کہانی (اصل مقصد ۔۔۔۔۔۔اصل راستہ)
تحریر حافظ نعیم احمد سیال ملتان۔
جنگل کے درمیان ہرے بھرے درخت تھے۔ درختوں کے ساتھ ہی ایک ندی بہتی تھی۔ ندی کا پانی بہت میٹھا تھا۔ تمام جانور اس ندی سے پانی پیتے، اپنی پیاس بجھاتے ،سخت گرمی میں بارشوں میں نہاتے اور خوب مزے کرتے۔ بادل آتے اور مزے مزے کی بارش برسا کر چلے جاتے۔ مؤنث جانور اس ندی سے پانی بھر کر لاتیں اور اپنے گھر کا کام کرتیں۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا ،وقت بدلا ،پہلے والا زمانہ نہ رہا۔ بے حسی عروج پر پہنچی ہوئی تھی اور نیک دل حکمرانوں کی جگہ ظالم حکمرانوں کی حکومت آگئی۔
ایک دفعہ ایک ہرنی پانی بھر کر لا رہی تھی، ساتھ ہی خرگوش کا گھر تھا ،ہرنی کو پانی کا گھڑا اٹھانے میں بڑی مشکل پیش آ رہی تھی۔ کل رات سے ہرنی کی طبیعت بہت خراب تھی اسے تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی۔ وہ رات کو صحیح طرح سو بھی نہ سکی۔ ساری رات بخار اور سر درد میں تڑپتی رہی۔ لیکن صبح اٹھ کر اس نے گھر کے کام کرنے تھے اس کا شوہر ہرن صبح سویرے ہی کام دھندے پر چلا جاتا اور رات کو دیر سے واپس آتا. مہنگائی کے دور میں ہرن کی آمدنی اتنی نہیں تھی کہ وہ گھر کا گزارہ کرتا اسی لئے اسے مقررہ وقت سے زیادہ کام کرنا پڑتا تھا بیچارہ دن رات محنت کرکے تھک جاتا لیکن پھر بھی اسے اتنی ہی روزی ملتی کہ وہ اپنے گھر کا گزارا کر پاتا۔ دونوں میاں بیوی غریبی کی زندگی بسر کر رہے تھے ان کے یہ حالات دیکھ کر تمام جانور کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ لیکن کوئی کسی کی مدد نہ کر پاتا تھا کیونکہ تمام جانور خود پورے سورےتھے۔ جنگل میں اس دفعہ جس کی حکومت آئی تھی اس سے مہنگائ کنٹرول نہیں ہورہی تھی۔ عوام کا سکھ چین سب لٹ گیا تھا اس دفعہ گدھے نے زبردستی دھاندلی کر کے شیر کو نااہل کرنے کے بعد اپنے آپ کو وزیراعظم کی پوسٹ پر لا کھڑا کیا اور کوئی کچھ بھی نہ کر سکا ۔جیسے ہی گدھے کی حکومت آئی مہنگائی روز بروز بڑھتی گئی جنگل کی زمین نے اجرت لیے بغیر گھاس دینے سے انکار کر دیا۔ ہوا چلتی تو اس کے بدلے تمام جانوروں کے گھر سے کچھ قیمتی چیزیں لے اڑتی۔ بادل آتے تو پیسے لیے بغیر برسنے سے انکار کر دیتے۔ ندی ناصرف بغیر پیسے لئے پانی دینے سے انکار کر تی رہی بلکہ روز بروز اجرت میں اضافہ بھی کرتی رہی۔ تمام جانور پریشان تھے کہ اب کریں تو کیا کریں ادھر سے بہت سے جانور حکومت کی نت نئی پالیسیوں اور نئے ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے بے روزگار ہوگئے تھے۔ ہرن بھی بےروزگار ہو گیا تھا اور مختلف قسم کی مزدوری کر کے اپنا گزارا کر رہا تھا۔ ہرنی نے ندی کو منہ مانگے پیسے دیے اور گھڑا اٹھا کر چل پڑی ابھی وہ تھوڑا چلی ہی تھی کہ لڑکھڑا کر گر پڑی۔ خرگوش یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ ہرنی کا سارا پانی بہہ چکا تھا اس نے گھڑا اٹھایا اور دوبارہ ندی کے پاس جا کر بولی "پیاری ندی میرا گھڑا گر گیا ہے پلیز مجھے آدھا گھڑا پانی دے دو" ندی بولی "جاؤ جاؤ میرے پاس مفت پانی نہیں ہے میں نے بادل کا بہت سارا قرضہ اتارنا ہے وہ بغیر قرضہ اتارے نہیں برسے گا اگر میں تم کو مفت پانی دیتی رہی تو ایک نہ ایک دن پانی ختم ہو جائے گا اور پھر میں سوکھ جاؤں گی پیسے ادا کرو اور پانی لے جاؤ" یہ سن کر ہرنی بہت پریشان ہوئی خرگوش نے بھی ندی کو بہت سمجھایا لیکن ندی بالکل نہ مانی۔ خرگوش نے کہا "آؤ بادل کے پاس چلتے ہیں اس کی منتیں کرتے ہیں کیا پتہ اس کو رحم آجاۓ اور وہ برسنے لگے" ہرنی خرگوش کے ساتھ بادل کے پاس پہنچ گئی۔
"بادل بھائی! میں بہت پریشان ہوں۔ میرے گھر میں پانی نہیں اور میری طبیعت بھی بہت خراب ہے پلیز آج کے دن برس جاؤ میں تمہیں دعائیں دوں گی" ہرنی نےبادل سے التجا کی۔
بادل نے ناگواری سے ہرنی کو دیکھا اور بولا۔
"دریاؤں نے مجھے اپنا پانی پینے سے منع کر دیا ہے میں اپنی پیاس نہیں بجھا پاتا تم جانوروں کو پانی پینے کے لئے کیا دوں گا؟ اجرت لینے کے ساتھ ساتھ دریا اب ٹیکس بھی مانگنے لگا ہے۔ جو میں ادا نہیں کر سکتا اس لئے میں بہت مجبور ہوں۔ جاؤ مجھے خود اپنی زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔" بادل نے ہاتھ جوڑ تے ہوۓ کہا توہرنی خرگوش کے ساتھ واپس چل پڑی۔ راستے میں انہیں ایک بکری ملی وہ بھوک سے بلبلا رہی تھی ایسے لگتا تھا کہ وہ کئی دنوں کی بھوکی ہے۔
"بی بکری کیا ہوا؟" ہرنی اور خرگوش نے مل کر پوچھا۔
"کیا بتاؤں خرگوش بھیا اور ہرنی بہن! زمین نے گھاس اگانا چھوڑ دیا ہے۔ کہتی ہے پیسے لاؤ میں پیسے کہاں سے دوں۔؟ میرے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے کیا کروں؟" بی بکری زور سے چلائی۔
"ہاں بہن ایسا ہی ہے پتا نہیں کیا ہو گیا ہے ہمارے ملک (جنگل) کو ،افراتفری پھیل گئی ہے۔ جب سے یہ گدھا وزیراعظم بنا ہے۔ ہم تو سارے پریشان ہوگئے ہیں۔ پتہ نہیں کیا کیا پریشانیاں گھیرے ہوۓ ہیں۔ ہائے ہائے کیا زمانہ تھا جب شیر کی حکومت ہوتی تھی ہر چیز سستی تھی بلکہ مفت تھی۔ بادل مفت برستے تھے ندی مفت پانی دیتی تھی اور گھاس مفت اگتی تھی۔ لیکن اب تو ان سب نے نظریں پھیر لی ہیں اور پیسے مانگتے ہیں" ہرنی نے جواب دیا۔
"آؤ چلیں گدھے وزیراعظم کے پاس چلتے ہیں اور انہیں اپنی پریشانی بتا کر احساس دلاتے ہیں۔" یہ کہتے ہیں تینوں وزیراعظم گدھے کے پاس پہنچ گئے اس وقت گدھادولتیاں مارنے کی پریکٹس کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ ڈھینچوں ڈھینچوں کے گیت بھی گا رہا تھا۔ وہ تینوں جیسے ہی اندر جانے لگے نوکروں نے انہیں روک لیا۔
"تمہیں کس سےملنا ہے؟" کوا آگے آ کر بولا۔
"ہم وزیر اعظم ہاؤس آئے ہیں تو صاف ظاہر ہے وزیراعظم سے ہی ملیں گے۔" خرگوش آگے بڑھ کر بولا۔
