا حرام کر رکھا تھا۔
     سجاول اور ریحان کھانا کھا کر فارغ ہو چکے تھے۔ سجاول آج بہت خوش تھا کیوں کہ کافی عرصے بعد اس نے اپنی پسند کا کھانا پیٹ بھر کر کھایا تھا۔ خالدہ بیگم نے اس کو یوں خوشی سے سرشار دیکھا تو مزید دعائیں دیے بنا نہ رہ سکیں۔
     ”اچھا آنٹی اب میں چلتا ہوں، صبح یونیورسٹی جانے سے پہلے یہی آؤں گا، میں اور ریحان اکٹھے یونیورسٹی جائیں گے۔“ وہ ریحان کے گلے لگ پڑا۔ اور خالدہ بیگم سے دعائیں لیتا ہوا گھر کی طرف چل پڑا۔
      ”آج بڑے خوش دکھائی دے رہے ہو۔“ آج بھی بابا دینو اسے راستے میں مل گئے تھے تو  انہوں نے اس سے پوچھا۔
     ”ہاں بابا! جب انسان کو کچھ لوگ چاہنے والے مل جائیں تو اسے اپنی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسے اپنا وجود بیکار نہیں لگتا۔“ سجاول چہرے پر مسکراہٹ سجا کر بولا۔
     ”ہاں بیٹا! دنیا تو مختلف قسم کے لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ کچھ لوگ ہمیں ٹھکڑاتے ہیں تو کچھ لوگ ہمیں چاہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے سامنے ہماری کوئی وقعت نہیں ہوتی اور کچھ لوگوں کے سامنے ہم انمول ہوتے ہیں، دنیا کی تمام قیمتی چیزوں سے بھی بڑھ کر، یہی لوگ ہی ہمارے خیر خواہ ہوتے ہیں، جو ہمیں چاہتے ہیں، جو ہمیں انمول سمجھتے ہیں، جاؤ بیٹا جاؤ اللہ تمھیں سرخرو کرے گا۔“ بابا دینو نے اسے دعاؤں سے نوازا تو وہ خوش ہوتا ہوا اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ آج اسے اپنے بھائی اور بھابھی سے کوئی گلہ شکوہ نہیں تھا۔ وہ خود ہی اپنی زندگی کے راستے متعین کر چکا تھا۔ تمام تکلیفوں اور غموں کو بھلا کر وہ ایک نئی منزل کی جستجو لیے اپنے کمرے میں جا کر آنکھیں بند کرکے سو گیا۔
قسط نمبر 11
     صبح اس کی آنکھ اذانوں سے پہلے ہی کھل گئی۔ کیوں کہ وہ رات کو تہجد کی نیت کر کے سویا تھا۔ تو اس لیے وہ وقت پر ہی اٹھ گیا تھا۔ جب کسی انسان کی نیت اچھی ہو نا پھر اللہ تعالیٰ بھی اسے ضرور پورا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اس انسان کے ساتھ ہوتی ہے۔
     فریش ہونے کے بعد اس نے جائے نماز بچھائی اور وہ اللہ کے آگے خشوع و خضوع سے سربسجود ہو گیا۔ رو رو کر اللہ سے اپنی کامیابیوں کی دعائیں مانگیں۔ تہجد پڑھنے سے ایسے لگا جیسے وہ پرسکون ہو گیا ہو تب اسے احساس ہوا کہ اس نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ ان بےکار باتوں میں گزار دیا ہے کہ میرے بھائی اور بھابھی میرے ساتھ اچھا سلوک کیوں نہیں کرتے؟
     اسے بابا دینو کی وہ بات یاد آ گئی کہ کچھ لوگ دنیا میں ہم سے نفرت کرتے ہیں تو بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ہم سے محبت کرتے ہیں۔ ہمیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ آج سے اس نے روزانہ تہجد پڑھنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے بعد وہ یونیورسٹی جانے کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ اس نے بیگ اٹھایا اور کندھے پر لٹکاتے ہوئے ریحان کے گھر کی طرف چل پڑا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ریحان کے گھر میں تھا۔ جہاں ریحان بےتابی سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔
      ”ہاں بھئی آ گئے وقت پر۔“ ریحان نے سجاول کو گلے لگایا۔ دونوں دوست مسکراتے ہوئے ناشتے کی ٹیبل پر آ بیٹھے جہاں خالدہ صاحبہ نے گرما گرم پراٹھوں کے ساتھ ساتھ آملیٹ بھی بنایا ہوا تھا۔ دونوں دوستوں نے جی بھر کر ناشتہ کیا اور یونیورسٹی کی طرف چل پڑے۔
*******
     ”نویدہ بے چینی سے نائلہ کا انتظار کر رہی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ سجاول یونیورسٹی کے بعد ریحان کی طرف ہی جاتا ہے۔  وہ گھر کم کم ہی ہوتا ہے۔ اس نے جان بوجھ کر ہی سجاول کو اپنے سے دور کیا تھا۔ اس کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح یہ بنگلہ میرے نام ہو جائے۔ وہ لاؤنج میں چہل قدمی کر ہی رہی تھی کہ اچانک اسے نائلہ آتی ہوئی نظر آئی۔ اس نے نائلہ کو دیکھا تو ایک سکون کی لہر اس کے وجود میں دور گئی۔
     ”ہاں نائلہ تمھیں پتہ ہے نا کہ تم نے کیا کرنا ہے؟“ نویدہ اس کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولی۔
     ”جی آپی! مگر آپ کو اتنی جلدی کیا ہے؟ سب کچھ وقت پر ہو جائے گا۔“ نائلہ نے بےزاری سے کہا۔
     ”اتنی دیر بھی نہ کر دینا کہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے۔ جس مقصد کے لیے میں نے تمھارا اس یونیورسٹی میں داخلہ کروایا ہے نا وہ پورا ہونا چاہیے۔ میں تمھیں اس کام کا معقول معاوضہ  بھی دوں گی۔“ نویدہ نے لالچ دیتے ہوئے زور دے کر کہا۔ تو نائلہ اسے گھورنے لگی۔ جیسے سوچ رہی ہو کہ کس مشکل وقت میں ڈال دیا ہے؟
*******
     ”واہ کیا نخرے تھے اس مہ جبیں کے؟ کیا نام بتایا تھا؟ نن۔۔۔ نن۔۔۔ نائلہ! ہاں یہی نام تھا نا اس کا۔“ ریحان نے ذہن پر زور دیتے ہوئے سجاول سے کہا۔
     ”ہاں یہی نام تھا مگر تمھیں اس سے کیا۔۔۔۔؟“ سجاول نے بیڈ سے تکیہ اٹھا کر اس کی طرف زور سے پھینکتے ہوئے کہا۔
     ”بھئی خوب مزا آئے گا جب ایسی لڑکیوں کے ساتھ پڑھنے کا موقع ملے گا۔“ ریحان نے تکیہ پکڑا اور دوبارہ اسی کی طرف پھینک کر بولا۔ ریحان کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ اسے نائلہ پہلی نظر میں ہی کوئی عجوبہ لگی تھی۔ سجاول اسے ہونقوں کی طرح تک رہا تھا۔ اسے ریحان کی یہ عادت بالکل بھی نہیں بھاتی تھی۔ بس ایک دفعہ وہ کسی بات پر ہنس پڑتا پھر اس کی ہنسی کا رکنا مشکل ہو جاتا تھا۔ ہنس ہنس کر اس کی آنکھوں  میں آنسو آ جاتے، پیٹ میں بل پڑ جاتے مگر وہ تھا کہ ہنستا ہی چلا جاتا تھا۔
    ”اب بس کر دو۔“ سجاول غصے سے بولا۔
     ”اچھا اچھا تم تو غصے ہو رہے ہو۔ ہنسنے سے انسان ہشاش بشاش رہتا ہے۔“ ریحان نے سجاول کو ناصحانہ انداز میں کہا۔
     ”ایسی نصحتیں اپنے پاس رکھو۔“ ابھی سجاول یہ کہہ ہی رہا تھا کہ انھیں خالدہ بیگم کے چیخنے کی آواز آئی۔
قسط نمبر 12
     دونوں نے مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا۔ ریحان زور سے بھاگا تھا۔ سجاول بھی اس کے پیچھے بھاگ پڑا۔ ریحان کے چہرے پر پریشانی چھا گئی تھی۔ وہ کچن کی طرف دوڑا کیوں کہ وہی سے ہی خالدہ بیگم کے چیخنے کی آواز آئی تھی۔
     ”کیا ہوا؟ امی خیر تو ہے۔“ ریحان زور سے چلایا۔ خالدہ بیگم زمین پر گری ہوئیں تھیں اور ساتھ اسٹول بھی گرا ہوا تھا۔ خالدہ بیگم اسٹول پر چڑھ کر شاید کوئی چیز اٹھا رہی تھیں۔ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکیں اور اسٹول سمیت نیچے ہی آ گری تھیں۔ ریحان نے جلدی سے ان کو سہارا دے کر اٹھایا۔ اور چارپائی پر لیٹ جانے کو کہا۔ سجاول بھاگ کر پانی لے آیا۔
     ”آنٹی اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت تھی تو مجھے کہہ دیتیں، میں اٹھا دیتا۔“ سجاول پریشان ہوتے ہوئے بول رہا تھا۔ آخر وہ کیوں نہ پریشان ہوتا، والدین کے بعد یہی خالدہ بیگم ہی تو تھیں جو اسے سہارا دیے ہوئے تھیں۔ اسے والدہ کی کبھی بھی کمی نہیں محسوس ہونے دی۔ خالدہ بیگم کی موجودگی میں اسے احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس کی امی اس دنیا میں نہیں ہیں۔
     ”آنٹی آپ آرام کریں میں ڈاکٹر کو بلا کر لاتا ہوں۔ ریحان تم آنٹی کا خیال رکھو۔“ یہ کہتے ہوئے سجاول تیزی سے باہر نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب اس کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے۔ خالدہ بیگم درد سے کراہ رہی تھیں۔
     ”کوئی زیادہ پریشانی والی بات نہیں ہے۔ گرنے سے پاؤں کی ہڈی پر زور آ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے انھیں درد محسوس ہو رہا ہے۔ یہ دوائی کھائیں گی نا تو درد ختم ہو جائے گا۔“ ڈاکٹر صاحب نے چیک اپ کے بعد ریحان کو دوائی دے کر کہا۔ یہ سن کر دونوں کی جان میں جان آئی، دونوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد سجاول خالدہ بیگم کے قدموں میں بیٹھ کر رونے لگا۔ خالدہ بیگم اور ریحان یہ دیکھ کر حیران ہوگئے۔ سجاول سسکیاں لے لے کر رو رہا تھا۔
     ”کیا ہوا بیٹا؟“ خالدہ بیگم پریشانی سے بولیں۔
     ”بس آنٹی! میرے پاس آپ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو میں بالکل اکیلا ہو جاتا۔ آپ کو کھونے کا تصور میں بالکل بھی نہیں کر سکتا۔ آپ کے اندر مجھے میری امی کی خوشبو آتی ہے۔“ وہ کسی بچے کی طرح رونے لگا تھا۔
      ”نا میرا بچہ نا۔ ان شاءاللہ مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ تو پریشان نہ ہو۔ دوائی کھاؤں گی نا تو آرام آ جائے گا۔ پرشان ہونے کی ضرورت نہیں، چلو جاؤ میرے لیے پانی لے کر آؤ تاکہ میں دوائی کھا سکوں۔“ خالدہ بیگم نے پیار سے چمکارتے ہوئے سجاول کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا تو سجاول آنسو پونجھتے ہوئے مسکرا کر خالدہ بیگم کے لیے پانی لینے چلا گیا۔ خالدہ بیگم دوائی کھا کر سو گئیں۔ ریحان اور سجاول اپنے کمرے میں آ گئے۔ رات زیادہ ہو چکی تھی اس لیے سجاول بھی وہی سو گیا۔
*********
     ”آپی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے؟ پتہ نہیں وہ مجھ سے یہ کام کیوں کروانا چاہتی ہیں؟ میں ایسا بالکل بھی نہیں کروں گی جس طرح آپی چاہتی ہیں۔ کیوں کہ یہ بالکل ہی غلط کام ہے۔ اس سے میرے کردار پر بھی کیچر اچھلے گا۔“ نائلہ اپنے کمرے میں بیٹھی سوچ رہی تھی۔ وہ سجاول کے بارے میں اپنی آپی کے خیالات جان کر بہت افسوس کر رہی تھی۔ وہ سجاول کو فون کرنا چاہتی تھی مگر اس کا نمبر اس کے پاس نہیں تھا۔ وہ اپنی بہن کے بالکل الٹ تھی، دونوں کے وجود سے لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ایک دوسرے کی بہنیں ہیں۔ صبح اس نے یونیورسٹی جانا تھا اس لیے وہ سوچتے سوچتے نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔
قسط نمبر 13
     ”صبح ان دونوں کی آنکھ آلارم سے کھلی۔ فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں۔ دونوں نے نماز ادا کی۔ خالدہ بیگم بھی اٹھ چکی تھیں۔ اب ان کی طبیعت بالکل ٹھیک تھی۔ پاؤں کا درد کسی حد تک کم ہو چکا تھا۔
     ”ارے آج تو یونیورسٹی میں شغف ادیب صاحب نے آنا تھا۔ ہمیں یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔“ نماز کی ادائیگی کے بعد سجاول ریحان کو کہہ رہا تھا۔
     ”ہاں بہت اچھا لگے گا جب ان سے ملاقات ہوگی۔ چلو آؤ یونیورسٹی جانے کی تیاری کرتے ہیں۔“ ریحان نے بھی جواب دیا۔ دونوں تیار ہو کر ناشتے کی ٹیبل پر آ بیٹھے۔
     ”آنٹی اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟“ ناشتے کے دوران سجاول نے خالدہ بیگم سے پوچھا۔
     ”جی بیٹا! اللہ کا شکر ہے اب ٹھیک ہوں۔“ خالدہ بیگم نے جواب دیا۔
     ”امی آج یونیورسٹی میں ہمارے پسندیدہ ادیب شغف ادیب صاحب آ رہے ہیں تو ہمیں واپسی میں ذرا دیر ہو جائے گی۔“ ریحان نے خالدہ بیگم کو آگاہ کیا۔
     ”کوئی بات نہیں بیٹا! ایسی سرگرمیاں انسان کو آگے بڑھانے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ان کے اندر دلچسپی پیدا کرتی ہیں۔“ خالدہ بیگم نے کہا تو دونوں مسکرانے لگے۔
     ناشتے کے بعد ریحان اور سجاول یونیورسٹی کی طرف چل پڑے۔
     یونیورسٹی میں کافی گہما گہمی تھی، دونوں چلتے ہوئے کانفرنس روم کی طرف بڑھنے لگے۔ یونیورسٹی میں جو بھی تقریب ہوتی تھی، اسی کانفرنس روم میں ہی ہوتی تھی۔ کانفرنس روم کے دروازے میں داخل ہوتے ہی سجاول جلدی سے آنے والی نائلہ کو نہ دیکھ سکا اور اس کے ڈوپٹے کی وجہ سے ٹھوکر کھا کر نیچے گر پڑا۔ اس کا ڈوپٹہ اچانک ہی اس کی نظروں کے سامنے آ گیا تھا، نائلہ بھی بوکھلا گئی اور وہ بھی بڑی زور سے اس کے ساتھ ٹکرا گئی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ اور لمحوں میں ہی ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ آج یونیورسٹی میں پہلی بار ان کا ٹاکرا ہوا تھا۔
     ”دیکھ کے نہیں چل سکتے کیا؟“ نائلہ پاؤں کو مسلتے ہوئے بولی۔
     ”او محترمہ! دیکھ کے تو تمھیں چلنا چاہیے تھا۔ توپ کی طرح اڑی جا رہی ہو، یہ کوئی تمھارا گھر نہیں ہے۔“ ریحان نے بھی دو ٹوک جواب دیا۔
     ”بس کر دو ریحان! کوئی بات نہیں۔“ سجاول نے اسے ٹوکا اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ ان کے ٹکرانے سے جو ہجوم پیدا ہو گیا تھا وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا تھا۔
     ”کہا تھا نا میں نے یہ مہ جبیں تمھارا اس یونیورسٹی میں جینا دوبھر کر دے گی۔ دیکھ لو اس نے آج ابتدا کر ہی لی۔“ ریحان اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولا۔
     ”کیا ہے یار! یہ محض اتفاق تھا۔ تم جو کچھ سوچ رہے ہو، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔“ سجاول نے اسے جواب دیا۔ ریحان اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔ اس کے بعد دونوں کانفرنس روم کی طرف بڑھ گئے۔
     ہال کافی طلبا و طالبات سے بھرا پڑا تھا۔ آج ان کی یونیورسٹی میں ایک ادبی شخصیت نے آنا تھا۔ سب کی زبان پر ایک ہی نام تھا ”شغف ادیب“
     آج کی تقریب انھی کے ہی اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔ شغف ادیب کا شمار ملک کے نامور ادبی شخصیات میں ہوتا تھا۔ ایسی شخصیت جس کے لکھے گئے ناولوں نے پورے ملک میں دھوم مچا دی تھی۔ ان کا لکھا گیا کوئی بھی ناول جو پڑھنا شروع کرتا وہ مکمل پڑھے بنا نہ چھوڑتا۔
     سجاول اور ریحان نے بھی ان کے کئی ناول پڑھے تھے۔ سب کو بے چینی سے شغف ادیب کا انتظار تھا۔ آخر وہ لمحہ آن پہنچا جب اسٹیج سیکرٹری نے مائک پر شغف ادیب کی آمد کا اعلان کیا۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ شغف ادیب پرزور تالیوں میں اپنی تقریر کا آغاز کر چکے تھے۔
     نائلہ بڑے شوق سے شغف ادیب کو سن رہی تھی۔ کیوں کہ وہ بھی ان کے لکھے گئے ناول بہت شوق سے پڑھتی تھی۔ شغف ادیب لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی آواز سے بھی جادو جگاتے تھے۔ وہ جب بھی تقریر کرتے، ایسے لگتا جیسے ان کے منھ سے پھول جھڑ رہے ہوں۔ ان کے منھ سے ادا کیے گئے ہر ہر جملے پر تالیاں گونج رہی تھیں۔
قسط نمبر 14
     شغف ادیب اپنی تقریر میں اپنی زندگی کے تجربات بتا رہے تھے۔ وہ اس مقام تک کیسے پہنچے؟ اپنی کامیابیوں کا ذکر انہوں نے طلبا و طالبات کو بتایا۔ شغف ادیب کی جیسے ہی تقریر ختم ہوئی۔ سارے طلبا و طالبات نے انھیں گھیر لیا۔ وہ بھی طالب علموں کے درمیان اپنے آپ کو پرجوش محسوس کر رہے تھے۔ اور ان کی طرف سے پوچھے گئے سوالات بھی دلچسپ انداز میں دے رہے تھے۔ اچانک ہی  پیچھے سے آنے والے دھکے سے نائلہ کا پاؤں پھسلا، وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور اچھلتی ہوئی سجاول کے اوپر جا گری۔ سجاول اپنی سوچوں میں گم تھا۔ نائلہ کے اپنے اوپر گرنے سے وہ خود بھی نیچے گر گیا تھا۔ ریحان نے یہ دیکھا تو غصے سے نائلہ کی طرف بڑھا۔ نائلہ پریشان آنکھوں سے ان سب کو دیکھ رہی تھی۔
     ”تمھیں شرم نہیں آتی۔ صبح بھی تم نے یہی حرکت کی اب پھر تم نے دوبارہ وہی حرکت کر ڈالی۔ آخر کیا چاہتی ہو؟“ ریحان غصے سے کھول رہا تھا۔ نائلہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
     ”میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا، یہ سب اتفاق سے۔۔۔۔۔“ ابھی وہ مزید کچھ کہنا چاہ ہی رہی تھی کہ ریحان نے اس کی بات کاٹ دی۔
     ”بس بس ! بہت کچھ ہو گیا، اب ایسا ہوا نا، مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔“ ریحان غصے سے کہتا ہوا سجاول کو زبردستی لے کر چل پڑا۔ سجاول کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس نے سجاول کو بھی بولنے کا موقع نہیں دیا۔ نائلہ رو رہی تھی۔ وہ بالکل نہیں جانتی تھی کہ ایسا کیوں ہوا؟ دونوں دفعہ ہی اتفاق سے ایسا ہو گیا تھا۔ وہ یوں اپنی بےعزتی پر بہت نادم تھی۔
     بہت سے طالب علم شغف ادیب سے باتوں میں مشغول تھے، اس لیے انھیں کچھ پتہ نہ چل سکا۔ مگر جن کے سامنے نائلہ کی بےعزتی ہوئی، وہ بھی تعداد میں کچھ کم نہیں تھے۔ تقریباً آدھی یونیورسٹی کو پتہ چل چکا تھا کہ صبح والا حادثہ دوبارہ نمودار ہوا ہے۔ کچھ طالب علم ریحان اور سجاول کو برا بھلا کہہ رہے تھے اور کچھ طالب علم نائلہ کو برا جان رہے تھے۔ نائلہ سب سے نظریں بچاتی ہوئی گھر کی طرف چل پڑی۔
      راستے میں اسے نویدہ آپی کا فون آیا تو اس نے جان بوجھ کر فون نہیں اٹھایا۔ اسے پتہ تھا کہ نویدہ آپی نے وہی فضول باتیں ہی پوچھنی ہیں۔ ابھی تو خود اس کا یونیورسٹی میں تماشا بن رہا تھا تو وہ سجاول کا تماشا کیسے بناتی؟
     اصل میں وہ خود بھی نہیں چاہتی تھی کہ وہ سجاول کا کسی قسم کا تماشا بنائے۔ یا اس کی عزت داغدار کرے۔ یہ تو اس کی بہن ہی تھی جو یہ سب کچھ چاہتی تھی اور اسے یہ سب کرنے کے لیے نائلہ سے بہتر کوئی اور نہ لگا۔
     نائلہ اپنے کمرے میں آ کر رو رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ سب اتفاق سے ہوا ہے۔ مگر بہت سے طالب علموں نے اس کی بات کا یقین نہیں کیا۔ وہ سب بھی ریحان کی طرح ہی ذہن رکھتے تھے۔
********
     سجاول اپنے کمرے میں اداس بیٹھا تھا۔ اسے بھی آج ہونے والے واقعات کی بالکل توقع نہیں تھی۔ صبح جب نائلہ اس سے ٹکرائی تھی تو وہ محض اسے اتفاق ہی سمجھ رہا تھا مگر جب دوسری بار ایسا ہوا تو اسے بھی ریحان کی باتوں میں کچھ حد تک سچائی نظر آنے لگی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ نائلہ ضرور اس کے ساتھ کچھ غلط کرنا چاہتی ہے۔ مگر کیا غلط کرنا چاہتی ہے؟ وہ یہ نہ جان سکا۔ ریحان بار بار اسے کہہ رہا تھا کہ نائلہ کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگتے۔ وہ ضرور تمھارے ساتھ کچھ برا کرنا چاہتی ہے۔ مگر دل کے کسی کونے سے یہ بھی آواز آ رہی تھی کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ یونیورسٹی سے نکلتے ہوئے نائلہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ چکا تھا۔ 
قسط نمبر 15
     تھوڑی دیر بعد اسے شدید پیاس محسوس ہوئی۔ تو وہ پانی پینے کے لیے کمرے سے باہر نکل آیا۔ وہ بہت اداس تھا۔ اس کا دل کسی کام میں بھی نہیں لگ رہا تھا۔ اس نے فریج سے بوتل نکالی اور گلاس میں پانی انڈیل کر پینے ہی لگا تھا کہ ساتھ والے کمرے سے اسے نویدہ بھابھی کی آواز سنائی دی۔ جو شاید کسی کو فون کر رہی تھیں۔ ان کے بولنے کے انداز سے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ بہت خوش دکھائی دے رہی ہوں۔ سجاول نے غور سے کان لگا کر سنا تو اس کی بھابھی نائلہ کو ہی فون کر رہی تھیں۔
     ”واہ نائلہ! تو نے تو کمال ہی کر دیا آج، شاباش ایسے ہی اسے بے عزت کرتی رہو۔ اسے اتنا مجبور کر دو کہ وہ یہ گھر تو کیا یہ دنیا ہی چھوڑ کر چلا جائے۔“ اس نے بھابھی کے منھ سے یہ جملے سنے تو اسے پکا یقین ہو گیا کہ نائلہ واقعی اس کے ساتھ کچھ برا کرنا چاہتی ہے۔ اور اسے ایسا کرنے پر بھابھی ہی اکسا رہی ہیں۔ وہ اپنی بھابھی کو برا ضرور سمجھتا تھا مگر اتنا گرا ہوا نہیں سمجھتا تھا۔ آج اس کی بھابھی اس کی نظروں میں گر ہی چکی تھیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بھابھی اس حد تک بھی جا سکتی ہیں۔ وہ پانی پی کر اپنے کمرے  میں آ گیا۔ بھابھی کے الفاظ اس کے ذہن پر بار بار گونج رہے تھے۔ وہ بہت پریشان تھا۔
     ”کیا میں یہ سب بھائی کو بتا دوں؟“ وہ سوچنے لگا۔
     ”نن۔۔۔۔نہیں! اگر میں نے بھائی کو بتا دیا تو کون سا بھائی نے یہ مسئلہ حل کر دینا ہے؟ انھیں تو بھابھی کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا، وہ تو الٹا مجھے ہی گنہگار سمجھیں گے اور مجھے ہی جھوٹا کہیں گے۔“ اس کا ذہن ماؤف ہو چکا تھا، وہ ایک دفعہ پھر ٹوٹ چکا تھا۔
     ”شاید میری قسمت میں خوشیاں نہیں، جن بچوں کے ماں باپ مر جاتے ہیں نا وہ صرف یتیم نہیں ہوتے بلکہ ان کی زندگی بھی ختم ہو جاتی ہے، ان کا وجود ایک زندہ لاش کی طرح ہوتا ہے، وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں اور دنیا ان کو کہیں کا کہیں اڑا کر لے جاتی ہے۔“ وہ روتے ہوئے اپنے ماں باپ کو یاد کر رہا تھا۔ ایک یہ تنہائی ہی تو اس کی ساتھی تھی۔ وہ اس تنہائی میں خوب اللہ سے باتیں کرتا تھا۔ روتے روتے اس کی آنکھ نجانے کب لگی؟ صبح ہوئی اور اسے پتہ ہی نہ چلا۔
     آج اس کا یونیورسٹی جانے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ ریحان پانچ دفعہ اسے کال کر چکا تھا مگر وہ اس کی کال بھی اٹینڈ نہیں کر رہا تھا۔ آج اس کی طبیعت بوجھل بوجھل سی تھی۔ کل والے واقعے اور پھر بھابھی کی اصلیت کھل جانے سے اس کی طبیعت خراب ہو چکی تھی۔
