N

     ’’خالو ہلاگلا‘‘ خواہ مخواہ ہی تمام محلے والوں کے خالو بن چکے تھے، وجہ یہ تھی کہ وہ خواہ مخواہ ہی دوسروں کے کاموں میں اپنی ٹانگ اڑیا کرتے تھے، اگر محلے میں کوئی اجنبی مسافر گزر رہا ہوتا تو بے چارے کی شامت آجاتی، خالو ہلاگلا خواہ مخواہ ہی اس کی تلاشی شروع کر دیتے، کسی پولیس آفیسر کی طرح اس پر سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دیتے، جب تک وہ یہ تسلی نہ کر لیتے کہ وہ مسافر کس مقصد کے لئے محلے سے گزر رہا ہے اس وقت تک اس کی جان نہ چھوڑتے۔
     ایک دفعہ تو خالو ہلاگلا سے خواہ مخواہ ہی غلطی ہوگئی۔ اپنے پڑوسی عظمت علی کو ہی پکڑ لیا اور اس کے گھر کے آگے کھڑے ہوگئے اور مکمل تسلی کرنے لگے کہ وہ اس گھر کا فرد ہے بھی یا نہیں۔
     ’’آپ اس وقت تک اس گھر میں نہیں جائیں گے جب تک میں یہ تسلی نہ کر لوں کہ اپ واقعی عظمت علی ہیں، یعنی میرے پڑوسی۔‘‘ خالو ہلاگلا اپنی عینک درست کرتے ہوئے بولے۔ بے چارہ عظمت علی دفتر سے تھکا ہارا گھر واپس آرہا تھا، جیسے ہی وہ اپنے گھر کے نزدیک پہنچا خالو ہلاگلا تیزی سے اس کے آگے آگئے، وہ بے چارہ خالو ہلاگلا کو اچانک اپنے آگے دیکھ کر بوکھلا گیا۔
     ’’خالو ہلاگلا میں تمہارا پڑوسی ہوں عظمت علی، کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ کیوں خوامخواہ مجھے تنگ کر رہے ہو؟“ وہ خالو ہلاگلا کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا کیوں کہ وہ پہلے بھی تین دفعہ خالو ہلاگلا کی اس حرکت کا نشانہ بن چکا تھا۔
     ’’نہیں جب تک تم مجھے اچھی طرح تسلی نہیں کراؤ گے، میں تمہیں اس گھر میں داخل نہیں ہونے دوں گا، آخر پڑوسیوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، زمانہ خراب ہے خدا نخواستہ کوئی دہشت گرد گھس آئے تو۔۔۔‘‘ خالو ہلاگلا ہاتھ لہراتے ہوئے بولے۔
     ’’تو کیا دہشت گرد میرے گھر میں ہی گھسے گا، کیا پتہ تمہارے گھر میں گھس جائے، دفعہ ہو جاؤ اور اپنا راستہ ناپو۔‘‘ عظمت علی غصے سے بولے اور خالو ہلاگلا کو راستے سے ہٹانے کی کوششیں کرنے لگے مگر خالو ہلاگلا کو تو خواہ مخواہ ہی ہر کسی کے معاملے میں ٹانگ اڑانے کی عادت تھی سو وہ نہ ہٹے، عظمت علی نے لاکھ منتیں سماجتیں کیں مگر خالو ہلاگلا ٹس سے مس نہ ہوئے، اس دوران مولوی بشیر ( خالو ہلاگلا کا ایک اور ہمسایہ) گھر سے سبزی لینے کے لئے نکلا مگر اس نے خالو ہلاگلا کو عظمت علی سے تفتیش کرتے ہوئے دیکھا تو جھٹ سے دروازہ بند کر دیا اور گھر میں دبک کر بیٹھ گیا کیوں کہ وہ بھی خالو ہلاگلا کے اس نرغے میں کئی دفعہ آچکا تھا۔ اتنے میں خالو ہلاگلا کی بیگم خالہ ہلچل انہیں ڈھونڈتے ہوئے باہر نکل آئیں اور زبر دستی انہیں گھر لے گئیں۔ عظمت علی نے خالو ہلاگلا سے جان چھوٹ جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ مولوی بشیر نے گھر میں ہی شکرانے کے نوافل ادا کیے اور سکون سے سبزی لے آیا۔
     خالو ہلاگلا سے محلے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ ان کی بیگم (جنھیں خالو ہلاگلا کی وجہ سے ہی سارے خالہ ہلچل کہتے تھے) بھی بہت تنگ تھیں، وہ ہر وقت خالو ہلاگلا کو یہی طعنے دیا کرتیں کہ میری تمہارے ساتھ خواہ مخواہ ہی شادی ہوگئی ہے اس وقت وہ خالو ہلاگلا کو جیسے ہی باہر سے پکڑ کر لائیں تو وہ خالو ہلاگلا پر برس پڑیں،
