(محبت کا سائنس دان) افسانہ
تحریر:کشف ادیب۔ملتان
لیکچر روم سے فارغ ہوتے ہی میں لان میںآگیا تھاجہاں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ادھر ادھر دیکھا کوئی بھی شناسا چہرہ نظر نہ آیا میں نیچے گھاس پر ہی بیٹھ گیا، گیٹ کی دوسری سائیڈپرنسوانی آوازیں گونج رہی تھیں شاید دوسری طرف گرلز کالج تھا، کچھ لڑکیاں بوائز کیمپس میں بھی گھوم رہی تھیں ہو سکتا ہے ان کے جانے کا راستہ بوائز کیمپس سے ہو کر جاتا ہو یا پھر کینٹین ایک تھی، کیوں کہ وہ لڑکیاں کینٹین سے کچھ لے کر ادھر ادھر بھاگ رہی تھیں، چپس پکوڑوں کی پلیٹ وہ ایک دوسرے کی طرف بڑھا رہی تھیں۔
’’السلام علیکم! ‘‘ اچانک مجھے سلام کی آواز آئی۔
’’وعلیکم السلام! ‘‘ میں نے سلام کا جواب دیا۔
’’میرا نام دانیال ہے آج ہمارا کالج میں پہلا دن ہے جیسے تم یہاں اجنبی ہو ویسے میں بھی اجنبی ہوں بس آہستہ آہستہ ایک دوسرے کو جان ہی جان جائیں گے، کیا تم مجھ سے دوستی کرو گے؟‘‘ اس نے میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
’’ہاں ہاں ۔۔۔کیوں نہیں ‘‘ میں نے جواب دیا اور اس کی دوستی قبول کر لی تھوڑی دیر میں ہی ہم ایک دوسرے سے گھل مل گئے۔
’’اگلا لیکچر شروع ہو گیا ہے‘‘ کسی نے ہانک لگائی اور ہم پھر لیکچر روم میں داخل ہوگئے دانیال جہاں بیٹھا تھا وہاں سے گرلز کالج کا گراؤنڈ صاف نظر آتا تھا، لیکچر کے دوران میں نے نوٹ کیا اس کی نظریں وہی جمی ہوئی تھیں۔
’’دانیال کیا کر رہے ہو؟ ‘‘ میں نے شرارت سے اسے ٹھونگا مارا۔
’’کچھ نہیں ۔۔۔‘‘ اس کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔
’’مجھے محبت ہو گئی ہے۔‘‘ وہ اچانک بولا۔
’’کس سے ۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ جو گراؤنڈ میں بیٹھی ہے کیا کمال کاحسن ہے جیسے حور پری ہو۔‘‘ وہ اس کی تعریف میں زمیں و آسمان کے قلابے ملانے لگا۔
’’پہلے ہی دن اتنا بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا تم نے پہلے کبھی اسے دیکھا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں محبت تو کسی لمحے بھی ہو سکتی ہے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں میں نے صبح کالج میں داخل ہوتے وقت ہی اسے دیکھا تھا اور اب دوسری دفعہ یہاں گراؤنڈ میں ہی دیکھ رہا ہوں کاش کہ یہ میرا نصیب بن جائے۔‘‘ وہ بولا۔
’’تم نے اس کا بیک گراؤنڈ بھی دیکھاہے نامعلوم کیسی لڑکی ہونہ جان نہ پہچان ایسے خواہ مخواہ اجنبی لڑکی سے محبت کر لی۔‘‘ میں نے اسے کہا۔
’’محبت یہ چیزیں نہیں دیکھتی محبت بے غرض ہوتی ہے محبت کی نہیں جاتی محبت ہو جاتی ہے، تم نے کبھی محبت کی ہے۔‘‘ اچانک ہی اس نے مجھ سے پوچھ ڈالا، میں یک دم گھبرا گیا۔
’’نہیں مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی اور نہ ہی میں ان چکروں میں پڑھنا چاہتاہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’جب ہوگی نا پتہ چل جائے گا ۔‘‘ اس نے کہا اور بیگ اٹھا کر باہر نکل آیاسر لیکچر دے کر جاچکے تھے۔
******
اچانک ہی ایک زور دار جھٹکا لگا تھا اور اس کے ہاتھوں سے کتابیں چھوٹ کر نیچے گر پڑی تھیں۔
’’اندھے ہو دیکھ کر نہیں چلتے۔‘‘ وہ پھٹ پڑی جب کہ دانیال اس کی کتابیں اٹھانے میں مصروف تھا، مجھے پتہ چل گیا تھا کہ دانیال نے ایسا کیوں کیا ہے۔