********
     پانچ دفعہ کال ملانے پر بھی جب سجاول نے ریحان کی کال اٹینڈ  نہیں کی تو وہ پریشان ہو گیا۔ یونیورسٹی سے دیر بھی ہو رہی تھی۔ جب سجاول نہ آیا تو وہ اکیلا ہی یونیورسٹی چلا گیا۔
یونیورسٹی پہنچ کر اس کی پہلی نظر نائلہ پر پری۔ نائلہ گراؤنڈ میں اداس اداس بیٹھی ہوئی تھی مگر یہ اداسی ریحان کو نظر نہ آئی۔
      ”مل گیا سکون؟ ہو گیا تمھارا دل خوش؟ جو کچھ چاہتی تھی وہ کر ڈالا، آخر نویدہ بھابھی کی بہن ہو نا، جیسے وہ چاہیں گی ویسے ہی کرو گی۔ دوسروں کے راستے میں کانٹے بچھا کر تمھیں کیا ملے گا؟“ ریحان اس کے پاس آ کر  نفرت آمیز لہجے میں بول رہا تھا۔ نائلہ پریشان تھی کہ اسے کیسے پتہ چلا کہ نویدہ آپی یہ سب چاہتی ہیں؟ اور اگر وہ چاہتی بھی ہیں تو نائلہ تو یہ سب کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ وہ تو اتفاق سے ایسا ہو گیا تھا۔ وہ تو اس بات پر بھی حیران تھی کہ نویدہ آپی کو یہ سب کیسے پتہ چلا؟ اس نے تو گھر میں کسی سے ذکر ہی نہیں کیا۔ رات کو نویدہ آپی کا فون آنا اور اسے شاباش دینا۔۔۔ وہ ان باتوں سے پہلے ہی پریشان تھی کہ ریحان نے آ کر اس کے سر پر ایک اور بم پھوڑ دیا، وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ رات جب نویدہ آپی اسے فون کر رہی تھیں تو سجاول ان کی باتیں سن چکا تھا۔
قسط نمبر 16
     وہ کافی دیر تک یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں بیٹھی سوچتی رہی۔ ریحان اسے برا بھلا کہہ کر جا چکا تھا۔ وہ بہت پریشان تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان حالات میں وہ کیا کرے؟ وہ تھکی تھکی سی  اٹھی اور آہستہ سے چلتی ہوئی لیکچر ہال کی طرف بڑھ گئی۔ اس کے قدم من من بھر کے ہو چکے تھے اور جسم مردے جیسا ہو چکا تھا ایسے جیسے کوئی جان نہ رہی ہو۔
**********
     ریحان کا دل پڑھائی میں نہیں لگ رہا تھا۔ وہ بار بار یہ سوچ رہا تھا کہ سجاول اس کی کال اٹینڈ کیوں نہیں کر رہا؟ آج کا دن اسے بھاری سا محسوس ہو رہا تھا۔ دن گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا آخر خدا خدا کر کے آف ٹائم ہوا تو وہ جلدی سے سجاول کے گھر کی طرف بھاگا۔ اس نے بیل بجائی تو نویدہ بھابھی نے ہی دروازہ کھولا۔
     نویدہ بھابھی نے اسے دیکھا تو ان کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ انہوں نے تو یہ سوچ کر دروازہ کھولا تھا کہ شاید نائلہ آئے ہو گی اور اس سے سجاول کی بربادی کے مزید قصے سنیں گی، مگر دروازے پر تو ریحان کھڑا تھا اسے دیکھ کر ان کی مسکراہٹ ماند پڑ گئی۔
     ”بھابھی آج سجاول یونیورسٹی نہیں آیا، میں اس سے ملنے آیا تھا۔“ وہ مؤدبانہ لہجے میں بولا۔
     ”ہوں! بیٹھا ہو گا اپنے کمرے میں، جاؤ جا کر دیکھ لو۔“ نویدہ بھابھی نے ناگواری سے کہا اور  بڑبڑاتے ہوئے چلی گئیں۔ ان کی یہ بڑبڑاہٹ ریحان نہ سن سکا اور وہ ان کی بڑبڑاہٹ سننے بھی نہیں آیا تھا۔ وہ اپنے دوست سے ملنے آیا تھا، ریحان جلدی سے سجاول کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
*********
     سجاول اپنے کمرے میں اداسی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کافی دیر سے روتا رہا تھا، وہ جتنا بھی چپ ہونے کی کوشش کرتا، آنسو اس قدر ہی اس کے رخساروں پر بہتے چلے جاتے۔ اس طرح کے حالات کا اس نے پہلے کبھی بھی سامنا نہیں کیا تھا۔ اسے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ نفرت، دشمنی یہ سب کیا ہوتی ہیں؟ وہ تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ انسان بھی انسان کا دشمن ہو سکتا ہے۔ اور پھر دشمن اپنا ہو تو دل کو کتنا دکھ ملتا ہے۔ وہ اس دکھ سے لڑ رہا تھا کہ سامنے ریحان کو دیکھ کر مزید رو دیا۔
     ”کیوں رو رہے ہو میرے دوست؟“ ریحان اسے بازو سے اٹھاتے ہوئے بولا۔ وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ وہ ریحان کو کیسے بتائے؟
     ”بتاؤ نا! کیا ہوا؟“ ریحان نے دوبارہ پوچھا۔
     ”ریحان! مجھے نہیں پتہ تھا کہ میری بھابھی ہی میری دشمن بنی ہوئی ہیں۔ یہ سب کچھ وہی کروا رہی ہیں۔ وہی نائلہ کو مجھے بدنام کروانے پر اکسا رہی ہیں۔ وہ تو میری جان کی بھی دشمن بن گئی ہیں۔“ سجاول نے روتے ہوئے ساری بات ریحان کو بتا ڈالی۔
     ”ہاں مجھے پہلے ہی شک تھا کہ یہ نویدہ بھابھی ہی کروا رہی ہوں گی، آخر نائلہ ان کی بہن ہے۔ شرم نہیں آتی اس طرح کی حرکتیں کرتے ہوئے۔ آؤ میرے ساتھ میرے گھر چلو، تمھارا اب یہاں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔“ ریحان سجاول کو کھینچتا ہوا باہر لے گیا اور جلدی سے اپنے گھر لے آیا۔
     خالدہ بیگم نے سجاول کی یوں سوجی ہوئی آنکھیں دیکھیں تو پوچھے بغیر نہ رہ سکیں۔ ریحان نے ساری صورتحال سے انھیں آگاہ کر دیا تھا۔
     ”بس بیٹا اب تم اس گھر میں نہیں جاؤ گے۔ وہ گھر تمھارا ہے ہی نہیں۔ میں تمھیں پہلے بھی کہتی رہی مگر تم نے میری بات نہیں مانی مگر اب میں تمھیں اس گھر میں کبھی نہیں جانے دوں گی۔ ابھی میں زندہ ہوں، میرے ہوتے ہوئے میرے بچے کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔“ خالدہ بیگم سجاول کو پیار کرتے ہوئے بولیں۔ ریحان سجاول کو لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا جب کہ خالدہ بیگم شام کے کھانے کی تیاری کرنے لگیں۔
قسط نمبر 17
     خالدہ بیگم نے شام کا کھانا تیار کر لیا تھا۔ ریحان اور سجاول کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے کھانے کا انتظار کر رہے تھے۔ سجاول بہت سنجیدہ بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کسی سے باتیں نہیں کر رہا تھا، اس کے چہرے کی مسکراہٹیں اور قہقہے ماند پڑ چکے تھے۔ ایک وقت تھا جب وہ بہت شرارتیں کرتا تھا۔ جہاں بھی جاتا اس کے قہقہوں کی آوازیں ہر جگہ گونجتی رہتی تھیں۔ اس نے اپنے بچپن کا زیادہ تر حصہ خالدہ بیگم کے گھر گزارہ تھا۔ وہ اور ریحان ہم عمر تھے اس لیے ان کی دوستی بھی بچپن سے ہی ہو گئی تھی، یہی وجہ تھی کہ والدین کی وفات کے بعد زیادہ تر وہ خالدہ بیگم کے گھر ہی رہنے لگا تھا۔
     ”کیا ہو گیا بیٹا؟“ خالدہ بیگم نے کھانے کی ٹیبل پر کھانا سجاتے ہوئے اسے یوں گم صم اور اداس دیکھا تو پوچھا۔
     ”کچھ نہیں آنٹی۔“ وہ یک دم سوچوں سے نکلا تھا۔
     ”چلو کھانا کھاؤ، جو کچھ ہو گیا ہے اسے بھول جاؤ۔“ خالدہ بیگم نے کہا تو وہ چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجا کر کھانا کھانے لگا۔
*******
     نائلہ اپنے کمرے میں بیٹھی رو رہی تھی۔ ابھی تو اس نے منصوبے پر عمل ہی نہیں کیا تھا، بلکہ عمل کرنے کا سوچا بھی نہیں تھا اس کے باوجود وہ خود ہی بری طرح پھنس چکی تھی۔ اسے اپنی آپی سے نفرت ہونے لگی۔
     ابھی اس کے آنسو ہی نہیں رکے تھے کہ اس کے موبائل کی گھنٹی بج اٹھی۔ اس نے سکرین کی طرف دیکھا تو شانزے لکھا ہوا نظر آ رہا تھا، شانزے اس کی دوست تھی۔ وہ بھی یونیورسٹی میں ہی پڑھتی تھی۔
     اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور اور شانزے کی کال سننے کے لیے بٹن دبا دیا۔
     ”کیسی ہو نائلہ؟ آج یونیورسٹی میں تم اداس اداس تھیں۔“ شانزے نے پوچھا۔
     ”کچھ نہیں۔“ وہ افسردگی سے بولی۔ اس کا بات کرنے کو دل تو نہیں کر رہا تھا مگر دوست تھی اس لیے ناچاہتے ہوئے بھی بات کر رہی تھی۔
     ”تمھیں پتہ ہے تمھارے خلاف یونیورسٹی میں کیسی کیسی باتیں پھیل رہی ہیں۔“ شانزے نے اس کے دماغ پر دھماکا کیا وہ جو پہلے رو رہی تھی اب رونا بھول چکی تھی۔ ایک جھٹکے سے اٹھی اور بمشکل بولی۔
     ”با۔۔۔۔ باتیں کون سی باتیں؟“ وہ پریشان ہوگئی۔
     ”یہی کے تم سجاول پر مر مٹی ہو۔ تم نے جان بوجھ کر سجاول کے ساتھ ایسا کیا ہے۔“ شانزے بول رہی تھی۔
     ”اف میرے مالک!“ اس کی آنکھوں سے دوبارہ آنسو گرنے لگے، اس نے جلدی سے موبائل آف کر دیا۔ شانزے کے ساتھ مزید بات کرنے کی سکت اس میں نہیں رہی تھی۔
     اس کے بارے میں یونیورسٹی میں کیا کیا باتیں ہو رہی تھیں۔ وہ جانتی بھی نہیں تھی۔ ایک جیسے انجانے میں کی گئیں دو خطاؤں نے اسے پل بھر میں ہی دوسروں کی نظروں میں گرا دیا تھا۔ اس کا کردار پاک تھا۔ مگر لوگ اس کے کردار پر کیچڑ اچھالنے میں لگے ہوئے تھے۔ وہ بے داغ تھی مگر زمانہ اسے داغ دار کر رہا تھا، وہ سوچ رہی تھی کہ وہ صبح یونیوسرسٹی میں باقی فیلوز کے ساتھ نظریں کیسے ملا پائے گی؟ رات گہری ہو چکی تھی مگر ایک خوف اور ڈر کی وجہ سے نیند اس کی آنکھوں سے بہت دور تھی۔ آنسو رخساروں پر بہتے چلے گئے۔ صبح وہ ایک نہ کیے گئے گناہ کی سزا بھگتنے کے لیے منتظر تھی۔ وہ ڈر رہی تھی کہ صبح یونیورسٹی جائے گی تو دوسروں کی نظروں کا سامنا کیسے کر پائے گی؟
************
چلو سجاول یونیورسٹی جانے کی تیاری کرو۔ کل بھی تم نہیں گئے تھے۔ ریحان صبح کے وقت اسے اٹھا کر کہہ رہا تھا۔ وہ آنکھیں ملتا ہوا بے دلی سے اٹھ بیٹھا۔ اس کا دل آج بھی یونیورسٹی جانے کو نہیں کر رہا تھا۔
قسط نمبر 18
     ”کیا ہوا؟ یونیورسٹی جانے کو دل نہیں کر رہا۔“ ریحان اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
     ”کیا کروں یار؟ زندگی بھی کیسے کیسے تماشے میرے ساتھ کھیل رہی ہے۔“ سجاول نے جمائی لیتے ہوئے بے دلی سے جواب دیا۔
      ”اٹھو! چلو، چھٹیاں کرتے رہو گے تو کیا خاک پڑھ پاؤ گے؟“ ریحان نے اسے کھینچتے ہوئے کہا۔ نا چاہتے ہوئے بھی وہ فریش ہونے کے لیے باتھ روم گھس گیا۔
*******
     نائلہ کی آنکھ کھلی تو اس کے سر میں درد ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بھی رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھیں۔ اس کے اندر یونیورسٹی جانے کی سکت ہی نہیں تھی۔ شانزے کی کال نے اس کے اندر بے چینی اور خوف پیدا کر دیا تھا۔ وہ یونیورسٹی میں سب کے سامنے جانے سے کترا رہی تھی مگر اسے جانا تو تھا اس بات سے بے خبر کہ اسے وہاں کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخر وہ بوجھل قدموں کے ساتھ یونیورسٹی کی طرف چل پڑی۔
********
     وہ گیٹ کے اندر داخل ہو ہی رہی تھی کہ پیچھے سے آنے والی آوازوں نے اسے رک جانے پر مجبور کر دیا۔
     ”دیکھو کتنی بے شرمی سے چل رہی ہے۔“ ایک آواز ابھری۔
     ”توبہ استغفار! اپنے کیے پر نادم ہی نہیں۔“ ایک اور آواز آئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے، اس کا دل چاہا کہ وہ ان آوازوں کا گلا دبا دے مگر وہ بے بس تھی، کسی نا کردہ گناہ کا دھبہ اس کے وجود پر لگ چکا تھا۔
     اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو کے چند قطرے گرے اور زمیں کو بھگو گئے۔ ریحان اور سجاول یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔
ریحان تو خوش دکھائی دے رہا تھا جب کہ سجاول بہت اداس تھا۔ اگر وہ اپنی بھابھی کی باتیں نہ سنتا تو شاید وہ اس کی بے گناہی کی گواہی دیتا۔
     یہاں کا معاشرہ بھی کتنا عجیب ہے، لڑکیوں کا قصور نہ بھی ہو تو اسے قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔ جب کے لڑکے قصور وار ہوتے ہوئے بھی مجرم ثابت نہیں ہوتے۔ اگرچہ اس کیس میں نائلہ اور سجاول دونوں بے قصور تھے۔ مگر قصور نائلہ کا ٹھہرا۔ سجاول کو دو چار باتیں کر کے معاشرہ چپ ہو گیا تھا۔
     ”کیا سوچ رہے ہو سجاول؟ دیکھو تو سہی، کتنی اس کی بے عزتی ہو رہی ہے، تمھارے لیے کھودے گئے گڑھے میں خود ہی گر چکی ہے۔“ ریحان ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔
     ”چپ کر جاؤ ریحان۔“ سجاول زور سے گرجا۔ ریحان پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا ایسے جیسے اسے یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ سجاول ایسے گرجے گا، اس کی ہنسی رک چکی تھی۔
     ”مجھے کہہ رہے ہو سجاول؟ اپنے دوست کو۔“ ریحان بولا۔
     ”ہاں تمھیں کہہ رہا ہوں، اب بس کر دو پلیز، دوسروں کو تو میں نہیں روک سکتا مگر تم تو میرے دوست ہوں نا پلیز اس کی ذات پر کیچڑ نہ اچھالو۔ یہ معاملہ میں نے اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔“ سجاول رونے لگا۔ ریحان نے اسے بڑھ کر گلے لگا لیا۔
     ”سوری یار معاف کر دو غلطی ہوگئی۔“ ریحان اس کے آنسو پونجھتے ہوئے بولا۔ وہ خود بھی رونے لگ چکا تھا۔ دونوں دوست ایک دوسرے کو روتا ہوا اور اداس نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اس لیے جلد ہی اپنے اپنے آنسو صاف کر کے مسکرانے لگے۔ دونوں کے قدم لیکچر روم کی طرف اٹھ چکے تھے۔
     پروفیسر صاحب بڑی توجہ سے پڑھا رہے تھے۔ جب کہ نائلہ روتی جا رہی تھی۔ سجاول کی نظریں بار بار اس کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔ وہ کوئی بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ انجانے میں کوئی گناہ کر بیٹھا ہے۔ ایسا گناہ جس کی پکڑ بہت سخت ہے۔ اسے ایسے کیوں لگ رہا تھا کہ نائلہ کا اسے نقصان پہنچانے کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں، وہ بے قصور ہے۔
قسط نمبر 19
     اس کا ضمیر اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
مسٹر آپ کی توجہ لیکچر کی طرف نہیں ہے۔ پروفیسر صاحب نے اسے دیکھا تو ڈانٹا۔
     پروفیسر صاحب کی ڈانٹ سنتے ہی وہ توجہ سے لیکچر سننے لگا۔
********
     نائلہ اتنی دیر سے رونے کے بعد کچھ حد تک پرسکون ہوگئی تھی۔ آخر اس نے اپنے دل کو تسلی دے ہی دی تھی۔ وہ معاشرے کی حقیقت جان چکی تھی۔ اسے پتہ چل گیا تھا کہ یہ دنیا الزام لگانے والوں سے بھری پڑی ہے۔ کسی کو اپنا قصور نظر نہیں آتا۔ سب کو دوسروں کا ہی قصور نظر آتا ہے۔ اگر انسان کچھ بھی نہ کرے تو یہ دنیا زبردستی دوسروں پر الزام تھوپتی ہے۔ یہ سوچ کر اس نے کچھ حد تک اپنے آپ کو پرسکون کر لیا تھا۔
     یونیورسٹی سے آف ہونے کے بعد وہ بغیر کسی سے ملے ہی گھر چلی گئی۔ ابھی اس نے بیگ رکھا ہی تھا کہ اسے نویدہ آپی کی آواز سنائی دی۔
     ”او مائی ڈیئر! کہاں رہ گئی تھی؟ کب سے تمھارا انتظار کر رہی ہوں۔“ نویدہ آپی کسی بچے کی طرح بھاگتی ہوئی اس کی طرف آئی تھیں۔
     کچھ لمحے کے لیے تو اسے لگا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے۔ وہ نویدہ آپی کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ مگر مجبوراً بڑی بہن سمجھ کر وہ کھڑی رہ گئی۔
     ”کافی دن ہو گئے، تم مجھ سے ملنے بھی نہیں آئی۔ کیا ہوا؟ روزانہ انتظار کرتی ہوں۔ ارے تمھاری آنکھیں کیوں سوجھی ہوئی ہیں؟“ نویدہ آپی نے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو پریشانی کا ناٹک کرتے ہوئے بولیں۔ اصل مقصد تو ان کا سجاول کی سن گن لینے کا تھا۔
     نائلہ یوں ہی کافی دیر نویدہ آپی کو آنکھوں سے تکتی رہی۔ ان کی آنکھوں کی چمک صاف واضح کر رہی تھی کہ نویدہ آپی کس مقصد سے آئی ہیں۔ وہ اپنی بہن کی اصلیت سے آگاہ تھی۔ اس لیے حیرانی سے انھیں دیکھ رہی تھی۔
     ”کیا ہوگیا نائلہ؟ تم بول کیوں نہیں رہی ہو؟ ایسے چپ چاپ مجھے کیوں تکتی جا رہی ہو۔“ نویدہ آپی نے نائلہ کو یوں خاموش دیکھا تو پوچھا اب وہ واقعی اصل میں پریشان ہو گئی تھیں۔ نائلہ پھر بھی خاموش رہی۔
     ”بتاؤ نائلہ، بولو کچھ۔“ نویدہ آپی کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا ان کا اس طرح بار بار اصرار دیکھ کر وہ اچانک ہی پھٹ پڑی۔
     ”آپی چلی جائیں یہاں سے، مجھے آپ سے نہیں ملنا اور نہ ہی کوئی بات کرنی ہے۔“ وہ غصے سے بول رہی تھی۔ اس طرح کا غصہ تو اس نے پہلے کبھی بھی نہیں کیا تھا۔ نویدہ آپی نے خود پہلی دفعہ اس کا اس طرح کا لہجہ دیکھا تھا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ نائلہ واقعی غصے میں ہے۔ اور وہ ان سے کوئی بات بھی نہیں کرے گی۔ اور جو ان کے آنے کا مقصد تھا وہ بھی پورا نہیں ہوگا۔ اس لیے چپ کرکے چلی گئیں۔ نائلہ کا رویہ انھیں حقیقتاً میں ہی پریشان کر گیا تھا، وہ سمجھ چکی تھیں کہ بات کچھ اور ہے اور نائلہ کسی کو بھی نہیں بتانا چاہتی تھی۔
********
      ”ٖٖہوش میں تو ہو تم! کیا بات کر رہے ہو؟“ ریحان سجاول کو ڈانٹ رہا تھا۔
      ”میں جو کچھ کہہ رہا ہوں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔“ سجاول نے جواب دیا۔
     ”ارے مت ماری گئی ہے تمھاری۔ پہلے کم لوگ باتیں کر رہے ہیں جو تم مزید باتیں کرواؤ گے۔“ ریحان بول رہا تھا۔
     ”مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں۔ میں بس اصل بات جاننا چاہتا ہوں۔ پلیز مجھے ایک دفعہ اس سے ملنے دو۔“ ریحان کسی معصوم بچے کی طرح اس سے التجا کر رہا تھا۔
    قسط نمبر 20
     ”بب۔۔۔۔ باتیں! کون سی باتیں لوگ کر رہے ہیں؟ اور کیا کہہ رہے ہیں؟“
     دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو خالدہ بیگم ان کے سامنے کھڑی تھیں۔ وہ ان کی تمام باتیں سن چکی تھیں۔
     دونوں حیرت سے انھیں دیکھ رہے تھے، خالدہ بیگم تو صرف اتنا جانتی تھیں کہ نویدہ کا رویہ سجاول سے ٹھیک نہیں ہے، وہ اسے پسند نہیں کرتی اس لیے سجاول کو انھوں نے اپنے گھر میں ٹھہرایا ہوا ہے، ریحان جب سجاول کو لے کر اپنے گھر آیا تھا تو اس نے خالدہ بیگم کو واضح طور پر نہیں بتایا تھا۔ مگر اب بات کافی حد تک آگے بڑھ چکی تھی اور خالدہ بیگم بھی ساری باتیں سن چکی تھیں تو انھیں واضح طور پر بتانا پڑا۔
     اب سجاول نائلہ سے ملنے کی ضد کر رہا تھا تو ریحان کافی دیر سے اسے روک رہا تھا۔ اب ساری تفصیل خالدہ بیگم بھی سن چکی تھیں تو انھوں نے بھی سجاول کو نائلہ سے ملنے کے لیے منع کر دیا۔
     ”اتنا کچھ ہو گیا مجھے تم نے بتایا بھی نہیں۔ خالدہ بیگم ساری بات سننے کے بعد ریحان کو غصے ہو رہی تھیں۔
     ”وہ۔۔۔۔ وہ امی جان! مجھے بھی پتہ نہیں تھا کہ اتنا کچھ ہو جائے گا۔ لیکن نائلہ کی اصلیت کھل چکی ہے، آپ پریشان نہ ہوں۔ آج اس کی خوب یونیورسٹی میں بے عزتی ہوئی ہے۔ لوگوں نے کافی اس کا مذاق اڑایا ہے اور اسے برا بھلا بھی کہا ہے، اسے اچھی طرح سبق مل چکا ہوگا۔“ ریحان کہہ رہا تھا جب کہ سجاول نے اسے غصے سے دیکھا مگر وہ خالدہ بیگم کے سامنے اسے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا اس لیے خاموشی سے کھڑا رہا۔ خالدہ بیگم ریحان کی باتیں سن کر چلی گئی تھیں۔
     ”میں ابھی اور اسی وقت اپنے گھر جا رہا ہوں۔“ خالدہ بیگم کے جانے کے بعد سجاول نے جیسے ریحان کے سر پر بم پھوڑ دیا۔
     ”کیوں یار! آخر تم میری بات سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے؟“ ریحان تیزی سے بولا۔
     ”بات تو تم نہیں سمجھ رہے۔ تمھیں روکا ہے نا اس کے بارے میں کوئی بات نہ کرو۔ تو پھر تم نے آنٹی کے سامنے اس کی بے عزتی کی بات کیوں کی؟“ ریحان چلایا۔
     ”دیکھو دوست! میں تمھارا خیرخواہ ہوں، تمھارا برا بالکل بھی نہیں چاہوں گا۔ تمھاری اداسی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔ جب تمھاری آنکھوں میں آنسو دیکھتا ہو نا تو اپنے آپ کو گنہگار سمجھتا ہوں۔ جب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ نائلہ نے تمھاری بھابھی کے کہنے پہ سب کچھ کیا ہے تو تم مان کیوں نہیں لیتے؟ تم اسے بے گناہ کیوں سمجھ رہے ہو؟“ ریحان آبدیدہ ہو گیا۔
     ”اس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو اس کی بے گناہی کا ثبوت ہیں۔ اس لیے اس سے مل کر سب کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ اگر وہ واقعی بے گناہ ہے تو میں اپنے آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کر پاؤں گا ریحان، میں خود ہی اپنی نظروں میں گر جاؤں گا۔ میرا وجود بالکل خاک ہو جائے گا۔ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی لڑکی کی عزت داغ دار ہو، اس لیے یونیورسٹی میں اس پر لگائے گئے الزام میں دھونا چاہتا ہوں۔ ریحان پلیز مجھے ایک دفعہ اس سے ملنے دو۔“ وہ روتے ہوئے بول رہا تھا۔ آنسو آہستہ آہستہ اس کے رخساروں پر بہہ رہے تھے وہ اپنے آپ کو ہی قصور وار سمجھنے لگ چکا تھا۔
     ”چپ کر جاؤ سجاول! کل امی سے بات کریں گے وہ جیسا کہیں گی ویسا کر لیں گے ابھی رونا بند کرو۔“ ابھی وہ سجاول کا رونا بند کروانا چاہتا تھا اپنے دوست کی آنکھوں میں آنسو وہ کسی صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے 
 کو گلے لگایا اور اسے تسلیاں دینے لگا۔
قسط نمبر 21
     تھوڑی دیر تک وہ روتا رہا پھر چپ کر گیا۔ ریحان اسے مسلسل تسلیاں دینے میں لگا ہوا تھا۔
     اپنوں کی محبت کے ترسے ہوئے لوگوں کا حال ایسا ہی ہوتا ہے۔ سجاول بھی کسی اپنے کی محبت کو ترس گیا تھا۔ اور وہ اپنا کون تھا۔ صرف اس کا بھائی اور بھابھی۔ باقی رشتے تو اس کے پاس تھے ہی نہیں۔ خالدہ بیگم اور ریحان نہ ہوتے تو نجانے اس کی زندگی اسے کہاں سے کہاں تک بھٹکاتی رہتی۔ اس کی زندگی تو پانی کے اس بلبلے کی مانند ہو چکی تھی جس کو صرف ایک لمحے کی زندگی ملتی ہے۔ اس کے بعد اس کا وجود دنیا میں نہیں ہوتا۔ وہ بھی اپنے آپ کو ایسا ہی محسوس کر رہا تھا۔ جب اس کے والدین زندہ تھے تو اس کا وجود بھی زندہ تھا جب والدین کا ساتھ اٹھ گیا تو اسے اپنا وجود بے کار نظر آتا ہوا محسوس ہوا اور اسے ایسا لگنے لگتا کہ اس کے پاس زندگی نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں ۔ وہ بھی مردہ ہو چکا ہے۔
