(تڑپ)
تحریر: حافظ نعیم احمد سیال ،ملتان۔
اصغر علی نے کرسی اٹھائی اور دیوار کے ساتھ رکھ کر بیٹھ گئے، اس وقت وہ بہت پریشان تھے ،پریشانی کی وجہ ان کا جوان سالہ پوتا ولید تھا جو دنیا کی چکا چوند روشنیوں میں پھنسا ہوا تھا جو ڈانسز کلبوں کا دلداہ تھا۔
’’کیاہوگا اس کے ساتھ یہ تو ہاتھوں سے نکلتا جا رہاہے، کیا کروں میں ۔۔۔؟‘‘وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور سوچنے لگے۔
’’کیا اس کی آخرت تباہ ہوجائے گی ؟کیا یہ آخرت میں ناکام ہوجائے گا؟ نن۔۔۔نن۔۔۔نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا یہی تو میرا سہارا ہے دنیا میں یہ میرے ساتھ ہے تو آخرت میں بھی یہ میرے ساتھ ہی رہے گا میرا شہزادہ، میرا پوتا مجھے ایسا کچھ کرنا چاہئے کہ یہ سدھر جائے۔‘‘ سوچوں کے دھارے ان پر بہہ رہے تھے اور پسینے کے قطرے ان کے چہرے سے ٹپک رہے تھے۔
رات کے ایک بجنے والے تھے اور ان کا پوتا ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا اچانک گیٹ کھلا ایک ہارن بجاتی ہوئی گاڑی اندر آئی اور گیٹ دوبارہ بند ہوگیا گاڑی میں میوزک زوروشور سے بج رہا تھا تھوڑی دیر بعد میوزک بند ہوا اور شراب کے نشے میں مست وہ باہر نکلا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا اصغر علی نے یہ سب دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے وہ کسی معصوم بچے کی طرح رونے لگے ۔
’’یہ آج کل کے بچوں کو کیا ہوتا جا رہا ہے؟ اپنی تہذیب اپنی روایات کو چھوڑ کر غیروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں میرا خود اپنا پوتا یہ سب کر رہا ہے میں کیا کروں۔‘‘ سوچتے سوچتے وہ زمین پر ڈھے گئے تھوڑی دیر بعد انہیں ہوش آیا تو وہ تہجد پڑھنے دوسرے کمرے میں چل دیے۔ کچھ دیر بعد ہی فجر کی اذانیں ہونے لگیں انہوں نے نماز کی تیاری شروع کر دی۔
*******
دن کے بارہ بج رہے تھے مگر ولید ابھی تک سویا ہوا تھا اصغر صاحب شروع شروع میں تو اسے جگایا کرتے تھے مگر اب اس کی بدتمیزی آڑے آگئی تھی اس لئے اب وہ اسے نہیں جگاتے تھے ’’جب اولاد ہو ہی ایسی بدتمیز تو پھر یہ سب کرنے کا کیا فائدہ؟ ‘‘انہوں نے خیالات کو ذہن سے جھٹکا اور ظہر کی نماز کی تیاری کرنے لگے۔
’’میں خوش نصیب ہوں کہ آپ ﷺ کا امتی ہوں یااللہ مجھے آپ سے شکوہ ہے کہ آپ نے مجھے پیدائشی مسلمان کیوں نہ بنایا کاش میری پیدائش مسلمان گھرانے میں ہوتی، چلیں کوئی بات نہیں آپ نے مجھے بعد میں ہدایت دی مجھے اپنے سچے نبی کا پیروکار بنا دیاجب میں درود شریف پڑھتا ہوں، کتنا سکون ملتا ہے پندرہ سال میں اس سکون کو حاصل کرنے کے لئے تڑپا ہوں یا اللہ مجھ سے اب یہ نعمت نہ چھیننا مجھے قیامت والے دن آپ ﷺ کا محبوب اور ساتھی بنا دینا ان کا دیدار نصیب کرا دینا۔‘‘ظہر کی نماز کے بعد وہ روتے ہوئے دعا مانگ رہے تھے سجدے میں گرے تو اپنے رب کو قریب پاکر مزید سکون سے سرشار ہو گئے۔
’’ہاں میرا دین ایسا ہے میرا مذہب سلامتی والا ہے یہ سب مجھے حضور اکرم ﷺ کے وسیلے سے ملا ہے جو ان کے طریقوں کو اختیار کر گیا وہ کامیاب ہو گیا اور سکون پا گیا۔‘‘نماز سے فارغ ہو کر یہ سوچتے ہوئے وہ گھر کی طرف چل دیئے ولید اس وقت ’’ناشتہ‘‘ کر رہا تھا
