تحریر: حافظ نعیم احمد سیال

        اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’رکو سمیر میں تمہارا بڑا بھائی ہوں، تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے‘‘؟

        ’’کون سا بھائی میرا کوئی بھائی نہیں ہے میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ انہوں نے تو مجھے کبھی نہیں بتایا کہ میرا کوئی اور بھائی بھی ہے۔ تم خوامخواہ میرے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہو‘‘۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے چھڑا لیا۔

       ’’پلیز سمیر میری بات سنو، مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ پلیز ،۔۔۔۔‘‘وہ آوازیں دیتا رہ گیا اور میں وہاں سے چلا آیا۔ میری بیگم بھی میرے ساتھ تھی۔

        ’’کون تھا وہ؟ اور خود کو آپ کا بھائی کیوں کہہ رہا تھا‘‘؟ میری بیگم نے پوچھا۔

        ’’پتا نہیں کون ہے، آفس میں بھی روزانہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہارا بھائی ہوں۔ آج اس نے بھرے بازار میں مجھے پکڑ لیا، اور لوگوں کے سامنے مجھے اپنا بھائی کہنے لگا، میں خود پریشان ہوں، میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا، چلو چھوڑو ایک کپ چائے لاؤ، موڈ آف کر دیا۔‘‘ میں نے اپنی بیگم سے کہا اور وہ چائے بنانے کچن میں چلی گئی۔

        تھوڑی دیر بعد میرے موبائل کی گھنٹی بج اٹھی، فون آفس سے تھا ۔۔۔۔ کسی ارجنٹ کام کے سلسلے میں مجھے بلایا گیا تھا۔ ایک اہم میٹنگ بھی تھی، وہ بھی مجھے اٹینڈ کرنی تھی میں نے تیاری کی اور اپنی گاڑی میں آفس پہنچ گیا۔

        میٹنگ سے فراغت کے بعد میں جیسے ہی اپنی گاڑی کی طرف آیا، وہ آدمی مجھے دوبارہ نظر آیا اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی اور ایک بوڑھی عورت بھی تھی۔

        ’’اماں یہ ہے ہمارا سمیر! میں نے بڑی مشکل سے اسے ڈھونڈا ہے، سمیر سیٹھ بن گیا ہے۔‘‘ وہ نوجوان بوڑھی عورت کو کہہ رہا تھا۔

        ’’ما شااللہ کتنا خوبصورت ہے۔۔۔۔ بیٹا تم گھر آجاؤ نا میں تمہیں بہت یاد کرتی ہوں۔‘‘ بوڑھی عورت مجھے پیارکرنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ساتھ بوڑھا بھی رو رہا تھا۔

        ’’بیٹا میں تمہاری ماں ہوں اور یہ تمہارے ابو ہیں۔ تم بہت چھوٹے سے تھے، جب تمہیں ہم سے جدا کر دیا گیا، بیٹا اب چلو ہمارے ساتھ۔‘‘ بوڑھی عورت نے مجھے گلے لگا لیا۔ میں حیران و پریشان کھڑا یہ سب دیکھتا رہا۔ میرا بھائی، میرے ماں باپ، یہ سب کہاں سے آگئے۔؟ جب کہ میں انہیں جانتا نہیں، پتہ نہیں یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ۔

        ’’نہیں، آپ میرے ماں باپ نہیں ہیں آپ کوئی دھوکے باز ہیں، مجھے اپنا بیٹا بنا کر میری دولت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، جن ماں باپ نے مجھے جنم دیا وہ تو فوت ہو چکے ہیں، میں نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کی تجہیزو تکفین کی ہے، میں ان کے سائے میں پلا بڑا ہوں، انہوں نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ میں ان کی اولاد نہیں، وہ مجھے اپنا بیٹا کہتے تھے۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں، ورنہ سب کچھ ثا بت ہو جاتا، پلیز میرا راستہ چھوڑیں اور مجھے جانے دیں۔" میں نے انہیں ایک طرف دھکیلا اور گاڑی میں بیٹھ کرگاڑی اسٹارٹ کر دی۔

