Fátima standing in a refugee camp, looking determined despite the hardships
Fátima standing in a refugee camp, looking determined despite the hardships

 تحریر: حافظ نعیم احمد سیال

عنوان: فاطمہ کی جدوجہد: ایک ہمت اور حوصلے کی کہانی

کہانی:

’’فاطمہ، جلدی کرو، ہمیں یہاں سے نکلنا ہے۔‘‘ ماں نے گھبراہٹ سے آواز دی۔

’’ماں، یہ میری زمین ہے، میری پہچان ہے۔ میں اسے کیسے چھوڑ سکتی ہوں؟‘‘ فاطمہ نے آنکھوں میں آنسو بھرے ماں کی طرف دیکھا۔

’’یہاں کچھ نہیں بچا، بیٹی۔ یہ زمین تو اب خون سے رنگین ہو گئی ہے۔‘‘ ماں نے فاطمہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ کھینچتی ہوئی دروازے کی طرف لے جانے لگی۔

بٹوارہ اور مایوسی

گلیوں میں شور تھا، چیخیں تھیں، خون کے نشانات تھے۔ فاطمہ کی آنکھوں میں خوف کا سایہ تھا، لیکن اس کے دل میں ایک عزم تھا۔ بٹوارے کی آگ نے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کر دیا تھا۔ وہ گھر جس میں کبھی محبت کی مہک تھی، اب وہاں نفرت کے شعلے بھڑک رہے تھے۔

’’ماں، میں نے خواب دیکھے تھے، اس زمین پر اپنے خوابوں کا محل بنانے کے۔ اب یہ سب کیا ہو رہا ہے؟‘‘ فاطمہ نے روتے ہوئے کہا۔

’’یہ دنیا بدل گئی ہے، بیٹی۔ اب یہاں خوابوں کی جگہ صرف خوف نے لے لی ہے۔‘‘ ماں نے بھاری دل کے ساتھ جواب دیا اور دونوں دوڑنے لگے۔

پناہ گزین کیمپ میں زندگی

فاطمہ اور اس کی ماں ایک عارضی کیمپ میں پناہ لیتے ہیں۔ وہاں بھوک، بیماری اور بدحالی نے ان کا استقبال کیا۔ فاطمہ نے دیکھا کہ کیسے لوگ اپنی شناخت کھو چکے ہیں۔ ہر طرف مایوسی تھی۔ وہ دن رات اپنی گمشدہ زندگی کو یاد کرتی رہی۔

’’ماں، ہمیں یہاں کب تک رہنا پڑے گا؟‘‘ فاطمہ نے ایک دن ماں سے سوال کیا۔

’’جب تک امن واپس نہیں آتا۔‘‘ ماں نے ایک گہری سانس لی۔

نئی دوستیوں کا آغاز

کیمپ میں فاطمہ کی ملاقات ایک عورت سے ہوئی جو وہاں اپنے بچوں کے ساتھ پناہ گزین تھی۔ اس کا نام رادھا تھا۔ دونوں میں بات چیت شروع ہوئی۔

’’تمہارا نام فاطمہ ہے؟‘‘ رادھا نے حیرانی سے پوچھا۔

’’ہاں، اور تمہارا؟‘‘ فاطمہ نے جواب دیا۔

’’رادھا۔‘‘ رادھا نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’یہاں پر آ کر سب کچھ بھول چکی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے زندگی اب بس یہیں رک گئی ہے۔‘‘ فاطمہ نے اداسی سے کہا۔

’’زندگی کبھی نہیں رکتی، فاطمہ۔ یہ بس ہماری ہمت ہے جو ختم ہو جاتی ہے۔‘‘ رادھا نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

انصاف کی جنگ

کچھ دنوں بعد کیمپ میں ایک دن اچانک شور مچ گیا۔ کچھ لوگ کیمپ میں گھس آئے تھے اور ان کی بے عزتی کرنے لگے۔ فاطمہ نے ایک کونے میں چھپ کر یہ سب دیکھا، لیکن وہ خود کو بچا نہ سکی۔

’’چھوڑ دو مجھے!‘‘ فاطمہ نے چیختے ہوئے کہا، لیکن اس کی آواز سننے والا کوئی نہ تھا۔

کئی دنوں کے بعد فاطمہ کو ہوش آیا۔ اس کی ماں نے اسے سینے سے لگا لیا۔

’’میری بیٹی، انہوں نے تمہیں کیا کر دیا؟‘‘ ماں نے روتے ہوئے کہا۔

’’ماں، میری عزت... میری عزت چلی گئی۔‘‘ فاطمہ نے کانپتی آواز میں کہا۔

’’بیٹی، تمہاری عزت تمہاری خودی میں ہے، تمہارے دل میں ہے۔ وہ اسے چھین نہیں سکتے۔‘‘ ماں نے اسے دلاسہ دیا۔

