Here, I publish articles, poetries, travelogues, novels, fiction, short stories, humorous stories, moral stories, and love stories in Urdu & English. کہانی |
تحریر: حافظ نعیم احمد سیال
کھانے کی میز پر امی دلاور کا انتظار کر رہی تھیں۔ آج اسے سکول سے آتے ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی۔ اتنی دیر اس نے پہلے کبھی نہیں لگائی تھی۔ امی کافی پریشان ہو چکی تھیں۔ وہ اللہ سے اپنے بیٹے کی خیریت کی دعا کر رہی تھیں۔ اتنے میں دروازہ کھلا اور دلاور بھاگتا ہوا امی کے پاس آیا اور آتے ہی امی کے گلے لگ گیا۔ وہ زور زور سے رو رہا تھا۔
”بیٹا خیر تو ہے؟“ امی نے اسے یوں روتے ہوئے دیکھا تو پریشانی سے پوچھا۔
”امی وہ۔۔۔۔ وہ میرے دوست عرفان کے ابو اس دنیا میں نہیں رہے۔ امی میرا دوست یتیم ہو چکا ہے۔“ وہ روتے ہوئے زور زور سے بول رہا تھا۔
”کیا کہہ رہے ہو بیٹا؟ ابھی کل ہی تو تمھارا دوست عرفان اپنے ابو کے ساتھ تم سے ملنے آیا تھا، اس وقت تو اس کے ابو ٹھیک تھے اچانک کیا ہو گیا ان کو؟“ امی نے دلاور سے اس کے دوست عرفان کے والد کی وفات کی خبر سنی تو حیرانی سے پوچھا۔
”پتہ نہیں امی! عرفان سکول میں تھا جب اس کے ابو کی وفات کی خبر آئی، ابھی ہم بریک آف ہوتے ہی کلاس میں بیٹھے ہی تھے کہ سر انجم جو ہمارے کلاس انچارج بھی ہیں انھوں نے آ کر بتایا کہ ابھی ابھی عرفان کے گھر سے کال آئی ہے کہ اس کے والد فوت ہو چکے ہیں اور اس کا بڑا بھائی اسے لینے آ رہا ہے۔ یہ سننا ہی تھا کہ عرفان پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا اس کے دیکھا دیکھی پوری کلاس رو پڑی، سر بھی رو رہے تھے اور اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ بھی پھیر رہے تھے۔ چپراسی نے آ کر بتایا کہ اس کا بڑا بھائی اسے لینے آ گیا ہے تو وہ روتے ہوئے چلا گیا، اس کے جانے کے بعد سر نے اس کے والد کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کروائی اور پھر پڑھائی شروع ہوگئی مگر مجھے چین نہیں آ رہا تھا، آپ کو پتہ تو ہے کہ وہ میرا کتنا اچھا دوست ہے، امی مجھ سے اس کا غم برداشت نہیں ہو گا، سکول سے چھٹی کے بعد ہم جو اس کے قریبی دوست تھے اس کے گھر تعزیت کے لیے گئے، امی میرا دوست بہت رو رہا تھا۔ اب وہ سارے لوگ اس کے والد کو دفنانے لے گئے ہیں۔“ دلاور روتے ہوئے بول رہا تھا۔
”صبر کرو بیٹا! اللہ اس کے والد کی مغفرت کرے بہت افسوس ہوا ہے سن کر، شام کو تمھارے ابو آ جائیں تو میں بھی ان کے ساتھ تعزیت کے لیے جاؤں گی، چلو اب تم رونا بند کرو اور کھانا کھا لو۔“ امی نے کھانے کی ٹرے اس کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں امی! مجھے بھوک نہیں ہے۔ مجھ سے کھانا کھایا بھی نہیں جائے گا۔“ وہ آنسو پونجھتے ہوئے بولا اور بیگ اٹھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ امی کو پتہ تھا کہ وہ کھانا نہیں کھائے گا۔ اس لیے انھوں نے کھانا فریج میں رکھ دیا ان کو بھی اپنے بیٹے کے دوست کے والد کی وفات کا بہت صدمہ تھا۔
دلاور اپنے کمرے میں آیا اور آتے ہی لیٹ گیا ، نیند تو اس کو آنی ہی نہیں تھی۔ وہ اپنے دوست کو یاد کر کے روتا رہا۔ اس کا دل کسی چیز میں بھی نہیں لگ رہا تھا۔ کل جب اس کا دوست عرفان اس کے گھر اس کے ساتھ کھیلنے آیا تو وہ اپنے ابو کے ساتھ تھا، دلاور کی ملاقات بھی اس کے ابو سے ہوئی تھی، شکل سے لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ فوت ہونے والے ہیں، عرفان کے ابو اس کو چھوڑ کر چلے گئے تھے پھر شام کو وہ اپنے بیٹے کو لینے آئے تو تھوڑی دیر سب کے ساتھ ڈرائینگ روم میں بھی بیٹھے تھے۔ کچھ دیر باتوں اور مسکراہٹوں میں وقت گزرتا رہا کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ قضا جمیل صاحب کے سر پر کھڑی ہے اور آج کا دن ان کی زندگی کا آخری دن ہے۔
دلاور یہ سب سوچتے ہوئے روتا جا رہا تھا۔ اس کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ شام کو اس کے ابو گھر آئے تو امی جان نے ان کو بھی جمیل صاحب کی وفات کی خبر سنائی تو وہ بھی افسوس کیے بنا رہ نہ سکے۔ اور اسی وقت تعزیت کے لیے عرفان کے گھر چلے گئے۔ انھوں نے عرفان کے سر پر ہاتھ رکھا، اسے پیار کیا اس کے بڑے بھائی سے تعزیت کی اور گھر واپس آ گئے۔
دلاور رات کو سونے کے لیے لیٹا تو اس کو نیند بالکل نہیں آ رہی تھی۔ اس کو بار بار اپنا دوست عرفان یاد آ رہا تھا جو چھوٹی سی عمر میں یتیم ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اپنے دوست کے آنسو گھومنے لگے۔ اس کا افسردہ چہرہ اسے بے قرار کر رہا تھا۔ دلاور سوچ رہا تھا کہ یہ دنیا بس خوابوں کی دنیا ہے۔ حقیقت تو وہ ہے جہاں ہم سب نے ایک نہ ایک دن مر کر جانا ہے۔ جب بندہ مر جاتا ہے تو سارے خواب ٹوٹ جاتے ہیں، بکھر جاتے ہیں اور ان خوابوں کی تعبیر بھی نہیں ملتی۔
0 Comments