     ”ابھی تک نہیں سوئے۔“ آدھی رات سے زائد کا وقت تھا جب ریحان نے اس کی طرف دیکھا، وہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر گہری سوچوں میں گم تھا، ریحان کی اچانک ہی آنکھ کھلی تھی وہ یوں ہی چھت کی طرف منھ کیے کسی گہری سوچ میں گم تھا۔
     ”کیا ہوا؟ پریشان ہو، ابھی تک صرف وہی سوچ رہے ہو، بھول جاؤ سب کچھ، ایک نئی زندگی کی شروعات کرو۔ اپنے آپ کو آگے کی طرف بڑھاؤ، اپنے والدین کے خواب پورے کرو اگر یہ حال تمھارا رہا تو تمھاری زندگی رک جائے گی۔“ ریحان اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
     ”زندگی چل ہی کہاں رہی ہے؟ رکی ہوئی تو ہے۔“ وہ مایوسانہ انداز میں بولا۔
     ”کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو؟ سجاول ہوش میں تو ہو۔ مجھے تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ چلو سو جاؤ، شاباش۔“ ریحان اسے نصیحت کرنے والے انداز میں بولا تو اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ نیند اسے کہاں آنی تھی۔ وہ جن سوچوں میں پھنس چکا تھا اب وہ کیسے ان سے نکل سکتا تھا۔
********
     ”نائلہ نے صحیح نہیں کیا، اس کا تو لہجہ میں نے کبھی بھی ایسے نہیں دیکھا، مجھے تو کچھ اور ہی معاملہ لگتا ہے۔“ نویدہ اپنے کمرے میں بیٹھی سوچ رہی تھی، نیند تو اس کی بھی اڑ چکی تھی وہ معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتی تھی۔ رات کے تین بج رہے تھے اور تین افراد ہی ایسے تھے جن کی نیندیں اڑی ہوئی تھیں۔ تینوں ہی کسی گہری سوچوں میں گم تھے۔ نویدہ، نائلہ اور سجاول، نائلہ بھی رو رہی تھی صاف ظاہر ہے اس کی ذات پر لگایا گیا دھبہ اس کی پوری زندگی کو برباد کر سکتا تھا اور کوئی لڑکی کہاں ایسا چاہتی ہے کہ اس کے کردار کو لوگ برا بھلا کہیں جب کہ وہ بے قصور ہو۔ ہر لڑکی کو اپنی عزت اپنا وقار پیارا ہوتا ہے لوگوں کی طرف سے کی گئی باتوں نے نائلہ کو بھی توڑ کر رکھ دیا تھا۔
********
     ”اٹھ جاؤ، اب کتنا سوؤ گی؟ میں نے دفتر جانا ہے، مجھے دیر ہو رہی ہے۔“ وقاص نویدہ کو جھنجھوڑتے ہوئے بول رہا تھا۔ ساری رات سوچتے سوچتے آخر اس کی آنکھ صبح ہونے کے قریب لگ ہی چکی تھی۔
     ”اٹھ جاؤ۔“ اب وقاص نے ایک دفعہ پھر اسے جھنجھوڑا تو وہ ناچاہتے ہوئے بھی اٹھ بیٹھی۔ فریش ہو کر وہ ناشتہ بنانے لگی مگر اس کا ذہن نائلہ کی طرف تھا، وہ بار بار یہی سوچ رہی تھی کہ آخر بات کیا ہے۔ اچانک ہی اسے کسی بات کا خیال آیا اور پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ رینگنے لگی۔
      ”جب یہ دفتر چلے جائیں گے تو پھر اس سے تسلی سے  بات کروں گی۔“ یہ سوچ کر وہ پرسکون ہو کر ناشتہ بنانے لگی۔
قسط نمبر 22
     نویدہ ناشتہ بنا کر فارغ ہو چکی تھی۔ اس نے جلدی سے وقاص کا ناشتہ تیار کیا۔ اور کھانے کی میز پر وقاص کا ناشتہ سجایا۔ ناشتہ کرنے کے بعد وقاص آفس چلا گیا۔ برتن سمیٹ کر نویدہ نے اپنا موبائل اٹھایا اور ریسیو کال کی فہرست میں وہ نمبر ڈھونڈا جس نمبر سے اس کو چند دن پہلے کال موصول ہوئی تھی۔ جس نمبر کی وجہ سے اسے پتہ چلا تھا کہ یونیورسٹی میں سجاول بدنام ہو رہا ہے اور وہ خوش تھی کہ نائلہ نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ مگر اصل معاملہ کیا تھا اس سے وہ بے خبر تھی۔ فون کرنے والی کوئی کرن نام کی لڑکی تھی۔ نویدہ کو یہ کال کس طرح آئی وہ بھی ایک اتفاق ہو گیا تھا۔ اصل میں نویدہ اور نائلہ کا موبائل نمبر بالکل ایک جیسا تھا صرف آخری ہندسہ اوپر نیچے تھا، کرن تو نائلہ کو فون کرنا چاہتی تھی مگر وہ نمبر نویدہ کو لگ گیا کیوں کہ اس نے نائلہ کا موبائل نمبر سیو نہیں کیا ہوا تھا، نائلہ کا موبائل نمبر اس کی ڈائری میں لکھا ہوا تھا۔ وہ ڈائری ہر وقت اپنے پاس رکھتی تھی۔ جب نائلہ یونیورسٹی میں داخل ہوئی تو کرن نے اس کا نمبر اپنی ڈائری میں لکھ لیا تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ گھر جا کر اپنے موبائل میں نائلہ کا نمبر سیو کرے گی مگر وہ بھول گئی۔ پھر جب یونیورسٹی میں تقریب تھی، جس میں شغف ادیب کو بھی مدعو کیا گیا تھا تو اس دن نائلہ اور سجاول کا جو دو دفعہ ٹکراؤ ہوا تھا اور اس ٹکراؤ نے دونوں کو بدنام کرکے رکھ دیا تھا۔ سب سے زیادہ کیچڑ نائلہ پر اچھالا گیا، تقریب کے اختتام پر جب نائلہ اپنے گھر چلی گئی تو اس کے پیچھے بھی نائلہ پر بہت الزمات لگائے گئے، کرن یہ سب دیکھ اور سن رہی تھی۔ گھر جا کر اس نے نائلہ کو فون کرنا چاہا کیوں کہ نائلہ کا نمبر اس کی ڈائری میں لکھا ہوا تھا تو اس نے نمبر سیو کرنے کی بجائے ایسے ہی نمبر ڈائری سے دیکھ کر ڈائل کر لیا اور غلطی سے آخری ہندسہ 5 کی بجائے 6 ڈائل کر دیا جس کی وجہ سے کال نویدہ کو چلی گئی پہلے تو کرن یہ سمجھتی رہی کہ نائلہ بات کر رہی ہے تو اس نے سجاول پر جو الزمات تھے وہ بتائے، نویدہ خوشی سے سنتی رہی مگر جب نویدہ نے اسے بتایا کہ میں نائلہ نہیں بلکہ اس کی بڑی بہن نویدہ بات کر رہی ہوں تو کرن نے اللہ حافظ کہہ کر موبائل جلدی سے آف کردیا۔ نویدہ نے سمجھا کہ بات مکمل ہو گئی ہے تو وہ خوش ہوئے بغیر نہ رہ سکیں، انھوں نے خیال کیا کہ نائلہ نے اپنا کام شروع کر دیا ہے تو اس کے فوراً بعد انھوں نے نائلہ کو فون کیا اور اسے شاباش دی جس کی وجہ سے نائلہ پریشان ہوگئی کہ نویدہ آپی کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی۔
     کرن نے موبائل بند کر کے جب ڈائل کیا ہوا نمبر اپنی ڈائری میں لکھے ہوئے نمبر کے ساتھ ملایا تو تب اسے احساس ہوا کہ وہ جلدی میں آخری ہندسہ 5 کی بجائے 6 ڈائل کر بیٹھی ہے تو اسے بہت افسوس ہوا۔ لیکن پھر یہ افسوس جلد ہی ختم ہو گیا وہ اس بات سے مطمئن ہو گئی تھی کہ اگر اس سے نمبر ملانے میں غلطی ہوئی بھی ہے تو یہ کوئی اتنی بڑی غلطی نہیں کیوں کہ یہ نمبر نائلہ کی بہن کا تھا اور وہ سمجھ رہی تھی کہ نائلہ بھی یہ بات اپنی بہن کو بتائے گی اور اگر کرن کے ذریعے یہ بات نویدہ کو معلوم ہو گئی ہے تو یہ کوئی اتنی بڑی غلطی نہیں آخر دونوں بہنیں ہی ہیں۔ تو یہ سوچ کر وہ مطمئن ہو گئی تو اس نے بھی اس بات کا ذکر یونیورسٹی میں نائلہ سے نہیں کیا۔ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ ضرور نائلہ نے اپنی بہن کو یہ بات بتائی ہو گی۔
قسط نمبر 23
     نویدہ نے ریسیو کال کی فہرست میں سے کرن کا نمبر ڈھونڈ کر ڈائل کیا تو اسے کرن کا نمبر آف ملا۔ اس نے پھر کوشش کی مگر نمبر اب بھی بند تھا۔ وہ بار بار کوشش کرتی رہی نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔ وہ نائلہ کو دیکھ کر بہت پریشان تھی وہ اصل وجہ جاننا چاہتی تھی مگر اسے معلوم نہیں تھا کہ جو کچھ وہ سجاول کے لیے چاہتی تھی وہی اس کی بہن نائلہ کے ساتھ ہو گیا تھا۔ بار بار کوشش کے بعد آخر اس نے موبائل ایک طرف رکھ دیا، وہ کرن سے بات کرنے کے لیے بے چین تھی مگر اس کی بات کرن سے نہیں ہو پا رہی تھی۔
*********
     سجاول اور ریحان صبح یونیورسٹی پہنچے تو کچھ طلبا و طالبات اب بھی مختلف باتیں کرتے ہوئے نظر آئے۔ بات تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی۔ یہ لمحہ سجاول کے لیے سخت اذیت ناک تھا۔ وہ کسی کا منھ بند نہیں کروا سکتا تھا۔ اس نے غصے سے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچی، اس کا بس چلتا تو وہ سب کے منھ توڑ دیتا مگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ ریحان سب کچھ دیکھ رہا تھا، وہ سجاول کے رد عمل پر پیچ و تاب کھا رہا تھا۔
     ”بے وقوف! سب کچھ واضح ہے پھر بھی اسے بے قصور مان رہا ہے۔“ ریحان دل ہی دل میں بڑبڑایا، دونوں لیکچر روم کی طرف بڑھ چکے تھے۔
     سجاول کی نظریں مسلسل نائلہ کو تلاش کر رہی تھیں مگر نائلہ وہاں نہیں تھی۔ آج اس کی سیٹ پر کرن بیٹھی ہوئی تھی۔ سجاول نے چاروں طرف نظریں گھما کر دیکھا۔ جس کو تلاش کرنے کی خاطر اس کی نظریں گھوم رہی تھیں وہ اس کو کہیں بھی نہیں مل رہی تھی، سب جگہ دیکھنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ آج نائلہ یونیورسٹی آئی ہی نہیں۔ وہ پریشان ہو گیا کہ نائلہ کیوں نہیں آئی ہوگی۔
*******
     اس کا نائلہ سے ملنا اب بہت ضروری ہو چکا تھا۔ مگر ریحان اور خالدہ بیگم نے اسے روکا ہوا تھا۔ وہ چاہ کر بھی نائلہ کو نہیں مل سکتا تھا۔ اس نے اپنے دل کے چھوٹے سے گوشے میں نائلہ کے لیے محبت کا چھوٹا سا ذرہ محسوس کیا۔ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ یہ محبت کا ذرہ اس کے دل میں کب سے آ بسا ہے۔ اور یہ ذرہ آہستہ آہستہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ ہر گزرتا ہوا پل اسے دشوار گزار محسوس ہو رہا تھا۔ وقت اس پر بھاری ہوتا جا رہا تھا۔ اور وہ کسی اور ہی دنیا کا باسی بننے لگا۔
*******
     آج تین دن گزر چکے تھے نائلہ یونیورسٹی نہیں آ رہی تھی۔ ایک ایک لمحہ سجاول کے لیے اذیت ناک ہوتا جا رہا تھا۔ ریحان اس کی حالت دیکھ کر بہت افسردہ تھا۔ اپنے دوست کی ایسی حالت اس سے دیکھی نہیں جا رہی تھی۔
     ”سجاول کیا ہو گیا ہے تمھیں؟“ ریحان سجاول کو کہہ رہا تھا۔
     ”مم۔۔۔ میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا، میری وجہ سے اس کی زندگی تباہ ہو گئی۔ سارا قصور میرا ہے۔“ سجاول کسی بچے کی طرح رو رہا تھا۔
     ”اپنے آپ کو کیوں قصور وار ٹھہرا رہے ہو؟ سارا الزام اپنے اوپر کیوں لے رہے ہو؟ قصور تو اس کا تھا۔“ ریحان اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
     ”نہیں یار! میرا دل کہتا ہے کہ وہ بے قصور ہے۔ آخر تم یہ بات مان کیوں نہیں لیتے؟“ ریحان آخری جملہ چیختے ہوئے بولا۔ اس کی طبیعت واقعی خراب ہوتی جا رہی تھی۔ ریحان اس کی طبیعت کے بارے میں بہت فکر مند تھا۔
     ”اچھا بابا مان لیا کہ وہ بے قصور ہے، ایسا محض اتفاق سے ہوا ہے، تم تو اپنی حالت درست کرو، چلو میں تمھیں ڈاکٹر کے پاس لے کر چلتا ہوں۔“ ریحان اسے اٹھاتے ہوئے بولا۔
قسط نمبر 24
     ”نہیں مجھے اس کے پاس لے چلو۔ بس ایک دفعہ اس سے مل لوں، اس سے بات کر لوں، میرے دل کو سکون مل جائے گا۔“ سجاول بے چین ہوتے ہوئے بولا۔ پھر اچانک ہی اس کی آنکھ لگ گئی ریحان نے سجاول کی ٹانگیں سیدھی کی اور بیڈ پر اس کے ساتھ ہی بیٹھا رہا۔ رات گہری ہوتی جا رہی تھی اور رات کی  طرح یہاں بھی خاموشی چھا چکی تھی۔
********
     ”پاگل ہو گئی تم۔ اپنی جان کی دشمن کیوں بن بیٹھی ہو؟ کیا ہو گیا ہے تمھیں؟“ نائلہ کی والدہ عفت بیگم اس کی حالت پر اشکبار تھیں۔ وہ بھی سارے معاملے سے بے خبر تھیں۔
     ”تین دن ہو گئے تم یونیورسٹی نہیں جا رہی۔ اور تمھاری طبیعت روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے۔ آخر ہوا کیا ہے کچھ تو بتاؤ؟“ عفت بیگم مسلسل رو رہی تھیں۔
     تین دن سے نائلہ بالکل چپ تھی۔ نہ کچھ کھا رہی تھی اور نہ ہی کچھ پی رہی تھی۔ اس کے والدین اس کی اس حالت پر افسردہ تھے۔ اس کے والد عامر صاحب روزانہ ڈاکٹر صاحب کو بلا آتے اور اس کا چیک اپ کرواتے مگر اسے کیا ہو گیا تھا وہ کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ یہ کسی ٹینشن میں ہے اس وجہ سے اس کا یہ حال ہے مگر وہ ٹینشن کیا تھی، وہ کسی کو نہیں بتا پا رہی تھی۔ اور وہ بتانا بھی نہیں چاہتی تھی۔ وہ اپنے والدین کو اتنا بڑا صدمہ دینا نہیں چاہتی تھی۔ اور صدمہ بھی ایسا جو اس پر جھوٹا الزام تھا۔
     ہر والدین کی عزت ان کی بیٹیاں ہی ہوتی ہیں۔ جب کسی کی بیٹی پر بد چلنی کا الزام لگ جائے تو والدین جیتے جی ہی مر جاتے ہیں۔ باپ کی عزت، وقار سب ختم ہو جاتا ہے اور جب دوسرے لوگ باپ کے سر کی پگڑی اچھالتے ہیں تو اس وقت باپ کی کیا حالت ہوتی ہے وہ کوئی نہیں جانتا۔ ایسے لگتا ہے جیسے بیٹی کا باپ ہونا کوئی بہت بڑا گناہ ہے۔ مگر معاشرہ کہاں یہ سب برداشت کرتا ہے۔ اس معاشرے کو صرف دوسروں پر الزام لگانا ہی آتا ہے۔ اور خاص کر بیٹیوں کے والد کی پگڑی کے ساتھ کھیلنے میں تو بہت ہی مزا آتا ہے۔ نائلہ یہ سب نہیں چاہتی تھی۔ وہ تو بس ناکردہ گناہ کی دلدل مہں پھنس چکی تھی۔ وہ تو اس بات سے ڈر رہی تھی کہ اگر اس معاملے کی بھنک اس کے والد کے کانوں میں پڑ گئی تو وہ تو صدمے سے مر ہی جائیں گے۔ اس لیے وہ کسی کو بھی کچھ نہیں بتا رہی تھی۔
     عفت بیگم نے نائلہ کو دودھ کا گلاس دیا مگر اس نے دودھ بھی نہیں پیا۔ اس حالت میں ہی وہ سو گئی۔ عفت بیگم باہر آکر گھر کے کاموں میں لگ گئیں ان کے شوہر عامر صاحب صبح سویرے ہی کام پر چلے گئے تھے۔
**********
     ”کاش ہمارا کوئی بیٹا ہوتا۔“ عفت بیگم عامر صاحب کو کہہ رہی تھیں۔
    ”اے جھلی ہو گئی ہے تو، میری دونوں بیٹیاں کیا بیٹوں سے کم ہیں، دیکھنا یہی میرا سہارا بنیں گی۔ ہر انسان کے دو بازو ہوتے ہیں اور میرے یہ دو بازو میری یہ دونوں بیٹیاں ہی ہیں۔“ عامر صاحب نائلہ کو پیار سے اٹھاتے ہوئے بولے۔ نویدہ اس وقت سکول گئی ہوئی تھی۔ نائلہ ابھی بہت چھوٹی تھی اس لیے اسے سکول میں داخل نہیں کرایا گیا تھا۔ چھوٹی ہونے پر بھی وہ بہت سمجھدار تھی، والدین کی باتوں کو سمجھ سکتی تھی۔ اس کے والدین آپس میں باتیں کر رہے تھے اور وہ ساری باتیں ان کی سمجھ رہی تھی۔
     ”بابا میں نے آئس کریم کھانی ہے۔“ عامر صاحب نے جب پیار سے نائلہ کو اٹھایا تو وہ فوراً بول پڑی۔ عفت بیگم نائلہ کی معصوم سی خواہش سن کر ہنس پڑیں۔
قسط نمبر 25
     ”اچھا میری بیٹی آئس کریم کھائے گی۔ نویدہ کو آ لینے دو۔ ابھی وہ سکول سے آ جائے گی تو میں آپ دونوں کو آئس کریم لا دوں گا۔“ عامر صاحب نے پیار سے نائلہ کے گال تھپتھپاتے ہوئے اسے کندھے سے اتارتے ہوئے کہا تو وہ ہنسنے لگی۔ ابھی چند منٹ ہی نہیں گزرے تھے کہ نویدہ کی سکول وین نے ہارن دیا۔
     ”لو نویدہ بیٹی آ گئی، اب مجھے تم دونوں کو وعدے کے مطابق آئس کریم لا کر دینی ہوگی۔“ عامر صاحب نے دوبارہ نائلہ کو کندھے پر اٹھا لیا۔
     ”آپی جلدی کرو آج بابا جان ہم دونوں کو آئس کریم لا کر دیں گے۔“ نویدہ ابھی گھر میں داخل ہوئی ہی نہیں تھی کہ نائلہ نے زور سے کہا یہ سن کر نویدہ بھی خوش ہو گئی۔ آئس کریم دونوں بہت شوق سے کھاتی تھیں۔ پھر عامر صاحب نے ان دونوں کو آئس کریم لا کر دی تو دونوں مزے سے کھانے لگیں۔
     نائلہ سوئی ہوئی حالت میں یہ سب سوچتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔ ان کے والد اپنی بیٹیوں سے کتنا پیار کرتے تھے۔ عفت بیگم تو بعض دفعہ کہہ بیٹھتی تھیں کہ اللہ انھیں ایک بیٹا تو دیتا مگر عامر صاحب نے کبھی نہیں کہا۔ وہ اپنی بیٹیوں کو ہی اپنا بیٹا اور اپنے دونوں بازو سمجھتے تھے۔ نائلہ کو بھی اپنے والد سے بہت محبت تھی اس لیے وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ان کا سر کبھی جھکے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے بے گناہ ہونے کی مسلسل دعائیں کرتی رہتی تھی۔
     تھوڑی دیر بعد نویدہ بھی اپنے میکے آ گئی وہ نائلہ کی طبیعت دیکھ کر  بہت افسردہ تھی۔
     ”کیا ہوا بیٹی! تمھیں کچھ معلوم ہے کہ اس کی طبیعت ایسے کیوں ہو گئی ہے؟ اور یونیورسٹی بھی نہیں جا رہی۔“ عفت بیگم نے نویدہ سے پوچھا۔
     ”نہیں امی جان! مجھے کچھ معلوم نہیں۔“ نویدہ نے نفی میں سر ہلایا۔ گو کہ اسے واقعی کچھ معلوم نہیں تھا لیکن وہ نائلہ کو جو کچھ کرنے پر مجبور کر رہی تھی وہ تو اسے معلوم تھا، اس کے باوجود اس نے عفت بیگم سے جھوٹ بول دیا۔ عزت کسے پیاری نہیں ہوتی ہر کسی کو اپنی عزت پیاری ہوتی ہے۔ نویدہ کو بھی اپنی عزت پیاری تھی۔ اس لیے اس نے وہ سب نہیں بتایا جس کام کو کرنے کے لیے اس نے نائلہ کو اکسایا تھا۔
     گھر آ کر نویدہ نے پھر کرن کا نمبر ڈائل کیا۔ کرن کا نمبر اب بھی بند جا رہا تھا۔ وہ جھنجھلا کر رہ گئی۔ وہ یہ تو سمجھ چکی تھی کہ معاملہ کچھ اور ہے مگر وہ معاملہ کیا ہے یہ نہ جان سکی۔
********
     صبح جب ریحان کی آنکھ کھلی تو سجاول کو دیکھا وہ بے سدھ پڑا ہوا تھا۔ شدید بخار سے وہ تپ رہا تھا۔ ریحان اس کی حالت دیکھ کر گبھرا گیا۔
     ”ایک تو یہ نواب زادہ بیمار بھی جلدی ہو جاتا ہے۔“ ریحان نے دل میں سوچا۔ اس دوران سجاول کی بھی آنکھ کھل چکی تھی، وہ بہت نقاہت محسوس کر رہا تھا۔
     ”ہوگئی نا طبیعت خراب۔ پتہ نہیں کن سوچوں میں پڑ چکے ہو؟“ ریحان اس سے شکوہ کر رہا تھا۔ ”چل جلدی کر، تجھے ہسپتال لے چلتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب چیک اپ کریں گے تو آرام آ جائے گا۔“ وہ سجاول کو لے کر ہسپتال کی طرف چل دیا۔
     ہسپتال میں داخل ہوتے ہی وہ دونوں ٹھٹک گئے۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا ان کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا، دونوں کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ سامنے بنچ پر نویدہ اور نائلہ دونوں بیٹھی ہوئی تھیں۔ نائلہ کی شکل سے واضح لگ رہا تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ سجاول جلدی سے آگے بڑھنا چاہ رہا تھا مگر ریحان نے روک لیا۔
قسط نمبر 26
     ”کیا کر رہا ہے یار؟“ ریحان نے سجاول کو پکڑتے ہوئے کہا۔
     ”وہ۔۔۔۔ وہ تم دیکھ نہیں رہے نائلہ آئی ہے۔ پلیز مجھے اس سے بات کرنے دو۔“ سجاول بے قراری سے بولا۔
     ”ساتھ تمھاری بھابھی بھی آئی ہوئی ہیں۔ اگر انھوں نے ہمیں دیکھ لیا تو معاملہ خراب ہو سکتا ہے۔“ ریحان اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔
     ”کون سا معاملہ؟ میں کچھ نہیں سمجھتا، پلیز مجھے جانے دو۔“ سجاول بے تابی سے بولا۔ ریحان نے اسے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔
     ”بے وقوف نہ بنو چلو ادھر سائیڈ پہ آ جاؤ۔“ ریحان اسے کھینچتے ہوئے سائیڈ پر لے آیا۔ اس دوران سجاول نے دیکھا کہ نویدہ بھابھی نائلہ کو لے کر ڈاکٹر روم کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
     ”مجھے لگتا ہے نائلہ کی بھی طبیعت خراب ہے، ابھی میں نے نائلہ کو بھابھی کے ساتھ ڈاکٹر روم کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ہے۔“ سجاول گھبراہٹ میں بول رہا تھا، وہ جلد از جلد نائلہ سے ملنا چاہتا تھا۔ یہ وہی پیار کا جذبہ ہی تھا جو اس کے دل میں آہستہ آہستہ پیدا ہو رہا تھا۔ مگر ریحان یہ سب نہیں جانتا تھا وہ اسے بس یہ سمجھ رہا تھا کہ سجاول ویسے ہی نائلہ کو ملنا چاہتا ہے۔
     ”یار کیا ہو گیا ہے؟ ملاقات ہو جائے گی اتنا کیوں گبھرا رہا ہے؟ بندے کی طبیعت خراب ہو ہی جاتی ہے، بس وہ بھی تمھاری بھابھی کے ساتھ دوائی لینے آئی ہو گی، تمھاری بھی تو طبیعت خراب ہو گئی ہے تم بھی تو میرے ساتھ دوائی لینے آئے ہو، چلو شاباش! بے فکر ہو جاؤ اب ہمارا نمبر آنے والا ہے۔“ اس دوران انھوں نے بھابھی نویدہ کو نائلہ کے ساتھ ہسپتال سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا۔ وہ دوا لے کر فارغ ہو چکی تھیں۔ اس لیے گھر کی طرف جا رہی تھیں۔
      ”پتہ نہیں اسے کیا ہو گیا ہو گا خدا خیر کرے۔“ سجاول دل میں سوچ رہا تھا اتنے میں چیک اپ کے لیے اس کا نمبر آ گیا وہ بھی چیک اپ کروا کر دوائی لینے کے بعد گھر آ گیا۔
     ”تم نے مجھے نائلہ سے کیوں نہیں ملنے دیا۔“ تھوڑی دیر بعد سجاول کی طبیعت کچھ ٹھیک ہوئی تو وہ ریحان سے شکوہ کر رہا تھا۔
     ”کیسے ملنے دیتا؟ تیری بھابھی بھی تو ساتھ تھیں۔ ذرا سوچو وہ تمھیں دیکھ لیتیں تو کیا ہوتا؟ ریحان نے اسے جواب دیا۔
سجاول نے بھی ایک لمحے کے لیے سوچا تو اسے لگا کہ ریحان نے واقعی ٹھیک کیا ہے اگر وہ بھابھی کی موجودگی میں اس سے ملتا تو نجانے بھابھی کیا کیا باتیں بناتیں۔ مگر پیار کا جذبہ یہ سب نہیں دیکھتا، وہ تو نائلہ سے ملنے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ مگر دوسرے لوگ کہاں یہ سب دیکھتے ہیں۔ ابھی تو اس نے نائلہ سے اپنی محبت کسی کے سامنے ظاہر بھی نہیں کی تھی۔ بس وہ دل ہی دل میں اپنی محبت کے جذبے کو پروان چڑھا رہا تھا۔
**********
یہ دوائی کھا لو عفت بیگم نے نائلہ کو دوائی دیتے ہوئے کہا۔
نائلہ نے پانی کے ساتھ گولیاں اپنے حلق میں اتاریں۔ اب وہ کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ صبح نویدہ ہسپتال سے اس کا چیک اپ کروانے کے بعد گھر جا چکی تھی۔ اسے گھر میں بہت سارے کام تھے اوپر سے یہ ٹینشن کہ نائلہ کی طبیعت خراب کیوں ہے۔ وہ سوچ سوچ کر پاگل ہوئی جا رہی تھی۔
*********
     ”کیا ہوا؟ پریشان ہو۔“ رات کو نویدہ جب بیڈ پر سونے کے لیے لیٹی تو وقاص نے اس کا بجھا ہوا چہرا دیکھ کر پوچھا۔
     ”نہیں بس ویسے ہی۔“ اس نے بات گول کر دی وقاص چادر اوڑھ کر سو چکا تھا۔ مگر نویدہ کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا رات کے پونے دس بج رہے تھے۔ 