’’فرزانہ نام ہے اس کا یہ بھی فرسٹ ائیر میں پڑھتی ہے اس کا بھی آج کالج میں پہلا دن ہے۔‘‘ اس کے جانے کے بعد دانیال مجھ سے کہہ رہا تھا۔
’’ہاں میں نے دیکھ لیا تھا جب تم اس کی کتابیں اٹھا رہے تھے تم نے کتاب کھول کر اس کا نام دیکھا تھاہر سٹوڈنٹ یقیناًاپنی کتاب کے پہلے صفحے پر ہی اپنا نام لکھتا ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تمہیں پتہ ہے محبت کسے کہتے ہیں؟ ‘‘ میں نے اچانک اس سے پوچھا۔
’’ہاں محبت وہ ہے جو انسانوں کو جینے کا طریقہ سکھاتی ہے، محبت سے انسان اپنے رب کو پہچانتا ہے، محبت وہ چیز ہے جو کسی کو مل جائے تو اس کا ایمان کامل ہو جاتا ہے، محبت انسان کو سیدھے راستے کی طرف چلاتی ہے۔‘‘ اس کے بعد اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے اور وہ واقعی فرزانہ پر دل و جان سے فدا ہو گیا تھاوہ فرزانہ کو جب بھی دیکھتا اس کا دل بے قرار ہو جاتاوہ رو رو کر اللہ سے اسے مانگنے کی دعائیں کرتا۔
’’یار میں فرزانہ کے بغیر ادھورا ہوں فرزانہ میری زندگی ہے، میں اسے بہت چاہتا ہوں میں پیار کرتا ہوں اس سے، میں جس دن اسے دیکھتا ہوں وہ دن میرا بہت اچھا گزرتا ہے۔‘‘ ایک دن وہ روتے ہوئے بول رہاتھا۔
’’صبر کرو میرے دوست صبر کرو رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں اگر وہ تمہارے نصیب میں ہوئی تو تمہیں ضرور ملے گی۔ ‘‘میں نے اسے دلاسہ دیااور وہ چپ ہو گیا۔
’’ ایک بات کہوں؟‘‘ تھوری دیر بعد اس نے مجھے کہا۔
’’ہاں ہاں کہو۔۔۔ ‘‘میں نے جواب دیا۔
لوگ محبت کی غلط تعریف کیوں کرتے ہیں، جس شخص کو اس کا پیار نہ ملے وہ خود کشی کر لیتا ہے فلموں کہانیوں اورافسانوں میں یہی سبق دیاجاتا ہے کیا محبت انسان کو اللہ سے نہیں ملاتی؟ کیا اللہ کو اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ سے محبت نہیں تھی؟ مجھے جب سے محبت ہوئی ہے ایسے لگتاہے میں اللہ قریب ہوگیاہوں میں نمازیں پڑھتا ہوں دعائیں مانگتا ہوں اپنے لئے اپنے محبوب کے لئے، کیا محبت انسانوں کو صرف مرنا سکھاتی ہے؟ محبت سے تو کائنات آباد ہے محبت کا انجام موت نہیں زندگی ہے ،محبت انسان کو اعلیٰ مرتبے پر فائز کرتی ہے ،محبت انسانوں میں امیدیں قائم کرتی ہے، محبت کی بنیاد پر یہ دنیا قائم ہے اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی کے لئے تو ہمیں بنایا ہوتا ہے ناں ہم نے اس کی خاطر جینا ہے اس کا انتظار کرنا ہے اسے اپنی زندگی بنانا ہے۔‘‘ وہ جذبات کی رو میں بہتا چلا گیا جب کہ میں حیرت سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔
’’ہاں یار تم ٹھیک کہتے ہویہی لوگ ہی حقیقت میں محبت کے سائنس دان ہوتے ہیں تمہاری محبت پاکیزہ ہے ،تمہاری محبت سچی ہے، تم نے اپنے محبوب کے سامنے اپنے پیار کا اظہار کرنا ہے مجھے امید ہے تمہاری محبت تمہیں ضرور ملے گی کسی سے محبت کرنا گناہ نہیں ، محبت تو وہ رشتہ ہے جو ایک دفعہ بندھ جائے پھر کبھی نہیں ٹوٹتا محبت مایوسی کا نام نہیں محبت امیدوں کا جہاں ہے تم نے محبت کر کے گناہ نہیں کیا بلکہ محبت کو ایجاد کیا ہے۔‘‘ میں نے اسے کہا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ہم دونوں کینٹین کی طرف بڑھ گئے جہاں فرزانہ بھی گول گپے کھانے میں مصروف تھی۔
تجھے میں نے خود میں محسوس کیا ہے
اس لئے تو میرے دل کابنا مہمان ہے
جس طرف بھی جاؤں رہتی ہے ساتھ میرے
ساگر اب تو تیری یاد بھی میری نگہبان ہے