     ’’تمہاری یہ دوسروں کے معاملے میں خواہ مخواہ ٹانگ اڑانے کی عادت صرف میں ہی برداشت کر سکتی ہوں، محلے والے برداشت نہیں کر سکتے، پتہ نہیں میں نے کون سی غلطی کی کہ میری تمہارے ساتھ خواہ مخواہ ہی شادی ہوگئی۔‘‘ خالو ہلاگلا کی بیگم نے خالو ہلاگلا کو حسب عادت طعنے دینا شروع کر دیے۔
     ’’بیگم کیوں خواہ مخواہ مجھے طعنے دیے جا رہی ہو؟ حالات خراب ہیں، میں تو محلے والوں کی سیکورٹی کے لئے ایسا کرتا ہوں کہیں محلے میں دہشت گرد گھس آئیں تو۔۔۔‘‘ خالو ہلاگلا کا ابھی جملہ پورا ہی نہیں ہوا تھا کہ ان کی بیگم فوراً بول اٹھیں،
     ’’گولی لگے تمہاری سیکورٹی کو، یہ بھی کوئی سیکورٹی ہے کہ ہمسائے بھی اپنے گھر جانے کے لئے پہلے تم سے اپنی شناخت کروائیں، مولوی بشیر جب نماز پڑھانے کے لئے مسجد جاتا ہے تو وہ ایک گھنٹہ گھر سے پہلے نکلتا ہے تاکہ تمہاری تفتیش کے بعد وقت پر مسجد پہنچ کر جماعت کرا سکے اور تم عظمت علی کو نہیں جانتے، تمہارے ساتھ بچپن میں کھیلا، کودا، پلا، بڑاہوا اسے پہچاننے سے انکار کر رہے ہو، لگتا ہے تمہارا دماغ بھی خواہ مخواہ ہی خراب ہوگیا ہے۔‘‘ خالو ہلاگلا کی بیگم غصے سے خالو ہلاگلا پر ڈنڈے برسا رہی تھیں۔
     ’’بیگم کیوں مار رہی ہو؟ آئندہ خیال رکھوں گا‘‘ خالو ہلاگلا نے معذرت کرتے ہوئے اپنے جسم کو سہلایا اس وقت ان کی بیگم نے ڈنڈا پھینکا اور منہ بناتے ہوئے کچن میں چلی گئیں۔
     اس بات کو ابھی دو دن ہی نہیں گزرے تھے کہ خالو ہلاگلا نے انور میاں کے گھر کچھ لوگوں کو جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ محلے والوں کی سیکورٹی کو مضبوط کرنے کے لئے ہمیشہ کھڑکی کے پاس بیٹھا کرتے تھے تاکہ وہ آسانی سے محلے میں آنے جانے والوں پر نظر رکھ سکیں، اب جو انہوں نے انور میاں کے گھر کچھ لوگوں کو جاتے ہوئے دیکھا تو ان کی بائیں آنکھ پھڑک اٹھی۔ اپنی عادت سے مجبور وہ گھر سے باہر نکل آئے اور انور میاں کے گھر کے سامنے کھڑے ہوگئے انہوں نے دروازے کے ساتھ کان لگا کر سنا تو اندر سے کچھ لوگوں کی ہنسنے کی آوازیں آرہی تھیں اب تو خالو ہلاگلا کا شک یقین میں بدل گیا، انہوں نے انور میاں کا دروازہ کھڑکا مارا۔ تھوڑی دیر بعد انور میاں باہر آئے تو خالو ہلاگلا نے انہیں گھیر لیا۔
     ’’انور میاں! سنا ہے تمہارے گھر میں کچھ مشکوک لوگ آئے ہیں میں نے تلاشی لینی ہے۔‘‘ خالو ہلاگلا فوراً بولے۔ یہ سنتے ہی انور میاں سٹپٹا اٹھے اور انھوں نے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔
     ’’ابے او احمق، گدھے کی اولاد، میرا بیٹا اور بہو اپنے بچوں سمیت ہم سے ملنے آئے ہیں، میرا وہ بیٹا جس کے بچپن میں تو اسے اٹھا کر گھمایا کرتا تھا آج تو اس کی تلاشی لینے کے لئے آیا ہوا ہے، تیری تو میں خود ابھی تلاشی لیتا ہوں۔“ یہ کہتے ہی انور میاں نے چپل اتاری اور خالو ہلاگلا پر برسانے لگے اسی وقت مولوی بشیر نماز پڑھا کر آرہا تھا ادھر سے عظمت علی بھی دفتر سے چھٹی کرکے گھر آرہے تھے، جب ان دونوں نے انور میاں کو خالو ہلاگلا پر جوتے برساتے دیکھا تو وہ دونوں بھی اس ’’نیک کام‘‘ میں شریک ہوگئے۔ اب تینوں مل کر خالو ہلاگلا کی کھال اتار رہے تھے۔ خالو ہلاگلا نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو بچایا اور ہائے ہوئے کرتے ہوئے بھاگ گئے۔ خالو ہلاگلا کی خواہ مخواہ ہی کھال اتر چکی تھی۔