قسط نمبر 27
     ”اب کرن کو فون کرکے دیکھتی ہوں، کیا پتہ وہ اب فون اٹھا لے۔“ یہ سوچ کر نویدہ نے اپنا موبائل اٹھایا اور کرن کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔ اب کی بار بیل جا رہی تھی اور دوسری طرف سے کال ریسیو بھی کر لی گئی تھی۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا۔
     نویدہ جلدی سے باہر برامدے میں آ گئی تاکہ اس کے بولنے کی وجہ سے وقاص کی آنکھ نہ کھل جائے۔
     ”آپ کرن بات کر رہی ہیں۔“ نویدہ نے موبائل پر پوچھا کیوں کہ اسے آواز کچھ تبدیل لگ رہی تھی۔
     ”نہیں، میں اس کی والدہ بات کر رہی ہوں، آپ کون؟“ دوسری طرف سے کہا گیا۔
     ”میں اس کی سہیلی کی بہن نویدہ بات کر رہی ہوں، کیا میری اس سے بات ہو سکتی ہے؟“ نویدہ نے سوالیہ لہجہ اختیار کیا۔
     ”نہیں بیٹا وہ اپنے والد کے ساتھ کہیں تقریب میں گئی ہے، آپ کل فون کر لینا۔“ دوسری طرف سے مشفقانہ انداز میں کہا گیا تو نویدہ نے موبائل آف کر دیا۔ وہ کرن سے بات کرنے کے لیے بہت بے چین تھی۔ اتنی بے چینی اسے پہلے کبھی بھی نہیں ہوئی تھی اب اسے کرن سے بات کرنے کے لیے کل کا انتظار کرنا تھا۔
*********
     ”کیا حال ہے بیٹا؟ اب طبیعت کیسی ہے؟“ اگلی صبح خالدہ بیگم ان دونوں کو ناشتہ دینے آئیں تو انھوں نے سجاول سے پوچھا۔
     ”یہ کیا بتائے گا، میں بتاتا ہوں، موصوف ایک ہی ضد کیے بیٹھے ہیں کہ نائلہ سے ملنا ہے۔ اور اپنی حالت ایسے بنا رکھی ہے جیسے اس سے ملنا بہت ضروری ہے۔“ ریحان سجاول کے بولنے سے پہلے بول پڑا۔
     ”ہاں بہت ضروری ہے ملنا، پلیز آنٹی میں آپ کی منتیں کرتا ہوں پلیز مجھے اس سے ملوا دیجیے۔“ وہ روتے ہوئے خالدہ بیگم کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا۔ آنسو اس کے گالوں پر لڑھک رہے تھے۔
     ”اچھا بیٹا! رونے کی ضرورت نہیں ہے، میں آج ہی تمھیں اس سے ملواتی ہوں، صبر کرو۔“ خالدہ بیگم اسے پیار کرنے لگیں۔ اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور ناشتہ کرنے لگا۔ خالدہ بیگم ناشتہ دے کر جا چکی تھیں۔
     ”واہ! تیری آنکھوں سے آنسو نکلتے دیکھ کر تو ایسے لگ رہا تھا جیسے تجھے اس سے محبت ہوگئی ہے اور حیرت کی بات ہے کہ امی جان  بھی مان گئیں۔“ ریحان مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر بول رہا تھا۔
     ”ہاں۔۔۔۔ مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ میں اپنے دل کو قابو میں نہیں رکھ سکتا۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ پاک ہے، وہ بے گناہ ہے۔ مگر ہم نے کیا کیا اس کے ساتھ؟ اسے قصور وار ٹھہرایا، اس ہر الزام لگایا، اسے اذیتیں دیں۔“ سجاول جنون میں بول رہا تھا۔ ریحان تو یہ سب سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے بولتے ہوئے دیکھ رہا تھا، آج اس نے پہلی بار ریحان کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ ریحان سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سجاول محبت کے درجے پر پہنچ جائے گا۔
     ”کیا اول فول بک رہے ہو سجاول؟“ ہوش و حواس میں نہیں ہو تم۔“ ریحان حیران ہو کر بولا۔
     ”ہوش و حواس میں ہوں یار۔ کب اس سے محبت ہوئی؟ کیسے ہوئی؟ کچھ پتہ نہیں چل سکا، وہ معصوم سی لڑکی جس کو میری وجہ سے دکھ ملے، جو میری وجہ سے اذیت میں ہے، میں اس کی تکلیفوں اور اذیتوں کو راحتوں میں بدلنا چاہتا ہوں۔“ سجاول بدستور رو رہا تھا۔ ریحان اسے پاگل ہی سمجھ رہا تھا، وہ نہیں جانتا تھا کہ سجاول کے ذہن اور دل میں کیا چل رہا ہے۔ وہ تو اس کی حالت پر صرف افسوس ہی کر سکتا تھا۔ وہ سجاول کو جب بھی سمجھاتا مگر سجاول اس کی بات نہ سنتا۔ آج سجاول کا اس کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرنا اسے اور بھی پریشان کر گیا۔
قسط نمبر 28
     ”پاگل ہے یہ لڑکا، اسے کیسے سمجھاؤں؟ کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔“ ریحان دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔
      ”اچھا ٹھیک ہے، ابھی آرام کرو، امی جان نے تمھیں نائلہ سے ملوانے کا کہا ہے تو وہ ضرور تمھیں اس سے ملوا دیں گی، اتنا بے چین ہونے کی ضرورت نہیں۔“ ریحان نے اسے کہا۔ یہ کہہ کر وہ کسی کام کے سلسلے میں باہر چلا گیا، جو اسے خالدہ بیگم نے بتایا تھا۔
     تھوڑی دیر بعد خالدہ بیگم کی آواز آئی جو سجاول کو بلا رہی تھیں۔
     ”جی آنٹی آپ نے بلایا۔“ سجاول سعادت مندی سے بولا۔
     ”جی بیٹا! آؤ بیٹھو۔“ خالدہ بیگم نے جواب دیا۔ وہ خالدہ بیگم کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ اپنی ماں کے بعد وہ انھیں کے پاؤں میں اپنی جنت ڈھونڈتا تھا۔
     ”اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ نائلہ بے قصور ہے تو سب سے پہلے میں بات کروں گی، اس سے ملوں گی اور اگر واقعی وہ بے قصور ہوئی تو پھر میں تمھاری اس سے ملاقات کروا دوں گی، ایسے کسی لڑکی سے ملاقات کرنے کی ضد نہیں کرتے۔ ہمارا معاشرہ اسے اچھا نہیں سمجھتا، سمجھ گئے نا میری بات۔“ انھوں نے پیار سے سجاول کو سمجھایا۔ سجاول کو پکا یقین تھا کہ وہ بے قصور ہو گی اس لیے اس نے اقرار میں سر ہلا دیا۔ اور وہاں سے چلا گیا۔ جو کچھ کرنا تھا وہ پہلے ہی خالدہ بیگم سوچ چکی تھیں۔
**********
     برتن دھونے کے بعد نویدہ اپنے کمرے میں آئی، چارجنگ سے اتار کر موبائل اٹھایا اور کرن کو کال ملانے لگی۔ کال ملاتے ہوئے وہ اللہ سے دعائیں کر رہی تھی کہ یا اللہ! اس دفعہ کرن سے بات ہو جائے۔ شاید قبولیت کی گھڑی تھی۔ جب بندہ اللہ سے دعا مانگتا ہے نا تو اللہ بھی ضرور سنتا ہے۔ اس کی بھی دعا سن لی گئی تھی، دوسری طرف کرن ہی بول رہی تھی۔
     ”کرن میں نائلہ کی بہن نویدہ بات کر رہی ہوں، وہ یاد ہے نا اس دن تم نے مجھے کال کی تھی۔“ نویدہ کرن کو یاد دلاتے ہوئے بولی۔
     ”جی جی۔۔۔۔ آپی کیا بات ہے؟“ کرن بوکھلا گئی تھی۔
     ”یہ نائلہ کو کیا ہوا ہے تمھیں کچھ پتہ ہے؟“ نویدہ نے پوچھا۔
     ”آپ کو نہیں پتہ آپی۔“ کرن دانتوں تلے انگلی دبا کر حیرت سے بولی۔
     ”اگر پتہ ہوتا تو تمھیں فون کیوں کرتی؟“ نویدہ نے سوالیہ لہجہ اپنایا۔ اس کے بعد کرن جو کچھ بتاتی گئی وہ سنتی گئی۔ خوفناک دھماکے تھے جو اس کے کانوں میں گونجتے گئے، اسے کائنات گھومتی ہوئی محسوس ہوئی، اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اس کی بہن کے بارے میں اتنی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کے تو پاؤں کے نیچے سے زمین ہی سرک گئی۔ جو کچھ وہ چاہتی تھی، اس کا الٹ ہو چکا تھا اس نے تو ایسا سوچا بھی نہ تھا۔ وہ بالکل منجمند ہو چکی تھی۔ ایسے جیسے اتنا بڑا صدمہ لگا ہو۔ کرن اپنی بات مکمل کرکے موبائل بند کر چکی تھی۔ اور نویدہ کسی صدمے میں ڈوبی ہوئی بیڈ پر گرتی چلی گئی، موبائل اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر نیچے گر چکا تھا۔
*********
     ”کیا کہہ رہی ہو خالدہ بہن؟ میرے گھر آنے سے پہلے کچھ سوچ تو لیا ہوتا۔“ عفت بیگم غصے سے بول رہی تھیں۔
     ”خوب سوچ سمجھ کر ہی آئی ہوں تمھارے گھر۔“ خالدہ بیگم نے جواب دیا۔
     ”میری دونوں بچیوں پر الزام لگاتے ہوئے تمھیں شرم بھی نہیں آئی۔“ عفت بیگم بدستور غصے میں کھڑی تھیں۔
     ”الزام لگا کر میں کیا کروں گی، جو کہا ہے سچ کہا ہے، بڑی نے تو تمیز سیکھی نہیں، وہی سب کچھ کروا رہی ہے۔ تمھاری چھوٹی بیٹی کو بھی بہکا رہی ہے۔“ خالدہ بیگم بھی آج ڈٹ کر کھڑی تھی۔
قسط نمبر 29
     ”میری بڑی بیٹی نے کیا کیا ہے؟ جو تم اتنا اونچا اونچا بول رہی ہو۔“ عفت بیگم کا جلال ختم نہیں ہو رہا تھا۔ بات ہی ایسی تھی کہ کوئی ماں بھلا کیسے برداشت کر سکتی تھی کہ اس کی بیٹیوں کے بارے میں غلط کہا جائے۔
     ”واہ عفت واہ! تمھیں کچھ پتہ بھی نہیں، تمھاری بڑی بیٹی نے پہلے تو اپنے گھر کو گھر سمجھا ہی نہیں، شمیم زندہ تھی تو تھوڑا سا اسے کچھ خیال تھا مگر اس کے جانے کے بعد اس کے تو تیور ہی بدل گئے ہیں، کسی سے سیدھے منھ بات ہی نہیں کرتی، وہاں اس گھر میں جانے کو دل ہی نہیں کرتا، اور پھر میرے سجاول کا کیا قصور تھا جو اپنے گھر میں ہی پرایا بن کے بیٹھا رہا، بہت معصوم ہے وہ، کسی کو کچھ نہیں کہتا، مگر تمھاری بیٹی کے اذیت بھرے جملوں اور رویوں نے اسے اس گھر سے نکلنے پر مجبور کیا، پھر اس کے بعد یہاں تک بھی خاموشی اختیار نہیں کی، اپنی چھوٹی بہن کو صرف اس وجہ سے یونیورسٹی میں داخل کروایا کہ وہ سجاول کو وہاں ذلیل و رسوا کرے۔ مگر کب تک؟ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے تمھاری وہی بیٹی خود یونیورسٹی میں ذلیل و رسوا ہو کر رہ گئی ہے، کسی کو منھ دکھانے کے قابل ہی نہیں رہی۔“ خالدہ بیگم کا بھی غصہ عروج پر تھا۔
     ”بس کر دو خالدہ! بس کر دو، مجھ میں اور مزید سننے کی سکت نہیں۔“ عفت بیگم صدمے سے ڈھے چکی تھیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے۔ غضب تو اس وقت ہو چکا تھا جب عامر صاحب نے گھر میں داخل ہوتے وقت خالدہ بیگم کی ساری باتیں سن لی تھیں۔ ایک غیرت مند باپ کیسے گوارہ کرتا کہ اس کے در پر آ کر کوئی اس کی عزت اچھالے اور اس کے منھ پر کالک ملے۔ اس نے تو اپنی بیٹیوں کو حرام کا لقمہ بھی نہیں کھلایا تھا تو پھر وہ یہ سب کیسے برداشت کر لیتا؟ صدمے سے وہ بھی زمین پر گر چکے تھے۔ نائلہ چیختی ہوئی بھاگتی ہوئی آئی تھی اپنے ابو کو سہارا دینے کے لیے مگر وہ اس کے پہنچنے سے پہلے ہی زمین پر گر کر بے ہوش ہو چکے تھے۔ خالدہ بیگم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عامر صاحب کو بے ہوشی کی حالت میں پایا۔ عفت بیگم بھی کراہ رہی تھیں۔ نائلہ انھیں روتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
********
     وہ اتنی زور سے چیخ مارتی ہوئی بیڈ سے اٹھ بیٹھی تھی۔ وہ زور زور سے ہانپ رہی تھی۔ وقاص اس کی چیخ سن کر بھاگتے ہوئے آیا تھا۔
     ”کیا ہو گیا ہے نویدہ تمھیں؟ ڈر گئی ہو کیا؟“ وقاص اسے سنبھالتے ہوئے بولا۔
     ”وہ۔۔۔۔ وہ وقاص! امی ابو ان کی طبیعت ٹھیک نہیں، مجھے ان کے پاس لے چلو۔“ وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔
      ”لگتا ہے تم نے کوئی برا خواب دیکھا ہے، لو یہ پانی پیو۔“ وقاص نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اس نے غٹا غٹ پانی پی لیا۔
     ”بس وقاص مجھے ابھی اور اسی وقت امی کے گھر لے چلو۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ امی ابو خیریت سے ہیں۔“ وہ گھبرائے ہوئے انداز میں بولی۔
     ”اچھا بابا چلتے ہیں، تھوڑا سا فریش تو ہو لینے دو، جیسے ہی دفتر سے آیا تمھیں سوتے ہوا پایا، میں سمجھا کہ گھر کے کام کرکے بہت تھک چکی ہو گی اس لیے سو گئی، ابھی فریش ہونے جا ہی رہا تھا کہ تمھاری چیخ سن کر واپس آ گیا، لو یہ محترمہ کا موبائل بھی نیچے گرا پڑا ہے۔“ وقاص کی نظر جیسے ہی اس کے موبائل پر پڑی اس نے موبائل اٹھا کر نویدہ کے ہاتھ میں دیا۔
    قسط نمبر 30
     ”اچھا میں بس پندرہ منٹ میں فریش ہو کر آتا ہوں، اس وقت تک تم بھی اپنا حلیہ ٹھیک کر لو پھر میں تمھیں تمھاری امی کے گھر لے چلتا ہوں۔“ وقاص نے جلدی سے اٹھتے ہوئے کہا اور فریش ہونے چلا گیا۔ نویدہ آئینے کا سامنے جا کھڑی ہوئی، آج اسے اپنا وجود بےکار بےکار سا لگ رہا تھا، ایسا وجود جس کی زندگی کا کوئی مقصد ہی نہ تھا۔ اسے اپنے وجود سے گھن آنے لگی۔ یہ وہ وجود تھا جس نے دوسروں کی زندگی میں کانٹیں ہی بوئے تھے۔ اس نے اپنے بالوں کو سمیٹا اور اپنا حلیہ درست کیا۔ اس دوران وہ بار بار اللہ سے دعائیں کرتی رہی کہ یا اللہ امی ابو ٹھیک ہوں۔
     تھوڑی دیر بعد وقاص تیار ہو کر آ گیا، وہ بھی ریڈی تھی، وقاص نے گاڑی نکالی اور دونوں گاڑی میں بیٹھ کر عفت بیگم کے گھر کی طرف چل پڑے۔
     جب وہ اپنی امی کے گھر پہنچی تو شام کا دھندلکا چھانے لگا تھا۔ وقاص اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ وہ گھر میں داخل ہوئی، دروازے پر پہنچتے ہی وہ پتھر کی ہو گئی۔ اس کی آنکھیں مارے حیرت کے ابل پڑیں۔ اور وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے سامنے کا منظر دیکھ رہی تھی۔
     سامنے خالدہ بیگم اس کی امی عفت بیگم سے باتیں کر رہی تھیں۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ غصے کی حالت میں ہیں اور عفت بیگم کو کھڑی کھڑی سنا رہی ہیں، عفت بیگم کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ ایسے جیسے انھیں خالدہ بیگم کی باتوں پر یقین ہی نہ آ رہا ہو۔ عفت بیگم آنکھوں ہی آنکھوں میں شرمندہ نظر آ رہی تھیں۔
     خالدہ بیگم باتیں کر کرکے عفت بیگم کو مزید شرمندہ کرتی جا رہی تھیں اور عفت بیگم کا سر جھکتا جا رہا تھا اور ساری حقیقت ظاہر ہوتی جا رہی تھی۔
ؒ     اسے لگا کہ اب اس کا خواب سچا ہو کر رہے گا، ابھی امی جان نیچے گریں گی اور ابو جان بھی صدمے کی حالت میں بے ہوش ہو جائیں گے۔ اس کے قدم من من بھر کے ہوگئے، وہ جہاں کھڑی تھی کھڑی ہی رہی۔ وہ اپنے ابو کو ان کی باتیں سننے سے روکنا چاہتی تھی، وہ جانتی تھی کہ یہ وقت ابو کے گھر آنے کا ہے، آخر وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا، ابو جان گھر میں داخل ہو رہے تھے۔ دروازے پر نویدہ کو دیکھتے ہی رک گئے، نویدہ پھرتی سے ہی ان کے سامنے آ کھڑی تھی۔
     ”کیا ہو گیا ہے بیٹا؟ میرے سامنے کیوں آ گئی ہو؟“ انھوں نے حیران ہو کر کہا۔
     ”وہ۔۔۔۔ وہ ابو جان! آپ اندر نہیں جا سکتے۔“ اس نے جلدی سے جواب دیا، وہ نہیں چاہتی تھی کہ ابو جان اس کی امی اور خالدہ بیگم کی باتیں سنیں۔ وہ اپنی امی کو تو صدمے سے نہیں بچا سکتی تھی مگر ابو کو تو بچا سکتی تھی نا۔۔۔ اسے پتہ تھا کہ خالدہ بیگم سب کچھ جان چکی ہوں گی اور وہ وہی کچھ بتانے امی جان کو آئیں ہوں گی۔ چوں کہ وہ ایسا خواب بھی دیکھ چکی تھی تو اسے یقین ہو چلا تھا کہ اب گھر میں قیامت آنے والی ہے۔
     ”کیوں بیٹا! میں کیوں نہیں جا سکتا۔“ انھوں نے نویدہ سے پوچھا۔ وہ تھکے ہارے کام سے آئے تھے۔ مگر اپنی بیٹی کا راستہ روکنا انھیں اچھا نہ لگا، وہ جلد از جلد اندر جانا چاہتے تھے تاکہ فریش ہو کر سکون سے بیٹھ سکیں۔ مگر نویدہ ان کا راستہ روکے کھڑی تھی۔ وہ انھیں اندر نہیں جانے دے رہی تھی۔ وہ انھیں روکے رکھنے کا کوئی بہانہ سوچ رہی تھی۔
     اس سے پہلے کے وہ عامر صاحب کو روکنے رکھنے کے لیے کچھ سوچتی اس کے کانوں میں خالدہ بیگم کی آواز پڑی۔
قسط نمبر 31
     ”اچھا عفت بہن! اب میں چلتی ہوں۔“ خالدہ بیگم نے انھیں گلے لگاتے ہوئے کہا۔
     ”بہت خوشی ہوئی کافی عرصے بعد تمھیں دیکھ کر، ایسے آتی جاتی رہا کرو۔“ عفت بیگم مسکراتے ہوئے بول رہی تھیں۔ وہ آنکھیں پھاڑے یہ سب دیکھ رہی تھی، اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ تھوڑی دیر پہلے جو اس نے خالدہ بیگم کو اپنی امی کے ساتھ لڑتے ہوئے دیکھا تھا اب وہ دونوں مسکرا کر مل رہی تھیں۔ خالدہ بیگم دروازے کی طرف بڑھیں، انھوں نے نویدہ کو دیکھا اور منھ دوسری طرف پھیر لیا۔ ایسے جیسے وہ اس سے بات کرنا ہی نہ چاہتی ہوں، سامنے عامر صاحب کو دیکھ کر انھیں سلام کر کے وہ دروازے سے باہر نکل گئیں۔ نویدہ نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کے امی ابو بالکل ٹھیک تھے، اس کا خواب سچا نہیں ہوا تھا، جو خوف اس کے دل میں موجود تھا وہ ختم ہو چکا تھا، عامر صاحب کمرے میں چلے گئے۔ عفت بیگم نویدہ کو غصے سے دیکھ رہی تھیں لیکن اس وقت انھوں نے نویدہ سے کوئی بات نہیں کی، وہ بھی اسے غصے سے دیکھتی ہوئیں اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ نویدہ نے عفت بیگم کی آنکھوں میں اپنے لیے غصہ دیکھا تو ڈر گئی، وہ ایسے ہی جب بچپن میں امی جان کا غصہ دیکھتی تو ڈر جاتی تھی۔ اس لیے آج بھی وہ ڈر گئی، وہ یہ تو ضرور سمجھ گئی تھی کہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے، خالدہ بیگم امی جان سے کوئی اچھی باتیں نہیں کر گئیں اور وہ باتیں کیا تھیں وہ خود بھی نہیں سن سکی تھی۔ اس نے ان خیالات کو ابھی فی الحال ذہن سے جھٹکا اور گھر کی طرف چل پڑی۔
**********
     خالدہ بیگم، شمیم بیگم کی سہیلی تو تھیں ہی، وہ جب بھی شمیم بیگم کے گھر ان سے ملنے جاتیں تو بعض اوقات عفت بیگم بھی آئی ہوئی ہوتیں۔ عفت بیگم، شمیم بیگم کی کوئی دور کی رشتہ دار تھیں اور پھر شمیم بیگم نے اپنے بیٹے وقاص کے لیے عفت بیگم کی بیٹی نویدہ کا رشتہ بھی مانگا ہوا تھا اس لیے اکثر اوقات عفت بیگم، شمیم بیگم کے گھر آ جاتیں اسی وجہ سے خالدہ بیگم کی بھی عفت بیگم سے علیک سلیک ہو گئی تھی۔ وہ شمیم بیگم کے ساتھ ایک دو دفعہ عفت بیگم کے گھر بھی گئی تھیں۔ اسی وجہ سے وہ نویدہ کے میکے والوں کو اچھی طرح جانتی تھیں آج وہ جب کافی عرصے بعد عفت بیگم کے گھر گئیں تو عفت بیگم انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔
**********
     نویدہ جب گھر پہنچی تو وقاص کھانا کھا کر سو چکا تھا، اس نے کپڑے تبدیل کیے، کھانا کھا کر وہ بھی بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔ نیند تو اس کی چند دنوں سے ہی اڑی ہوئی تھی، وہ بار بار سوچ رہی تھی کہ خالدہ بیگم نے نجانے کیا باتیں امی سے کی ہیں، جس کی وجہ سے امی کی آنکھوں میں اس کے لیے غصہ تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کل دوبارہ اپنی امی کے گھر جائے گی اور سب کچھ معلوم کرے گی۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔
*********
     ”کیا ہوا؟ آنٹی آپ آ گئیں، نائلہ سے ملاقات ہوئی؟“ خالدہ بیگم جیسے ہی گھر میں داخل ہوئیں۔ سجاول انھیں دیکھ کر بے قراری سے بولا۔ خالدہ بیگم اس کی یہ بے قراری جان چکی تھیں۔ راستے میں ریحان نے انھیں سب بتا دیا تھا، اس محبت کا جس محبت کا اظہار سجاول نے گزشتہ دنوں اس کے سامنے کیا تھا۔ وہ جب عفت بیگم کے گھر گئی تھیں تو ریحان کو ساتھ لے کر گئی تھیں۔
     ”ہاں بیٹا! میں آ گئی اور نائلہ سے ملاقات بھی ہوئی مگر نائلہ۔۔۔۔“ خالدہ بیگم یہ کہہ کر چپ ہو گئیں دراصل وہ سجاول کی حالت دیکھنا چاہتی تھیں۔
قسط نمبر 32
     ”مگر کیا؟ آنٹی جان! پلیز جلدی بتائیں۔۔۔“ وہ بے چین ہو رہا تھا۔
     ”بتاتے ہیں، بتاتے ہیں، ابھی امی جان کو سانس تو لینے دو۔“ ریحان نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ تلملا کر رہ گیا۔
     خالدہ بیگم نے برقع اتارا اور مسکراتے ہوئے بولیں۔ ”مگر نائلہ واقعی بے قصور ہے۔“
     ”دیکھا ریحان! میں نے کہا تھا نا، یونیورسٹی میں لوگ خواہ مخواہ ہی باتیں کر رہے ہیں۔ اب انھیں منھ توڑ جواب دینا ہو گا، نائلہ کی بے گناہی ثابت کرنی ہوگی۔“ سجاول جذبات میں بولتا چلا گیا۔ خالدہ بیگم اسے حیرت سے تک رہی تھیں۔ سجاول نے ان کی طرف دیکھا اور شرمندگی سے نظریں جھکا لیں کیوں کہ اس کا بھانڈہ پھوٹ چکا تھا۔ خالدہ بیگم نے اسے گھور کر دیکھا، جیسے پوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ سب کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ خالدہ بیگم کچھ پوچھتیں۔ وہ فوراً ہی کمرے میں بھاگ گیا۔ خالدہ بیگم مسکرا کر رہ گئیں۔
*********
     صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا اسے وقاص نظر نہ آیا۔
     ”لگتا ہے وقاص آفس چلے گئے ہیں۔ مگر انھوں نے مجھے جگایا کیوں نہیں۔“ وہ حیرانی سے سوچ رہی تھی اس نے ڈوپٹہ سر پر ڈالا اور آنکھیں ملتی ہوئی فریش ہونے چلی گئی۔ کچن میں جا کر دیکھا تو دو چار میلے برتن دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ وقاص ناشتہ کرکے گئے ہیں۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا، ورنہ وہ پریشان ہو رہی تھی کہ وقاص ناشتہ کرکے گئے ہوں گے یا نہیں۔ اس نے اپنے لیے ناشتہ بنایا، ناشتہ کرنے کے بعد اس نے وقاص کو فون کیا، دو گھنٹیوں کے بعد ہی وقاص نے فون اٹھا لیا۔
     ”تو اٹھ گئیں محترمہ۔“ دوسری طرف سے کہا گیا۔
    ”ہاں مگر تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟ پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے کہ میری آنکھ وقت پر نہ کھلی۔“ وہ شکوہ کرتے ہوئے بولی۔
     ”جی محترمہ! آج کل میں آپ کو ڈسٹرب ہی دیکھ رہا ہوں، کل جو آپ خواب میں ڈر گئی تھیں تو میں سمجھا کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہو گی، اس لیے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا، بہرحال اب بتاؤ، اب طبیعت کیسی ہے؟“ وقاص نے پوچھا۔
     ”وقاص! میں بالکل ٹھیک ہوں، بس امی ابو کی طرف سے کچھ فکر تھی، مگر وہ اب نہیں ہے۔ پتہ نہیں میری آنکھ جلدی کیوں نہ کھلی۔“ وہ شرمندگی سے بولی۔
     ”کوئی بات نہیں، کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے۔ تمھیں تو میں نے کہا ہوا ہے کہ جب کبھی طبیعت بوجھل ہو رہی ہو اور گھر میں دل نہ لگے تو اپنی امی ابو کے گھر چلی جایا کرو۔“ وقاص نے ہنستے ہوئے کہا۔
