(انمول رشتہ) تحریر:حافظ نعیم احمد سیال ۔ملتان
قدرت نے کیسا عظیم تحفہ انسان کو دیا ہے، ماں نہ ہو تو گھر سونا سونا
لگتاہے میری ماں دنیا کی سب سے عظیم ترین ہستی ہیں اگر امی جان نہ ہوتیں تو
میں کہاں بھٹک رہا ہوتا۔ اس بات کا احساس مجھے اب ہوا تھا جب میری امی جان
موت و حیات کی کشمکش میں تھیں۔ میری آنکھوں میں آنسو جاری تھے امی جان بیڈ
پر بے ہوشی کے عالم میں پڑی تھیں ،ڈاکٹر صاحب ان کا چیک اپ کرنے میں لگے
ہوئے تھے۔
’’ڈاکٹر صاحب میری ماں کو ہوش آجائے گاناں۔۔۔‘‘ میں نے روتے ہوئے پوچھا۔
’’بیٹا صبر کرو،زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ ضرور کوئی سبب بنا دے گا‘‘ڈاکٹر صاحب کے یہ الفاظ میری تسلی کے لئے کافی نہیں تھے ڈاکٹر صاحب نے مجھے جانے کا اشارہ کیاتو میں آنسو صاف کرتا ہوالان میں آگیاجہاں ماموں جان افسردگی کے عالم میں کھڑے ہوئے تھے۔
’’وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔ماموں !امی جان ٹھیک ہوجائیں گی ناں ۔۔۔‘‘میں ان کے کندھوں پر سر رکھ کر رونے لگاانہوں نے مجھے گلے لگا لیا۔
’’نا بیٹا ایسے موقع پر صبر اور تحمل سے کام لیاکرتے ہیں ان شاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گاتم فکر نہ کرو ‘‘ماموں جان کی تھپکیاں بھی کچھ کام نہ آسکیں اور میں زمین پر ڈھے سا گیا دور کہیں پار مجھے اپنی ماں کا مسکراہتا چہرہ نظر آیاوہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں۔
’’آج میرے بیٹے کی سالگرہ ہے میں اسے خوب دھوم دھام سے مناؤں گی‘‘ امی نے ابو سے کہا۔
’’ہاں بیگم کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑیں گے آخر ہمارا اکلوتا بیٹاہے‘‘ ابو بھی بول اٹھے پھر واقعی اس دن میری سالگرہ دھوم دھام سے منائی گئی پھر اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو بڑا ہوتے ہوئے دیکھا،
’’اب میرا بیٹا سکول جائے گا اور بڑا آدمی بنے گا‘‘ امی جان کی آواز میرے کانوں سے ٹکڑائی تھی پھر انہوں نے مجھے سکول داخل کرا دیا تھامیں دل لگا کر علم حاصل کرنے لگا میری جائزو ناجائز ضروریات کا وہ خیال رکھنے لگیں اور سکول لینے اور چھوڑنے کی ذمہ واری بھی انہوں نے اپنے سر ڈال لی تھی۔ تھوڑی دیر بعد منظر بدلا میں نے اپنے آپ کو بیڈ پر لیٹا ہواپایا امی جان میرا سر دبا رہی تھیں ساتھ ساتھ دلیہ بھی کھلا رہی تھیں۔
’’کسی کی نظر نہ لگے میرے چاند کو ،تو تومیری جان ہے ،میرا سب کچھ تجھ پر قربان ہوجائے‘‘ امی جان کی دعائیں گونج رہی تھیں ساتھ ساتھ وہ قرآنی آیات بھی پڑھ پڑھ کر دم کر رہی تھیں مجھے شدید بخار ہوگیا تھااور ڈاکٹر نے آرام کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
’’بیٹا اب سو جاؤ‘‘امی جان نے مجھے لوریاں دے کر سلا دیااور خود جاگ کر رات گزار دی تھی اگلے دن بخار اتر چکا تھامنظر پھر تیزی سے بدلا اور اس وقت میں اپنے آپ کو ایک انجینئر کے روپ میں دیکھ رہا تھا۔
’’بیٹا اب تیری شادی نہ کر دوں؟ ‘‘امی جان نے مجھے کہا تو میں نے خوشی خوشی سر ہلادیامیری شادی ہوئی اور روبینہ میری شریک حیات بن کر آگئی،
