تحریر: حافظ نعیم احمد سیال ملتان۔
خالہ ہلچل پریشانی سے پورے گھر میں بوکھلاۓ پھر رہی تھیں۔ وقفے وقفے سے وہ باہر گلی کے دروازے پر بھی جھانک لیتیں، ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی کا انتظار کر رہی ہوں، اب کی بار جو انہوں نے دروازے سے باہر دیکھا تو تھانےدارنی نے انہیں دیکھ لیا۔
"کیا ہوا خالہ ہلچل۔؟ تم تو پریشان دکھائی دے رہی ہوں۔" تھانےدارنی نے پوچھ لیا۔
"یہ میرے شوہر پتا نہیں کہاں چلے گئے؟ کہہ کر گئے تھے کہ دو گھنٹوں میں آ جاؤں گا، تین گھنٹے گزر گئے مگر ابھی تک نہیں آئے۔" خالہ ہلچل پریشان لہجے میں بولیں۔
"ارے انہوں نے جانا کہاں ہے؟ کہیں ہلاگلا کرنے بیٹھ گئے ہوں گے۔ خالو ہلاگلا جو ہوئے، اب کیا تم گلی میں ہلچل مچاتی پھرو گی۔؟ تو بھی جاؤ اور سکون سے بیٹھ جاؤ، اگر زیادہ دیر گزر جاۓ تو میرے میاں تھانےدار کو بتانا وہ گمشدگی کی رپورٹ درج کر لیں گے اور خالو ہلاگلا کو ڈھونڈ دیں گے۔" تھانےدارنی نےانہیں خالو ہلاگلا کو ڈھونڈنے کی آفر کی، یہ سنتے ہی خالہ ہلچل دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔
"ہائے ہائے! تمہارے منہ میں خاک۔۔۔۔۔ ستیاناس ہو تمہارا۔۔۔۔۔کیسی منحوس باتیں کر رہی ہو؟ تم نے تو میرے میاں کو گم کردیا اللہ نہ کرے کہ وہ گم ہوں، بس ابھی آتے ہی ہوں گے۔" خالہ ہلچل رونے کے ساتھ ساتھ شور بھی مچانے لگیں، ابھی وہ تھانیدارنی کو مزید صلوٰاتیں سنانے کے لیے منہ کھول ہی رہی تھیں کہ خالو ہلاگلا تیزی سے بھاگتے ہوئے نظر آۓ۔
"خالو ہلاگلا آرام سے بھاگیے آپ کے بھاگنے سے زمین ہل رہی ہےاور لوگوں کے گھروں کی چیزیں گر رہی ہیں۔" مولوی بشیر مسجد کی طرف جاتے ہوئے بولا۔ یہ دیکھتے ہی تھانےدارنی نے فوراً اپنے گھر کادروازہ بند کر دیا کیوں کہ اس کے شوہر کے لٹکے ہوئے کپڑے زمین پر گر گئے تھے، وہ انہیں اٹھانے میں لگ گئی۔
"کم بخت جب بھی بھاگتا ہے کوئی نہ کوئی چیز گر ہی جاتی ہے، سارے کپڑے میلے ہو گئے۔" تھانےدارنی بڑبڑاتے ہوئے کپڑے اٹھانے لگی اور خالو ہلاگلا کو کوسنے لگی۔
"کہاں چلے گئے تھے آپ۔۔۔۔۔" ؟ خالہ ہلچل کی تیز دار آواز کی بریک نے خالو ہلاگلا کو رکنے پر مجبور کر دیا۔
"کچھ نہ پوچھو بیگم! پہلے مجھ کو پانی پلاؤ اور لوگوں کے گھروں میں جا کر گری ہوئی چیزیں اٹھاؤ ورنہ رات کو میری شامت آجائے گی، قسم سے مجھے مجبوری کے طور پر بھاگنا پڑا تھا، میرے پیچھے بکریاں لگ گئی تھیں، بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگا ہوں۔" خالو ہلاگلا نے ہانپتے ہوئے جواب دیا۔