’’اٹھ گئے بیٹا؟‘‘ انہوں نے پیار سے ولید سے پوچھا اس نے کوئی جواب نہیں دیا وہ ہمیشہ اپنے دادا جان سے دور بھاگتا تھا بقول اس کے کہ دادا جان کی کمپنی بورنگ ہوتی ہے کون ان کی نصیحتیں سنتا پھرے ؟اس نے کھانا کھایا اور منہ صاف کرتا ہوا پھر گھر سے باہر نکل گیا۔
*********
ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ خوب ہلا گلا کررہے تھے آنے جانے والے لوگوں پر جملے کس رہے تھے آزادی کا دن تھا اور یہ دن وہ ’’بھر پور‘‘ انداز میں گزارنا چاہ رہے تھے راہ چلتی لڑکیوں کو چھیڑنا ان کا مشغلہ بن گیاتھا۔ ولید اپنے دوستوں کے ساتھ موج مستی کر رہا تھا اچانک ہی اس کے منہ پر تھپڑ پڑا ۔
’’تم حو ا کی بیٹیوں کو تنگ کرتے ہوکیا تمہارا دین تمہیں یہی سکھاتا ہے؟‘‘ ایک عمر دراز عورت ان پر برس رہی تھی ولید کو تھپڑ پڑھتے ہی باقی ساتھی سہم گئے اور انہوں نے لڑکیوں کو تنگ کرنا چھوڑ دیا۔
’’شکل سے تو تم سب مسلمان گھرانے کے لگتے ہومگر تمہارے کرتوت غیر مسلموں جیسے ہیں ‘‘بوڑھی عورت ان پر گرج رہی تھی۔
’’تم گناہ کرتے ہو ناں تو تمہارے دل سیاہ ہو جاتے ہیں قیامت والے دن ایسے لوگوں سے حضور اکرم ﷺ منہ پھیر لیں گے تم میں سے کسی کو بھی اپنا ساتھی نہیں بنائیں گے۔‘‘ بوڑھی عورت بول رہی تھی جب کہ ولید کا سر شرم سے جھکا ہوا تھا اسے پہلی بار کچھ احساس ہوا تھا اس نے دوستوں کو چھوڑا اور گھر کی طرف چل پڑا بوڑھی عورت کی باتیں اس کے دل پر پتھر بن کر برسی تھیں گھر میں داخل ہوا تو اس کے دادا جان بھی رو رہے تھے۔
’’کیوں رو رہے ہیں داداجان؟‘‘ اتنے عرصے بعد اس نے دادا جان سے بات کی تھی۔
’’کچھ نہیں بیٹا بس تمہیں دیکھتا ہوں نا تو رونا آتا ہے میرا دل تڑپتا ہے اس دین کو حاصل کرنے کے لئے میں نے کتنی اذیتیں اٹھائیں تھیں مگر تمہیں اس کی قدر نہیں،تمہیں تو بیٹھے بٹھائے یہ دین مل گیا‘‘ اصغر علی روتے ہوئے بول رہے تھے۔
’’کیا مطلب داداجان! میں کچھ سمجھا نہیں‘‘ وہ ناسمجھنے والے انداز میں بولا۔
’’بیٹھو میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں ‘‘اصغر علی نے اسے ایک کرسی پر بٹھا دیا اور خود بھی ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے۔
’’بیٹا جب میں پیدا ہوا تو میں مسلمان نہیں تھا میرے ماں باپ غیر مسلم (قادیانی) تھے اس لئے میں بھی قادیانی تھا آپ ﷺکا دشمن تھا ،مم ۔۔۔مم ۔۔۔مگر اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا مجھے جب تھوڑا شعور حاصل ہواتو تب مجھے پتہ چلا کہ قادیانی دنیا کی بد ترین مخلوق ہے مجھے پتہ چلا کہ آپ ﷺ کا مذہب سچا ہے آپ ﷺ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں میں نے مسلمانوں کے وہ گھر دیکھے ہیں جہاں آپ ﷺ کا ذکر ہوتا تھا۔ میری کلاس میں میرا ایک دوست پڑھتا تھا اس کے ذریعے مجھے پتہ چلا کہ دین اسلام کیا ہے میں نے ایک دن اس کی کتاب سے ایک حدیث پڑھی تھی کہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ،قرآن مجید نے بھی آپ ﷺ کے آخری نبی ہونے کی تصدیق کی ہے تو یہ سب دیکھ کے میں سوچنے لگا کہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں تو یقیناًیہ مذہب سچا ہے اور ہمارا مذہب جھوٹا ہے مرزا غلام قادیانی جھوٹا ہے میں نے احادیث پڑھنا شروع کیں قرآن مجید پڑھا تب مجھ پر ساری حقیقت آشکارا ہو گئی میں نے مسلمان ہونے کا تہیہ کر لیا مگر میں اپنے والدین سے ڈرتا تھا لیکن جب میں خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا اور اپنی مرضی کے قابل ہو گیا تو میں نے یہ جھوٹا مذہب چھوڑ دیا اسلام کی حقیقت تو پندرہ سال پہلے مجھ پر آشکارہ ہوگئی تھی اور میںیہ پندرہ سال تڑپتا رہا میرا دوست اور اس کے گھر والے میری ہمت بندھاتے رہے آخر جب میں اپنی مرضی کا مالک ہوا تو میں نے کھلے عام اسلام قبول کر لیا اور اپنے ماں باپ کو چھوڑ دیا میرے دوست کے گھر والوں نے مجھے سہارا دیا اور کسی مسلمان گھرانے میں میری شادی کی یوں میں بھی سچے نبی کا پیروکار بن گیا تم تو پیدائشی مسلمان ہو ناں تمہیں تو اس دین کی قدر ہونی چاہئے تھی آپ ﷺ نے اسلام کو پھیلانے میں ساری زندگی لگا دی انہوں نے اپنی امت کے لئے اللہ سے رو رو کر دعائیں کیں راتیں جاگ جاگ کر گزاریں یہی کہ میری امت جنت میں چلی جائے میری امت دوزخ کی آگ سے بچ جائے۔
اب جب میں تمہیں اور تمہارے جیسے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو دل روتا ہے کہ اپنا دین اپنی روایات چھوڑ کر غیروں کے طریقوں میں لگے ہوئے ہیں کامیابی کی بجائے ناکامی کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ تو آپ ﷺ کے طریقے نہ تھے اور تم نے جو حلیہ بنا رکھا ہے یہ بھی آپ ﷺ کا حلیہ نہیں ہے آپ ﷺ اپنی امت کے سچے عاشق تھے تو اس کے بدلے میں تمہیں بھی تو ان کا سچا عاشق ہونا چاہئے ورنہ قیامت والے دن ان کے ساتھی کیسے بنو گے ؟‘‘اصغر صاحب کے ان الفاظوں نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ساتھ بوڑھی عورت کی آوازیں بھی اسے سنائی دے رہی تھیں،
’’تم گناہ کرتے ہو ناں تو تمہارے دل سیاہ ہو جاتے ہیں قیامت والے دن ایسے لوگوں سے حضور اکرم ﷺ منہ پھیر لیں گے تم میں سے کسی کو بھی اپنا ساتھی نہیں بنائیں گے۔‘‘
اصغر علی اور بوڑھی عورت کی ملی جلی آوازوں نے اسے تڑپا دیا تھا وہی تڑپ اب وہ محسوس کر رہا تھا جو اس کے دادا محسوس کیا کرتے تھے کلمہ اور درود شریف اس کی زبان پر جاری ہو چکے تھے آہستہ آہستہ اس کی تڑپ ختم ہوتی جا رہی تھی ،
’’مجھے معاف کر دیں داداجان! میں بھٹک گیا تھا میں واقعی بھول گیا تھا کہ میں ایسے نبی کا پیروکار ہوں جو مجھ سے محبت کرتے ہیں مجھے اپنے ساتھ جنت میں لے جانے کی خواہش رکھتے ہیں کیوں کہ ان کو اپنی ساری امت پیاری ہے وہ کسی بھی امتی کو دوزخ میں جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ،میں گناہ گار ہوں مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دیں گے اب میں اپنے پیارے نبی ﷺ کے طریقوں کے مطابق ہی چلوں گا،ان شاء اللہ‘‘ یہ کہتے ہی وہ اپنے دادا جان کی گود میں سر رکھ کر رو پڑا دادا جان نے بھی خوشی سے اپنے آنسو صاف کیے اور تشکر آمیز نظروں سے اپنے رب کو دیکھا ،زبان پر درود شریف کا ورد جاری تھا انہیں خوشی تھی کہ ان کا پوتا راہ راست پر آگیا ہے، دونوں دادا پوتا درود شریف کے مزے لوٹ رہے تھے۔