(کاش ایسا نہ ہوتا)
تحریر حافظ نعیم احمد سیال۔ملتان
یہ 2007 ء کی بات ہے جب میں جماعت نہم کا امتحان دے کر فارغ ہوا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیاں بھی تھیں۔17 جون2007 ء کو ہم کوئٹہ کی سیر کے لئے گئے میرے ساتھ میرے استاد محترم سر رمضان صابر صاحب اور میرے دوست عظیم عباس بھی تھے کوئٹہ کا یہ سفر نامہ میرے لئے یاد گار ثابت ہوا تھا ہم نے آٹھ دن کوئٹہ میں گزارے کوئٹہ شہر دیکھنے کے ساتھ ساتھ ہم نے وادی اوڑک اور قائداعظم کی ریذیڈنسی کی بھی سیر کی، بعد میں یہ سفر نامہ ایک مشہور میگزین میں بھی شائع ہوا تھا۔
کچھ دن پہلے جب ٹی وی پر قائداعظم کی ریذیڈنسی کی تباہی دیکھی تو دل خون کے آنسو روپڑا سیر کے وہ سارے مناظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئے چھے سال پہلے کیا گیا یہ سفر آج بھی میرے دل میں ویسے کاویسا تروتازہ ہے ہر سال انہی دنوں میں میں اس سفر کو بہت یاد کرتا ہوں۔ قائداعظم کی ریذیڈنسی کے بارے میں جو سفر نامے میں میں نے لکھا وہ میں یہاں شامل کر رہاہوں۔
”اگلے دن ہمارا ارادہ قائداعظم کی ریذیڈنسی جانے کا تھا۔ اس جگہ کو اس لئے بھی اہمیت حاصل ہے کہ قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری دن یہاں پر گزارے تھے یہیں ان کی وفات ہوئی تھی قائداعظم کی جب طبیعت خراب ہوئی تو ڈاکٹروں نے ان کو یہاں پر رہنے کے لئے مشورہ دیا تھا کیوں کہ یہ علاقہ بہت ٹھنڈا اور ہوا دار ہے گرمی بہت کم پڑتی ہے اس لئے قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری دن یہاں پر گزارے اس خوشگوار موسم کی وجہ سے تو ہم یہاں آئے تھے۔ بہر حال ہم نے رات جیسے تیسے بسر کی اور صبح ہوتے ہی قائداعظم کی ریذیڈنسی کی طرف چل پڑے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو گیٹ ابھی بند تھا۔ کچھ اور لوگ بھی آئے ہوئے تھے جو باہر کھڑے تھے ہم نے باہر کچھ دیر انتظار کیا آخرکار وہاں کے چوکیدار نے گیٹ کھولا اور ہم قائدا عظم کی ریذیڈنسی کے اندر داخل ہوئے۔ ہوا کے خنک جھونکے ہمارے جسم سے ٹکڑا رہے تھے موسم بہت خوشگوار تھا سرد علاقہ ہونے کی وجہ سے مجھے ہلکی ہلکی ٹھنڈ لگ رہی تھی رات بھی ہم نے رضائیوں میں گزاری تھی۔ ہم نے وہ کمرے دیکھے جہاں پر قائداعظم مہمانوں سے ملتے تھے یہاں پر ہر کمرہ علیحدہ علیحدہ بنا ہوا ہے، مہمانوں کو ملنے کے لئے الگ کمرہ اور ان کی خاطر تواضع کے لئے بھی الگ کمرہ تھا۔ اوپر والے کمرے میں قائداعظم آرام فرماتے تھے ساتھ ہی کچھ اور کمرے بنے ہوئے تھے جہاں قائداعظم اپنے ذاتی اور سرکاری معاملات سلجھاتے تھے۔ ایک الگ مخصوص کمرہ فاطمہ جناح کے لئے بھی تھا۔
