(عنوان: پیام رمضان)

تحریر: حافظ نعیم احمد سیال:ملتان۔

         "یا اللہ! اب بس کر دے، تیرے نبی محمد مصطفیٰ‎‎ﷺ  کی امت رو رہی ہے، تڑپ رہی ہے، اب ہم مزید آزمائش کے قابل نہیں رہے۔" ابو کی ہچکیوں بھری آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی۔ وہ اس وقت تہجد ادا کر رہے تھے۔

        15 سالہ روزینہ نے اپنے ابو کو یوں روتے ہوئے دیکھا تو تڑپ اٹھی، وہ ایک جگ میں پانی بھر کر لائی اور پلیٹ میں کھجور کے کچھ دانے۔

        "لیں ابو! سحری کر لیں، تھوڑا سا وقت رہ گیا ہے۔" اس نے کھجوروں کی پلیٹ اپنے ابو کے سامنے کی۔ باپ نے شفقت سے بیٹی کی طرف دیکھا جہاں بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے، بیٹی کا چہرہ پل بھر میں ہی مرجھا گیا تھا۔

        "نا بیٹی! کھجوریں تم کھا لو، میں پانی سے ہی روزہ رکھ لیتا ہوں۔" باپ نے اپنی بھوک بیٹی پر قربان کر دی۔ پانی پی کر وہ مسجد کی طرف چل دیے جب کہ روزینہ نماز ادا کرنے کے بعد گھر کے کاموں میں لگ گئی۔

        دو سال پہلے زندگی کتنی خوش حال تھی، روزینہ کے ابو ایک پرائیویٹ سکول میں ٹیچر تھے، روزینہ 15 سال کی ہو چکی تھی مگر اس نے کبھی بھوک کا ذائقہ نہیں چکھا، جس چیز کی فرمائش کی، ابو نے لا کر دے دی۔

        مگر پھر اچانک ہی کورونا نامی وبائی مرض پھوٹ پڑا اور یہ مرض بھوکے شیر کی طرح لاکھوں انسانوں کی زندگیاں نگلنے لگا، ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا، روزگار بند ہو گئے، لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے اور ایک جگہ جمع ہونے سے روک دیا گیا، بےروزگاری کروڑوں انسانوں کے گلے لگ گئی، یہاں تک کہ غریب اور متوسط طبقہ بالکل ہی پِس کر رہ گیا۔

        روزینہ کے ابو بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے گو کہ بہت امیر نہیں تھے، لیکن آمدنی اتنی تھی کہ سکون سے گزر بسر ہو سکتا تھا۔

        سکول بند ہوئے تو انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا، اب حال یہ تھا کہ وہ کسی دوسری جگہ بھی ملازمت نہیں کر سکتے تھے، عالمی وبا نے تمام اداروں کو ہی متاثر کیا تھا، اوپر سے ان کی بیگم یعنی روزینہ کی ماں جوانی میں ہی اس وبائی مرض کی لپیٹ میں آ گئی اور سب کو روتا دھوتا چھوڑ کر اللہ کے پاس چلی گئی۔

        روزینہ نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یوں ہنسی خوشی زندگی غموں میں تبدیل ہو جائے گی، اس نے اپنی آنے والی زندگی کے لیے پتہ نہیں کیا کیا خواب دیکھ رکھے تھے، وہ اپنے لئے ہر وہ سکھ حاصل کرنا چاہتی تھی جو ہر ایک نوجوان لڑکی کی خواہش ہوتی ہے۔

        عصر کی نماز کے وقت وہ خوب اللہ سے گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہی تھی، رو رو کر وہ اللہ تعالی کو اس کی رحیمی، کریمی کا واسطہ دے رہی تھی، اسے پتا تھا کہ یہ مہینا بہت بابرکت والا ہے، اس مہینے اللہ گناہ گاروں کی بھی سنتا ہے اور سب کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے اور اس مہینے کے صدقے اللہ ضرور سب مسلمانوں کو آزمائش سے نکالے گا، وہ جانتی تھی کہ اللہ تعالی نے یہ مہینا نازل ہی اس لئے کیا ہے کہ گناہ گار لوگ اپنی بخشش کروا سکیں، اللہ کو راضی کر سکیں، یہی اس مہینے کا پیغام ہے۔

        پھر اچانک ہی دروازہ بجا اور اس کی عبادت کا تسلسل ٹوٹ گیا، روزہ کھلنے میں صرف چند منٹ ہی رہ گئے تھے اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ابو کھڑے تھے، آج بھی ابو کے ہاتھ میں کھجوروں کا شاپر تھا، کجھوروں کا شاپر لیتے ہوئے وہ سسک رہی تھی اور ابو اپنی بے بسی پر رو رہے تھے۔