’’چلو میری تنہائی دور ہو جائے گی تمہارے ابو کی وفات کے بعد تو میں بالکل اکیلی ہو گئی ہوں اب بہو رانی ہے ناں دل لگ جائے گا‘‘ امی جان نے میری بیگم کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
’’آؤ بہو میں تمہیں تمہارے کمرے میں لے چلتی ہوں‘‘امی جان اسے لے کر کمرے کی طرف چل پڑیں میں بھی ساتھ تھاامی جان کے چہرے کو دیکھتا تو ایسے لگتا جیسے انہیں دنیاجہاں کی خوشیاں مل گئیں ہوں میں بھی خوش تھا کہ چلو اب زندگی کا سفر اچھا گزرے گامگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی شادی کے کچھ دن بعد میں نے امی جان کا چہرہ بجھا بجھا دیکھا پوچھنے کی بہت کوشش کی مگر انہوں نے کچھ نہیں بتایابیگم سے پوچھا تو اس نے جھوٹ بول دیا میں صبح دفتر جاتا اور شام کو گھر واپس آتا مجھے نہیں پتا کہ پیچھے کیا ہوتا ہے، آہستہ آہستہ امی جان نے اپنے آپ کو کمرے تک محدود کر لیا تھاباہر ہی نہیں نکلتی تھیں چہرے کی خوشی ختم ہو چکی تھی مگر میری بیگم کے پر کھلتے جارہے تھے۔
’’امی جان کو کیا ہے؟‘‘ میں نے بیگم سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں بس بوڑھی ہوگئی ہیں ناں توایسا کرتی ہیں‘‘ گویا اس نے ہوشیاری سے بات بدل دی پھر آج اچانک مجھے سب کچھ پتہ چل گیا دفتر سے جلدی چھٹی لینی پڑی ایک ضروری کام تھا گھر کی دیلیز پر قدم رکھا تو امی جان کو روتے ہوئے پایا روبینہ امی جان سے لڑ رہی تھی اور انہیں برا بھلا کہہ رہی تھی ،میں جلدی سے بھاگا امی جان کو سنبھالا ان کی طبیعت خراب ہو رہی تھی اور فرش پر گڑی جارہی تھیں میں نے روبینہ کو غصیلی نظروں سے دیکھا جیسے اب اس کی خیر نہیں مگر پہلے امی جان کو بہت جلد ہسپتال پہنچانا تھا ایمبولینس کو بلایا اور میں امی جان کو لے کر ہسپتال کی طرف چل پڑا اپنے ماموں جان کو بھی فون کرکے بلا لیا انہیں بھی سب کچھ پتہ چل گیاتھا۔
’’تم پڑھ لکھ کر انجینئر بن گئے اپنی ماں کا چہرہ دیکھ کر اس کی پریشانی نہیں سمجھ سکے مگر تمہاری ان پڑھ ما ں تمہارے مسکراہتے چہرے کے پیچھے چھپے غم اور تمہاری آنکھوں میں لکھی پریشانی پڑھ لیتی تھی تم اپنی ماں کا خیال تک نہیں رکھ سکے تم جیسا خود غرض میں نے کبھی نہیں دیکھا‘‘ ماموں جان کے یہ الفاظ میرے ذہن پر ہتھوڑا بن کر برس پڑے۔
ہاں واقعی میں خود غرض ہو گیاتھا مجھ سے بھول ہوگئی تھی میں نے امی جان کا خیال نہیں رکھا تھا اوراس ظالم عورت کے حوالے کر دیاتھا امی جان کا خیال مجھے خود رکھنا چاہئے تھا اب پچھتاوے کی آگ میرے دل میں جل رہی تھی اور میں اوندھے منہ زمین پر گر گیا رب سے مانگنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ماموں جا ن مجھے دلاسہ دے رہے تھے، روتے روتے نجانے کتنا وقت بیت گیا شاید قبولیت کی گھڑی تھی ڈاکٹر صاحب کی آواز میرے کانوں میں گونجی تھی’’ آپ کی امی کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا مگر اللہ نے کرم کر دیااب وہ خطرے سے باہر ہیں‘‘ یہ سن کر میں پھر سر بسجود ہوگیا اللہ نے مجھے امی جان کی خدمت کرنے کا موقع دے دیا تھااور میں سمجھ گیاتھا کہ یہ انمول رشتہ ہے ہی اس قابل کہ اسے خود نبھانا چاہئے کسی اور کے حوالے نہیں کر دینا چاہئے۔
