تحریر حافظ نعیم احمد سیال
’’رول نمبر 24 کھڑا ہو جائے۔‘‘ سرندیم صاحب کی آواز کلاس میں گونجی، یہ سنتے ہی ولید اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔
’’جج۔۔۔جج۔۔۔جی سر‘‘۔
’’تمہاری داخلہ فیس ابھی تک نہیں آئی سب لڑکوں نے داخلہ فیس جمع کروا دی ہے، کیا تم نے امتحان نہیں دینا؟ اگر پانچ دن کے اندر تمہاری فیس نہ آئی تو تمہارا داخلہ نہیں بھیجا جائے گا اگر اپنا سال بچانا ہے تو فیس جمع کرادو ورنہ گھر بیٹھ جاؤ، ویسے بھی پانچ دن کے بعد فیس جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے۔‘‘ سر ندیم صاحب نے غصے سے کہا اور وہ آنکھوں میں آنسو لیے اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
’’بیٹا آج تم زیادہ ہی پریشان دکھائی دے رہے ہو، کیا بات ہے‘‘؟ اسکول سے واپسی پر ولید کی امی نے پوچھا۔
’’امی میں نے ابھی تک داخلہ فیس جمع نہیں کرائی تقریباً تمام لڑکوں نے جمع کرا دی ہے، سر جی نے کہا ہے کہ پانچ دن کے اندر فیس جمع نہیں کرائی تو داخلہ نہیں بھیجا جائے گا ماں میرا سال ضائع ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔مم ۔۔۔۔۔۔مم ۔۔۔۔۔۔میں کیسے بندوبست کروں؟‘‘ ولید یہ کہتے ہی رونے لگ گیا۔
’’بیٹا صبر کرو اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھو، وہ کوئی نہ کوئی صورت پیدا کر دے گا چل اب کھانا کھا لے میں نے تیرے لیے کھانا گرم کر رکھا ہے۔‘‘ ماں نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔ اس نے ہاتھ منہ دھویا اور کھانا کھانے لگا۔
ولید اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ کچھ سال پہلے اس کے والد اچانک ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اس دنیا سے چل بسے تھے گھر کی ساری ذمہ داری اس کی والدہ کے کندھوں پر آن پڑی تھی انہوں نے لوگوں کے گھر کام کاج کرکے ولید کی پرورش کی تھی اور بڑی مشکل سے اس کی تعلیم کا خرچہ برداشت کر رہی تھیں کچھ ماہ سے ان کی بھی طبیعت خراب تھی اس لیے وہ محنت مزدوری نہیں کر سکتی تھیں کسی کے گھر نہ جا سکیں اس طرح گھر میں فاقوں نے ڈیرے جما لیے اب ولید میٹرک میں تھا اس نے میٹرک کا امتحان دینے کے لئے داخلہ فیس جمع کرانی تھی گھر میں پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی اس لیے وہ اپنی داخلہ فیس نہ بھر سکا۔
ِ”مم ۔۔۔میں محنت مزدوری کروں گا ۔۔۔مم ۔۔۔میں کام کروں گا۔ مجھے اس سے جو پیسے ملیں گے اُس سے داخلہ فیس جمع کراؤں گا اور اپنی تعلیم جاری رکھوں گا۔“ ولید سوچوں کی یلغار میں پھنسا ہوا رات کو سونے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
اگلے دن اسکول سے واپسی پر اس نے ایک ہوٹل میں برتن مانجھنا شروع کر دیئے جس سے اُسے کچھ آمدنی ہونے لگی۔ ہوٹل کا مالک اسے روازنہ پچاس روپے دیتا تھا لیکن یہ پیسے تو اس کے لئے بہت کم تھے وہ پانچ دنوں میں تو سات سو جمع نہیں کر سکتا تھا۔ بہر حال اسے ایک امید تھی، آس تھی وہ اسی امید اور آس پر ہی کام کر رہا تھا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ وہ اس ہوٹل میں کام علاوہ اور کوئی کام بھی کرے لیکن وہ ایسا نہ کر سکا۔
”ماں اب یہ میں اڑھائی سو کا کیا کروں گا؟ پانچ دن گزر گئے مجھ سے صرف اتنا ہی بدوبست ہوا ہے آج آخری تاریخ ہے اور سرجی میرا داخلہ نہیں بھیجیں گے، ماں میرا سال ضائع ہو جائے گا ۔۔۔ میری محنت بے کار ہو جائے گی میں ان پیسوں کا کیا کروں گا؟“۔ وہ صبح سویرے اسکول جانے سے پہلے ہی ماں کی گود میں سر رکھ کر رو رہا تھا۔
’’بیٹا صبر کرو۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو قسمت میں جو کچھ لکھا ہوگا وہ ہو کر رہے گا، چلو اب تم اسکول جانے کی تیاری کرو۔“ ماں نے اس کے لیے ناشتا تیارکیا ناشتا کرنے کے بعد اس نے بے دلی سے بستہ اٹھا لیا اور باہر نکل پڑا۔
