Here, I publish articles, poetries, travelogues, novels, fiction, short stories, humorous stories, moral stories, and love stories in Urdu & English. کہانی |
تحریر: حافظ نعیم احمد سیال
ریحان مغرب کی نماز پڑھ کر گھر میں داخل ہوا، وہ بہت خوش تھا کیوں کہ نماز کے فوراً بعد ہی اعلان کیا جا چکا تھا کہ برکتوں والا مہینہ ماہ رمضان شروع ہو چکا ہے۔ اس کی خوشی دیدنی تھی، وہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔
”امی، بہنا، دادو، کہاں ہو؟ سنو سنو، کل پہلا روزہ ہو گا۔“ وہ خوشی سے جھوم رہا تھا۔ ابو بھی نماز پڑھ کر اس کے پیچھے آ چکے تھے۔
”کیا ہو گیا ریحان؟ ذرا سکون سے، دادو ابھی نماز پڑھ رہی ہوں گی۔“ ابو نے پیچھے سے اسے آواز دی۔ مگر وہ تو پر جوش تھا۔ امی، بہنا، دادو، سارے اس کی آواز سن کر باہر صحن میں آ چکے تھے۔
”مبارک ہو۔“ سارے ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔
عبادتوں کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ اور سارے مل کر ٹائم ٹیبل بنا رہے تھے۔ اور نیکیاں زیادہ سے زیادہ کمانے پر غور کر رہے تھے۔ جب بھی ماہ رمضان شروع ہوتا تو ریحان کے والد ظفر صاحب اسی وقت ہی ماہ رمضان گزارنے کی پلاننگ کر لیتے اور مقصد یہ ہوتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائی جا سکیں اور اللہ کی خوب جی بھر کی عبادت کی جائے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو جائے۔ ان کے والد، ریحان کے دادا، اشرف صاحب کا بھی یہی معمول تھا یہی وجہ تھی کہ اس عادت کو ظفر صاحب بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ اس طریقے سے ان کو ماہ رمضان گزارنے میں بہت آسانی ہوتی تھی۔
دادو نے تو فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے کمرے میں ہی پورا ماہ رمضان گزاریں گی، جہاں وہ ہوں گی اور صرف ان کی عبادتیں۔ امی جان نے بھی گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ ماہ رمضان کی پلاننگ کر لی تھی۔
”رہ گئے اب ریحان اور اس کی بہن علینہ، ان سے ٹائم ٹیبل بن ہی نہیں رہا تھا۔ ان کو تو فکر تھی تو صرف سکول اور ٹیوشن جانے کی، تھوڑی دیر بعد وہ رونے لگے۔
”کیا ہو گیا ہے بچو؟ کیوں رو رہے ہو۔“ ابو جان نے پوچھا۔ دادو بھی ان کے رونے کی آواز سن چکی تھیں۔ امی جان بھی گھر کے کام چھوڑ کر باہر صحن میں آ گئیں، وہ صبح سحری کے حوالے سے تیاری کر رہی تھیں تاکہ صبح سحری میں کسی چیز کی کمی نہ رہ جائے۔
ابو جان صحن میں بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ اب دونوں بچے رو رہے تھے تو ابو جان نے کتاب پڑھنی بند کر دی۔
”ابو جان! ہم تو سکول جاتے ہیں، سکول سے آنے کے بعد پھر ٹیوشن چلے جاتے ہیں ہم تو ماہ رمضان میں عبادت نہیں کر سکیں گے۔ ہم اللہ کو کیسے منائیں گے؟ اس لیے ہم سے تو ٹائم ٹیبل نہیں بن رہا۔“ دونوں بچے اب بھی رو رہے تھے۔ امی ان کی باتیں سن کر ہنس پڑیں۔ ابو بھی مسکرانے لگے۔ دادو کی بھی یہی کیفیت تھی۔
”لو یہ اس وجہ سے پریشان ہیں اور خواہ مخواہ رو رہے ہیں۔“ دادو دونوں بچوں کو پیار کرتے ہوئے بولیں۔
”آؤ بیٹھو میں تمھیں بتاتا ہوں کہ آپ دونوں ماہ رمضان کیسے گزارو گے؟“ ابو جان نے کہا تو دونوں مسکراتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔
”جی بیٹا! ماہ رمضان کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس مہینے کوئی گناہ کا کام نہ کیا جائے، باقی ہر انسان کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ روٹین کے مطابق ہی ماہ رمضان میں دیانت داری کے ساتھ سر انجام دے تو وہ ذمہ داریاں نبھانا نیکی بن جاتا ہے، اس لیے اس کا وہ وقت بھی عبادت میں ہی شمار کیا جائے گا۔ اب جیسے تمھاری امی معمول کے مطابق پورا ماہ رمضان گھر کا کام بھی کریں گی۔ روزے بھی رکھیں گی اور تم دونوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ جو وقت ملے گا وہ عبادت میں گزاریں گی۔ اور میں معمول کے مطابق آفس جایا کروں گا وہاں جو کام ہو گا وہ کروں گا۔ اسی طرح آپ جیسے سکول اور ٹیوشن جاتے ہو، ویسے ہی سکول اور ٹیوشن جاؤ گے اور اپنی معمول کے مطابق پڑھائی کرو گے، آپ کا یہ سارا وقت عبادت کا ہی کہلائے گا۔ فضول گپ شپ، کسی کو برا بھلا کہنا یا لڑنا جھگڑنا، چغلی، غیبت، جھوٹ ان باتوں سے اجتناب کرنا ماہ رمضان میں بہت ضروری ہوتا ہے اور جتنا وقت ملے وہ عبادات میں گزارنا چاہیے۔ پانچوں وقت کی نمازوں کی بھی پابندی کی جائے اور برے کاموں کی بجائے نیکیوں اور بھلائی کے کام کیے جائیں۔ بس یہی ماہ رمضان کے مقاصد ہیں۔ ابو جان نے پیار سے سمجھایا تو دونوں مسکراتے ہوئے چلے گئے۔ امی بھی گھر کے کاموں میں لگ چکی تھیں۔ اور دادو اپنے کمرے آ کر معمول کے وظائف پڑھنے لگیں۔ ماہ رمضان کیسے گزارا جائے؟ اور اس کے کیا مقاصد ہیں؟ وہ بچوں کو سمجھ آ چکا تھا۔
0 Comments