     ”ہاں جاتی تو ہوں، آج پھر جانا ہے۔“ نویدہ نے جواب دیا۔
     ”ٹھیک ہے چلی جانا، میں رات کو تمھیں لینے آ جاؤں گا۔“ وقاص نے کہا اور موبائل آف کر دیا کیوں کہ اس نے آفس کا کام کرنا تھا۔
     گھر کے کاموں کے دوران وہ یہی سوچتی رہی کہ نائلہ کا کیا حال ہو گا؟ اور نجانے خالدہ بیگم امی جان سے کیا باتیں کرکے گئیں ہیں؟
*********
     ”ریحان مجھے لگتا ہے کہ آنٹی کو شک ہو گیا ہے کہ مجھے نائلہ سے محبت ہو گئی ہے۔“ اگلے دن وہ دونوں یونیورسٹی جانے کی تیاری کر رہے تھے تو سجاول نے ریحان سے کہا۔
     ”ارے شک۔۔۔۔ پورا پورا پتہ چل گیا ہے۔“ ریحان دانت نکالتے ہوئے بولا۔
     ”کیا۔۔۔۔؟ پورا پورا پتہ چل گیا ہے۔ کیا تم نے بتایا ہے؟“ وہ جلدی سے ریحان کی طرف دیکھ کر بولا۔ ریحان چپ کرکے کھڑا ہوا تھا۔
     ”بتاؤ ریحان! تم نے بتایا ہے آنٹی کو۔“ سجاول نے پھر پوچھا۔
     ”ہاں میں نے بتایا ہے اور امی جان کو بتانا بہت ضروری تھا ورنہ تمھارے مسئلے کا حل نہ نکلتا۔“ ریحان نے کہا تو سجاول نے ساتھ پڑا ہوا تکیہ اٹھا کر اسے دے مارا۔ وہ فوراً ہی نیچے ہو گیا۔ تکیہ تو اسے نہ لگا مگر سجاول سامنے خالدہ بیگم کو آتے دیکھ کر گھبرا گیا اس کی آنکھیں پھٹتی جا رہی تھیں اور وہ ڈر رہا تھا کہ یہ تکیہ کہیں آنٹی کو نہ لگ جائے۔
قسط نمبر 33
     تکیہ تیزی سے اچھلتا ہوا جا رہا تھا۔ اور خالدہ بیگم ناشتے کی ٹرے پکڑے ان کی طرف بڑھ رہی تھیں، اچانک ہی ریحان نے کچھ محسوس کیا، اس سے پہلے کہ وہ تکیہ خالدہ بیگم تک جاتا ریحان پیچھے بڑھ کر تکیہ پکڑ چکا تھا۔
     ”شکر خدا کا کہ اس نے تکیہ پکڑ لیا اگر آنٹی کو لگ جاتا تو۔۔۔“ سجاول نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا اور اس کی جان میں جان آئی۔
     ”کیا ہو رہا ہے یہ سب؟“ خالدہ بیگم نے غصے سے تیوریاں چڑھائیں۔
     ”وہ۔۔۔۔ وہ امی! ہم کھیل رہے تھے۔“ ریحان نے آنکھیں جھکا کر کہا۔ سجاول کی بھی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔
     ”پہلے تم دونوں اپنی شکل تو دیکھ لو، کھیلنے والی لگتی ہے کیا؟“ خالدہ بیگم نے کہا تو دونوں ہنس پڑے۔ خالدہ بیگم بھی مسکرا دیں۔
     ”اچھا ناشتہ کرو اور یونیورسٹی جاؤ۔“ خالدہ بیگم انھیں ناشتہ دے کر چلی گئیں۔
     ”ناشتے کے دوران سجاول بار بار کہیں کھو جاتا، وہ ڈر رہا تھا کہ لوگوں کی باتوں سے دلبرداشتہ ہو کر نائلہ اپنے ساتھ کچھ غلط نہ کر بیٹھے۔ ریحان اس کی کیفیت سمجھ چکا تھا، ایک سچا دوست ہی وہی ہوتا ہے جو دوسرے دوست کی حالت سمجھ سکے۔
     ”سجاول! گھبرانے کی ضرورت نہیں، اب امی سب کچھ ٹھیک کر دیں گی، جو ہو گا ان شاءاللہ بہتر ہوگا۔“ ریحان سجاول کو دلاسہ دیتے ہوئے بولا۔ سجاول ہلکا سا مسکرایا، ناشتہ کرنے کے بعد وہ یونیورسٹی چل پڑے۔
*********
     یونیورسٹی میں اب بھی چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔ کچھ لوگ چپ ہو گئے تھے مگر کچھ لوگ ایسے تھے جو باتوں کو بڑھانا اور انھیں ہوا دینا جانتے تھے۔ سجاول کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ ایسے لوگوں کو خوب سبق سکھاتا۔
     ریحان اسے روکے ہوئے تھا وہ یہی کہہ رہا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کے منھ بند ہو جائیں گے، پہلے تو وہ بھی نائلہ پر بہت باتیں کرتا تھا مگر خالدہ بیگم کی نائلہ اور اس کی امی سے ملاقات کے بعد وہ بھی جان چکا تھا کہ نائلہ بے قصور ہے۔
     آج بھی یہی ہوا تھا۔ یونیورسٹی کے دو تین طالب علموں نے نائلہ پر باتیں کیں تو سجاول کو غصہ آ گیا وہ غصے سے ان کی طرف بڑھنا چاہتا تھا مگر ریحان نے اسے روک لیا۔
     ”کب تک۔۔؟ ریحان کب تک۔۔؟ اگر ان کے منھ بند نہ کیے تو یہ بھونکتے رہیں گے۔ اسی وجہ سے وہ یونیورسٹی نہیں آ رہی، اس کا کیریئر تباہ ہو رہا ہے، اس کی پڑھائی کا نقصان ہو رہا ہے۔“ سجاول غصے سے کھول رہا تھا۔
     ”صبر کرو یار! صبر کرو، اس کا کوئی حل ڈھونڈتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ سکھ چین سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، ہر مسئلے کا حل لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا، ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچو گے تو کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔“ ریحان اسے سمجھا رہا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور دونوں لیکچر حال کی طرف بڑھ گئے۔
*********
     نویدہ گھر کے کام کرکے فارغ ہو چکی تھی۔ اس نے نائلہ کو فون کیا، بیل جاتی رہی مگر نائلہ نے فون نہیں اٹھایا، اسے پتہ تھا کہ نائلہ فون نہیں اٹھائے گی کیوں کہ نائلہ اس سے ناراض تھی، وہ کافی دنوں سے نائلہ کو فون کر رہی تھی مگر نائلہ اس کا فون نہ اٹھاتی، اب وہ جب بھی نائلہ کو فون کرتی تو اس امید پر کرتی کہ شاید نائلہ فون اٹھا لے۔ مگر اس کی امید دم توڑ جاتی، اس وقت بھی امی کے گھر جانے سے پہلے اس نے سوچا کہ اب فون کرکے دیکھتی ہوں مگر نائلہ نے اب کی بار بھی فون نہ اٹھایا۔ آخر تھک ہار کر وہ اپنی امی کے گھر چل پڑی۔
قسط نمبر 34
     امی کے گھر پہنچ کر اس نے ادھر ادھر دیکھا، اسے کوئی نظر نہیں آیا۔ ایک تو وہ خود بھی امی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی کیوں کہ کل جس طرح عفت بیگم نے اسے غصے سے دیکھا تھا تو وہ واقعی ڈر گئی تھی۔ لیکن اس نے کسی نہ کسی طرح امی کا سامنا کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر ہی لیا تھا۔ مگر جب اس نے عفت بیگم کو گھر میں نہیں دیکھا تو اس نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔ لیکن اسے یہ بے چینی بھی تھی کہ خالدہ بیگم نے اس کی امی سے کیا باتیں کی تھیں؟ صاف ظاہر ہے جب تک امی سے سامنا نہ ہوتا تو  کیسے پتہ چلتا؟ اس کا نائلہ سے بھی ملنا بہت ضروری تھا، اس لیے وہ نائلہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
     نائلہ اس وقت اپنی کتابیں سیٹ کر رہی تھی کیوں کہ اس نے کل سے یونیورسٹی جانے کا سوچ لیا تھا۔
     خالدہ بیگم کے ساتھ جب سے اس کی ملاقات ہوئی تھی، اس نے اس وقت سے خود کو پرسکون محسوس کیا تھا۔ جب انھوں نے اسے گلے لگا کر دلاسہ دیا تھا کہ ”نہ بیٹی روتے نہیں، یہ دنیا بڑی ظالم ہے، میں جانتی ہوں تیرا کوئی قصور نہیں، تو کب تک ایسے روتی رہے گی؟ تو یونیورسٹی جا اور پڑھ، اپنی پڑھائی پر توجہ دے، لوگوں کے منھ خود بخود ہی بند ہو جائیں گے۔“ خالدہ بیگم کی خوبصورت اور محبت بھرے لہجے نے اس کے اندر جینے کی امنگ پیدا کی اور وہ سب کچھ بھول کر یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہوگئی۔
     ”کیا کر رہی ہو نائلہ؟“ نویدہ اس کے کمرے میں داخل ہو کر بولی۔ نائلہ نے نویدہ کو دیکھا اور ان کے پاس آگئی۔
    ”کچھ نہیں آپی! بس یونیورسٹی جانے کی تیاری کر رہی ہوں۔“ نائلہ کا رویہ اب ٹھیک تھا۔
     ”اتنا کچھ ہو گیا تم نے مجھے بتایا بھی نہیں، اپنی بہن کو پرایا کر دیا۔“ نویدہ اس سے شکوہ کر رہی تھی۔
     ”بتا کر کرتی بھی کیا آپی۔“ اس نے ادب سے جواب دیا۔
     ”وہ تو مجھے کرن کا فون آیا تھا تو مجھے پتہ چل گیا۔ ورنہ کہاں پتہ چلتا؟“ نویدہ بول رہی تھی، نائلہ انھیں حیرت سے دیکھنے لگی۔
     ”کرن کا فون۔۔۔؟ مگر آپ کا نمبر اس کے پاس کیسے آیا؟“ نائلہ حیرانی سے بولی۔
     ”تم بھی نا بدھو ہو، تمھارا اور میرا نمبر تو ایک جیسا ہی ہے نا۔ صرف ایک نمبر کے فرق سے۔ تو یوں سمجھ لو کہ وہ تمھیں فون کرنا چاہتی تھی مگر آخری ہندسہ اس نے تمھارے نمبر کا ڈائل کرنے کی بجائے میرے نمبر کا کر دیا، اس طرح مجھے پتہ چلا اور میں نے تمھیں کال کرکے شاباش دی مگر مجھے نہیں پتہ تھا کہ سارا معاملہ ہی الٹ ہو چکا ہے۔ جب میں نے تمھاری بگڑی ہوئی حالت دیکھی۔ تمھیں مرجھایا ہوا اور روتا ہوا دیکھا تو تب مجھے لگا کہ بات کچھ اور ہے تو لہذا میں نے کل کرن کو فون کیا کیوں کہ اس نے مجھے فون کیا تھا تو اس کانمبر میرے پاس آ گیا تھا۔ تب مجھے کرن نے ساری بات بتائی کہ یونیورسٹی میں کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا۔ سارے تمھیں ہی برا بھلا کہہ رہے تھے نا۔“ نویدہ نے کہا، نائلہ چپ کرکے بیٹھی رہی۔
     ”کوئی بات نہیں میری بہن! اللہ کوئی نہ کوئی سبب بنائے گا۔ تیری بے گناہی ثابت کرے گا۔“ نویدہ نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا۔
     ”میری بے گناہی تو ثابت ہو چکی ہے آپی۔“ نائلہ سر اونچا کرتے ہوئے بولی۔ نویدہ نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
     ”جب کل آنٹی خالدہ آئی تھیں تو انھوں نے مجھے گلے لگاتے ہوئے میرے سر پر ہاتھ رکھا، مجھے بہت پیار کیا، ان کی محبت اور چاہت کی وجہ سے میں سب کچھ بھول گئی، جب میرا قصور ہے ہی نہیں تو پھر میں کیوں پریشان رہوں۔“ نائلہ بول رہی تھی نویدہ حیرت سے سن رہی تھی پھر اچانک ہی اس کا ماتھا ٹھنکا اور وہ نائلہ سے پوچھنے لگی۔
قسط نمبر 35
     ”کیا تم نے انھیں یہ بھی بتایا کہ میں ہی سجاول کا برا چاہتی تھی؟“
     ”نہیں آپی مگر مجھے لگتا ہے کہ ریحان کو سب معلوم ہے، اس دن جب وہ مجھ پر غصہ ہو رہا تھا تو اس نے کہا تھا کہ جیسے نویدہ بھابھی چاہیں گی ویسے ہی کرو گی، مگر آپی میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا، میں تو آپ کے ارادے پر عمل ہی نہیں کرنا چاہتی تھی، کیوں کہ میں خود یہ سرے سے چاہتی ہی نہیں تھی، جو کچھ ہوا اتفاق سے اور انجانے میں ہوا، مگر بات کہاں سے کہاں تک چلی جائے گی، وہ مجھے معلوم نہ تھی، میں تو بس کسی ناکردہ گناہوں کی سزا ہی کاٹ رہی تھی۔“ نائلہ افسردگی سے بولی۔
     ”اچھا مگر ریحان کو کیسے پتہ چلا ہو گا؟“ وہ حیرانی سے بولیں۔
     ”پتہ نہیں  آپی۔“ نائلہ نے انکار میں سر ہلایا۔ ابھی تو نویدہ کو یہ بھی فکر تھی کہ کہیں خالدہ بیگم نے امی جان کو سب کچھ نہ بتا دیا ہو، ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ عفت بیگم آ گئیں، وہ جس کام کے لیے گھر سے گئی تھیں شاید ان کا وہ کام مکمل ہو چکا تھا۔
     ”کیا کرنے آئی ہو یہاں؟“ عفت بیگم نے اسے دیکھا تو غصے سے کہا۔ وہ تو پہلے ہی ڈری ہوئی تھی امی جان کا غصہ دیکھ کر مزید ڈر گئی۔
     ”لگتا ہے امی جان سب کچھ جان چکی ہیں۔“ وہ سوچنے لگی۔
     ”وہ۔۔۔۔ وہ امی۔“ نویدہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اس کی زبان لڑکھڑا گئی۔
     ”کیا وہ۔۔۔ وہ لگا رکھی ہے، میں نے تمھاری ایسی پرورش تو نہیں کی تھی جیسے تم بن گئی ہو۔ کیا کمی رہ گئی تھی میری تربیت میں۔۔۔؟“ عفت بیگم غصے سے بول رہی تھیں اور وہ روئے جا رہی تھی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔
     ”ارے میں نے تمھیں اس گھر کی بہو نہیں بلکہ بیٹی بنا کر بھیجا تھا، کیا بیٹیاں ایسے ہی کرتی ہیں؟ شمیم کی روح تو تڑپتی ہو گی، میں مرنے کے بعد اسے کیا جواب دوں گی کہ تمھارے جانے کے بعد میری بیٹی تمھارے گھر کا خیال نہیں رکھ سکی، ارے ایک سجاول ہی تو تھا، کیا ہوتا تو اسے اپنا بھائی سمجھتی اور بھائی سمجھ کر اس کا خیال کرتی، ارے تمھارا چھوٹا دیور تھا، چھوٹے دیور تو بیٹوں کی طرح ہوتے ہیں، مجھے تو کچھ پتہ بھی نہیں تھا یہ تو خالدہ بیگم نے مجھے بتایا ہے کہ سجاول کو تمھارے برے رویہ کی وجہ سے انھوں نے اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے۔ کیا وقاص نے بھی تمھیں کچھ نہیں کہا؟ حیرت ہے اس نے بھی اپنے بھائی کو پرایا کر دیا، جانتی ہو میں کتنی خالدہ بیگم کے سامنے شرمندہ ہوئی ہوں؟ وہ سجاول سے بہت پیار کرتی ہیں، وہ کل مجھ سے ایسے باتیں کر رہی تھیں جیسے وہ سجاول کی سگی ماں ہوں۔ جیسے ایک ماں اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر تڑپ جاتی ہو۔ وہ بار بار مجھے یہی کہہ رہی تھیں کہ تم نے نویدہ کی تربیت صحیح طرح نہیں کی، بتاؤ میرا کیا قصور تھا؟“ عفت بیگم کی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک پڑے۔ نویدہ بھی بدستور روئے جا رہی تھی۔ وہ دل ہی دل میں بہت شرمندہ تھی۔
     ”امی آنٹی نے صرف یہی کہا تھا یا کچھ اور بھی کہا تھا۔“ اس نے روتے ہوئے اپنی امی جان سے پوچھا۔ وہ ڈر رہی تھی کہ نائلہ کی بدنامی والی بات انھوں نے امی جان کو نہ بتائی ہو۔
     ”یہ کیا کم تھا جو وہ مزید کچھ کہتیں، میری ناک تو تم نے کٹوا دی۔“ عفت بیگم نے آنسو پونجھتے ہوئے کہا۔
     ”شکر ہے کہ امی جان کو اصل بات کا نہیں پتہ ورنہ تو میرے خواب کے سچا ہونے میں کوئی دیر بھی نہ لگتی۔“ وہ پہلی بار اندر اندر سے خوش ہونے کے ساتھ ساتھ باہر باہر سے رو بھی رہی تھی۔
قسط نمبر 36
     ”امی مجھے معاف کر دیں، میں غلطی پر تھی۔“ آج اسے پہلی بار غلطی کا احساس ہوا تھا۔ اس نے اپنی امی سے کہا اور آنکھوں میں آنسو لیے چلی گئی۔ نائلہ نے بھی خدا کا شکر ادا کیا کہ اصل بات امی ابو تک نہیں پہنچی تھی ورنہ تو وہ دونوں جیتے جی ہی مر جاتے۔ وہ اپنے کمرے میں آئی اور دوبارہ اپنی بکھری ہوئی کتابوں کو سمیٹنے لگی۔
     عفت بیگم نائلہ کو کتابیں سمیٹتے ہوئے محبت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں انھوں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ان کی بیٹی کی طبیعت ٹھیک ہو گئی ہے۔ ان کے نزدیک نائلہ صرف بیمار ہی ہوئی تھی۔ اصل بات کا ان کو کہاں پتہ تھا؟ اور کسی نے بتایا بھی نہیں تھا۔
********
     ”ریحان وہ کل سے یونیورسٹی آئی گی نا، آج بھی نہیں آئی، پتہ نہیں اس کی طبیعت ٹھیک بھی ہو گی یا نہیں۔“ سجاول فکر مندی سے بولا۔
     ”ارے بابا فکر کیوں کر رہے ہو؟ وہ آئے گی یونیورسٹی، اس نے امی جان کو بتایا تھا اور اس کی طبیعت بھی ٹھیک ہی ہے، امی جان بتا رہی تھیں۔ تم خواہ مخواہ کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ چلو اب سو جاؤ۔“ ریحان نے اسے کہا اور کروٹ بدل کر سو گیا۔ سجاول بھی سو گیا، آج وہ کافی پرسکون تھا۔
********
     اسے نیند اب بھی نہیں آ رہی تھی۔ جب سے امی جان کے گھر سے آئی تھی۔ وہ یوں ہی بیڈ پر لیٹی رہی۔ وقاص نے اس کی طبیعت کے خراب ہونے کا سمجھ کر اسے کچھ نہ کہا۔ وہ آفس سے تھکا ہوا آیا تھا، ویسے بھی ان دنوں کام کافی زیادہ تھا، وہ بعض دفعہ دیر سے بھی گھر آتا تھا، آج بھی آفس میں کام زیادہ تھا تو دیر سے گھر آیا اور تھکاوٹ کی وجہ سے وہ گہری نیند سو گیا تھا۔ نویدہ اسے سوتے ہوئے دیکھتی رہی۔ ”کتنی معصومیت ہے وقاص کے چہرے پر، ایسے ہی خواہ مخواہ میں نے دونوں بھائیوں کو جدا کر دیا۔“ وہ شرمندگی سے سوچنے لگی۔
*********
     ”ہمارے گھر بھابھی آئی ہیں۔“ سجاول تو خوشی کے مارے پاگل ہوئے جا رہا تھا۔ شمیم بیگم نے اسے پیار سے دیکھا گھر میں جو بھی مہمان آتا، سجاول کا یہی جملہ ہوتا۔ وہ اپنی بھابھی جان کے آنے پر بہت خوش تھا۔
     ”دیکھو کتنا خوش ہے اپنی بھابھی جان کے آنے پر۔“ سب کے منھ پر سجاول کو دیکھ کر یہی تبصرہ ہوتا۔ سجاول خوشی سے جھوم جاتا۔ مگر اسے کیا پتہ تھا کہ آنے والا وقت اس کے لیے مشکلات لے کر آئے گا وہی بھابھی جس کے آنے پر وہ بہت خوش تھا وہی اس کی سب سے بڑی دشمن بن جائے گی۔ نویدہ سوچتے ہوئے روتی جا رہی تھی، وہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہی تھی۔ اس نے آخر ایک فیصلہ کیا اور اللہ سے دعا کرتے ہوئے سو گئی۔
**********
      ”اٹھو یونیورسٹی جانا ہے۔“ ریحان اسے اٹھا رہا تھا۔ وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔ اور ریحان اس کے چہرے پر آئی اس مسکراہٹ کی وجہ جانتا تھا۔ وہ تو سجاول کو خوش دیکھ کر ہی خوش ہوتا تھا۔
     ”اللہ تمھاری یہ مسکراہٹ آباد رکھے۔“ ریحان نے اسے دل میں دعا دی۔ اتنے میں خالدہ بیگم ناشتہ لے کر آ چکی تھیں۔ وہ بھی اسے مسکراتا ہوا دیکھ کر خود بھی مسکرا دیں۔
     ”آج کافی عرصے بعد اپنے بچے کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی ہے۔ آؤ میں خود تمھیں اپنے ہاتھوں سے نوالے توڑ توڑ کر کھلاتی ہوں۔“ خالدہ بیگم  نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا اور اپنے ہاتھوں سے اسے نوالے بنا بنا کر کھلانے لگیں۔ آج سجاول کو وہ اپنی سگی ماں ہی لگیں وہ ماں جو کبھی اسے خود نوالے بنا بنا کر کھلاتی تھیں۔ آج جب خالدہ بیگم اسے نوالے بنا بنا کر کھلا رہی تھیں تو اسے ایسے لگا جیسے شمیم بیگم اس کے سامنے بیٹھی ہیں اور وہ ان کے ہاتھ سے ناشتہ کر رہا ہے۔
قسط نمبر 37
     ناشتہ کرنے کے بعد اس نے ادب سے آنٹی کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ خالدہ بیگم نے اسے پیار کیا اور وہ دونوں ان کی دعائیں لیتے ہوئے یونیورسٹی کی طرف چل پڑے۔
*********
     آج تو اس کی وقت پر ہی آنکھ کھل چکی تھی۔ اور وقاص ابھی تک سویا ہوا تھا۔ ورنہ عموماً وقاص پہلے ہی اٹھتا تھا، صبح کی سفیدی ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھی، اس نے وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر فجر کی نماز پڑھنے لگی۔ آج اسے نماز پڑھنے میں بہت لطف آ رہا تھا۔ ایسا لطف اسے کبھی بھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ نماز تو خیر وہ پڑھتی رہتی تھی۔ مگر جتنی خشوع و خضوع سے وہ آج نماز پڑھ رہی تھی۔ ایسی نماز اس نے پہلے کبھی نہ پڑھی۔ وہ سجدے کرتی جا رہی تھی۔ اور لطف اٹھاتی جا رہی تھی۔ ہر سجدے میں لطف اس کا بڑھ جاتا تھا، جب بندہ ایسی ہی نماز پڑھتا ہے تو واقعی اس کا لطف ہر رکعت اور ہر سجدے میں بڑھتا رہتا ہے۔ وہ اپنے اللہ کو پہچان لیتا ہے۔ اور وہ اللہ کہ جس انسان کے سمندر کی جھاگ کے برابر بھی گناہ ہوں تو اپنے بندے کی توبہ کرنے اور معافی مانگنے پر اسے بخش دیتا ہے۔ آج وہ نماز پڑھنے کے بعد اپنے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہی تھی۔ توبہ کر رہی تھی، اسے پکا یقین تھا کہ اللہ اس کی غلطیاں معاف کر دے گا۔ نماز پڑھنے کے بعد اس نے اپنے آپ کو پرسکون محسوس کیا۔ وقاص اس وقت تک اٹھ چکا تھا۔ اس نے ناشتہ بنایا اور ناشتہ کرنے کے بعد وقاص آفس چلا گیا۔ آج اس کا ارادہ خالدہ بیگم کے گھر جانے کا تھا۔
********
     یونیورسٹی پہنچتے ہی وہ کچھ دیر کے لیے ساکت ہو گیا۔ اس کا دل زور زور سے ڈھڑکنے لگا، اس کا محبوب، اس کا پیار اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ کتنے دن اس نے اس کی یاد میں گزارے تھے۔
     ”نائلہ تم۔۔۔“ وہ زور سے پکارا۔ اس سے پہلے کہ اس کی آواز نائلہ کے کانوں تک جاتی، ریحان نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔
     ”پاگل ہو گئے ہو سجاول۔ کافی دنوں بعد تو وہ یونیورسٹی آئی ہے۔ اب اگر لوگوں نے دیکھ لیا تو پھر وہی باتیں شروع ہو جائیں گی۔ خدا خدا کرکے تو لوگوں کی منھ بند ہوئے ہیں۔ اب ایسی کوئی حرکت نہ کرنا۔“ ریحان اسے سمجھا رہا تھا۔ سجاول نے اسے دیکھا اور دونوں لیکچر لینے چل پڑے۔
*********
     وہ لان میں بیٹھی ہوئی بڑی توجہ سے نوٹس بنانے میں لگی ہوئی تھی کیوں کہ وہ کافی دن یونیورسٹی نہ آ سکی تو اس کی پـڑھائی کا کافی حرج ہو چکا تھا۔ وہ اپنی اس کمی کو پورا کرنا چاہتی تھی۔ ابھی وہ نوٹس بنا ہی رہی تھی کہ اس کے کانوں میں آواز پڑی۔
     ”وہ دیکھو آ گئی ہے۔“ ایک طالبہ بول رہی تھی۔
     ”ہوں! بے شرمی کی انتہا دیکھو کوئی افسوس ہی نہیں ہے۔“ ایک اور طالبہ بولی۔ ان کے یہ جملے سن کر ساتھ کھڑے کچھ طالب علم بھی ہنس پڑے تھے۔ وہ ان کی باتوں سے لاپروا اپنے کام میں مگن رہی۔ کچھ دور کھڑے سجاول اور ریحان ان کی یہ حرکتیں دیکھ رہے تھے۔ ویسے تو بہت سارے طالب علم وہ واقعہ بھول چکے تھے اور انھوں نے باتیں کرنا بھی چھوڑ دی تھیں مگر ایک گروپ ایسا تھا جو بہت ہی بدتمیز تھا، جس کا مقصد فساد پھیلانا تھا۔ وہ ہر وقت یونیورسٹی میں کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا کرتے رہتے تھے۔ اب جو انھوں نے نائلہ کو دیکھا تو اپنی عادت کے مطابق وہ اس پر جملے کسنے لگے۔ سجاول کا صبر جواب دے چکا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا ریحان نے مضبوطی سے اسے تھام لیا۔
قسط نمبر 38
     ”مار دوں گا میں ان سب کو، ان کو ان کی اوقات یاد دلا دوں گا، خبر دار اگر انھوں نے نائلہ کے بارے میں کچھ کہا تو۔“ وہ جذبات میں بول رہا تھا اور جنونی ہو گیا تھا ایسے لگتا تھا جیسے وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے، وہ تو شکر ہے کہ ریحان اسے مضبوطی سے قابو کیے ہوئے تھا اور اس نے فوراً ہی اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی آواز دب کر رہ گئی اور ریحان کے علاوہ کوئی بھی اس کی آواز نہ سن سکا۔
     ”چھوڑ دو ریحان! مجھے چھوڑ دو، آج میں ان سب کے منھ بند کر دوں گا۔“ وہ ابھی بھی جنونی حالت میں تھا، ریحان نے اسے بڑی مشکل سے قابو کیا اور اسے وہاں سے ہٹا کر کنٹین کی طرف لے گیا جہاں اس نے اس کو ٹھنڈا پانی پلایا۔ پانی پی کر اس کا غصہ کچھ کم ہو گیا۔ اور اس کے ہوش و حواس بحال ہوئے۔