قائداعظم کی زندگی کے آخری دنوں میں ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے ان کی بہت تیماداری کی۔ کمرے بہت خوبصورت بنے ہوئے تھے ہر چیز سے نفاست ٹپک رہی تھی۔ قائداعظم کی ریذیڈنسی دیکھنے کے بعد دل کو مزید بہلانے کے لئے ہم نے وہاں پر گالف بال بھی کھیلی۔ درختوں سے پھل توڑ کر کھائے۔ اس کے بعد ہم کوئٹہ واس آگئے“۔
آج قائداعظم کی یہ ریذیڈنسی ساری کی ساری جل کر راکھ ہوگئی۔ دشمنوں نے کچھ بھی نہ چھوڑا۔ پاکستان کا اہم تاریخی مقام منٹوں سیکنڈوں میں تباہ ہو گیا۔ ابھی کچھ دن پہلے ڈاکٹر نگار سجاد صاحبہ کا سفر نامہ دشت امکاں (سفرنامہ نجد و حجاز) پڑھنے کا اتفاق ہوا اس میں انہوں نے ایک جگہ ذکر کیا ہے۔
”اور تو اور صفا اور مروہ کی پہاڑی کے بیشتر حصے پر بھی سنگ مرمر کا فرش بنا دیا گیا ہے۔ صرف چوٹی پر تبرکاً اصل پہا ڑی چھو ڑ دی گئی ہے۔ جو مکہ کہ دیگر پہاڑیوں کی طرح سیاہ، چٹیل، اور بے آب و گیاہ ہے۔
کاش سعودی حکومت نے ان دونوں پہاڑیوں کو، جو شعائراللہ ہیں یونہی چھوڑ دیاہوتا یہاں بھی انہیں کسی بدعت کا خطرہ تھا؟ یہ تو ہماری تاریخ کے آثار ہیں، جو ایمان کی مضبوطی اور تقویت کا باعث بنتے ہیں، ان آثارکو ان کی حالت اصلی پر نہ چھوڑ کر سعودی حکومت نے خداجانے دین کی کون سی خدمت انجام دی ہے“(بار دوئم صفحہ113)
اس طرح انہوں نے اور بھی بہت سے مقامات کا ذکر کیا ہے جن میں سعودی حکومت نے ردوبدل کر دی ہے۔ تاکہ کسی قسم کی بدعت پیدا نہ ہوسکے لوگ ان مقدس مقامات کو دیکھ کر پوجنانہ شروع کر دیں۔ جیسے حضور اکرم ﷺ نے بھی ایک حدیث میں فرمایا تھا کہ میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بنانا۔ سعودی حکومت نے وہاں بھی جنگلہ لگا دیاہے تاکہ کوئی اندر نہ جاسکے۔زیارت کرنے والے باہر سے ہی درودوسلام کانذرانہ پیش کرتے ہیں۔
یہ مقامات واقعی بہت مقدس ہیں اور ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاریخی مقامات ویسے کے ویسے رہیں تو دیکھنے کا اپنا مزہ ہے اور ویسے بھی یہ مقامات توسیر کرنے کے لئے نہیں ہماری عبادت گاہیں ہیں۔ میں ان مقامات کو قائداعظم کی ریذیڈنسی کے ساتھ نہیں ملا رہا صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کی ڈاکٹر صاحبہ نے کتنی خوبصورتی سے تاریخی مقامات کوویسے کاویسے رہنے کی خواہش کی ہے۔ ہر ملک کے تاریخی مقامات اس کی شان میں اضافہ کرتے ہیں مگر ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے اس تاریخی مقام کو بالکل بھی نہیں چھوڑا گیااور بالکل ہی تباہ و برباد کر دیا گیا۔ ملک میں دہشت گردی سے انسان تو محفوظ نہیں رہے اب ہمارے تاریخی مقامات بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑ ھ رہے ہیں موجودہ حکومت کا اولین فرض ہے کہ ریذیڈنسی کو سابقہ حالت میں بحال کرے اللہ کرے ہمارے ملک میں امن و امان پیدا ہو جائے اور ہمارے تاریخی مقامات دہشت گردوں سے محفوظ رہیں (آمین)
0 Comments