Here, I publish articles, poetries, travelogues, novels, fiction, short stories, humorous stories, moral stories, and love stories in Urdu & English. افسانہ |
تحریر: حافظ نعیم احمد سیال
سردی کی ٹھٹھرتی ہوئی شامیں انسان کو کتنا مدہوش کر دیتی ہیں۔ جب کسی کی محبت انسان کے دل میں سرایت کر جائے تو وہ انسان پاگل ہو جاتا ہے۔
میں اسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ ابھی ابھی آفس سے آئی تھی اور کافی تھک چکی تھی۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد وہ اٹھ کھڑی ہوئی اس کا رخ کچن کی طرف تھا۔
”کافی پیو گے؟“ وہ میرے سامنے سے گزرتے ہوئے مجھ سے پوچھ کر گئی تھی۔
”میں اپنے لیے بنا رہی ہوں اگر تم پیو تو بتا دو۔“ اس نے ایک بار پھر مجھ سے پوچھا تھا۔
میں نے نظریں اٹھائیں اس کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
”اوکے۔“ اس نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔ میں اسے کافی بناتے ہوئے دیکھتا رہا۔
”کن سوچوں میں گم ہو گئے ہو؟“ اس نے کافی کا مگ میرے آگے لہراتے ہوئے کہا۔
”کچھ نہیں۔“ میں خیالات سے باہر نکلا اور گرما گرم کافی پینے لگا۔ سردی اپنی عروج پر تھی۔ باہر برف باری گر رہی تھی۔
”میں پرسوں اپنی امی کے گھر جا رہی ہوں، آفس سے سردیوں کی چھٹیاں مل رہی ہیں نا اس لیے۔“ اچانک ہی اس نے مجھے کہا تھا۔ میں کافی پیتے پیتے رک گیا۔
”ہاں چلی جانا۔“ میں نے ہلکی سی آواز میں کہا۔ میری آنکھوں میں آئی ہوئی نمی کو اس نے دیکھ لیا تھا۔
”کیوں؟ تم خوش نہیں ہو؟“ اس نے پوچھا۔
”نہیں میں خوش ہوں۔“ میں کافی کا مگ میز پر رکھتے ہوئے بولا۔ وہ ایک لمحے میں میری بے بسی جان گئی تھی۔
”ٗتم پریشان نہ ہو، کافی دنوں سے امی کے گھر نہیں گئی، امی کی طبیعت بھی خراب ہے، کافی دفعہ فون کر کے ملنے کے لیے کہہ چکی ہیں، اب نہیں جاؤں گی تو وہ ناراض ہو جائیں گی، میں نے جولیا کو کہہ دیا ہے وہ وقت پر تمھارا خیال رکھے گی، کھانا بھی وقت پر دے گی اور ہاں تمھاری دوائیں، وہ میں نے دو ہفتے کی ہی لا کر رکھ دی ہیں، میرے آنے تک وہ تمھارے لیے کافی ہوں گی، وعدہ کرو، وقت پر دوائی لو گے۔“ اس نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
”ہاں وعدہ کرتا ہوں۔“ میں اپنے آنسو چھپاتے ہوئے بولا۔ میں سردیوں کی یہ راتیں اس کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا مگر وہ اپنے میکے جا رہی تھی۔
پچھلے سال میں ایک عجیب سی بیماری میں مبتلا ہو چکا تھا۔ بہت علاج کروایا مگر فائدہ نہ ہوا، آہستہ آہستہ وہ بیماری بڑھتی گئی اور میں بستر پر لگ کر رہ گیا۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اگر میں اپنا خیال رکھوں اور احتیاط کروں تو تندرست ہو سکتا ہوں، اس لیے میں اب مکمل ریسٹ کر رہا تھا، یہ تو آفس والوں نے بھلا کیا کہ میری جگہ میری بیگم مہوش کو رکھ لیا تھا جس کی وجہ سے گھر کا گزارا ہو رہا تھا۔ وہ ایک پڑھی لکھی اور سمجھ دار عورت تھی۔ اس لیے آفس والوں کو کوئی دقت نہ ہوئی اب میری جگہ مہوش کام کر رہی تھی۔
میں سارا دن گھر میں اکیلا بستر پر پڑا رہتا۔ جولیا گھر کے کام کاج کر کے چلی جاتی تھی۔ اسے میری بیگم نے گھر کے کاموں کے لیے رکھا ہوا تھا۔ وہ ایک بوڑھی سی خاتون تھی اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھی۔ مگر ایمان دار بہت تھی، اس کا کوئی نہیں تھا تو اسے بھی کام کی سخت ضرورت تھی تو میری بیگم نے اسے کام پر رکھ لیا تھا۔
میں گھر میں کافی دن فارغ رہ کر بور ہو چکا تھا۔ بستر سے تو اٹھ نہیں سکتا تھا۔ اپنی بے بسی کو دیکھ کر روتا رہتا تھا۔ اپنا وقت گزارنے کے لیے میں نے کاغذ اور قلم کا سہارا لے لیا۔ جو دل میں آتا لکھتا رہتا۔ اس طرح نئی کوئی نہ کوئی کہانی بن جاتی۔ شام کو آفس سے آ کر مہوش میری وہ تحریریں پڑھتی تو بہت خوش ہوتی۔ اور اکثر کہا کرتی، ”تمھیں وقت گزارنے کے لیے اچھا مشغلہ مل گیا ہے۔“ میں بھی خوشی سے مسکرا اٹھتا۔ ابھی میں پوری طرح تندرست بھی نہیں ہوا تھا اور مہوش کچھ دنوں کے لیے مجھے چھوڑ کر جا رہی تھی۔ مجھے اس سے محبت بھی بہت تھی۔ ابھی تو میں اس کے ساتھ ٹھیک طرح وقت ہی نہیں گزار پایا تھا کہ بیمار ہو گیا۔ اور بیماری میں انسان کہاں زندگی کی وہ خوشیاں حاصل کر سکتا ہے؟
وہ چلی گئی تھی، چھٹیاں گزارنے اپنے میکے اور میں گھر اکیلا پڑا ہوا اسے یاد کرتا رہا۔ جولیا معمول کے مطابق گھر کے کام کر کے چلی جاتی۔ میں نے اپنے لکھنے کے مشغلے کو تیز کر دیا تھا۔ جولیا کافی بنا کر دے جاتی اور میری لکھی ہوئیں کہانیاں میرے ارد گرد منڈلاتی رہتیں۔ اب تو بس میرے ارد گرد کہانیاں ہی کہانیاں ہیں۔
0 Comments