(فردین ساگر)
Back to Conversion Toolلیکچر روم سے فارغ ہوتے ہی میں لان میںآگیا تھاجہاں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ادھر ادھر دیکھا کوئی بھی شناسا چہرہ نظر نہ آیا میں نیچے گھاس پر ہی بیٹھ گیا، گیٹ کی دوسری سائیڈپرنسوانی آوازیں گونج رہی تھیں شاید دوسری طرف گرلز کالج تھا، کچھ لڑکیاں بوائز کیمپس میں بھی گھوم رہی تھیں ہو سکتا ہے ان کے جانے کا راستہ بوائز کیمپس سے ہو کر جاتا ہو یا پھر کینٹین ایک تھی، کیوں کہ وہ لڑکیاں کینٹین سے کچھ لے کر ادھر ادھر بھاگ رہی تھیں، چپس پکوڑوں کی پلیٹ وہ ایک دوسرے کی طرف بڑھا رہی تھیں۔
’’السلام علیکم! ‘‘ اچانک مجھے سلام کی آواز آئی۔
’’وعلیکم السلام! ‘‘ میں نے سلام کا جواب دیا۔
’’میرا نام دانیال ہے آج ہمارا کالج میں پہلا دن ہے جیسے تم یہاں اجنبی ہو ویسے میں بھی اجنبی ہوں بس آہستہ آہستہ ایک دوسرے کو جان ہی جان جائیں گے، کیا تم مجھ سے دوستی کرو گے؟‘‘ اس نے میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
’’ہاں ہاں ۔۔۔کیوں نہیں ‘‘ میں نے جواب دیا اور اس کی دوستی قبول کر لی تھوڑی دیر میں ہی ہم ایک دوسرے سے گھل مل گئے۔
’’اگلا لیکچر شروع ہو گیا ہے‘‘ کسی نے ہانک لگائی اور ہم پھر لیکچر روم میں داخل ہوگئے دانیال جہاں بیٹھا تھا وہاں سے گرلز کالج کا گراؤنڈ صاف نظر آتا تھا، لیکچر کے دوران میں نے نوٹ کیا اس کی نظریں وہی جمی ہوئی تھیں۔
’’دانیال کیا کر رہے ہو؟ ‘‘ میں نے شرارت سے اسے ٹھونگا مارا۔
’’کچھ نہیں ۔۔۔‘‘ اس کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔
’’مجھے محبت ہو گئی ہے۔‘‘ وہ اچانک بولا۔
’’کس سے ۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ جو گراؤنڈ میں بیٹھی ہے کیا کمال کاحسن ہے جیسے حور پری ہو۔‘‘ وہ اس کی تعریف میں زمیں و آسمان کے قلابے ملانے لگا۔
’’پہلے ہی دن اتنا بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا تم نے پہلے کبھی اسے دیکھا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں محبت تو کسی لمحے بھی ہو سکتی ہے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں میں نے صبح کالج میں داخل ہوتے وقت ہی اسے دیکھا تھا اور اب دوسری دفعہ یہاں گراؤنڈ میں ہی دیکھ رہا ہوں کاش کہ یہ میرا نصیب بن جائے۔‘‘ وہ بولا۔
’’تم نے اس کا بیک گراؤنڈ بھی دیکھاہے نامعلوم کیسی لڑکی ہونہ جان نہ پہچان ایسے خواہ مخواہ اجنبی لڑکی سے محبت کر لی۔‘‘ میں نے اسے کہا۔
’’محبت یہ چیزیں نہیں دیکھتی محبت بے غرض ہوتی ہے محبت کی نہیں جاتی محبت ہو جاتی ہے، تم نے کبھی محبت کی ہے۔‘‘ اچانک ہی اس نے مجھ سے پوچھ ڈالا، میں یک دم گھبرا گیا۔
’’نہیں مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی اور نہ ہی میں ان چکروں میں پڑھنا چاہتاہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’جب ہوگی نا پتہ چل جائے گا ۔‘‘ اس نے کہا اور بیگ اٹھا کر باہر نکل آیاسر لیکچر دے کر جاچکے تھے۔
******
اچانک ہی ایک زور دار جھٹکا لگا تھا اور اس کے ہاتھوں سے کتابیں چھوٹ کر نیچے گر پڑی تھیں۔
’’اندھے ہو دیکھ کر نہیں چلتے۔‘‘ وہ پھٹ پڑی جب کہ دانیال اس کی کتابیں اٹھانے میں مصروف تھا، مجھے پتہ چل گیا تھا کہ دانیال نے ایسا کیوں کیا ہے۔
’’فرزانہ نام ہے اس کا یہ بھی فرسٹ ائیر میں پڑھتی ہے اس کا بھی آج کالج میں پہلا دن ہے۔‘‘ اس کے جانے کے بعد دانیال مجھ سے کہہ رہا تھا۔