Back to Conversion Tool’’ڈاکٹر صاحب میری ماں کو ہوش آجائے گاناں۔۔۔‘‘ میں نے روتے ہوئے پوچھا۔
’’بیٹا صبر کرو،زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ ضرور کوئی سبب بنا دے گا‘‘ڈاکٹر صاحب کے یہ الفاظ میری تسلی کے لئے کافی نہیں تھے ڈاکٹر صاحب نے مجھے جانے کا اشارہ کیاتو میں آنسو صاف کرتا ہوالان میں آگیاجہاں ماموں جان افسردگی کے عالم میں کھڑے ہوئے تھے۔
’’وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔ماموں !امی جان ٹھیک ہوجائیں گی ناں ۔۔۔‘‘میں ان کے کندھوں پر سر رکھ کر رونے لگاانہوں نے مجھے گلے لگا لیا۔
’’نا بیٹا ایسے موقع پر صبر اور تحمل سے کام لیاکرتے ہیں ان شاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گاتم فکر نہ کرو ‘‘ماموں جان کی تھپکیاں بھی کچھ کام نہ آسکیں اور میں زمین پر ڈھے سا گیا دور کہیں پار مجھے اپنی ماں کا مسکراہتا چہرہ نظر آیاوہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں۔
’’آج میرے بیٹے کی سالگرہ ہے میں اسے خوب دھوم دھام سے مناؤں گی‘‘ امی نے ابو سے کہا۔
’’ہاں بیگم کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑیں گے آخر ہمارا اکلوتا بیٹاہے‘‘ ابو بھی بول اٹھے پھر واقعی اس دن میری سالگرہ دھوم دھام سے منائی گئی پھر اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو بڑا ہوتے ہوئے دیکھا،
’’اب میرا بیٹا سکول جائے گا اور بڑا آدمی بنے گا‘‘ امی جان کی آواز میرے کانوں سے ٹکڑائی تھی پھر انہوں نے مجھے سکول داخل کرا دیا تھامیں دل لگا کر علم حاصل کرنے لگا میری جائزو ناجائز ضروریات کا وہ خیال رکھنے لگیں اور سکول لینے اور چھوڑنے کی ذمہ واری بھی انہوں نے اپنے سر ڈال لی تھی۔ تھوڑی دیر بعد منظر بدلا میں نے اپنے آپ کو بیڈ پر لیٹا ہواپایا امی جان میرا سر دبا رہی تھیں ساتھ ساتھ دلیہ بھی کھلا رہی تھیں۔
’’کسی کی نظر نہ لگے میرے چاند کو ،تو تومیری جان ہے ،میرا سب کچھ تجھ پر قربان ہوجائے‘‘ امی جان کی دعائیں گونج رہی تھیں ساتھ ساتھ وہ قرآنی آیات بھی پڑھ پڑھ کر دم کر رہی تھیں مجھے شدید بخار ہوگیا تھااور ڈاکٹر نے آرام کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
’’بیٹا اب سو جاؤ‘‘امی جان نے مجھے لوریاں دے کر سلا دیااور خود جاگ کر رات گزار دی تھی اگلے دن بخار اتر چکا تھامنظر پھر تیزی سے بدلا اور اس وقت میں اپنے آپ کو ایک انجینئر کے روپ میں دیکھ رہا تھا۔
’’بیٹا اب تیری شادی نہ کر دوں؟ ‘‘امی جان نے مجھے کہا تو میں نے خوشی خوشی سر ہلادیامیری شادی ہوئی اور روبینہ میری شریک حیات بن کر آگئی،
’’چلو میری تنہائی دور ہو جائے گی تمہارے ابو کی وفات کے بعد تو میں بالکل اکیلی ہو گئی ہوں اب بہو رانی ہے ناں دل لگ جائے گا‘‘ امی جان نے میری بیگم کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