     ”تم زیادہ جذباتی نہیں ہو رہے کیا؟“ ریحان نے اس کا غصہ ٹھنڈا ہوتا دیکھا تو بولا۔
     ”یار وہ اس پر باتیں کر رہے ہیں، کیا میں ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں؟ آخر ان کے منھ تو بند کرنے ہوں گے، انھیں سبق تو سکھانا پڑے گا نا۔۔۔۔“ وہ تیز لہجے میں بول رہا تھا۔ سجاول کا غصہ کم ضرور ہوا تھا مگر ختم نہیں۔ اس کے چہرے کی سرخی سے صاف واضح ہو رہا تھا۔  
     ”میں نے تمھیں کہا بھی تھا کہ ہر مسئلے کا حل لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا، اس طرح کے معاملات ذرا ٹھنڈے دماغ سے حل کیے جاتے ہیں، تمھاری تھوڑی سی غلطی پھر اس بے چاری کے لیے مشکلات کھڑے کر سکتی ہے۔“ ریحان اسے سمجھا رہا تھا۔
     ”پھر کیا کریں یار؟ کچھ سوچو، مجھ سے تو یہ سب برداشت نہیں ہوتا۔“ سجاول بول رہا تھا۔
     ”ایک آئیڈیا ہے میرے پاس اگر اس پر عمل کریں تو۔“ ریحان نے کہا۔
     ”کون سا آئیڈیا؟ جلدی بتاؤ۔“ سجاول بےقراری سے بولا۔
     ”ہمیں وائس چانسلر صاحب کے پاس جانا ہوگا۔ اور انھیں یہ سب بتانا ہوگا وہی ان کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ یہ جب بھی یونیورسٹی میں کوئی ہنگامہ شروع کرتے ہیں وہی ان کو قابو کرتے ہیں۔“ ریحان بول رہا تھا۔
     ”ہاں بات تو تمھاری درست ہے۔ چلو چلتے ہیں وائس چانسلر صاحب کے پاس۔“ یہ کہتے ہوئے وہ ان کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ ان کے کمرے کے باہر کھڑے ہو کر انھوں نے دروازہ بجایا۔ اجازت لے کر وہ دونوں اندر چلے گئے اور پھر ریحان نے ان کو ساری بات بتاتا دی۔ جسے سن وہ خود بھی پریشان ہو گئے۔
     ”اچھا آپ دونوں پریشان نہ ہوں۔ میں کچھ  کرتا ہوں۔“ وائس چانسلر صاحب نے ان کی بات توجہ سے سنتے ہوئے کہا تو وہ دونوں شکریہ ادا کرتے ہوئے گراؤنڈ میں آ گئے۔
     سجاول نے ادھر ادھر دیکھا مگر نائلہ اسے کہیں نظر نہ آئی شاید وہ گھر جا چکی تھی ویسے بھی یونیورسٹی کے آف ہونے کا وقت ہو چکا تھا۔ وہ بھی دونوں گھر کی طرف چل پڑے۔
********
     آج نویدہ نے گھر کے کام جلدی ہی ختم کر لیے تھے کیوں اسے آج خالدہ بیگم سے ملنے جانا تھا۔ اس نے خالدہ بیگم سے  بہت سی باتیں کرنی تھیں۔ اپنے رویے کی معافی بھی مانگنی تھی اور سجاول کو گھر بھی لانا تھا۔ اس لیے گھر کے کام نمٹانے کے بعد وہ خالدہ بیگم کے گھر کی طرف نکل گئی۔
     دن بہت روشن تھا سورج کی تپش ہر چیز کو گرما رہی تھی۔ وہ رکشے میں بیٹھ کر خالدہ بیگم کے گھر پہنچ گئی۔ دروازے پر دستک دی تو دروازہ خالدہ بیگم نے ہی کھولا اپنے دروازے پر نویدہ کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئیں۔
    قسط نمبر 39
     ”کیا کرنے آئی ہو۔“ انھوں نے چہرے پر ناگواری سجا کر کہا ایسے جیسے انھیں اس کا آنا اچھا نہ لگا ہو۔
     ”وہ۔۔۔وہ آنٹی! میں نے آپ سے ملنا تھا۔“ نویدہ نے ادب سے جواب دیا۔
     ”مگر مجھے تم سے نہیں ملنا۔“ یہ کہتے ہی خالدہ بیگم نے دروازہ بند کر دیا۔ نویدہ نے کچھ کہنا چاہا مگر خلدہ بیگم دروازہ بند کر چکی تھیں۔ اس نے ایک دفعہ پھر دروازہ بجایا لیکن خالدہ بیگم نے دروازہ نہ کھولا، وہ تو اس کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی تھیں تو اپنے گھر کیسے آنے دیتیں؟ وہ دروازے کے پاس ہی بیٹھ کر رونے لگی۔ اسے خالدہ بیگم کے ساتھ اختیار کیے گئے اپنے وہ رویے یاد آئے جو بہت برے اور بدتمیزی والے تھے۔
     چند لمحے تو وہ یوں ہی دروازے پر بیٹھ کر روتی رہی۔ پھر وہ اٹھی اور گھر کی طرف چل پڑی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جو کچھ بھی ہو سکا وہ خالدہ بیگم کو ضرور منائے گی۔ یہ سوچتے سوچتے وہ آگے بڑھنے لگی۔
*********
     ”یار وہ دیکھو، نویدہ بھابھی جا رہی ہیں۔“ ریحان اور سجاول یونیورسٹی سے واپس آ رہے تھے کہ اپنے گھر کی گلی کی موڑ مڑتے ہی ریحان کو نویدہ بھابھی نظر آئیں تو اس نے سجاول سے کہا۔ سجاول نے پہلے تو یقین نہیں کیا۔ مگر جب اچھی طرح دیکھا تو واقعی وہ نویدہ بھابھی ہی تھیں۔
     ”وہ یہی تمھارے گھر کے ساتھ کیا کر رہی ہیں؟“ سجاول نے ریحان سے پوچھا۔
     ”مجھے کیا پتہ؟ آؤ ان کے پاس جا کر پوچھ لیتے ہیں۔“ ریحان نے اسے ایسے جواب دیا جیسے اسے اس طرح کے سوال کی توقع نہیں تھی۔ سجاول بھی اسے حیرت سے دیکھنے لگا ایسے جیسے اسے بھی امید  نہیں تھی کہ ریحان اس کے سوال پر اس طرح جواب دے گا۔
     ”مجھے لگتا ہے یہ آنٹی سے ملنے آئی ہوں گی، پتہ نہیں اب بھابھی میرے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہیں؟“ سجاول افسردگی سے بولا۔
     ”ارے کچھ نہیں ہوگا اتنی ٹینشن کیوں لیتا ہے؟ امی جان خود ہی بتا دیں گی کہ نویدہ بھابھی کیا کرنے آئی ہیں تو سب پتہ چل جائے گا۔ چل آ اب گھر چلتے ہیں۔ دھوپ میں کھڑے ہوئے ہیں۔“ ریحان نے اسے کہا تو دونوں گھر کی طرف چل پڑے۔
     گھر پہنچ کر انھوں نے سب سے پہلے کپڑے بدلے، فریش ہو کر وہ جلدی سے کھانے کی میز پر آ بیٹھے۔ خالدہ بیگم ان کے لیے لنچ تیار کر چکی تھی۔
     کھانے کے دوران سجاول یہی توقع کر رہا تھا کہ آنٹی ابھی بتائیں گی کہ نویدہ  بھابھی ان سے ملنے کیوں آئی تھیں مگر خالدہ بیگم تو یوں ظاہر کر رہی تھیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ وہ اپنے کام میں مصروف تھیں۔ جب کافی دیر گزر گئی تو سجاول کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا۔
     ”یار آنٹی سے پوچھو نا کہ نویدہ بھابھی کیا کرنے آئی تھیں؟“ سجاول اس کے کان میں بڑبڑایا۔
     ”میں کیسے پوچھو امی جان سے؟ ہو سکتا ہے وہ یہاں آئیں بھی نہ ہوں۔“ ریحان بھی آہستگی بولا۔
     ”تو پھر وہ تمھارے گھر کی گلی میں کیا کر رہی تھیں؟“ سجاول نے اس سے پوچھا۔ ریحان نے اسے گھور کر دیکھا تو وہ خود ہی چپ ہو گیا کیوں کہ اسے پتہ تھا کہ رہحان کا جواب یہی ہی ہو گا کہ آؤ نویدہ  بھابھی سے پوچھتے ہیں۔
     ”کیا کھسر پھسر ہو رہی ہے۔“ خالدہ بیگم نے انھیں بڑبڑاتے ہوئے دیکھا تو پوچھا۔ سجاول نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہو کہ اب پوچھ لو اچھا موقع ہے۔ مگر ریحان گھبرا گیا۔
     ”وہ۔۔۔ وہ امی کچھ۔۔۔ ہے۔۔۔ مگر۔۔۔۔ نہیں۔“ ریحان سے لفظ ٹھیک طرح ادا نہیں ہو رہے تھے۔
    ”وہ۔۔۔ وہ آنٹی یہ کہہ رہا ہے کہ نویدہ بھابھی کیا کرنے آئیں تھیں۔“ سجاول نے ساری بات اس پر ڈال دی۔
    قسط نمبر 40
     ریحان نے آنکھیں پھاڑ کر اس کی طرف دیکھا، اسے تو بالکل ہی توقع نہیں تھی کہ سجاول امی جان سے خود پوچھ لے گا اور سارا الزام اس پر دھر دے گا۔ کچھ لمحے تو سکوت رہا اور پھر خالدہ بیگم کا غصہ عروج پر پہنچ گیا۔ جیسے انھیں بھی یقین نہ آ رہا ہو کہ سجاول ان سے اس طرح کا سوال پوچھ لے گا۔ انھوں نے غصے سے ریحان کی طرف دیکھا پھر گرجتے ہوئے بولیں۔
     ”ریحان مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔ تمھیں پتہ ہے نا میں اسے پسند نہیں کرتی، اس کا نام بھی نہیں سننا چاہتی، میرے سامنے جو اس کا نام لیتا ہے، میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی تم مجھ سے یہ پوچھنا چاہ رہے ہو؟“ خالدہ بیگم غصے سے ریحان کو دیکھ رہی تھیں۔
     ”امی۔۔امی۔۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔“ ابھی ریحان کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ خالدہ بیگم کی پھر غصے بھری آواز گونجی۔
     ”دفعہ ہو جاؤ میری نظروں سے، ابھی اور اسی وقت۔“ یہ کہتے ہوئے وہ رونے لگیں۔ سجاول نے خالدہ بیگم کا غصہ دیکھا تو وہ پتھر کا بن گیا۔ اس کی تو ایسے حالت تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ ہونقوں کی طرح خالدہ بیگم کو دیکھ رہا تھا۔ آج اس نے پہلی دفعہ خالدہ بیگم کا اتنا سخت غصہ دیکھا تھا۔ ریحان روتے ہوئے اٹھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ خالدہ بیگم کچن میں کھڑی رو رہی تھیں۔
     سجاول نے کھانا کھانا چھوڑا اور وہ بھی کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ ریحان بدستور روئے جا رہا تھا۔
     ”کیا ہو گیا میرے دوست! کیوں رو رہے ہو؟ اور آنٹی اتنا غصہ کیوں کر رہی تھیں؟“ سجاول اس کا بازو پکڑتے ہوئے بولا۔
     ”تم نے سن تو لیا ہے۔ امی جان نے خود ہی کہا ہے کہ وہ نویدہ بھابھی کو پسند نہیں کرتیں۔ چوں کہ مجھے پتہ تھا اس لیے میں امی جان سے نہیں پوچھ پا رہا تھا، میں جانتا تھا کہ اگر میں نے امی جان سے پوچھا تو یہی حال ہو گا مگر مجھے نہیں پتہ تھا کہ تم پوچھ لو گے اور پھر میرا نام لے دیا جس سے امی جان کا غصہ اور بھی بڑھ گیا، اب وہ مجھ سے ناراض ہو گئی ہیں، وہ نویدہ بھابھی سے شدید نفرت کرتی ہیں، کیوں کہ انھوں نے تمھارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، امی جان تم سے بہت محبت کرتی ہیں کہ وہ سگی ماں کی طرح تمھاری خاطر پورے زمانے سے لڑ سکتی ہیں، یہ صرف میں جانتا ہوں۔“ ریحان بول رہا تھا۔ وہ ریحان کی باتیں بڑی توجہ سے سن رہا تھا۔ آج اس پر ایک ماں کی محبت ظاہر ہو رہی تھی۔ وہ یہ تو جانتا تھا کہ آنٹی اس سے محبت کرتی ہیں مگر اپنی سگی اولاد کے ہوتے ہوئے دوسرے کی اولاد سے اتنی شدید محبت آج وہ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ وہ شرمندگی سے نظریں جکھائے ہوئے تھا۔
     ”ریحان مجھے پتہ نہیں تھا کہ آنٹی نویدہ بھابھی سے اتنی سخت نفرت کرتی ہیں۔ ورنہ میں یہ سب نہ کرتا، مجھے معاف کر دو ریحان۔ میں نے آنٹی کا دل دکھانے کے ساتھ ساتھ تمھارا بھی دل دکھایا ہے، میری خاطر تم نے آنٹی کا غصہ برداشت کر لیا، تم نے اس وقت آنٹی کو حقیقت کیوں نہ بتائی کہ سجاول خود ہی پوچھنا چاہتا ہے اس نے ایسے ہی میرا نام لے لیا ہے۔“ سجاول روتے ہوئے بول رہا تھا۔
     ”تم کیا سمجھتے ہو کہ میں ایسا کروں گا؟ جس سے میری امی جان اتنی محبت کرتی ہیں۔ اور اسے اپنا بیٹا سمجھتی ہیں تو کیا وہ میرے لیے پرایا ہو گا؟ میں بھی تم سے سگے بھائیوں سے بڑھ کر پیار کرتا ہوں۔ تمھیں کچھ ہو جائے میں بھی تڑپ جاتا ہوں۔ ریحان بول رہا تھا۔ 
قسط نمبر 41
     سجاول شرمندگی سے سن رہا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے۔ ”تم اور آنٹی مجھ سے اتنی محبت کرتے ہو کہ مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا، مجھے معاف کر دو۔“ سجاول روتا جا رہا تھا، ریحان نے اسے گلے لگا لیا۔
*********
     ”تم نے سجاول کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، میں تمھیں معاف نہیں کروں گی۔“ شمیم بیگم، وقاص کو کہہ رہی تھیں۔
     ”وہ۔۔۔۔وہ۔۔ امی کیا کیا ہے میں نے۔“ وقاص امی جان سے پوچھ رہا تھا۔
     ”سب جانتے ہوئے بھی مجھ سے پوچھ رہے ہو؟ تمھارا بھائی کتنے دکھ درد میں مبتلا ہے تمھیں اس کا اندازہ نہیں، میں اس لیے اسے تمھارے حوالے کر کر گئی تھی کہ تم اس کے ساتھ نا انصافی کرو۔“ شمیم بیگم کا غصہ عروج پر تھا۔
     ”امی وہ تو نویدہ۔۔۔۔“ ابھی وقاص کہہ ہی رہا تھا کہ شمیم بیگم  نے اس کی بات کاٹ دی۔
      ”تمھاری آنکھیں نہیں ہیں کیا؟ سب کچھ دیکھ کر بھی انجان رہے، جاؤ اپنے بھائی کو لے کر آؤ ورنہ میں تمھیں معاف نہیں کروں گی۔“ شمیم بیگم یہ کہتے ہی نظروں سے اوجھل ہو گئیں، وقاص ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے نمو دار ہو گئے تھے اس نے دیکھا کہ نویدہ بھی اس کے ساتھ بیٹھی رو رہی تھی۔ وہ اپنا خواب بھول گیا اور اس کی حالت دیکھ کر مزید پریشان ہو گیا۔ اسے تو کچھ پتہ بھی نہیں تھا، وہ نویدہ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا ہوا ہے؟ مگر نویدہ روتی جا رہی تھی۔ وقاص کے بار بار پوچھنے ہر بالآخر وہ بول پڑی۔
     ”وقاص میں کتنی بری ہوں۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا، میں نے کافی لوگوں کو دکھ دیے، آپ دونوں بھائیوں کو جدا کروایا اور سجاول کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، اور اس دن آنٹی خالدہ ہمارے گھر آئیں تو میں نے انھیں کتنا برا بھلا کہا۔“ وہ یک دم ہی اپنے سارے گناہ دہرا رہی تھی۔ وقاص اپنے خواب کی وجہ سے پریشان تھا اس کی باتیں سن کر مزید پریشان ہو گیا۔
     ”اچھا رونا بند کر دو اگر تمھیں احساس ہو بھی گیا ہے تو اللہ سے معافی مانگو، وہ ذات معاف کرنے والی ہے۔“ وقاص اسے دلاسہ دے رہا تھا۔
     ”نہیں وقاص! میں بہت بری ہوں، مجھے میرے گناہوں کی سزا ملنی چاہیے۔“ نویدہ روتی جا رہی تھی۔ وقاص کی آنکھوں سے بھی آنسو نکلنے لگے۔ آج اسے بھی شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ اس نے بھی انجانے میں اپنے بھائی سجاول کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ پھر اس نے نویدہ کو اپنے خواب کے بارے میں بتایا تو دونوں مل کر اپنے گناہو  کی اللہ سے معافی مانگنے لگے۔
     ”میں آج آنٹی خالدہ کے گھر گئی تھی اپنے رویوں کی معافی مانگنے اور سوچا کہ سجاول کو بھی لے کر آؤں گی مگر۔۔۔۔۔“ تھوڑی دیر بعد نویدہ نے اپنے آنسو پونجھتے ہوئے وقاص کو بتایا۔
     ”مگر کیا۔۔۔۔“ وقاص اس کی بات توجہ سے سن رہا تھا۔
       ”مگر آنٹی خالدہ نے دروازہ بند کر دیا۔ انھوں نے تو میری شکل بھی دیکھنی گوارہ نہیں کی۔ ایسے لگتا ہے جیسے وہ مجھ سے شدید نفرت کرتی ہیں۔“ نویدہ دوبارہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
     ”ایسے ہی ہو گا نویدہ! ہم نے سجاول کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، آنٹی سجاول سے بہت محبت کرتی ہیں، وہ اس کو اپنا بیٹا سمجھتی ہیں، سمجھ لو پیدا ہوتے ہی وہ ان کی گود میں پلا بڑا ہے۔ اور پھر امی جان کی وفات کے بعد تو وہ اور بھی زیادہ سجاول کو پیار کرنے لگیں، اس لیے ان کو بھی یہی غصہ ہے کہ ہم نے سجاول کا خیال نہیں رکھا، چلو کل میں خود تمھارے ساتھ آنٹی کے گھر جاؤں گا، مجھے امید ہے کہ آنٹی کا غصہ مجھے دیکھ کر کم ہو جائے گا، کیوں کہ آنٹی مجھ سے بھی سجاول کی طرح ہی محبت کرتی ہیں بس سجاول چھوٹا ہے تو اس وجہ سے وہ کچھ زیادہ ہی ان کا لاڈلا ہے۔“ وقاص نے کہا تو دونوں میاں بیوی سکون سے بیڈ پر لیٹ گئے۔
قسط نمبر 42
     صبح اس کی آنکھ کچھ دیر سے کھلی تھی۔ رات وہ کافی دیر تک اپنی پڑھائی کی کمی پوری کرتی رہی۔ اتنی ساری چھٹیاں کرنے کی وجہ سے وہ بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ اوپر سے ایگزامز بھی نزدیک تھے تو وہ بہت پریشان تھی۔ وہ اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی جس نے اس کی بے گناہی ثابت کی تھی اور لوگوں کے منھ بھی بند ہو چکے تھے۔ وہ یونیورسٹی گئی تو جو گروپ کل اس پر باتیں کر رہا تھا آج وہ بھی خاموش تھا۔ شاید وائس چانسلر صاحب نے ان کو سمجھا دیا تھا۔ آج وہ پورا دن سکون سے پڑھتی رہی۔ سجاول اسے سکون اور اطمینان سے پڑھتے ہوئے دیکھ کر مسکراتا رہا۔ یونیورسٹی کا ماحول جو کچھ دن سے ایک بے بنیاد الزام کی وجہ سے ڈسٹرب تھا آج بہت خوشگوار تھا، ایسے لگتا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ سجاول کل والے واقعے سے بھی بہت پریشان تھا، اس کی وجہ سے ریحان کو خالدہ بیگم سے سخت ڈانٹ پڑی تھی۔ آج صبح خالدہ بیگم نے ریحان سے ٹھیک طرح بات بھی نہیں کی تھی وہ ابھی تک ریحان سے ناراض تھیں۔ ریحان افسردگی سے اس کے ساتھ یونیورسٹی آیا تھا جہاں وہ نائلہ کو سکون سے پڑھتے ہوئے دیکھ کر اطمینان محسوس کر رہا تھا وہی ریحان کی حالت کو دیکھتے ہوئے پریشان بھی تھا، آخر ریحان اس کا دوست تھا، وہ بھی اپنے دوست کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا، دونوں ہی ایک دوسرے کی پریشانی کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے، اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ یونیورسٹی آف ہونے کے بعد گھر جا کر خالدہ بیگم کو سب بتا دے گا۔ یہ سوچ کر اس نے بھی اپنی توجہ پڑھائی کی طرف مرکوز کر لی۔
**********
     ”آنٹی میری بات سنیں پلیز۔“ سجاول گھر آنے کے تھوڑی دیر بعد خالدہ بیگم سے کہہ رہا تھا۔ خالدہ بیگم اس سے بھی کچھ نہ کچھ ناراض تھیں۔ مگر اس نے خالدہ بیگم کو منا ہی لیا تھا۔
     ”بتاؤ کیا کہنا چاہتے ہو۔“ خالدہ بیگم نے مسکرا کر کہا۔ ریحان اپنے کمرے میں یونیورسٹی سے آتے ہی سو گیا تھا۔ کیوں کہ وہ اپنی امی جان کی ناراضگی کی وجہ سے ڈسٹرب تھا اور ساری رات اسے نیند نہ آ سکی تو اس کا سر درد کر رہا تھا اس لیے وہ یونیورسٹی سے آتے ہی سو گیا۔ سجاول نے موقع غنیمت جانا اور آنٹی کے پاس پہنچ گیا تاکہ وہ سکون سے آنٹی سے ساری بات کر سکے۔
     ”وہ۔۔۔۔وہ آنٹی کل جو کچھ ہوا، اس کے لیے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں، ریحان بے قصور ہے، میں ہی جاننا چاہتا تھا کہ نویدہ بھابھی آپ سے ملنے آئی تھیں یا نہیں، وہ دراصل کل یونیورسٹی سے آتے ہوئے ہم نے یہی گلی میں نویدہ بھابھی کو دیکھا تھا، اب نویدہ بھابھی کا تو کوئی یہاں جاننے والا رہتا ہی نہیں سوائے آپ کے، تو میں نے انداہ لگایا کہ وہ آپ سے ملنے آئی ہوں گی۔“ سجاول ڈرتے ڈرتے بول رہا تھا اسے ڈر تھا کہ کہیں آنٹی پھر نہ غصے ہو جائیں۔
     ”تمھارا اندازہ ٹھیک ہے سجاول، وہ مجھ سے ہی ملنے آئی تھی مگر میں نے اسے باہر باہر سے ہی بھیج دیا، اس سے بات نہیں کی، وہ بہت بد تمیز ہے، اس نے تمھارے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا۔“ خالدہ بیگم کا غصہ کچھ حد تک کم ہو چکا تھا اس لیے وہ سکون سے سجاول کی باتیں سن رہی تھیں۔
     ”آنٹی رہنے دیجیے۔ انھوں نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے یا نہیں، میں یہ سب بھول چکا ہوں، وہ میرے بھائی کی بیوی ہیں، میں اپنے بھائی سے بہت محبت کرتا ہوں، مجھے نویدہ بھابھی سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے، میں آپ کے گھر بہت خوش ہوں، پلیز انھیں معاف کر دیں، آخر وہ آپ کی سہیلی کی بہو ہیں۔“ سجاول روتے ہوئے بول رہا تھا۔ اب خالدہ بیگم سے کیسے برداشت ہوتا کہ سجاول روتا رہے سو وہ اس کے رونے پر تڑپ اٹھیں۔
    قسط نمبر 43
     ”اچھا بیٹے روتے نہیں، تم پریشان نہ ہو، میں نویدہ سے بات کر لوں گی، اب خوش۔“ خالدہ بیگم نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا تو وہ مسکرانے لگا پھر وہ بولا۔
     ”آنٹی! ریحان صبح سے ہی ڈسٹرب ہے۔ اس کا تو کوئی قصور ہی نہیں تھا۔ یونیورسٹی میں بھی وہ بجھا بجھا سا رہا۔ اگر آپ کے دل میں اس کے لیے بھی کوئی ناراضگی ہے تو دور کر دیں۔“
      ”ارے نہیں بیٹا! ایک ماں اپنے بچوں سے کیسے ناراض رہ سکتی ہے؟ اگر وہ یونیورسٹی میں بجھا بجھا سا رہا تو میں بھی گھر میں بے چین ہی رہی۔ آخر وہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے بس اٹھ جائے تو میں اپنے بچے کو منا لوں گی۔“ خالدہ بیگم نے کہا تو وہ خوش ہو کر چلا گیا۔ آج خالدہ بیگم نے ان دونوں کی پسند کا کھانا بنایا تھا۔ تو دونوں خوشی سے مسکراتے ہوئے ڈنر کر رہے تھے۔
*********
     نویدہ کب سے وقاص کا انتظار کر رہی تھی۔ آج اس نے وقاص کے ساتھ خالدہ بیگم کے گھر جانا تھا۔ مگر وقاص نہ آیا۔ رات ڈھلے جواب وقاص آیا۔ تو وہ ناراض ہو کر بیٹھ گئی۔
     ”بیگم ناراض کیوں ہوتی ہو؟ تمھیں پتہ تو ہے آج کل آفس میں بہت کام ہے۔ اس لیے دیر ہوگئی۔“ وقاص نویدہ کو منا رہا تھا۔ مگر وہ تھی کہ مان ہی نہیں رہی تھی۔
     ”اچھا بابا کل تم پھر چلی جانا، مجھے امید ہے کہ اب آنٹی تمھیں دیکھ کر ناراض نہیں ہوں گی، میں جانتا ہوں کہ آنٹی زیادہ دیر تک کسی سے  ناراض نہیں رہ سکتیں، اگر مجھے آفس میں  کام نہ ہوتا تو میں تمھارے ساتھ ضرور جاتا۔“ وقاص اسے کہہ رہا تھا بالآخر نویدہ مان ہی گئی۔
**********
     نائلہ آج بہت خوش تھی ایک بوجھ تھا جو اس کے سر سے اتر گیا تھا۔ وہ خوشی خوشی پورے گھر میں گھوم رہی تھی۔ عفت بیگم اسے مسکراتے ہوئے دیکھ کر مزید دعائیں دینے لگیں۔ آج وہ اپنے ابو کے ساتھ باہر جا کر آئس کریم بھی کھانے گئی۔ رات کو وہ بستر پر آ کر لیٹی تو ایک سکون سا تھا۔ کافی دنوں بعد وہ سکون سے سوئی تھی۔ اندھیروں کے بادل چھٹ چکے تھے۔ وہ دل ہی دل میں ریحان اور سجاول کی شکر گزار تھی جنھوں نے یونیورسٹی میں شر پسند لوگوں کے اس کے خلاف بولنے والوں کے منھ بند کروائے تھے۔ ایک لڑکی کی عزت پر جب انگلیاں اٹھنے لگیں تو اس لڑکی کا حال کیا ہوتا ہے یہ صرف وہی جانتی ہے۔ کیسے اس کی زندگی بے سکون ہو جاتی ہے۔ ایسے لگتا ہے اس کا سب کچھ لٹ چکا ہو۔ ایک بے چینی اور ہلچل وہ اپنی زندگی میں محسوس کرتی ہے۔ اور اسے اپنا وجود بے کار سا لگتا ہے۔ لوگوں کی طنز بھری باتوں سے تو کچھ لڑکیاں دل برداشتہ ہو کر خود کشی تک کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ یہ سب نائلہ محسوس کر چکی تھی۔ وہ ان حالات کا سامنا کر چکی تھی۔ اور وہ شکر ادا کر رہی تھی کہ جذبات میں آ کر اس نے کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا۔ وہ اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی کہ اس کی وجہ سے اس کے والدین کو کوئی دکھ نہیں پہنچا، اللہ نے خود بخود ہی سارے راستے آسان کر دیے۔ وہ صبر کرتی رہی اور راستے بنتے گئے اس کے والدین تک بات ہی نہیں پہنچی تھی کہ اللہ نے اسے سرخرو کر دیا۔ وہ خالدہ بیگم کی بھی شکر گزار تھی کہ سب کچھ معلوم ہوتے ہوئے انھوں نے امی جان کو کچھ نہیں بتایا۔ پتہ نہیں کیا سوچ کر انھوں نے اسے گلے لگایا تھا اور اس طرح اسے تسلیاں دی تھیں کہ اسے محسوس ہی نہیں ہوا۔وہ خالدہ بیگم ہی تو تھیں جنھوں نے اسے دکھ بھری زندگی سے نکال ایک خوشی بھری زندگی کی طرف گامزن کیا تھا۔ یہ سب سوچتے ہوئے وہ سو گئی۔