خالو ہلاگلا کو خدشہ تھا کہ اگر لوگوں کے گھروں کی گری ہوئی چیزیں نہ اٹھائی گئیں تو تو رات کو پورا محلہ میرے گھر کے آگے جمع ہو جائے گااور شور مچا کر مجھے اٹھا لے گا، اس لئے انہوں نے پانی پینے کے بعد خالہ ہلچل کو لوگوں کے گھروں میں بھیج دیا۔
لوگوں کے گھروں میں جاکر پہلے تو خالہ ہلچل نے خوب ہلچل مچائی، جس سے لوگوں کا باقی کا بچا کھچا سامان بھی نیچے گر گیا، کَلّو قصائی سیڑھی پر چڑھ کر پنکھا صاف کر رہا تھا، سیڑھی سمیت وہ بھی بےچارا نیچے آ گرا، جس سے اس کے پاؤں کی ہڈی فریکچر ہوگئی اور وہ خالہ ہلچل کو برا بھلا کہتے ہوئے ہاۓ ہوۓ کرنے لگا۔
"بس کر دو خالہ ہلچل! باقی کا کام ہم کر لیں گی" یہ کہہ کر تمام محلے کی عورتوں نے خالہ ہلچل سے جان چھروائی اور زبردستی خالہ ہلچل کو اپنے اپنے گھروں سے نکال دیا۔ خالہ ہلچل خوشی سے ناچتے ہوئے گھر واپس آ گئیں۔
"لوگوں کے گھروں کی چیزیں درست کر آئی ہو؟" خالو ہلاگلا نے خالہ ہلچل کو اتنی جلدی دروازے کے اندر آتے ہوئے دیکھا تو پوچھا۔
"مجھے تو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی، انہوں نے کام کروائے بغیر ہی مجھے بھیج دیا۔" خالہ ہلچل نے جھومتے ہوئے جواب دیا۔
"تم نے کام ٹھیک کرنے کی بجائے مزید بگاڑ دیا ہوگا، جس سے سب نے تمہیں واپس بھیج دیا۔" خالو ہلاگلا خالہ ہلچل پر برس پڑے اب پھر دونوں کی لڑائی شروع ہو گئی۔
"میں نے کہاں کام بگاڑا ہے؟ بھاگے تو تم تھے ناں، تمہیں کس نے کہا کہ راکٹ کی طرح بھاگو، نہ تم بھاگتے نہ یہ سب ہوتا۔" خالہ ہلچل نے منہ پھلا لیا۔
"اچھا اچھا! یوں منہ نہ پھلاؤ، جا کر کھانے کو کچھ لے کر آؤ بہت زوروں کی بھوک لگی ہے۔" خالو ہلاگلا خالہ ہلچل کو مناتے ہوئے بولے۔
"ارے میں نے کچھ نہیں بنایا، تم نے کون سا سودا لے کر دیا تھا؟ جاؤ جا کر بازار سے لے آؤ۔" خالہ ہلچل مان جانے کے بعد بتیسی دکھا کر بولیں تو خالو ہلاگلا نے گھورکر خالہ ہلچل کو دیکھا اور باہر کھانا لینے چل پڑے۔
"خالو ہلاگلا ذرا آرام سے چلیے کہیں پھر نہ ہمارے گھروں کی چیزیں گر جائیں۔" راستے میں لوگوں کی آوازیں خالو ہلاگلا کے کانوں میں گونج رہی تھیں، کَلّو قصائی نے تو ان کی خوب بےعزتی کی، خالو ہلاگلا کو جس بات کا ڈر تھا اب وہ ہو گیا تھا، لوگ باری باری اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے تھے خالو ہلاگلا نے بڑی مشکل سے جان بچائی اور کھانا لے کر گھر آئے۔
0 Comments