"وزیراعظم اس وقت ریاض کرنے میں مصروف ہیں اور ڈانس (دولتیاں مارنے) کی پریکٹس کر رہے ہیں یہ نہ ہو دو تین دولتیاں وہ تمہیں مار دیں آج وزیراعظم کسی سے نہیں ملیں گے۔" کوے نے یہ کہتے ہی دروازہ بند کر دیا اور تینوں منہ لٹکائے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
جنگل میں مہنگائی روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ کسی کے پاس کوئی حل نہیں تھا۔ بہت سے جانور بھوکے مرنے لگے تھے ہسپتال میں جانور ڈاکٹروں نے علاج کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ کئ کئ ماہ سے ان کی تنخواہیں نہیں دی جا رہی تھیں بہت سے جانور ابتدائ طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے مرنے لگے ۔
ریچھنی کویہ غم تھا کہ اس کے شوہر کا اگر وقت پر چیک اپ اور علاج ہو جاتا تو شاید اس کا شوہر بچ جاتا۔اس کے شوہر کی زندگی میں اضافہ ہوجاتا اور چھوٹے چھوٹے بچے یتیمی سے بچ جاتے اسی لیے وہ اپنے بچوں کو لیے پورے جنگل میں سوگ مناتی پھرتی رہتی اور ہر وقت چیختی چلاتی رہتی۔
نیا نویلا جوڑا کبوتر اور کبوتری بھی غم سے ہلکان ہوتے رہتے کیونکہ ان کا پہلا بچہ بروقت علاج نہ ملنے کی وجہ سے اللہ تعالی کے پاس چلا گیا تھا۔ کبوتری کتنی خوش تھی کہ وہ ماں بن گئی ہے لیکن اس کی یہ خوشی فورا" ختم ہوگئ جب ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ کا بچہ پیدائشی ہی بیمار تھا لیکن جب اس کا علاج نہ ہوا تو وہ چل بسا۔
جنگل میں اداسی کی حالت تھی۔ گدھے کو تو کسی کی پروا نہیں تھی جانوروں کی ساری خوشیاں ماند پر گئی تھیں ہر کسی کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے ایسی فضا کبھی بھی جنگل میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔
آخر ایک دن تمام جانور سر جوڑ کربیٹھ گۓ اور اس کا حل سوچنے لگے آخر ان کے ذہن میں ایک ترکیب آئ جانوروں کے ایک وفد نے وزیراعظم سے ملنے کا پروگرام بنایا پہلے تو گدھا انکار کرتا رہا بڑی مشکل سے اس نے جانوروں کو ملنے کا وقت دیا آخر مقررہ وقت پر تمام جانور وزیراعظم سے ملنے پہنچ گئے۔ انہیں ایک ہال میں بٹھا دیا گیا وزیراعظم کی تشریف آوری ہوئی تمام جانور ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ سب سے پہلے تو وزیراعظم نے ان سب کو ایک ایک دولتی ماری اور پھر ڈھینچوں ڈھینچوں کا راگ الاپتے ہوۓ اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گۓ۔
"جی فرمائیں کیا کام ہے؟" گدھا بولا۔ یہ سنتے ہی بزرگ ہاتھی کھڑا ہوگیا اور بولنے لگا
"بادشاہ سلامت آپ جنگل کا حال دیکھ رہے ہیں ہم سب کی خوشیاں ختم ہوگئی ہیں تمام جانور بنیادی سہولیات سے محروم ہوچکے ہیں اوپر سے اتنی مہنگائی اور پھر ندی کا پانی دینے اور زمین کا گھاس اگانے سے پہلے معاوضہ طلب کرنا ،ایسا تو زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوا آپ ہم پر رحم فرمائیں۔" ہاتھی یہ کہتے ہی بیٹھ گیا ۔بکری بولی "بادشاہ سلامت میں بھوک سے مر ی جا رہی ہوں ۔کافی دنوں سے گھاس نہیں کھایا میرے دو بچے بھوک سے مر چکے ہیں۔" بکری کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے
