تحریر حافظ نعیم احمد سیال
        ’’دھت تیرے کی! ساری کی ساری کہانیاں ناقابل اشاعت۔۔۔۔‘‘ رسالے میں ناقابل اشاعت کے کالم میں لگا تار اپنی چار کہانیوں کے نام دیکھ کر ہم رو پڑے اور سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔ چار مہینوں کی محنت چار سیکنڈوں میں ہی ملیامیٹ ہوگئی تھی۔ کہانی بنانا کو ئی اتنا آسان کام تو ہے ہی نہیں۔ خوب پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، دماغ کھپانا پڑتا ہے، وقت خرچ کیاجاتا ہے اور لفافے پر اپنی محنت سے کمائی ہوئی ر قم سے ٹکٹیں خرید کر لگانی پڑتی ہیں اور مدیر صاحب کو ہماری ذرا بھی پروا نہیں، کم از کم ایک کہانی تو لگا ہی دیتے۔“ ہم دھارے مارمار کر رونے لگے۔
        ’’ہوں! آیا نامزا اور بنو ادیب، اللہ کرے تمہاری کہانیوں کا ایسا ہی حشر ہو۔‘‘ رافعہ نے خوشی کا اظہار کیا۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر کہانی ناقابل اشاعت ہونے سے پہلے
لکھاری مدیر سے خود پوچھے بتا میری خطا کیا ہے
        اس نے ہمیں چڑاتے ہوئے کہا۔ ہم نے ساتھ پڑا ہوا تکیہ اٹھایا اور اسے دے مارا مگر اسے لگا ہی نہیں وہ صاف چکمہ دے کر بھاگ گئی تھی۔
        مدیر صاحب اتنا موقع دیتے ہی کب ہیں کہ ہم ان سے یہ پوچھ سکیں کہ ہماری کہانیاں ناقابل اشاعت کیوں ہوئیں ہیں، ایسی کون سی ہماری کہانیوں میں خامیاں تھیں جو رسالے کی زینت بننے سے محروم رہ گئیں۔ ہمیں اپنی مظلومیت پر اور بھی زیادہ رونا آیا اور نئی کہانی لکھنے بیٹھ گئے۔ وہ بھی تیار ہو چکی تھی۔
اچھی بھلی کہانی کا بیرہ غرق کر دو
آخری صفحہ پہلا اور پہلا صفحہ آخری کر دو
رافعہ نے ہماری کہانی اٹھاتے ہوئے ہمیں چھیرا۔
        ’’ہاں پہلے ہی ہماری کہانیاں ناقابل اشاعت ہوتی ہیں تا کہ مزید چھپنے سے رہ جائیں میری کہانیاں تمہاری شاعری سے بہت اچھی ہوتی ہیں، پتا نہیں کہاں سے اوٹ پٹانگ گھس پٹی سی شاعری بناتی رہتی ہو۔‘‘ ہم خوب سیخ پا ہوئے۔
شمع پروانوں سے کہہ رہی ہے
مجھے میگزین لا کے دو میری کہانی آرہی ہے
        ’’واہ واہ! موصوفہ کی شاعری، جسے سن کر آسمان بھی روتا ہوگا اور زمین بھی کانپ اٹھتی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ایسی شاعری کسی کو بنانے کی توفیق ہی نہ دے۔‘‘ ہم نے خوب جلے بھنے انداز میں کہا اور بسم اللہ پڑھ کے نئی کہانی پوسٹ کر آئے۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
کیا پتا کہانی نہ لگے فوٹواسٹیٹ سنبھال کے رکھ
اس نے ہمیں دیکھ کر پھر شعر کسا، ہم پیر پٹختے ہوئے اپنے کمرے میں آگئے۔ ہم ناقابل اشاعت کالم میں اپنی چار کہانیوں کے نام دیکھ کر پہلے ہی پریشان تھے اوپر سے موصوفہ کی گھسی پٹی شاعری نے ہمارے کانوں میں سیسہ پگھلا کر رکھ دیا تھا۔
ہم کمرے میں جائے نماز بچھا کر خوب گرگرا کر دعائیں مانگنے لگے، اتنی دعائیں تو ہم نے امتحانوں میں پاس ہونے کے لئے بھی نہیں مانگیں ہوں گی۔ مگر دل کو سکون تھا کہ بار بار مانگنے سے اللہ خوش ہوتا ہے کیا پتا ہماری یہ کہانی لگ جائے تھوڑی دیر بعد امی جان نے ہمیں کھانے کے لئے بلا لیا۔
کہانی لکھو، کہانی لکھو، کہانی لکھو
میرا کیا ہے پگلے بالکل نہ لکھو
رافعہ کھانے کے دوران بھی چپ نہیں رہی تھی یہ ہمیں پتا ہے کہ ہم نے اس کی بے تکی شاعری کیسے برداشت کی۔
        ’’بہنا اب اگر مزید بولا ناں میں منہ میں روئی ٹھونس دوں گا۔‘‘ میں نے غصہ کرتے ہوئے کہا۔
        ’’لو جی بھائی کانوں کی بجائے منہ سے ہی سنتے ہیں۔ کیا آپ اپنے منہ مین روئی ٹھونسیں گے؟“ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔
        ’’نہیں تمہارے منہ میں روئی ٹھونسوں گا، تمہاری یہ شاعری سن سن کے میرے کان پک گئے ہیں۔‘‘ میں نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا اور کھانا کھا کر کمرے میں آ گیا۔
        ’’کیسی بدتمیز ہے، بھائی کا تھوڑا سا بھی خیال نہیں۔‘‘ ہم نے دل میں سوچا اورپھر سو گئے۔
پوراایک مہینا ہم نے اس کی بے تکی شاعری سن سن کر گزارہ کیا آخر ایک دن ہمیں بذریعہ ڈاک خط موصول ہوا، خط اسی رسالے کی طرف سے تھا، جس میں ہم نے کہانی بھیجی تھی، خط کھول کی دیکھا تو اس میں ہماری کہانی تھی اور کہانی کہ اوپر ہی شعر لکھا ہوا تھا
کہانی لکھنا، بنانا، سنوارنا
میں نے تو نہیں کہا تھا اس کا حلیہ بگاڑنا
فقط مدیر
لو جی مدیر صاحب بھی شاعر بن گئے اور انہوں نے ہماری نئی نویلی کہانی کو بھی ناقابل اشاعت قرار دے دیا تھا مگر حیرت تھی کہ یہ کہانی انہوں نے واپس کیسے بھیج دی ورنہ تو وہ کوئی کہانی بھی واپس نہیں بھیجتے اس وقت رافعہ نے ایک اور شعر پڑھا
ہزاروں کہانیاں ایسی کہ ہر کہانی پہ دم نکلے
ہوئیں سب ناقابل اشاعت کیا پتا کوئی قابل اشاعت نکلے