خوف کے خلاف عزم

فاطمہ نے ماں کے سینے سے سر اٹھایا اور اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، ’’ماں، میں ان کی دی ہوئی شکست کو قبول نہیں کروں گی۔‘‘

فاطمہ نے کیمپ کے حالات کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے رادھا کو ساتھ لے کر ایک گروپ بنایا، جس میں وہ سب عورتیں شامل تھیں جن کی عزتیں پامال کی گئی تھیں۔ وہ اپنے حق کے لیے لڑنے لگیں۔

’’ہم خاموش کیوں رہیں؟‘‘ فاطمہ نے گروپ کے سامنے کہا، ’’ہمیں اپنی آواز بلند کرنی ہوگی، تاکہ کوئی اور ہماری طرح نہ بنے۔‘‘

رادھا نے اس کی بات کی تائید کی، ’’ہاں، ہمیں یہ جنگ لڑنی ہوگی۔ ہم یہاں اسی لیے آئے ہیں کہ ہم زندہ رہ سکیں، نہ کہ مر جائیں۔‘‘

حقوق کی جنگ

فاطمہ اور اس کی ساتھیوں نے کیمپ کے منتظمین سے بات کی، ان سے انصاف کا مطالبہ کیا۔ ان کی آوازیں کیمپ سے باہر تک گئیں۔ وہ جو پہلے خوف میں زندگی بسر کر رہے تھے، اب ان کے چہرے پر عزم کی روشنی تھی۔

’’ہمیں انصاف چاہیے!‘‘ فاطمہ نے احتجاج کے دوران نعرہ بلند کیا۔

’’ہم اپنی عزت کا سودا نہیں کریں گے!‘‘ رادھا نے اس کا ساتھ دیا۔

خطرات اور جرات مندی

کچھ دن بعد، فاطمہ کو کیمپ کے باہر سے ایک خط ملا۔ اس میں لکھا تھا، ’’اگر تم نے یہ احتجاج بند نہ کیا تو تمہیں اور تمہارے خاندان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘‘

فاطمہ نے خط پڑھ کر مسکراتے ہوئے کہا، ’’اب میں ڈرنے والی نہیں ہوں۔‘‘

’’بیٹی، یہ لوگ خطرناک ہیں، ہم اپنی جان گنوا بیٹھیں گے۔‘‘ ماں نے فاطمہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔

’’ماں، میں نے اپنی عزت پہلے ہی گنوا دی ہے، اب صرف عزت کا نام بچا ہے، اور میں اسے گنوانا نہیں چاہتی۔‘‘ فاطمہ نے مضبوط لہجے میں کہا۔

دفاع کی رات

ایک رات، جب کیمپ میں سب سو رہے تھے، کچھ لوگ فاطمہ کے خیمے میں گھس آئے۔ لیکن اس بار فاطمہ نے ہتھیار اٹھا لیا تھا۔ اس نے ان پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک کو پکڑ کر چیخ کر کہا، ’’یہاں سے نکل جاؤ، ورنہ تم میں سے کوئی زندہ نہیں بچے گا۔‘‘

فاطمہ کے اس جرات مندانہ اقدام نے کیمپ میں ایک نیا جوش بھر دیا۔ لوگ اس کے ساتھ مل کر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے لگے۔ فاطمہ کی قیادت میں، کیمپ کے لوگوں نے آخرکار اپنے حالات بہتر کر لیے۔

’’فاطمہ، تم نے ہمیں امید دی ہے۔‘‘ رادھا نے خوشی سے کہا۔

’’نہیں رادھا، ہم سب نے ایک دوسرے کو امید دی ہے۔ ہم نے خود کو مضبوط کیا ہے۔‘‘ فاطمہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

فاطمہ کی کہانی کیمپ سے نکل کر پورے ملک میں پھیل گئی۔ وہ اب صرف ایک مظلوم عورت نہیں تھی، بلکہ ایک مثال تھی۔ اس نے ثابت کر دیا کہ عزت صرف جسم کی نہیں ہوتی، بلکہ یہ انسان کے عزم، حوصلے اور خودی میں بھی ہوتی ہے۔

’’ماں، میں نے اپنی عزت واپس حاصل کر لی ہے۔‘‘ فاطمہ نے ماں سے کہا۔

ماں نے فاطمہ کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا، ’’ہاں بیٹی، تم نے ہمیں فخر دیا ہے۔‘‘

فاطمہ نے کیمپ کے لوگوں کو دیکھتے ہوئے کہا، ’’ہم نے یہ جنگ جیت لی ہے، لیکن یہ صرف شروعات ہے۔ اب ہمیں اپنی نئی زندگی بنانی ہے، ایک ایسی زندگی جس میں کوئی ہمیں توڑ نہ سکے۔‘‘