Here, I publish articles, poetries, travelogues, novels, fiction, short stories, humorous stories, moral stories, and love stories in Urdu  & English. افسانہ
Here, I publish articles, poetries, travelogues, novels, fiction, short stories, humorous stories, moral stories, and love stories in Urdu  & English. افسانہ


تحریر: حافظ نعیم احمد سیال

     اس نے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا۔ سونا سونا اور خالی کمرا، اسے کوئی اندھیری کوٹھری لگ رہا تھا۔ یہ کمرا اسے روزانہ کاٹ کھانے کو دورتا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کے گالوں میں لڑھک گئے۔ وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں رویا تھا۔ اسے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ رونا کسے کہتے ہیں۔ مگر اب تو اسے اچھے طریقے سے رونا آ گیا تھا۔ وہ رونا سیکھ چکا تھا۔ ہاں واقعی سیکھ چکا تھا۔

     مرد کبھی نہیں روتا مگر اپنے محبوب کے ساتھ گزاری گئیں کچھ یادیں اور اس کے ساتھ گزارے گئے کچھ محبت بھرے لمحات اسے رونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ وہ ناچاہتے ہوئے بھی رونے لگتا ہے۔ یہی کچھ اس کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ وہ بیڈ پر سے اٹھ بیٹھا تھا۔ کمرے میں روشنی ہوتے ہوئے بھی اسے وہ کمرا تاریک لگتا تھا۔ بالکل اس کی زندگی کی طرح بکھرا بکھرا۔ اس نے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو دیکھا پھر اپنے ناک کے قریب لے آیا۔ اسے آج بھی حنا کی خوشبو ناک میں محسوس ہوئی تھی، یہ وہ خوشبو تھی جو اس کی محبت، اس کی محبوبہ اور اس کی بیوی نے شادی کے کچھ دنوں بعد اسے لگائی تھی۔ مہندی اتر چکی تھی مگر اس کی خوشبو آج بھی اسے محسوس ہوتی تھی۔

     وہ اپنی بیوی کو یاد کرکے پل پل روتا تھا۔ خالی کمرا اسے کوئی اندھیری جیل لگتا تھا۔ اب تو رونا اس کا مقدر بن چکا تھا۔ ماں باپ نے بار بار اس کا نیا گھر بسانے کی خواہش کا اظہار کیا مگر ہر بار وہ انکار کرتا رہا، وہ اپنی جان سے پیاری بیوی کے ساتھ بے وفائی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ آہستہ سے اٹھا، فریش ہونے کے بعد باہر صحن میں آ گیا جہاں اماں ناشتہ بنا رہی تھیں۔ اس کے بے رنگ اور مرجھائے ہوئے چہرے کو دیکھ کر ماں کا کلیجہ بھی منھ کو آ گیا تھا۔ اب بے چاری کیا کرتی۔ قدرت کے آگے کون کھڑا ہو سکتا ہے؟ سب اس کے آگے بے بس اور مجبور ہوتے ہیں۔ حنا کو اپنے بیٹے کے ساتھ بیاہ کر تو خوشی سے آئی تھی مگر حنا ان کی زندگی میں رہی نہیں تھی، سال سے ہی کم عرصے میں پورے سسرال کو روتا ہوا چھوڑ کر اس دنیا سے چلی گئی۔ آفتاب کے تو دل کی جان تھی آخر اس کی محبت تھی۔ اس کا پیار تھا۔ وہ اس پر اپنی جان چھڑکتا تھا۔ حنا جیسے ہی اس کی زندگی میں آئی، اس کی زندگی خوشیوں کے پھولوں سے مہک گئی۔ وہ ایک لمحے کے لیے  بھی اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتا تھا۔ اس کی خوشی والدین کی خوشی تھی سو وہ بھی بیٹے کو خوش دیکھ کر خوش ہوتے رہتے تھے۔

     بعض دفعہ خوشیاں عارضی ثابت ہوتی ہیں۔ بندہ سوچتا ہے کہ اب بس خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ مگر وہ ایک سراب ہوتی ہیں۔ آفتاب بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ حنا کے آنے سے خوشیاں آ گئی ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ حنا اچانک ہی اسے چھوڑ کر چلی جائے گی اور یہ خوشیاں بھی چلی جائیں گی اور اب وہ انہونی ہو چکی تھی۔

     وہ اس لمحے کو ہر وقت یاد کرتا رہتا تھا جب شادی کے کچھ دنوں بعد عید آئی تھی۔ وہ اپنے بیگم کے لیے نئے سوٹ، چوڑیاں اور اعلیٰ قسم کی جیولری لایا تھا۔ اور ساتھ مہندی بھی تاکہ عید والے دن اس کی بیوی کوئی حور لگے۔ چاند رات کو جیسے ہی حنا مہندی لگانے بیٹھی تو اس نے مذاق مذاق میں آفتاب کی ہتھیلیوں پر بھی مہندی لگا دی۔ عید والے دن حنا کے ساتھ ساتھ اس کی مہندی کا بھی رنگ نکھرا ہوا تھا۔ عید ہنستے مسکراتے گزر گئی۔ ابھی دونوں کے ہاتھوں کی مہندی کا رنگ اترا ہی نہیں تھا کہ حنا داغ مفارقت دے گئی۔ یہ ایسا صدمہ تھا جو سب کو رلانے کے لیے کافی تھا۔ آفتاب بار بار اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو دیکھتا، حنا کی یہی آخری نشانی اس کے پاس بچی تھی۔ اب مہندی کا رنگ بھی تو مستقل نہیں ہوتا، حنا کی طرح وہ بھی آہستہ آہستہ مٹ چکا تھا مگر وہ مہندی کی خوشبو ہتھیلی سے نہ اتری تھی۔ آفتاب روزانہ صبح اٹھ کر ہاتھوں کی ہتھیلیاں اپنی ناک کے قریب کرتا اور حنا کی خوشبو سونگھتا۔ اس کی زندگی اداس ہو چکی تھی۔

     ”بیٹا کیوں روتا رہتا ہے؟ اللہ کے فیصلوں کو کوئی نہیں ٹال سکتا، اب بس کر دے۔“ اماں نے اسے ناشتہ دیتے ہوئے کہا۔ یہ کہتے ہوئے وہ خود بھی رو رہی تھیں۔

     ”نہیں ماں یہ رونا میرا مقدر بن چکا ہے اب تو اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اور بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے سارا جہاں اس کے غم میں رو رہا ہو۔