"تو پھر میں کیا کروں؟" گدھا زور سے چلایا "تم سب نے ہی مجھے منتخب کیا تھا اور میں کوئی برا بھی نہیں کر رہا جنگل کی بہتری کے لیے ایسے کر رہا ہوں، تمہیں اندر کے مسائل کا علم نہیں۔ ملک پر کافی سارا قرضہ ہے وہ اتارنا ہے۔ جنگل کو خوشحال بنانے کے لئے مجھے تمہارے ساتھ کی ضرورت ہے میرے ساتھ دینے کی بجائے الٹا شکایت کی پٹاری لے کے آ گئے ہو، جاؤ دفع ہو جاؤ۔"
یہ کہتے ہیں گدھے نے سب کو ایک ایک دفعہ پھر دولتی ماری اور ڈھینچوں ڈھینچوں کا راگ سنا کر بھگا دیا تمام جانور منہ اٹھائے واپس چلے آئے گدھے نے کسی کی بھی نہیں سنی تھی۔ "دیکھو لگتا ہے ہم سے ہی کچھ غلطیاں ہو رہی ہیں شاید اللہ تعالی ہم سے ناراض ہو چکے ہیں، ورنہ ایسے ظالم حکمران اللہ تعالی ہمارے سروں پر نہ ڈالتا اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہم اپنا اصل مقصد چھوڑ چکے ہیں" بزرگ ہاتھی گویا ہوا وہ اس جنگل میں سب سے زیادہ عمر کا تھا تمام جانور اسے اپنا بڑا مانتے تھے اور اس کی باتوں پر عمل کرتے تھے انہوں نے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی کوشش کی ۔تمام جانوروں کی خطائیں اور غلطیاں سب کے سب نظروں کے سامنے آگئیں۔ ہرن جب کام پر جاتا تو دھوکہ دہی سے اپنا مال فروخت کرآتا، خرگوش نے زبردستی اپنے بھائی کی زمین پر قبضہ کر کے اپنے لئے گھر بنا لیا تھا بکری روزانہ اپنے بچوں کے لئے ہمسایوں سے لڑتی اور انہیں خوب برا بھلا کہتی۔ وہ انھیں تکلیف دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی۔ سب جانور دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنے اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ محبت ،قربانی، ہمدردی، ایمانداری، سب جنگل سے جا چکی تھیں اور احساس بھی کب کا رخصت ہو چکا تھا۔
بزرگ ہاتھی بولا "ہم سب کو پھر ایک ہونا ہوگا برائیوں سے بچنا ہوگا نیکیوں کے دروازے کھولنے ہوں گے اللہ کو راضی کرنا ہوگا ،پھر شاید ہم پر جو آزمائشیں ہیں وہ ختم ہوجائیں اور جنگل کا سکھ چین واپس آ جائے" تمام جانور بزرگ ہاتھی کی باتوں کو غور سے سن رہے تھے اس دن خوب انہوں نے اللہ تعالی سے گڑ گڑاکر اپنے خطاؤں کی معافی مانگی اور دل میں عہد کیا کہ وہ برائیوں کو چھوڑ کر نیکیوں کی طرف آئیں گے اور امن کے پھول کھلائیں گے۔ کچھ دنوں بعد محبت، قربانی، ہمدردی ،ایمانداری اور احساس اس جنگل میں خوشی خوشی واپس آ چکے تھے ۔اگلی صبح تمام جانوروں نے دیکھا کہ گدھا خود سب کے گھروں میں جاکر جانوروں کی پریشانیاں سن رہا ہے اور ان کے مسائل حل کر رہا ہے ،ندی بہت تیزی سے بہہ رہی ہے بادل خوشی خوشی برس رہے ہیں اور زمین سرسبز ہوچکی ہے جنگل میں منگل کا سماں پیدا ہوچکا تھا اور ثابت ہوگیا تھا کہ جو قومیں اپنے اصل مقصد اور راستے سے ہٹ جائیں تو ان کو اس طرح کی پریشانی گھیر لیتی ہیں۔
0 Comments