تحریر: حافظ نعیم احمد سیال

عید کے پر مسرت موقع پہ بازار میں بہت رش تھا۔ ہر طرف گہما گہمی اور ریڑھیوں پر سامان لگانے والے خوانچہ فروشوں کی آوازوں سے بازار کی رونقیں بحال ہوگئی تھیں۔ جیولری نت نئے فیشن اور پر کشش ڈیزائنگ کے ملبوسات لوگوں کی نظروں کو خیرہ کر رہے تھے، اور یہ تمام چیزیں منہ مانگے داموں سے بک رہی تھیں ہر طرف شور شرابا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ ماہ رمضان میں کچھ لوگ روزہ ہونے کے باوجود گلے پھاڑ پھاڑ کر آوازیں لگا رہے تھے تاکہ ان کی چیزیں جلدی بکیں اور کچھ روزہ خور بھی تھے گلے تو ان کے بھی سوکھ جاتے تھے مگر وہ نظریں بچا کر وقفہ وقفہ سے پانی کا ایک گھونٹ بھر لیتے، شدید گرمی اور جولائی کی تپتی گرم ہوائیں، آگ برساتا سورج ان لوگوں پر ہی برس رہے تھے جو روزہ خور تھے، روزہ داروں کو ان چیزوں کی کیا پروا، وہ تو اللہ کی رحمت سے ہر دم سرشار ہوتے رہتے ہیں، پیاس لگنے کے باوجود بھی حلال روزی کمانے میں وہ آوازیں لگا رہے تھے مگر وہ اللہ کی رضا میں راضی تھے کیوں کہ یہ اللہ کا حکم تھا کہ روزہ بھی رکھنا ہے، میری عبادت بھی کرنی ہے اور حلال روزی بھی کمانی ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں اینٹوں سے مکان بنانے والا مستری، ریت اور بجری ڈھونے والے مزدور، مٹی کے برتن بنانے والا کمہار، فرنیچر بنانے والا بوڑھا بڑھئی صرف اس وجہ سے خاموش ہیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ کام بھی کرنا ہے محنت مشقت بھی کرنی ہے اور روزہ بھی رکھنا ہے۔

                                   ******

دور پار کسی امیر بستی میں سنگ مرمر کا نیا عالیشان بنگلہ جس کے تمام افراد کے دن اور رات ائیر کنڈیشنز روم میں گزرتے تھے، روزے تو وہ بھی رکھ رہے تھے مگر روزے میں یہ غریب محنت کش مزدور انسان انہیں نظر نہیں آتے تھے، انہیں احساس ہی نہیں تھا کہ مزدور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کیا جتن کرتا ہے اپنے بچوں کو عید کی خوشیاں دینے کے لئے اسے کتنا خون پسینہ بہانا پڑتا ہے ان کی خود اتنی بڑی بڑی فیکٹریاں تھیں جہاں یہ مزدور ان کو کام کرتے ہوئے نظر تو آتے تھے مگر گرمی میں جھلسا دینے والی دھوپ اور سورج کی تپش اور ان کے جسموں سے نکلنے والا پسینہ انہیں دکھائی نہ دیتا تھا۔ سیٹھ عالمگیر سلطان بس روزانہ ایک چکر لگا کر آجاتے تھے وہ صرف یہ دیکھنے کے لئے جاتے تھے کہ فیکٹریوں میں کام ہو رہا ہے یا نہیں، وقت پر پورا کام ہو جانا یہی ان کی تسلی کے لئے کافی تھا گھر کے تمام افراد لاپروائی جیسی زندگی گزار رہے تھے، کسی کو کوئی ارد گرد کی خبر نہیں تھی، روزہ رکھ کر سو جاتے اور پھر افطاری سے کچھ دیر پہلے اٹھتے، نماز قرآن کی پابندی بھی ہو رہی تھی مگر یہ پاپندی صرف ماہ رمضان کی حد تک رہتی، پھر وہ فیشن، عیش وعشرت اور عیاشی والی زندگی، نہ نماز کی پروا اور نہ قرآن کھول کر دیکھنا۔

’’سیٹھ صاحب سیٹھ صاحب وہ انور کام کرتے ہوئے بے ہوش ہوگیا ہے۔‘‘ سیٹھ عالمگیر اس وقت اپنے کمرے میں محو استراحت تھے کہ کسی مزدور نے فون کرکے انہیں کہا۔

’’اس کے گھر والوں کو بلا کر ان کے حوالے کر دو اور اس کی جگہ کسی اور مزدور کو لے آؤ مجھے اتنی گرمی میں ڈسٹرب نہ کرو ۔‘‘ سیٹھ صاحب غصے سے پھنکارتے ہوئے بولے یہ پھنکارنا شاید اللہ کو پسند نہیں آیا اللہ تعالیٰ نے اپنی رسی کھینچی اسی رات بادل گرجے، بجلی چمکی اور سیٹھ صاحب کی فیکٹری کو آگ لگ گئی، مزدور چھٹی پر تھے تو کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ سیٹھ صاحب پاگل ہو رہے تھے قدرت انہیں سبق سکھانا چاہتی تھی۔ سیٹھ صاحب کو اب دھوپ میں کام کرتے والے مزدور یاد آرہے تھے، اس عید پر وہ تمام مزدوروں کو مزدوری دینے کے ساتھ ساتھ اچھا خاصا بونس بھی دے رہے تھے کیوں کہ یہ ان کی پہلی عید تھی جو وہ اللہ کے حکم کے مطابق منا رہے تھے۔