قسط نمبر 44
     ”کیا سوچ رہے ہو سجاول؟“ رات کو وہ سونے کے لیے لیٹے تو ریحان نے اسے سوچتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
     ”بس یہی سوچ رہا ہوں کہ نویدہ بھابھی آنٹی سے ملنے کس لیے آئی ہوں گی؟ آج آنٹی سے میں نے پوچھا تھا، تم اس وقت سو رہے تھے، آنٹی نے وجہ تو نہیں بتائی مگر یہ ضرور بتایا کہ نویدہ بھابھی آئی تھیں مگر وجہ شاید انھیں بھی پتہ نہیں ہو گی کیوں کہ انھوں نے اسی وقت ہی نویدہ بھابھی کو واپس بھیج دیا تھا ان کی بات ہی نہیں سنی، انھیں گھر کے اندر ہی نہیں گھسنے دیا۔“ سجاول بتا رہا تھا اور ریحان حیرت سے سن رہا تھا۔
     ”اچھا تو آج تم نے امی جان سے بات کر ہی لی۔ اور امی جان کا غصہ بھی ٹھنڈا کر دیا۔ اس لیے وہ مجھے ڈنر اپنے ہاتھوں سے کروا رہی تھیں اور خوب پیار کر رہی تھیں۔ “ ریحان مسکراتے ہوئے بولا۔
     ”تو اور کیا، وہ ماں ہی ہیں، ایک ماں اپنے سگے بیٹے کے ساتھ کتنی دیر تک ناراض رہ سکتی ہے؟ میری بات کرنے سے پہلے ہی انھوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ تمھیں منا لیں گی اور اب دیکھ لو انھوں نے آج ہم دونوں کی پسند کا ہی ڈنر بنایا ہے۔“ سجاول اسے کہہ رہا تھا اور وہ مسکراتے ہوئے سن رہا تھا۔
     ”چلو اب سو جاتے ہیں، صبح وقت پر آنکھ نہ کھلی تو یونیورسٹی سے دیر ہو جائے گی۔“ ریحان نے کہا تو وہ چادر اپنے اوپر ڈال کر سونے لگا۔
     ”تم سو جاؤ۔ جب مجھے نیند آئے گی تو میں بھی سو جاؤں گا۔“ سجاول نے کہا۔
     ”ہاں اب تمھیں نیند آئے گی کہاں؟ موصوف کے دل و دماغ میں اب کوئی اور محترمہ جو راج کر رہی ہیں۔ ہر لمحہ اس کی یادوں میں کھوئے رہو گے اب۔“ ریحان نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا تو وہ گھور کر ریحان کو دیکھنے لگا۔ ریحان چادر ڈال کر سو چکا تھا۔ اس نے مسکرا کر ریحان کو دیکھا پھر خود بھی چادر ڈال کر سو گیا۔ رات کو سوتے ہوئے وہ کسی اور دنیا میں ہی کھو جاتا تھا۔ وہ دنیا جو محبت کی دنیا ہوتی ہے۔ اس دنیا میں صرف سجاول اور نائلہ ہی ہوتے تھے۔ اور وہ گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔
*********
     آج وہ بہت خوش تھا ، آج اس کا پیار اس کے ساتھ موجود تھا، سجاول کسی نہ کسی طرح اسے رضا مند کر کے سر سبز و شاداب باغات میں گھومانے لایا تھا، جہاں چاروں طرف آبشاریں بہہ رہی تھیں، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں، دنیا کے خوبصورت مناظر میں سے ایک منظر تھا جہاں دونوں اس منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہوا سے نائلہ کا سفید خوبصورت سا ڈوپٹہ بار بار لہراتا ہوا اس کے چہرے کو چھوتا تھا تو اس کا دل خوشی سے سر شار ہو جاتا تھا۔ نائلہ آگے آگے کو بھاگتی تو وہ پیچھے پیچھے سے اسے پکڑنے کے لیے دھیرے دھیرے دوڑتا تھا اور بالآخر اسے پکڑ لیتا تھا۔ پھر وہ اس کی بانہوں میں جھول جاتی تھی تو کافی دیر وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہتے۔ پھر اچانک ہی آسمان پر کالے بادل منڈلانے لگے اور موسم خوشگوار ہو گیا۔ آسمانی بجلی کڑکی اور وہ خوف سے سجاول کے گلے لگ گئی سجاول نے مضبوطی سے اسے اپنی دونوں بانہوں میں تھام لیا۔
     ”بس ایسے ہی ساری زندگی میری ہم سفر اور میرے ہم نشین بن کر کھڑی رہنا۔ میں تمھیں زندگی کی ساری خوشیاں دوں گا۔“ وہ بڑبڑا رہا تھا، ریحان اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا، سجاول نے تکیے کو مضبوطی سے اپنے سینے میں جکڑا ہوا تھا۔
     ”اوئے پاگل کیا کہہ رہا ہے۔“ ریحان نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور وہ ہڑبرا کر اٹھ بیٹھا۔  
    قسط نمبر 45
     وہ اپنی اصلی دنیا میں آ چکا تھا، آنکھوں میں خماری ہونے کے باوجود پھر بھی وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ وہاں نہ نائلہ تھی نہ سرسبز و شاداب باغ، نہ آبشاریں تھیں اور نہ ہی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں۔ یہ تو وہی کمرا تھا جہاں رات کو وہ اور ریحان سوئے تھے، اس کا دل یک دم ہی مرجھا گیا۔
     ”یہ۔۔۔۔یہ میں کہاں آ چکا ہوں؟ وہ باغات اور وہ آبشاریں کہاں ہیں؟ اور نائلہ کا لہراتا ہوا سفید دوپٹہ، اوہ یہ تو سونے والی چادر ہے۔“ وہ ابھی بھی بے یقینی کے عالم تھا۔ ریحان نے زور سے اسے تکیہ مارا، دل تو اس کا کر رہا تھا کہ سجاول کا سر زور سے  پکڑے اور دیوار پر پٹخ دے مگر وہ ایسا نہ کر سکتا تھا۔ تکیہ سجاول کے سر پر پڑا تو اس کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا تب اسے احساس ہوا کہ اس کی اصلی دنیا وہ نہیں یہ ہے اور وہ اپنی اصلی دنیا میں واپس آ چکا ہے۔
     ”اچھا تو جناب کا یہ تکیہ ہے ہم سفر اور ہم نشین، بڑے زور و شور سے اس تکیے کو گلے لگایا ہوا تھا۔ اور خوب اس سے جی بھر کر باتیں کر رہے تھے۔“ ریحان اسے ہوش میں آتے ہوئے دیکھ کر بولا کیوں کہ اس نے اس کی بڑبڑاہٹ سن لی تھی۔ سجاول تکیے کو ہی سینے سے لگائے بڑبڑا رہا تھا۔ سجاول ریحان کی باتیں سن کر شرمندہ سا ہو گیا۔
     ”اتنے بڑے بڑے خواب دیکھنے لگ گئے۔ اور اتنی بے قراری کہ تکیے کو ہی نائلہ سمجھ کر نیند کی حالت میں ہی اس سے باتیں کر رہے ہو۔ اور وہ دنیا کون سی ہے جہاں سے تمھیں لوٹ کر یہی آنا پڑا؟ میں نے تمھاری ساری بڑبڑاہٹیں سن لی ہیں۔“ ریحان نے دوبارہ اسے جھنجھوڑا۔
     ”ہاں یار! کیا کروں؟ ساری رات اس کو خوابوں میں دیکھتا رہتا ہوں، اتنے خوبصورت مناظر کہ کیا بتاؤں؟ اب تو اس کے  بغیر ایک پل بھی نہیں رہا جاتا۔“ سجاول بے قراری سے بولا۔
     ”اچھا اچھا زیادہ مجنوں نہ بنو۔ اٹھو اور یونیورسٹی جانے کی تیاری کرو۔“ ریحان نے کہا تو وہ جمائی لیتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔ فریش ہو کر دونوں کھانے کی ٹیبل پر آ بیٹھے۔ جہاں خالدہ بیگم ناشتہ سجانے کے بعد ان کا انتظار کر رہی تھیں۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ دونوں مسکراتے ہوئے یونیورسٹی چلے گئے۔ جب کہ خالدہ بیگم انھیں مسکراتے ہوئے دیکھ کر دعائیں دینے لگیں۔
*******
     وقاص ناشتہ کر چکا تھا۔ اس نے بائیک نکالی اور آفس چلا گیا۔ آج نویدہ کا ارادہ دوبارہ خالدہ بیگم کے گھر جانے کا تھا۔ وقاص آفس میں کام کی زیادتی کہ وجہ سے نہیں جا سکتا تھا۔ نویدہ کو بھی پکا یقین تھا کہ آج خالدہ بیگم اسے کچھ نہیں کہیں گی، وہ خود بھی وقاص کے بغیر ہی خالدہ بیگم کے گھر جانا چاہتی تھی تاکہ وہ کھل کر خالدہ بیگم سے بات کر سکے۔ کیوں کہ بہت ساری باتوں کا وقاص کو بھی علم نہیں تھا۔ اگر وقاص کی موجودگی میں وہ خالدہ بیگم سے باتیں کرتی تو وقاص کو پتہ چل جاتا، وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔ وقاص، عفت بیگم اور عامر صاحب صرف یہی جانتے تھے کہ نویدہ نے سجاول سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ نائلہ پر کیا بیتی؟ یونیورسٹی میں کیا ہوا؟ اس پر کیا کیا باتیں ہوتی رہیں اور کیا الزامات لگے، ان سب باتوں سے وہ لاعلم تھے اور وہ انھیں لا علم ہی رکھنا چاہتی تھی۔ وہ بھی بار بار شکر ادا کر رہی تھی کہ سب کچھ جانتے ہوئے خالدہ بیگم نے امی جان کو کچھ نہیں بتایا، اور انھوں نے کیوں نہیں بتایا، یہی وجہ ہی تو وہ جاننا چاہتی تھی۔
اس نے جلدی سے کام نمٹائے اور خالدہ بیگم کے گھر کی طرف چل پڑی۔
قسط نمبر 46
     یونیورسٹی پہنچ کر وہ ہر روز اس کو دیکھ کر اس کے سامنے بے قابو ہو جاتا تھا۔ اس کے قدم ڈگمگانے لگتے، وہ اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینا چاہتا تھا۔ رات کو دیکھے گئے خواب وہ دن کو بھی دیکھتا رہتا۔ رات کو نیند میں خواب دیکھتا اور دن کو جیتی جاگتی آنکھوں سے۔ وہ نائلہ سے باتیں کرنے کا موقع ڈھونڈنا چاہتا تھا مگر اسے موقع نہ ملتا،
     وقفہ ہو چکا تھا، سارے طالب علم اور طالبات یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں جمع تھے، نائلہ کنٹین سے پکوڑے اور چپس خرید کر کھا رہی تھی کہ سجاول بھی اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا وہ ریحان کو ساتھ لا کر اسے کباب میں ہڈی نہیں بنانا چاہتا تھا۔ کیوں کہ نائلہ کے ساتھ تو اس کی دنیا ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ وہ دنیا جہاں صرف وہ دونوں ہوتے تھے۔
     سجاول جیسے ہی نائلہ کے پاس بیٹھا وہ اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔ سجاول کو بالکل ہی توقع نہیں تھی کہ نائلہ ایسے کرے گی۔ وہ حیرت سے اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
     ”ارے اس نے تو کوئی بات ہی نہیں کی تم سے۔“ ریحان جو کچھ دور کھڑے ہو کر یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اب قریب آ کر بولا۔
     ”کوئی بات نہیں، ابھی ابھی اتنے بڑے صدمے سے گزری ہے تو ایسی حالت ہے، آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گی۔“ سجاول نے جواب دیا تو دونوں اٹھ کر دوبارہ لیکچر روم کی طرف بڑھ گئے۔
*******
     وہ ٹیکسی سے اتری اس نے کرایہ ادا کیا اور خالدہ بیگم کے گھر کی طرف چل پڑی، دن کے 11 بج رہے تھے گرمی پورے جوبن پر تھی۔ سورج کی تپش ہر چیز کو جھلسا رہی تھی۔ یہاں تو صبح ہوتے ہی گرمی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیتی ہے۔ 11 بجے سے لے کر 3 بجے تک تو سورج سر پر کھڑا رہتا ہے۔ لوگ گرمی اور پسینے میں شرابور کام کر رہے ہوتے ہیں۔
     وہ دروازے کے قریب پہنچی اور ڈرتے ہاتھوں سے بیل بجائی، دل ہی دل میں وہ دعائیں بھی کر رہی تھی کہ یا اللہ اب آنٹی کا موڈ ٹھیک ہو، یا اللہ اب وہ غصہ نہ کریں۔ بالآخر دوسری بیل پر ہی دروازہ کھل گیا۔ خالدہ بیگم اس کے سامنے کھڑی تھیں۔ اور وہ خالدہ بیگم کو حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔
     ”اندر آ جاؤ۔“ خالدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا تو اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ وہ خالدہ بیگم کے ساتھ گھر کے اندر داخل ہو گئی۔
     ”جب اللہ اپنے بندوں کو معاف کر دیتا ہے تو پھر میں کون ہوتی ہوں اس کے بندوں کو معاف نہ کرنے والی۔“ خالدہ بیگم بول رہی تھیں۔ نویدہ پیچھے پیچھے آ رہی تھی اس نے خالدہ بیگم کی بات تو سن لی تھی مگر پھر بھی وہ بول پڑی۔
     ”جی آنٹی۔“ آپ نے کچھ کہا۔
     ”ہاں ابھی فی الحال یہی بیٹھو، اپنے حواس بحال کرو، میں تمھارے لیے ٹھنڈا شربت بنا کر لاتی ہوں۔“ خالدہ بیگم نے کہا تو وہ اس کے لیے شربت بنانے کچن میں چلی گئیں۔ نویدہ یہ تو جان چکی تھی کہ خالدہ بیگم اسے معاف کر چکی ہیں مگر پھر بھی وہ ان سے اپنے رویوں کی معافی مانگنا چاہتی تھی۔
     نویدہ پسینے سے شرابور تھی، خالدہ بیگم کے گھر آ کر ایئر کولر کے آگے بیٹھی تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے اسے سکون محسوس ہوا اور پھر ٹھنڈا شربت پی کر مزید اس کی جان میں جان آئی تو اس نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔
     ”کیسی ہو بیٹی۔“ خالدہ بیگم نے پیار سے پوچھا۔ خالدہ بیگم کے لہجے سے تو ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اس سے ناراض ہی نہ ہوں اسے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی خالدہ بیگم ہیں جنھوں نے پرسوں غصے کا سخت اظہار کیا تھا اور اس کی شکل تک دیکھنا گوارہ نہیں کی۔
قسط نمبر 47
     ”جی۔۔۔جی آنٹی! میں بالکل ٹھیک ہوں، وہ۔۔۔۔وہ آنٹی! میں انتہائی شرمندہ ہوں، مجھے معاف کر دیں، میں نے آپ کا بہت دل دکھایا، اور سجاول کا بھی، میں آج سچے دل سے آپ سے معافی مانگنے آئی ہوں، میں واقعی بہت بری بن گئی تھی۔“ وہ روتے ہوئے کانپ کانپ کر بول رہی تھی۔ آج وہ اپنے سارے گناہوں کا اقرار اور ان کا ازالہ کرنا چاہتی تھی۔
     ”نہیں بیٹا! روتے نہیں، مجھے تم سے کوئی شکوہ اور گلہ نہیں ہے، میں بھی تمھاری ماں جیسی ہوں، اب کوئی ماں اپنی اولاد سے کیسے ناراض رہ سکتی ہے؟ بس اس دن مجھے غصہ تھا اس لیے تمھیں ڈانٹ دیا۔“ خالدہ بیگم اسے پیار کرتے ہوئے بول رہی تھیں۔
     ”نہیں آنٹی! آپ نے جو کچھ کیا، ٹھیک کیا، یہ سزا تو میرے کیے گئے گناہوں سے بہت کم ہے، آپ بس مجھے معاف کر دیں، سجاول بھی یونیورسٹی سے آئے گا نا میں اس سے بھی معافی مانگ لوں گی۔“ وہ زیادہ زور زور سے رونے لگ گئی تھی۔
     ”ارے نہیں بیٹا! میں تمھیں پہلے ہی معاف کر چکی ہوں اور رہی سجاول کی بات، اسے بھی تم سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے، وہ جب یونیورسٹی سے آنے کے بعد تمھیں دیکھے گا نا تو دیکھنا کتنا خوش ہو گا، وہ تو بس ہے ہی پیار کا بھوکا، اس سے کوئی دو چار لفظ پیار سے بول دے تو بہت خوش ہوتا ہے اور جب تم اس سے مسکرا کر بات کرو گی ناں، وہ سب کچھ بھول کر خوش ہو جائے گا۔“ خالدہ بیگم نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا مگر وہ پھر بھی روتی رہی۔
     ” نہیں آنٹی جب تک میں خود اس سے معافی نہیں مانگوں گی نا مجھے چین نہیں آئے گا، میں اس کی گنہگار اور قصور وار ہوں بس وہ یونیورسٹی سے آ جائے تو۔۔۔ ابھی وہ کہہ ہی رہی تھی کہ خالدہ بیگم نے اس کا جملہ کاٹ دیا۔
     ”اپنے آپ کو زیادہ اور بار بار الزام کیوں دیے جا رہی ہو اور ویسے بھی صبح کا بھولا جب شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے، اب چپ ہو جاؤ اور سارا دن یہی میرے پاس رہو، اور وقاص کو کہنا کہ آفس سے سیدھا یہی آجائے، کافی دن ہو گئے اسے بھی نہیں دیکھا، شرارتی کہیں کا، بچپن میں بہت شرارتیں کرتا تھا۔“ خالدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ انھوں نے جان بوجھ کر یہ سب کہا تاکہ نویدہ کا ذہن رونے سے ہٹ کر مسکرانے کی طرف چلا جائے اور پھر ہوا بھی ایسے۔ نویدہ رونا چھوڑ کر زور زور سے مسکرانے لگی تھی۔ وہ مسکراتے مسکراتے ان کے گلے لگ گئی۔
     ”اگر کسی کی کوئی ماں ہو تو وہ آپ جیسی ہو۔“ نویدہ ابھی بھی مسکرا رہی تھی۔
     ”اچھا چلو آؤ دوپہر کے کھانے کی تیاری کرتے ہیں، ریحان اور سجاول آ جائیں گے تو ان کے لیے کھانا ریڈی ہو اور ہاں وقاص کو بھی فون کرکے کہہ دو کہ آج آفس سے جلدی آ جائے۔“ خالدہ بیگم نے کہا۔
     ”ٹھیک ہے آنٹی! میں کھانا بنانے میں آپ کی ہیلپ کرتی ہوں اور وقاص کو فون بھی کر دیتی ہوں، ویسے آج کل انھیں آفس میں کام تو بہت زیادہ ہے، اگر فارغ ہوئے تو جلدی آ جائیں گے۔“ یہ کہتے ہی اس نے وقاص کو فون کیا اور جو کچھ بتایا وقاص خوشی سے سن کر پھولے نہ سمایا۔
      ”آفس میں کام زیادہ ہو نہ ہو میں جلدی آ جاؤں گا، آخر آنٹی خالدہ نے بلایا ہے تو میں کیسے انکار کر سکتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا اور جلدی جلدی کام نمٹانے کی کوشش کرنے لگا۔  وہ بھی آج بہت خوش تھا۔ نویدہ نے آنٹی کو وقاص کے جلدی آنے کی خوشخبری سنائی تو وہ مسکرا کر کچن کی طرف چلی گئیں۔
قسط نمبر 48
     ”آنٹی ایک بات پوچھوں۔“ نویدہ فریج سے دہی نکالتے ہوئے بولی۔ آنٹی نے اسے رائتہ بنانے کے لیے کہا تھا۔
     ”ہاں پوچھو۔“ خالدہ بیگم آلو چھیلتے ہوئے بولیں۔ آج پھر وہ سجاول کی پسند کی ڈش آلو کوفتے بنا رہی تھیں، سجاول کے کھانے کے ساتھ ساتھ وقاص بھی یہ ڈش بہت شوق سے کھاتا تھا۔
     ”آنٹی جب آپ امی کے گھر گئی تھیں تو سب کچھ جانتے ہوئے بھی آپ نے پوری بات امی کو کیوں نا بتائی؟“ نویدہ دہی پھینٹتے ہوئے بولی۔ خالدہ بیگم سمجھ چکی تھیں کہ نویدہ کیا پوچھنا چاہتی ہے۔
     ”بیٹا! میں بھی ایک ماں ہوں۔ جواں لڑکی پر کوئی الزام لگے اس کا ماں باپ کو کتنا دکھ ہوتا ہے۔ میں سمجھ سکتی ہوں، تمھارے ماں باپ انتہائی شریف اور عزت دار لوگ ہیں۔ تمھارے والد نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ ہمیشہ محنت مزدوری کر کے تم دونوں بہنوں کی پرورش کی تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کی عزت پر خاک پڑے؟ میں تمھاری والدہ کا دل دکھانے نہیں آئی تھی۔ بس یہ کہنے آئی تھی کہ ذرا وہ تمھیں سمجھائے کہ تم سجاول کے ساتھ اپنا رویہ ٹھیک کرو، وہ معصوم بچہ ٹوٹ چکا تھا، اور جب نائلہ پر الزام لگا تو اور بھی زیادہ بکھر گیا، وہ اپنے آپ کو ہی قصور وار سمجھنے لگا تب مجھے لگا کہ اگر تم ذرا سجاول کے ساتھ اپنا رویہ ٹھیک کر لو تو شاید وہ ٹھیک ہو جائے۔ مگر اللہ نے خود بخود ہی تمام راستے آسان کر دیے۔“ خالدہ بیگم آلو کاٹ چکی تھیں اب وہ انھیں دھو رہی تھیں۔
     ”مگر اسے یہ کیسے پتہ چلا کہ میں ہی یہ سب چاہتی ہوں؟ اس کے ساتھ برا بھلا کرنا چاہتی ہوں۔“ وہ اب پیاز چھیل رہی تھی۔
     ”ارے چھوڑو بیٹی! تم کن باتوں میں پڑ چکی ہو، اب بس سب ٹھیک ہو گیا ہے تو پھر یہ فضول گپ شپ کیوں کریں؟“ خالدہ بیگم نے بے زاری سے کہا مگر وہ تو بال کی کھال اتارنے کے درپے تھی۔ جھٹ بولی۔ ”نہیں آنٹی مجھے بتائیں۔“ آخر خالدہ بیگم کو بتانا پڑا۔
     ”بیٹا! اس نے تمھیں فون پر نائلہ سے بات کرتے ہوئے سب سن لیا تھا، تو اسے یقین ہو گیا کہ یہ سب تم کروا رہی ہو، مگر جب وہ نائلہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھتا تو اسے پکا یقین ہو گیا کہ بے شک تم اس کے ساتھ برا کرنا چاہتی ہو مگر نائلہ یہ سب نہیں چاہتی، وہ تو بس اتفاقاً یہ سب ہو گیا تھا تو یہ اس کا پکا یقین ہی تھا جس کی وجہ سے لوگوں کے منھ بند ہوئے اور نائلہ سرخرو ہوئی، سجاول کے ساتھ ساتھ مجھے بھی یقین تھا کہ نائلہ نے جان بوجھ کر ایسے نہیں کیا ہوگا۔ اور اب پھر تمھارا اگلا سوال یہ ہو گا کہ اس دن جب ریحان نائلہ کو ڈانٹ رہا تھا تو اس نے نائلہ کو ایسے کیوں کہا کہ جیسے نویدہ بھابھی چاہیں گی ویسا ہی کرو گی۔ ہے نا یہ سوال۔۔۔۔“ خالدہ بیگم اس کی بے قراری دیکھ کر سمجھ چکی تھیں۔
     ”جی آ نٹی۔۔“ وہ ادب سے آہستہ آواز میں بولی۔
     ”وہ تو اس نے ویسے ہی کہہ دیا کیوں کہ تمھارا رویہ پہلے سے ہی سجاول کے ساتھ اچھا نہیں تھا تو اس نے اندازے سے ہی یہ کہا کہ نویدہ جو کچھ چاہ رہی ہے وہی تم کر رہی ہو مگر اسے کیا پتہ تھا کہ اس کا ایک اندازہ صحیح نکلے گا۔ بعض دفعہ انسان کے اندازے صحیح نکلتے ہیں اور بعض دفعہ غلط۔ ریحان کا یہ اندازہ تو صحیح نکلا کہ تم ہی سجاول کا برا چاہتی ہو اور یہ اندازہ کہ نائلہ تمھارے کہنے پر یہ سب کر رہی ہے، یہ غلط نکلا اور اس اندازے کو کس نے غلط کیا؟ وہ تھے نائلہ کے آنسو اور سجاول کا یقین۔ اب چل گیا ساری باتوں کا پتہ۔ اب جلدی کرو ریحان اور سجاول آنے والے ہیں۔“ خالدہ بیگم نے کوفتے بناتے ہوئے کہا۔ اپنے سوالات کے جوابات سن کر وہ بھی آٹا گوندنے میں لگ گئی۔
قسط نمبر 49
     وہ آٹا گوند کر فارغ ہو گئی تھی۔ خالدہ بیگم نے بھی ہانڈی چولھے پر چڑھا لی تھی کہ اتنے میں بیل ڈور بجی۔
     ”یہ اس وقت کون آ گیا؟ سجاول اور ریحان کو تو آنے میں ابھی آدھا گھنٹہ پڑا ہے۔ وہ دو بجے سے پہلے تو کبھی نہیں آتے، ابھی تو ڈیڑھ  بجے ہیں۔“ خالدہ بیگم ٹائم دیکھتے ہوئے بولیں۔
     ”آنٹی میں جاتی ہوں دیکھنے، آپ سکون سے ہانڈی بنائیں۔“ نویدہ نے کہا تو وہ باہر دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ خالدہ بیگم دوبارہ ہانڈی بنانے میں لگ گئیں۔ دروازہ کھول کر نویدہ نے دیکھا تو سامنے وقاص کھڑا تھا۔
     ”ارے آپ! اتنی جلدی آ گئے۔ ابھی تو میں نے فون کیا ہے۔“ نویدہ وقاص کو دیکھ کر خوشی سے چلائی۔
      ” ہاں میں۔۔۔۔ آنٹی بلائیں اور میں نہ آؤں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ آنٹی کے گھر آنے کی اتنی خوشی تھی کہ کوئی کام ڈھنگ سے ہو ہی نہیں رہا تھا۔ دل کر رہا تھا کہ جلدی سے آنٹی کے گھر پہنچ جاؤں بس میں نےضروری کام جلدی سے نمٹائے۔ باقی کے کام کوئی خاص نہیں تھے انھیں میں نے کل کے لیے چھوڑ دیا۔ آج سارا دن میں نے آنٹی کے ساتھ گزارنا ہے۔“ وقاص مسکرا کر بولتے ہوئے اندر داخل ہوا، اس کی آواز خالدہ بیگم کے کانوں میں بھی پڑ چکی تھی۔ وہ بھی خوشی سے کچن سے باہر آ گئیں۔
