حافظ نعیم احمد سیال
اماں نذیراں نے ایک نظر اپنے گھر پر ڈالی اور رک گئیں’’اماں کیا کر رہی ہو جلدی چلو تھوڑی دیر میں ہی سیلاب آجائے گارک کیوں گئی ہو؟‘‘رحمو اماں کو کہہ رہا تھا ۔
’’بیٹا کیا کروں یہ گھر تیرے بابا نے میرے لیے بنوایا تھا میں نے پچپن سال یہاں گزارے ہیں اب چھوڑ کر دکیسے چلی جاؤ ں‘‘ اماں کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گرنے لگے ۔
’’اماں ہماری مجبوری ہے ۔ ہم یہاں نہیں رک سکتے سیلاب آگیا تو گھر کے تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہم بھی ڈوب جائیں گے ۔ اماں اس وقت ہم سب کو اپنی زندگی عزیز ہے سب لوگ جا رہے ہیں ‘‘رحمو نے اماں کو سمجھایا ۔
اماں نے ایک دفعہ پھر اپنے گھر پر نظر ڈالی اور سر پر رکھی ہو ئی گٹھڑی کے ساتھ اپنے پوتے کو لے کر چل پڑیں ۔
ٍ ’’بیٹا یہ میری دوسری ہجرت ہے پہلی ہجرت میں نے پاکستان بنتے وقت کی تھی ۔ ہم ہندوستان کے ایک گاؤں میں رہتے تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد ہم بڑی مشکل سے یہاں پہنچے اس وقت میں تیرے جتنی تھی یعنی آٹھ سال کی ۔ پھر کچھ سالوں کے بعد میری تیرے بابا سے شادی ہو گئی ۔ شادی کے کچھ عرصے بعدتیرے بابا نے یہ مکان مجھے بنوا کر دیا تھا ۔ پھر تیرے ابو پیدا ہوئے ہم نے اس کی پرورش کی پھر وہ بڑا ہوا اس کی شادی کی پھر تو پیدا ہوا ۔ تیری پیدائش کے فوراً بعد ہی تیرے بابا ، تیری ماں ، اور تیرے ابو ایک حادثے میں فوت ہو گئے تھے ۔ پھر میں نے تجھے پالا بیٹا تجھے پتہ تو ہے کہ میں اس گھر سے کتنی محبت کرتی ہوں اس وقت پاکستان کی خاطر ہندوستان میں ہم نے اپنا گھر چھوڑا تھا ۔ اب پھر اس سیلاب کی وجہ سے مجھے اپنا گھر چھوڑنا پر رہا ہے ۔ بیٹا میں کیا کروں۔۔۔۔۔؟‘‘
اماں کی آنکھوں سے آنسواب تیز تیز گرنے لگے تھے ۔ گاؤں میں تو ابھی سیلاب نہیں آیا تھا لیکن اماں کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب ضرور آگیاتھا ۔ اماں نے گٹھڑی سنبھالی ۔ پھر آگے کی طرف بڑھنے لگیں اور فوراً ہی ہجر ت کرنے والے قافلے میں شامل ہو گئیں ۔ یہ سب ایک ہی گاؤں میں رہتے تھے ۔ جو اب شہر کی طرف جا رہے تھے ۔ شہر پہنچ کر لوگوں کو محفوظ مقام تک پہنچا دیا ۔
’’اماں کہاں کھو گئی ہو ؟‘‘ رحمونے اماں کو جھنجھوڑا ۔
’’بس بیٹا کیا کروں حالات نے کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے ایک دفعہ پھراس جیسی زندگی شروع ہو گئی ہے ۔ تجھے پتہ ہے جب ہم ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے اس وقت بھی ایسے ہی ہمیں رہنے کے لیے خیمے دیے گئے تھے ۔ ہم خالی ہاتھ تھے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا پھر پاکستا ن میں پہلے سے رہنے والے لوگوں نے ہمیں سہارا دیا اور ہم زندگی گزارنے کے قابل ہوئے میرے باؤجی نے محنت کی اور ایک چھوٹا سا گھر بنانے میں کامیاب ہو گئے اس طرح ہم نے زندگی کا آ غاز کیا ۔ بس بیٹا میں تو یہ دیکھ رہی ہو ں وہ بھی رمضان کا مہینا تھا یہ بھی رمضان کا مہینا ہے واہ میرے مولا تیری قدرت ۔۔۔۔‘‘اماں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور دعا مانگنے لگیں ۔
’’اماں مجھے بھوک لگی ہے اگر مجھے کھانا نہ ملا تو میں مر جاؤ ں گا‘‘رحیم الدین نے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
’’نہ بیٹا ایسا نہ کہہ بس تو صبر کر ۔۔۔۔ابھی کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ آتا ہوگا ۔ کتنے اچھے لوگ ہیں مشکل وقت میں ہمارا کس طرح ساتھ دے رہے ہیں اس حالت میں تو پوری قوم ایک ہو گئی ہے ۔ مجھے تو مواخات مدینہ کی مثال یاد آرہی ہے‘‘ اماں بولیں۔