’’آؤ بہو میں تمہیں تمہارے کمرے میں لے چلتی ہوں‘‘امی جان اسے لے کر کمرے کی طرف چل پڑیں میں بھی ساتھ تھاامی جان کے چہرے کو دیکھتا تو ایسے لگتا جیسے انہیں دنیاجہاں کی خوشیاں مل گئیں ہوں میں بھی خوش تھا کہ چلو اب زندگی کا سفر اچھا گزرے گامگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی شادی کے کچھ دن بعد میں نے امی جان کا چہرہ بجھا بجھا دیکھا پوچھنے کی بہت کوشش کی مگر انہوں نے کچھ نہیں بتایابیگم سے پوچھا تو اس نے جھوٹ بول دیا میں صبح دفتر جاتا اور شام کو گھر واپس آتا مجھے نہیں پتا کہ پیچھے کیا ہوتا ہے، آہستہ آہستہ امی جان نے اپنے آپ کو کمرے تک محدود کر لیا تھاباہر ہی نہیں نکلتی تھیں چہرے کی خوشی ختم ہو چکی تھی مگر میری بیگم کے پر کھلتے جارہے تھے۔
’’امی جان کو کیا ہے؟‘‘ میں نے بیگم سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں بس بوڑھی ہوگئی ہیں ناں توایسا کرتی ہیں‘‘ گویا اس نے ہوشیاری سے بات بدل دی پھر آج اچانک مجھے سب کچھ پتہ چل گیا دفتر سے جلدی چھٹی لینی پڑی ایک ضروری کام تھا گھر کی دیلیز پر قدم رکھا تو امی جان کو روتے ہوئے پایا روبینہ امی جان سے لڑ رہی تھی اور انہیں برا بھلا کہہ رہی تھی ،میں جلدی سے بھاگا امی جان کو سنبھالا ان کی طبیعت خراب ہو رہی تھی اور فرش پر گڑی جارہی تھیں میں نے روبینہ کو غصیلی نظروں سے دیکھا جیسے اب اس کی خیر نہیں مگر پہلے امی جان کو بہت جلد ہسپتال پہنچانا تھا ایمبولینس کو بلایا اور میں امی جان کو لے کر ہسپتال کی طرف چل پڑا اپنے ماموں جان کو بھی فون کرکے بلا لیا انہیں بھی سب کچھ پتہ چل گیاتھا۔
’’تم پڑھ لکھ کر انجینئر بن گئے اپنی ماں کا چہرہ دیکھ کر اس کی پریشانی نہیں سمجھ سکے مگر تمہاری ان پڑھ ما ں تمہارے مسکراہتے چہرے کے پیچھے چھپے غم اور تمہاری آنکھوں میں لکھی پریشانی پڑھ لیتی تھی تم اپنی ماں کا خیال تک نہیں رکھ سکے تم جیسا خود غرض میں نے کبھی نہیں دیکھا‘‘ ماموں جان کے یہ الفاظ میرے ذہن پر ہتھوڑا بن کر برس پڑے۔
ہاں واقعی میں خود غرض ہو گیاتھا مجھ سے بھول ہوگئی تھی میں نے امی جان کا خیال نہیں رکھا تھا اوراس ظالم عورت کے حوالے کر دیاتھا امی جان کا خیال مجھے خود رکھنا چاہئے تھا اب پچھتاوے کی آگ میرے دل میں جل رہی تھی اور میں اوندھے منہ زمین پر گر گیا رب سے مانگنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ماموں جا ن مجھے دلاسہ دے رہے تھے، روتے روتے نجانے کتنا وقت بیت گیا شاید قبولیت کی گھڑی تھی ڈاکٹر صاحب کی آواز میرے کانوں میں گونجی تھی’’ آپ کی امی کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا مگر اللہ نے کرم کر دیااب وہ خطرے سے باہر ہیں‘‘ یہ سن کر میں پھر سر بسجود ہوگیا اللہ نے مجھے امی جان کی خدمت کرنے کا موقع دے دیا تھااور میں سمجھ گیاتھا کہ یہ انمول رشتہ ہے ہی اس قابل کہ اسے خود نبھانا چاہئے کسی اور کے حوالے نہیں کر دینا چاہئے۔
0 Comments