        ’’نہیں بیٹا! ہم دھوکے باز نہیں ہیں، تم واقعی ہمارے بیٹے ہو، ہمیں چھوڑ کر نہ جاؤ‘‘۔ وہ کہتے رہے۔ میں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اور گاڑی کی رفتار تیز کر دی۔ گھر پہنچا تو میری سانسیں پھولیں ہوئی تھیں۔ ایک ایسی انہونی تھی، جس پر میں یقین کر ہی نہیں سکتا تھا اگر وہ بوڑھے میرے ماں باپ ہیں تو جنہوں نے مجھے پالا ہے وہ کون ہیں؟ کاش میرے امی ابو زندہ ہوتے، میں ان سے پوچھ لیتا میں کافی دیر سوچتا رہا اس دوران میری بیگم نے دستر خوان بچھا دیا اور ہم کھانا کھانے لگے۔

        رحمت بابا ہمارے گھر کے بہت پرانے ملازم تھے، ساٹھ سال انہوں نے ہمارے گھر ملازمت کی، میں انہیں چاچا جی کہتا تھا۔ کافی بوڑھا ہو جانے کی وجہ سے میں نے انہیں چھٹی دے دی تھی اور ان کی جگہ کسی اور کو ملازم رکھ لیا تھا مگر چاچا جی کبھی کبھی ملنے آجاتے تھے اور میں ان کی مدد بھی کردیتا تھا۔

اگلے دن چاچاجی ان دونوں بوڑھوں اور اس نوجوان کو لے کر میرے گھر آگئے میں انہیں اچانک دیکھ کر چونک اٹھا اور حیران و پریشان ہو گیا۔

        ’’چاچا جی آپ انہیں کیوں لے آئے؟ یہ کون ہیں؟ اور مجھ سے کیا چاہتے ہیں‘‘؟ میں نے چاچا جی سے زچ ہو کر کہا۔

        ’’بیٹا کیا کروں! مجھ سے اب یہ بات نہیں چھپتی۔ 25 سال تک میں یہ بات اپنے دل میں چھپائے رہا اب مجھ سے ان کے آنسو نہیں دیکھے جاتے، بیٹا یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں تم انہیں کے بیٹے ہو یہ میرے ہمسائے ہیں۔ میں سیٹھ انور کے ہاں ملازمت کرتا تھا جنہیں تم اپنا والد سمجھتے ہو ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، انہیں بیٹے کی شدید خواہش تھی مگر اولاد ان کے نصیب میں نہیں تھی، سیٹھ صاحب کی بیگم روتی رہتی تھیں سیٹھ صاحب سے اپنی بیگم کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی، ایک دفعہ سیٹھ صاحب مجھ سے ملنے میرے گھر آئے اس وقت یہ بھی تمہیں ساتھ لے کے آئے ہوئے تھے اس وقت تمہاری عمر دو ماہ تھی، سیٹھ صاحب نے زبردستی انہیں مجبورکر کے تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مانگ لیا۔ انہوں نے بھی اپنے دل میں پتھر رکھ لیا۔ بیگم صاحبہ تمہیں پا کر خوش ہو گئیں اور ان کی حالت بہتر ہونے لگی۔ اس طرح تم سیٹھ اور ان کی بیگم کو اپنا حقیقی ماں باپ سمجھنے لگے۔ مگر جب ان دونوں کو پتا چلا کہ سیٹھ صاحب اور ان کی بیگم فوت ہو گئے ہیں تو تمہاری اس ماں کا دل غم سے پھٹ گیا تب انہوں نے مجھے کہا کہ ہمارا بیٹا ہمیں واپس لا دو، کیوں کہ میری توسط سے ہی انہوں نے تمہیں سیٹھ صاحب کو دیا تھا۔ اس لئے میں نے تمہارے بڑے بھائی کو تمہارے آفس کا ایڈریس دیا ، وہ روزانہ تمہارے پاس آتا رہا مگر تم نے اس کی باتوں کا یقین نہیں کیا۔ بیٹا یہ دھوکے باز نہیں ہیں، یہ حقیقت میں ہی تمہارے ماں باپ ہیں‘‘۔ چاچا جی بول رہے تھے اور میں حیرت کا بت بنا ان کی باتیں سنتا رہا ۔ چاچا جی نے تو کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا وہ تو ہمیشہ سچ بولتے تھے۔ میری آنکھو ں سے آنسو جاری ہوگئے اور میں اپنے والدین کے قدموں میں گر پڑا اور ان سے معافی مانگنے لگا میرے اوپر ایک ایسی حقیقت کا راز کھلا تھا جس سے میں نا آشنا تھا۔ میں نے بڑے بھائی اور اپنے والدین کو گلے لگایا اور ان سے معافی مانگی، مجھے خوشی محسوس ہو رہی تھی کیوں کہ بچھڑے دل ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