’’مواخات مدینہ ۔۔۔اماں یہ کیا ہے ‘‘؟ رحیم الدین نے حیرت سے پوچھا ۔
’’بیٹا آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کو حکم دیا تھا کہ اپنی قوم یعنی اپنے پیروکاروں کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر جائیں ۔ مکہ والوں نے آپ ﷺ اور ان کے پیروکاروں کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں ۔ آپ ﷺ اور ان کے پیروکاروں کامکہ میں رہنا مشکل ہو گیا تب اللہ تعالیٰ نے ہجرت کا حکم دیا جب آ پ ﷺ اپنے پیروکاروں کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے آپ ﷺ کا شاندار استقبال کیا ۔ مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے لوگ مہاجرین اور مدینہ سے پہلے سے ہی موجود لوگ انصار کہلائے ۔ اس طرح انصار نے مہاجرین کی مشکل وقت میں مدد کی ۔حضور ﷺ نے ہر مہاجر کو کسی نہ کسی انصاری کا بھائی بنا دیا ۔ اور ہر انصاری نے اپنا آدھامال اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا ۔ اسے مواخات مدینہ کہتے ہیں۔ ایسی مثا ل پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اور اسی مثال کا اثر ہے کہ جب پاکستان بنتے وقت ہجرت کر کے میںیہاں آئی بالکل اسی طرح ہماری مدد کی گئی اور اب تریسٹھ سال بعد پھر ہجرت کی ہے اب وہی مثا ل پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ۔ یہاں کے لوگو ں کا جذبہ دیکھنے کے قابل ہے۔ بیٹا تم دیکھ رہے ہو نا اس مہنگائی کے دور میں بھی ہمارے مسلمان بھائی ہماری کس طرح مدد کر رہے ہیں ۔ اپنی ضروریات کو ایک طرف رکھ کے ہماری ضروریات پوری کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ اپنے بچوں کی عید کی خوشیاں قربان کر کے ہمارے بچوں میں عید کی خوشیاں بانٹنے میں مصروف ہیں۔ وہ دیکھو پاکستان کے نوجوان کس طرح بھاگ دوڑ کر رہے ہیں ۔ سب کی ضروریات کا خیال رکھ رہے ہیں ۔ کبھی ایک خیمے میں جاتے ہیں توکبھی دوسرے خیمے میں۔ اس طرف دیکھو میرے پیارے ملک پاکستان کے ڈاکٹر ہماری طبعی امداد کے لئے ہماری صحت و صفائی کا خیال رکھنے کے لئے یہا ں پہنچ گئے ہیں اور اب دیکھوہمارے لیے خوراک کا بھرا ہواٹرک ہماری طرف آ رہا ہے جس میں ہمارے کھانے کے لیے چیزیں شامل ہیں ۔ تم یہی بیٹھو میں تمہارے لیے کھانا لے کر آتی ہوں‘‘اماں نے رحمو کو وہیں بٹھا دیا اور خود قطار میں جا کھڑی ہوئیں اپنی باری آنے پر انہوں نے کھانا لیا اور رحمو کے پاس آ گیءں ۔
’’لے بیٹا کھا اپنی بھوک مٹا تو جب تک یہاں ہے بھوکا نہیں مرے گا ۔ تجھے کھانا ملے گا ۔ ہمارے مسلمان بھائی ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ یہ سب ہمارے پیارے نبی ﷺ کی تعلیمات ہیں ۔ آپ ﷺ کے سکھائے ہوئے سبق ہیں ۔ آ پ ﷺ کا بنایا ہوا معاشرہ ہے ۔ جس امت کے نبی حضرت محمد ﷺ ہوں وہ امت کبھی بھی بھوکی نہیں مر سکتی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی امت کو بے پناہ خزانوں اور عنایتوں سے نوازا ہے قرآن مجید میں حضور اکرم ﷺ کی وجہ سے ہی ہمیں بہترین امت کا لقب ملا ہے۔
ایسی امت جو مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہے ۔ ایک دوسرے کا خیال رکھتی ہے ۔ ہم تو اس نبی کے پیروکا ر ہیں جس نے ہمیں جینے کا سلیقہ سکھا یا ۔ زندگی گزارنے کے طریقے سکھائے تو پھر کیسے ہم بے یارومددگا ر مر سکتے ہیں ۔ بیٹا میری یہ دوسری ہجرت کبھی بھی رائیگاں نہیں جائے گی ہمیں اس کا پھل ملے گا ہاں بیٹا ضرور ملے گا۔‘‘
اماں نے پیار بھری نظر رحموپر ڈالی جو تیزی سے کھانا کھانے میں مصروف تھاجب کہ اماں کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب بدستور جاری تھا۔
0 Comments