’’ہاں میں نے دیکھ لیا تھا جب تم اس کی کتابیں اٹھا رہے تھے تم نے کتاب کھول کر اس کا نام دیکھا تھاہر سٹوڈنٹ یقیناًاپنی کتاب کے پہلے صفحے پر ہی اپنا نام لکھتا ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تمہیں پتہ ہے محبت کسے کہتے ہیں؟ ‘‘ میں نے اچانک اس سے پوچھا۔
’’ہاں محبت وہ ہے جو انسانوں کو جینے کا طریقہ سکھاتی ہے، محبت سے انسان اپنے رب کو پہچانتا ہے، محبت وہ چیز ہے جو کسی کو مل جائے تو اس کا ایمان کامل ہو جاتا ہے، محبت انسان کو سیدھے راستے کی طرف چلاتی ہے۔‘‘ اس کے بعد اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے اور وہ واقعی فرزانہ پر دل و جان سے فدا ہو گیا تھاوہ فرزانہ کو جب بھی دیکھتا اس کا دل بے قرار ہو جاتاوہ رو رو کر اللہ سے اسے مانگنے کی دعائیں کرتا۔
’’یار میں فرزانہ کے بغیر ادھورا ہوں فرزانہ میری زندگی ہے، میں اسے بہت چاہتا ہوں میں پیار کرتا ہوں اس سے، میں جس دن اسے دیکھتا ہوں وہ دن میرا بہت اچھا گزرتا ہے۔‘‘ ایک دن وہ روتے ہوئے بول رہاتھا۔
’’صبر کرو میرے دوست صبر کرو رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں اگر وہ تمہارے نصیب میں ہوئی تو تمہیں ضرور ملے گی۔ ‘‘میں نے اسے دلاسہ دیااور وہ چپ ہو گیا۔
’’ ایک بات کہوں؟‘‘ تھوری دیر بعد اس نے مجھے کہا۔
’’ہاں ہاں کہو۔۔۔ ‘‘میں نے جواب دیا۔
لوگ محبت کی غلط تعریف کیوں کرتے ہیں، جس شخص کو اس کا پیار نہ ملے وہ خود کشی کر لیتا ہے فلموں کہانیوں اورافسانوں میں یہی سبق دیاجاتا ہے کیا محبت انسان کو اللہ سے نہیں ملاتی؟ کیا اللہ کو اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ سے محبت نہیں تھی؟ مجھے جب سے محبت ہوئی ہے ایسے لگتاہے میں اللہ قریب ہوگیاہوں میں نمازیں پڑھتا ہوں دعائیں مانگتا ہوں اپنے لئے اپنے محبوب کے لئے، کیا محبت انسانوں کو صرف مرنا سکھاتی ہے؟ محبت سے تو کائنات آباد ہے محبت کا انجام موت نہیں زندگی ہے ،محبت انسان کو اعلیٰ مرتبے پر فائز کرتی ہے ،محبت انسانوں میں امیدیں قائم کرتی ہے، محبت کی بنیاد پر یہ دنیا قائم ہے اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی کے لئے تو ہمیں بنایا ہوتا ہے ناں ہم نے اس کی خاطر جینا ہے اس کا انتظار کرنا ہے اسے اپنی زندگی بنانا ہے۔‘‘ وہ جذبات کی رو میں بہتا چلا گیا جب کہ میں حیرت سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔
’’ہاں یار تم ٹھیک کہتے ہویہی لوگ ہی حقیقت میں محبت کے سائنس دان ہوتے ہیں تمہاری محبت پاکیزہ ہے ،تمہاری محبت سچی ہے، تم نے اپنے محبوب کے سامنے اپنے پیار کا اظہار کرنا ہے مجھے امید ہے تمہاری محبت تمہیں ضرور ملے گی کسی سے محبت کرنا گناہ نہیں ، محبت تو وہ رشتہ ہے جو ایک دفعہ بندھ جائے پھر کبھی نہیں ٹوٹتا محبت مایوسی کا نام نہیں محبت امیدوں کا جہاں ہے تم نے محبت کر کے گناہ نہیں کیا بلکہ محبت کو ایجاد کیا ہے۔‘‘ میں نے اسے کہا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ہم دونوں کینٹین کی طرف بڑھ گئے جہاں فرزانہ بھی گول گپے کھانے میں مصروف تھی۔
تجھے میں نے خود میں محسوس کیا ہے
اس لئے تو میرے دل کابنا مہمان ہے
جس طرف بھی جاؤں رہتی ہے ساتھ میرے
ساگر اب تو تیری یاد بھی میری نگہبان ہے
(فردین ساگر)
0 Comments