”شاید میری قسمت میں امتحان دینا نہیں، میں کبھی بھی نہیں پڑھ سکوں گا میری ماں نے جو سپنے دیکھے تھے وہ ٹوٹ جائیں گے، میری خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی“ وہ سارے راستے سوچوں کی یلغار میں پھنسا ہوا بوجھل قدموں سے اسکول کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ابھی اس نے تھوڑا سا سفر ہی طے کیا ہو گا کہ اچانک اسے کسی کے رونے کی آواز آئی۔ وہ اس آواز کی سمت بڑھنے لگا اس نے دیکھا کہ ایک بچہ کندھے پر بستہ لٹکائے فٹ پاتھ پر بیٹھا رو رہا ہے۔
’’کیا ہوا دوست! کیوں پریشان ہو؟ کیا تمہیں اسکول سے دیر نہیں ہو رہی؟“ ولید نے اس کے قریب جا کر پوچھا۔
’’تت۔۔۔۔۔۔تت۔۔۔۔۔۔تم کون ہو؟ میں تمہیں نہیں جانتا، تم بھی تو اسکول جا رہے ہو۔“ وہ لڑکا بوکھلا گیا۔
’’ہاں میں اسکول جا رہا ہوں لیکن تمہیں روتا ہوا دیکھ کر میرا دل پسیج گیا، لگتا ہے تم پریشان ہو، مجھے بتاؤ شاید میں تمہاری پریشانی دور کر سکوں۔‘‘
’’تم میری کیا پریشانی دور کر سکو گے؟ مجھے تو تم خود پریشان دکھائی دے رہے ہو، تمہاری سوجھی ہوئی آنکھوں سے لگ رہا ہے کہ تم بھی روتے رہے ہو، کیا یہی بات ہے نا۔۔۔۔۔۔“وہ لڑکا بولا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔۔ہاں یہی بات ہے۔ میرے پاس تو داخلہ فیس جمع کرانے کے پیسے نہیں ہیں، آج آخری تاریخ ہے اور مجھ سے بندوبست نہیں ہو سکا، میں تو اس لیے پریشان ہوں لیکن تمہیں کیا ہے؟ تم کیوں رو رہے تھے؟“ ولید نے پوچھا۔
’’میرے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے، ماں باپ وفات پاچکے ہیں چچا کے گھر رہ رہا ہوں، شام کو نوکری کرتا ہوں اور صبح اسکول جاتا ہوں، چچا میری تعلیم کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے اس لیے سارا خرچہ مجھے ہی برداشت کرنا پڑتا ہے اتنی سخت محنت کے باوجود مجھ سے صرف پانچ سو روپے ہی اکٹھے ہوئے ہیں جب کہ داخلہ فیس سات سو روپے ہے، بس اللہ کی مرضی جو قسمت میں ہو گا دیکھا جائے گا۔" وہ لڑکا افسردگی سے بولا۔
"پانچ سو روپے ۔۔۔تت۔۔۔تت۔۔۔تم امتحان ضرور دو گے تمہاری داخلہ فیس ضرور جائے گی یہ ۔۔۔یہ ۔۔۔یہ لو، دو سو رپے تم داخلہ فیس جمع کراؤ میرے پاس صرف اڑھائی سو روپے ہی ہیں میرا سال تو ضائع ہو ہی جائے گا تم تو اپنا سال بچاؤ۔" یہ کہتے ہی ولید نے دو سو روپے اس کی طرف بڑھا دیئے۔
’’نن۔۔۔نن۔۔۔ نہیں دوست تم داخلہ فیس جمع کراؤ میں تمہیں پیسے دیتا ہوں میں اپنا سال بچانے کی خاطر تمہارا سال کیسے ضائع کردوں؟ یہ۔۔۔یہ لو تم اپنے پیسے پورے کرو اور اسکول جاؤ۔“ اس لڑکے نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے سارے پیسے ولید کو دینا چاہے۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تمہارے پاس پانچ سو رپے ہیں جب کہ میرے پاس صرف اڑھائی سو۔ تمہارے پاس زیادہ پیسے ہیں اس لیے حق تمہارا بنتا ہے پلیز جاؤ داخلہ فیس جمع کرادو، تمہاری مہربانی ہو گی جاؤ دوست جاؤ دیر ہو جائے گی۔‘‘ ولید نے اس لڑکے کو آگے کی طرف دھکیلا اور آپ خود پیچھے ہٹنے لگا اس کی آنکھوں سے آنسو تیرنے لگے۔
’’شاباش بچوں شاباش میرے ملک کو تمہارے جیسے محنتی بچوں کی ہی ضرورت ہے تم ضرور پڑھو گے تم دونوں کی ہی داخلہ فیس جائے گی تمہارے پاس پیسے نہیں تو کیا ہوا میں ادا کروں گا تم فکر نہ کرو‘‘ ولید نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سامنے کھڑے ہوئے اسکول کے پرنسپل صاحب کودیکھ کر حیران رہ گیا۔
’’سر آپ۔۔۔‘‘ ولید نے حیرانی سے پوچھا۔
"ہاں میرے بچو! میں نے تمہاری سب باتیں سن لی ہیں تم واقعی میرے ملک کا مستقبل ہو مجھے تمہارے اندر اپنے ملک کا مستقبل نظر آتا ہے مجھے امید ہے تم پڑھ لکھ کر اس ملک کا نام روشن کرو گے۔ مجھے فخر ہے تم دونوں پر۔۔۔" یہ کہتے ہی پرنسپل صاحب نے ان دونوں کو گلے لگا لیا جبکہ ولید آنکھوں میں آنسو لیے خوشی سے مسکرانے لگا۔
0 Comments