     ”آ جاؤ میرے بیٹے، آج میرے لیے خوشی کا دن ہے۔“ خالدہ بیگم نے اسے گلے لگایا۔ اور اسے بیٹھنے کو کہا۔ انھوں نے نویدہ کو کہا کہ وہ سب کے لیے شربت بنا لے کیوں کہ سجاول اور ریحان بھی آنے والے تھے۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ کچن میں چلی گئیں۔ نویدہ نے ایک بڑے جگ میں شربت بنایا۔ وقاص کے لیے شربت نکال کر اس نے باقی کا شربت فریج میں رکھ دیا تاکہ ریحان اور سجاول آ کر پی سکیں۔ نویدہ نے وقاص کو ٹھنڈا شربت پیش کیا تو وہ خوشی سے مسکرا اٹھا، آج وہ کافی عرصے بعد آنٹی کے گھر آیا تھا۔ نویدہ بھی مسکرا رہی تھی۔ خالدہ بیگم انھیں مسکراتا ہوا دیکھ کر خوش ہونے لگیں۔ ابھی تو انھوں نے وقاص، نویدہ اور سجاول کو ایک خاص سرپرائز بھی دینا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ سارے اس سرپرائز کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے اور خاص کر سجاول اور نویدہ تو حیران ہی رہ جائیں گے۔ اور سجاول اس سرپرائز کو دیکھ کر تو اس کے پاؤں ہی زمیں پر نہیں ٹکے گے۔ وہ سرپرائز کیا تھا وہ تھوڑی دیر بعد پتہ چلنے والا تھا۔
********
     وہ یونیورسٹی سے پڑھ کر آئی تو تھکاوٹ کی وجہ سے سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئی۔ گرمی بہت زوروں کی تھی۔ عفت بیگم نے اسے دیکھا تو حیران رہ گئیں۔ پہلے تو وہ سلام کرکے ایک دو منٹ امی کے پاس رکتی تھی مگر آج تو سلام کرکے وہ سیدھا ہی اپنے کمرے میں گھس گئی۔ عفت بیگم اس کے پیچھے گئیں تو وہ پنکھے کے آگے کھڑی اپنا پسینہ سکھا رہی تھی۔
     ”اف امی! بہت گرمی ہے۔ گرمی میں وقت گزارنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ دنوں میں ایگزامز بھی شروع ہو جائیں گے۔“ وہ گرمی کو کوسنے کے ساتھ ساتھ اپنے ایگزامز کے لیے بھی فکر مند تھی۔
     ”کوئی بات نہیں بیٹا! یہ سب تو چلتا رہتا ہے اور ایسے کسی موسم کو برا بھلا نہیں کہتے، اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتے ہیں۔ تم یہی بیٹھو میں تمھارے لیے ٹھنڈا شربت لاتی ہوں۔“ یہ کہہ وہ اس کے لیے شربت لینے چلی گئیں۔ شربت انھوں نے پہلے ہی بنا کر رکھ دیا تھا۔ انھیں پتہ تھا کہ ان کی بیٹی اتنی سخت گرمی میں آتی ہے تو وہ روزانہ اس کے لیے شربت بنا کر رکھ دیتی تھیں۔
قسط نمبر 50
     ”یہ لو یہ شربت پی لو۔“ عفت بیگم نے اسے شربت دیتے ہوئے کہا۔
     ”بہت شکریہ امی جان۔“ نائلہ نے شربت کا گلاس پی کر امی جان کا شکریہ ادا کیا۔ اب اس کی جان میں جان آ چکی تھی۔
     ”بیٹا! ابھی کچھ دیر ریسٹ کر لو پھر چار بجے تک تیار ہو جانا ہم نے کہیں جانا ہے۔ تمھارے بابا بھی جلدی آ جائیں گے۔“ عفت بیگم نے اسے کہا۔ وہ حیرانی سے امی کو دیکھنے لگی۔
     ”مگر کہاں امی جان؟“ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
     ”بس کہیں جانا ہے۔ جب وہاں پہنچیں گے تو تمھیں پتہ چل جائے گا۔“ عفت بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
     ”امی! میں نہیں جاؤں گی، آپ چلے جانا، میں بہت تھکی ہوئی ہوں، اور ویسے بھی میرا کہیں جانے کا موڈ بھی نہیں ہے۔“ اس نے بے زاری سے جواب دیا۔
     ”پاگل بننے کی کوشش نہ کرو، جو کہا ہے ویسے کرو، اب زیادہ سوال جواب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ عفت بیگم نے ہلکی سی ڈانٹ کے ساتھ اسےکہا تو وہ مان گئی۔ عفت بیگم حیران تھیں کہ ہر وقت کہیں آنے جانے کی ضد کرنے والی لڑکی آج کہیں جانے پر انکار کیسے کر رہی ہے۔ انھیں اچھی طرح یاد تھا کہ جب بھی اس کے بابا کام سے واپس آتے تو اس کی یہی ضد ہوتی تھی کہ بابا آج کہیں چلتے ہیں۔ بعض دفعہ اس کی خواہش مان لی جاتی اور بعض دفعہ نہیں مانی جاتی تھی۔ اور جس دن اس کی خواہش نہیں مانی جاتی تھی، وہ رات تک اپنے بابا سے ناراض رہتی، پھر بابا اسے خود ہی یہ کہہ کر منا لیتے تھے کہ دیکھو بیٹا آج میں بہت تھک گیا تھا اس لیے کہیں نہیں جا سکتے تھے۔ اس کے بعد وہ پھر مان جاتی تھی۔
*********
     سجاول پتھر کا بت بن چکا تھا۔ ایک زوردار حیرت کا جھٹکا اسے لگا تھا۔ اور وہ جہاں کھڑا تھا کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔ لاؤنج میں اس کے سامنے اس کا بھائی وقاص اور نویدہ بھابھی بیٹھے ہوئے تھے جو اسے مسکرا کر دیکھ رہے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اسی کے ہی انتظار میں بیٹھے ہوں اور تھا بھی تو ایسا، وہ اسی کا ہی تو انتظار کر رہے تھے۔ خالدہ بیگم درمیان میں نہیں آنا چاہتی تھیں، وہ چاہتی تھیں کہ جو کچھ ہو تینوں کے درمیان خود بخود ہو، اس لیے وہ کچن سے باہر نہیں آئیں اور ریحان بھی اپنے کمرے میں جا چکا تھا۔
     ”بب۔۔۔۔بھائی جان آپ! بب۔۔۔۔ بھابھی۔۔۔۔“ اس کے منھ سے لفظ ادا نہیں ہو رہے تھے۔ وہ مارے حیرت کے انھیں دیکھ رہا تھا۔ وقاص اور نویدہ اپنی جگہ سے کھڑے ہو چکے تھے۔ سگے خون نے جوش مارا اور دونوں بھائی روتے ہوئے ایک دوسرے کے لگے لگ چکے تھے۔
     ”سجاول ہمیں معاف کر دو ہم نے تمھارے ساتھ بہت زیادتیاں کی ہیں۔“ نویدہ بھابھی سجاول کو کہہ رہی تھیں۔
     ”نہیں بھابھی! معافی مانگ کر مجھے شرمندہ نہ کریں آپ تو میری ماں جیسی ہیں۔“ سجاول کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ نویدہ بھی رو رہی تھی۔ آج نفرتیں ختم ہو چکی تھیں نفرتوں کی جگہ محبتوں نے لے لی تھی۔ دونوں بھائی خوب گلے لگنے کے بعد اب الگ ہو چکے تھے۔ خالدہ بیگم کچن سے باہر آئیں۔
     ”بھئی اب کوئی گلے شکوے نہ کرے، جو کچھ ہو گیا سو ہو گیا، اب وہ سب بھول کر آگے کی زندگی کے بارے میں سوچو، مجھے اچھا نہیں لگتا کہ فضول باتوں اور گپ شپ میں وقت گزارا جائے، آج کا دن ہمارے لیے خوشی کا دن ہے تو بس خوش ہو کر منانا چاہیے۔“ خالدہ بیگم نے کہا تو سارے مسکرانے لگے۔
قسط نمبر 51
     ”اچھا نویدہ! ہانڈی بن گئی ہے میں اب روٹی بنا لوں، تم یوں کرو کہ ذرا میٹھے میں سیویاں بنا لو آج کچھ اور خاص مہمان بھی آنے ہیں۔“ خالدہ بیگم نے سب کو شربت دیتے ہوئے کہا۔
     ”خاص مہمان۔۔۔۔؟“ وقاص اور نویدہ نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا کہ ہمارے علاوہ اور کون سے خاص مہمان ہیں۔ سجاول بھی حیران تھا۔ خالدہ بیگم نے ان سب کے چہروں پر حیرانی دیکھی تو پھر خود ہی بولیں۔
     ”جب وہ آئیں گے نا تو سب کو پتہ چل جائے گا۔ اب چلو ریحان اور سجاول تم فریش ہو جاؤ۔“ خالدہ بیگم نے کہا تو سارے اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ وقاص وقت گزاری کے لیے ٹی وی چلا کر بیٹھ گیا۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری ہو گی کہ گھڑی نے ساڑھے چار بجانے کا الارم دیا۔ خالدہ بیگم سب کچھ ریڈی کر چکی تھیں، اس کے باوجود پھر بھی انھوں نے ایک نظر تمام پکے ہوئے کھانوں پر ڈالی کہ کسی چیز کی کوئی کمی تو نہیں رہ گئی اور سب چیزیں ٹھیک ٹھاک اور پرفیکٹ تیار ہو گئی ہیں۔ سب چیزیں بالکل تیار تھیں۔ اچھی طرح اطمینان کر لینے کے بعد وہ کچن سے باہر آ گئیں۔ ریحان اور سجاول وقاص کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ جب کہ نویدہ خالدہ بیگم کی ہدایت پر کھانے کی ٹیبل سجا رہی تھی۔ دراصل خالدہ بیگم یہی چاہتی تھیں کہ جیسے ہی مہمان آئیں، ہر چیز تیار ہو، کسی قسم کی پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ ابھی خالدہ بیگم لاؤنج میں آ کر بیٹھی ہی تھیں کہ دروازے کی بیل بج اٹھی۔ انھیں یقین ہو گیا تھا کہ وہ خاص مہمان آ گئے ہیں۔
     ریحان نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو دروازے پر عفت بیگم، عامر صاحب اور نائلہ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ خالدہ بیگم بھی ان کے استقبال کے لیے اٹھ کھڑی تھیں۔
     ”امی، ابو اور نائلہ آپ۔۔۔۔“ نویدہ بھی باہر آ چکی تھی۔ وہ ان کو دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑی تھی۔ وقاص بھی حیران تھا۔ اور سجاول اس کا تو دل ہی رک گیا تھا۔ اس کا پیار اس کے سامنے ہی کھڑا تھا۔ 
     تیز مہرون کلر کے لباس کے ساتھ ہلکے پیلے رنگ کا ڈوپٹہ اس کے وجود میں اور نکھار پیدا کر رہا تھا۔ آج نائلہ بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔ سارے ایک دوسرے کو ملنے کے بعد لاؤنج میں آ چکے تھے۔ ہر طرف سے مسکراہٹوں اور قہقہوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ نویدہ بار بار خالدہ بیگم کو دیکھ رہی تھی جیسے پوچھنا چاہتی ہو کہ آنٹی آپ نے امی ابو کو کب بلایا؟ خالدہ بیگم اس کی اس عادت سے خوب واقف تھیں۔ جو بات بھی اس کے ذہن میں ہوتی نویدہ پوچھ کر ہی رہتی تھی۔ اس لیے خالدہ بیگم نے اسے کہا کہ جب تم صبح آئی تھی تو میں تمھارے لیے شربت بنانے کے لیے کچن میں گئی تو تب میرے ذہن میں خیال آیا کہ عفت بہن کو بھی فون کر کے بلا لیتی ہوں۔ بقول ان کے کہ وہ آج کے دن کو یادگار بنانا چاہتی تھیں تو اس لیے انھوں نے عفت بیگم کو فون کر دیا۔ اور عفت بیگم نے بھی آنے کی ہامی بھر لی۔ پھر انھوں نے سوچا کہ کسی کو بھی نہ بتا کر وہ سب کو سرپرائز دیں گی تو یہ دن اور بھی زیادہ یادگار بن جائے گا اور یوں یہ دن سب کے لیے خوشی کا اور یادگار بن گیا۔ نویدہ مسکراتے ہوئے ان کی باتیں سنتی رہی۔ سجاول کی تو ساری توجہ اب نائلہ کی طرف ہو چکی تھی۔ اسے تو نائلہ کے علاوہ کچھ اور نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ ریحان بار بار اس کی اس حالت کو دیکھ رہا تھا۔
قسط نمبر 52
     ”کیا کر رہے ہو؟“ سجاول نے اسے گھورا۔ سجاول کی نظریں مسلسل ہی نائلہ پر ٹکی ہوئی تھیں۔ جنھیں ریحان کے ساتھ ساتھ خالدہ بیگم نے بھی محسوس کیا۔ وہ تو شکر ہے کہ باقیوں نے نہیں دیکھا تھا، ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔
     ”آئیں کھانا لگا ہوا ہے۔“ خالدہ بیگم نے سب کو کہا تو سارے مسکراتے ہوئے کھانے کی ٹیبل کی طرف بڑھ گئے۔ سجاول اسے آہستہ آہستہ کھانے کی ٹیبل کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا، اس کا تو دل چاہ رہا تھا کہ وہ اور نائلہ کہیں دور، اس دنیا سے بھی دور، ایسی جگہ چلے جائیں جو اس دنیا سے خوبصورت ہو، وہاں جہاں بس سجاول اور نائلہ ہوں، ان دونوں کے علاوہ کوئی اور نہ ہو، اس سے پہلے کہ سجاول کسی اور دنیا میں کھو جاتا، ریحان نے اس کی کمر پر زور دار تھپڑ مارا۔
     ”یہ ہے تمھاری دنیا، اسی میں رہو، کسی اور جگہ جانے کی ضرورت نہیں۔“ ریحان نے اسے آہستہ آواز میں کہا تاکہ باقی سب نہ سن سکیں۔ خوشگوار ماحول میں سب کھانا کھا رہے تھے۔ وقاص اور عامر صاحب کے درمیان قہقہوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ کھانے سے فراغت کے بعد نویدہ دستر خوان سمیٹنے لگی۔ سارے ایسے آپس میں گپ شپ اور موج مستی کر رہے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ماضی کو بھلا کر وہ موجودہ صورتحال سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
     ”واہ بھائی بہت مزا آ گیا۔ اتنا زبردست کھانا کافی عرصے بعد کھایا۔“ عامر صاحب کھانے کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ ہنستے ہوئے بولے۔
     ”ہاں خالدہ! کھانا تو بہت مزے کا تھا۔ سچ میں بہت مزا آیا۔“ عفت بیگم نے بھی تعریف کی۔
     ”یہ سب نویدہ کا کمال ہے اگر وہ میرا ہاتھ نہ بٹاتی تو میں اتنا سب کچھ نہ بنا پاتی۔“ خالدہ بیگم نے بھی نویدہ کی تعریف کی۔
     ”نہیں آنٹی کوئی بات نہیں، یہ تو میرا فرض فرض تھا۔“ نویدہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
     ”چلو بھائی سجاول تیاری کرو۔ تمھارا گھر تمھارا انتظار کر رہا ہے۔“ وقاص نے کہا تو سجاول یک دم خیالوں کی دنیا سے باہر آ گیا۔
     ”جج۔۔۔۔جی بھائی جان۔“ سجاول ہکلاتے ہوئے بولا جیسے اسے یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ وقاص بھائی یہ بات کریں گے۔
     ”ہاں چلو نا سجاول، میں نے تمھارا کمرا بھی سیٹ کر دیا تھا۔“ اب کی بار بھابھی نویدہ بولیں تو وہ مزید حیران رہ گیا۔ خالدہ بیگم سب کو مسکرا کر دیکھ رہی تھیں جب کہ ریحان افسردہ تھا۔
     ”ٹھیک ہے بھائی جان! میں اپنا سامان پیک کر لوں۔“ سجاول نے کہا تو وہ کمرے کی طرف بڑھ گیا جہاں اس کا ہلکا پھلکا سامان پڑا ہوا تھا۔
     ”جا رہے ہو۔“ وہ اپنے سوٹ بیگ میں ڈال رہا تھا کہ ریحان کی سسکتی ہوئی آواز اس کے کانوں میں آئی۔
     ”ہاں یار! کافی دنوں بعد اپنے گھر جاؤں گا۔“ سجاول خوش ہوتے ہوئے بولا۔ آنسو تو اس کی آنکھوں میں بھی تھے مگر گھر جانے کی خوشی میں وہ آنسوؤں کو چھپائے ہوئے تھا۔ ریحان روتے ہوئے اس کے گلے لگ گیا۔
     ”لو! بچوں کی طرح رو رہے ہو۔ کیا میں بہت دور جا رہا ہوں؟ یار ہم روزانہ تو ملیں گے نا۔“ سجاول نے اسے دلاسا دیا۔ اس دوران خالدہ بیگم بھی کمرے کے اندر داخل ہوئیں۔ وہ بھی کچھ اداس اداس سی تھیں۔
     ”آنٹی اسے دیکھیں نا پاگلوں کی طرح رو رہا ہے، جیسے میں کہیں دور، بہت دور ہی جا رہا ہوں۔“ سجاول نےخالدہ بیگم کو دیکھتے ہی کہا۔
      ”نہیں میرے بچے! کافی دن ہمارے ساتھ رہے ہو نا اس لیے ہمارا دل اداس ہے مگر کوئی بات نہیں، تم اپنے گھر جاؤ اور خوش رہو۔“ خالدہ بیگم نے اسے پیار کرتے ہوئے دعائیں دیتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا کر ان کے گلے لگ گیا۔
     ”اور ایک بات اور، جو میں تمھیں کہنے آئی ہوں۔“ خالدہ بیگم نے کہا تو وہ حیرانی سے انھیں دیکھنے لگا۔
قسط نمبر 53
     ”جی آنٹی۔“ وہ سعادت مندی سے بولا۔
     ”تمھیں پتہ ہے نا، پہلے نائلہ کے ساتھ بہت کچھ ہو چکا۔ وہ لڑکی ہے اگر کوئی لڑکی ایک بار ٹوٹ جائے تو وہ دوبارہ کھڑی نہیں ہو سکتی۔ کچھ لڑکیاں نازک مزاج ہوتی ہیں، وہ چھوٹی سی چھوٹی بات کو بھی دل پر لے لیتی ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ تمھیں نائلہ سے بہت محبت ہے۔ تم فکر نہ کرو میں نے عفت بیگم کو پہلے سے ہی اشارہ دیا ہوا ہے۔ بس تمھیں یہ بتانے آئی ہوں کہ اپنے جذبات کو کنٹرول کرو۔ جو تم آج کل عجیب عجیب حرکتیں کر رہے ہو نا وہ مجھے سب معلوم ہیں۔ تم اپنی پڑھائی پر توجہ دو اور ابھی اس نے بھی بہت سارا پڑھنا ہے۔ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ میں نائلہ کو ہی تمھاری دلہن بناؤں گی۔ تم ابھی گھر جاؤ اور کسی کو بھی کچھ مت بتانا کہ تمھیں نائلہ سے بہت شدید محبت ہوگئی ہے۔ یہ بات صرف میں اور ریحان جانتے ہیں۔ اگر تم نے کوئی اوٹ پٹانگ حرکت کی تو بنا بنایا کام خراب ہو سکتا ہے۔ بس تمھیں اتنا یقین دلا دیتی ہوں کہ وہ تمھاری ہی زندگی کا حصہ بنے گی۔“ خالدہ بیگم سجاول کو کہہ رہی تھیں۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے انھیں دیکھ رہا تھا۔ جیسے کہہ رہا ہو کہ نہیں آنٹی یہ ناممکن ہے۔ مگر پھر اپنے دل کو سمجھاتے ہوئے بولا۔ ”ٹھیک ہے آنٹی آپ جیسے سوچ رہی ہیں بہتر ہی سوچ رہی ہوں گی۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ لاؤنج میں وقاص اور نویدہ اس کا انتظار کر رہے تھے۔ عفت بیگم، عامر صاحب اور نائلہ پہلے ہی خالدہ بیگم سے اجازت لے کر جا چکے تھے۔ وقاص اور نویدہ نے بھی اجازت چاہی، سجاول نے الوداعی نظر ریحان پر ڈالی، دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے سجاول دور، بہت دور جا رہا ہو۔ ریحان اسے دیکھتا رہا اور وہ بھائی اور بھابھی کے ساتھ دروازے سے باہر نکل گیا۔ آج وقاص دفتر کی گاڑی لے کر آیا تھا۔ وہ تینوں گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی آہستہ آہستہ چل پڑی۔ سجاول کسی اور دنیا میں ہی کھویا ہوا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ نائلہ کے بغیر کیسے رہے گا؟ نائلہ تو اس کے رگ رگ میں سما چکی تھی۔ مگر خالدہ بیگم کی باتیں بھی ٹھیک تھیں، وہ نائلہ کو دوبارہ اس دکھ بڑی زندگی میں نہیں دھکیلنا چاہتا تھا سو اس نے اپنے دل کو کسی کسی نہ طرح سمجھا ہی لیا۔
     گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی وہ خوشی سے سرشار ہو گیا۔ اسے اپنا بچپن یاد آیا۔ تو وہ مسکرا دیا۔ کمرے میں پہنچ کر وہ اور بھی خوش ہو گیا۔ اس کی شرارتیں اس کی یادیں وہاں موجود تھیں۔ ہر چیز نفاست سے رکھی ہوئی تھی۔ بھابھی نے اس کا کمرا اس کی خواہش کے مطابق ہی سیٹ کیا تھا۔ بے شک بھابھی بری تھیں مگر سجاول کی پسند اور نا پسند کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتی تھیں۔ دیوار پر لگیں اپنے والدین کی تصویروں کو دیکھ کر تو وہ مارے حیرت کے اچھل پڑا، کتنی ہی دیر وہ اپنی ممی پاپا کی تصویروں کو دیکھتا رہا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ اس کی ممی پاپا اس کے سامنے ہی کھڑے ہیں۔
     ”دیکھا مما پاپا! میں گھر آ گیا اب تو بھابھی نویدہ بھی بہت اچھی ہو گئی ہیں، اب وہ میرا بہت ہی خیال رکھیں گی۔ میں بہت خوش ہوں۔“ وہ اپنے والدین کی تصویروں سے باتیں کرتا ہوا خوشی سے جھوم رہا تھا۔ جھومتے جھمتے وہ اپنے بیڈ پر دراز ہو گیا۔ مسکراہتے مسکراہتے کب اس کی آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہ چلا۔
آخری قسط
     صبح نویدہ بھابھی کی آواز پر وہ اٹھا۔ آج اس کی آنکھ ہی نہیں کھل رہی تھی۔ نویدہ بھابھی نے کافی دیر ناشتے کی ٹیبل پر اس کا انتظار کیا۔ مگر جب وہ نہ آیا تو وہ خود ہی اسے اٹھانے چلی گئیں۔
     ”جی بھابھی! بس ابھی آتا ہوں۔“ اس نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا اور فوراً ہی اٹھ بیٹھا۔
     فریش ہونے کے بعد وہ ناشتے کی ٹیبل پر پہنچا تو وقاص بھائی اسے گھور گھور کر دیکھ رہے تھے۔
     ”کیوں بھائی! آج یونیورسٹی نہیں جانا تھا کیا؟“ وقاص بھائی اسے دیکھتے ہوئے بولے۔
     ”وہ۔۔۔۔وہ جانا تھا بھائی جان ! پتہ نہیں آنکھ دیر سے کیوں کھلی؟“ اس نے بوکھلا کر جواب دیا۔
     ”چلو جلدی سے ناشتہ کرو اور میرے ساتھ چلو، آفس جاتے ہوئے تمھیں یونیورسٹی تک چھوڑ دوں گا۔ اور ہاں واپسی پر ریحان کے ساتھ آ جانا۔ اب روزانہ تمھاری ایسی ہی روٹین رہے گی۔ اور ہاں ایک بات اور۔۔۔۔۔“ وقاص بھائی یہ کہہ کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ بھی انھیں ایسے ہی دیکھ رہا تھا جیسے توجہ سے سب سن رہا ہو۔
     ”جج۔۔جج۔۔جی بھائی جان۔“ وہ ابھی تک بوکھلایا ہوا تھا۔
     ”اب ساری توجہ اپنی پڑھائی کی طرف رکھنی ہے۔ اگر تمھارا میڈیکل میں داخلہ نہ ہوا تو پھر دیکھنا مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔“ وقاص بھائی نے مسکراتے ہوئے اسے صاف لفظوں میں دھمکی دی تو وہ بھی ادب سے آنکھیں جھکا کر رہ گیا۔ ایسے جیسے کہہ رہا ہو ”جی بھائی جان“
*********
     اس کی ساری توجہ پڑھائی کی طرف تھی اس نے اپنے والدین کے خوابوں کو پورا کرنا تھا۔ یقیناً اسے نائلہ سے محبت ہو گئی تھی۔ مگر محبت تو انسان کے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ وہ ان میں سے نہ تھا جو محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں۔ سو وہ دل لگا کر پڑھتا رہا۔
**********
     آج عفت بیگم کے گھر میں بہت خوشی کا سماں تھا۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹیں سجی ہوئی تھیں۔ سجاول اعلیٰ امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا تھا۔ اب وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے انگلیڈ جا رہا تھا۔ مگر خالدہ بیگم کی یہی خواہش تھی کہ انگلیڈ جانے سے پہلے اس کی منگنی نائلہ سے کر دی جائے سو آج اسی سلسلے میں ہی گھر میں خوب رونق سجی ہوئی تھی۔
     سجاول تو خوشی سے دیوانہ ہو رہا تھا۔ جسے وہ چاہتا تھا اب وہ اس کی زندگی کا حصہ بننے والی تھی۔ نویدہ بھابھی سب مہمانوں میں مٹھائیاں بانٹ رہی تھیں۔ خاندان کی چھوٹی لڑکیاں گیت گا رہی تھیں۔ وقاص بھائی خاندان کے مردوں کو سنبھالنے میں لگے ہوئے تھے۔ ریحان بار بار سجاول کو چھیڑ رہا تھا۔ آخر کار انگوٹھی پہنانے کی رسم کا وقت آیا۔ سجاول کا تو دل دھڑکنے لگا۔ نائلہ اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ خوبصورت سی دلہن کی طرح سجی ہوئی۔ سجاول نے نائلہ کی طرف دیکھا نائلہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔
     ”اوئے کیا شرما رہا ہے؟ چل اب انگھوٹی پہنا۔“ ریحان نے اسے کہا تو وہ واقعی شرما کر رہ گیا۔ خاندان کے تمام افراد اسے دیکھ کر مسکرانے لگے۔ انگھوٹی پہناتے ہوئے وہ خالدہ بیگم کو ساتھ بٹھانا نہ بھولا تھا۔
میں آؤں گا تمھیں جلد لینے
تمھیں اپنی زندگی کا حصہ بنانے
میرے ہم سفر، میرے ہم نشین
میں جہاں بھی رہوں گا
تیری یاد میری سانسوں میں
بسی رہے گی۔
تیری محبت میرے اندر
آگے بڑھنے کے جستجو
پیدا کرے گی
میں وعدہ کرتا ہوں
آؤں گا واپس لوٹ کے
تمھیں اپنی زندگی کا
ساتھی بناؤں گا۔
     دل ہی دل میں سوچتے ہوئے اس نے لرزتے ہاتھوں سے نائلہ کو انگھوٹی پہنائی۔ اس ایک انگھوٹی نے نائلہ کو اس کا ہم سفر اور ہم نشین بنا دیا تھا۔ تالیوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ نغموں کی آوازایں بھی چاروں طرف گونج رہی تھیں۔
ختم شد