تحریر: حافظ نعیم احمد سیال
فرسٹ ٹرم کا رزلٹ آؤٹ ہوا تھا اور میں چوتھے نمبر پر تھا۔ مجھے پکا یقین تھا کہ سر نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے کیوں کہ جب سے میں ان کی کلاس میں آیا تھا ان کا رویہ میرے ساتھ ایسا ہی تھا وہ کلاس نہم کے انچارج تھے، آٹھویں پڑھنے کے بعد ہمیں ان کے پاس ہی جانا تھا اگر مجھے پتہ ہوتا کہ سر میرے ساتھ ایسا کریں گے تو میں نویں کلاس کے لئے کسی اور سکول میں داخلہ لیتا یہاں بالکل بھی نہ پڑھتا، مگر اب میں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا کیوں کہ اب وقت گزر چکا تھا اور دوسرے سکولوں میں داخلے بند ہو چکے تھے ۔میں نے بے دلی سے اپنی فائل اٹھائی اور اسے کھول کر دیکھنے لگا پوزیشن والے خانے میں میرا نمبر چار لکھا ہوا تھا فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ آنے والے لڑکے مجھ پر ہنس رہے تھے، میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے دل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے اپنے پیپرز دیکھے میرے حل شدہ پیپرز بالکل ٹھیک تھے کہیں بھی کوئی غلطی یا کٹنگ نہیں تھی اور نہ ہی کسی جگہ میں نے ریمور کا استعمال کیا تھا میں نے کافی محنت کی تھی لیکن مجھے پتہ تھا کہ میری پوزیشن نہیں آئے گی کیوں کہ سر شروع سے ہی میرے ساتھ ایسا رویہ رکھتے آ رہے تھے ،کلاس میں میں جب بھی ٹیسٹ دیتا میں اگرچہ صاف ستھرا لکھتا لیکن سرمجھے آدھے نمبر ہی دیتے تھے یعنی بیس میں سے دس یادس میں سے پانچ، جبکہ باقی بچوں نے غلطیاں بھی کی ہوئی ہوتی تھیں کٹنگ اور ریمور کا استعمال بھی ہوتا تھا مگر سر ان کے بھی اچھے نمبر لگا تے تھے، سر ہمیں فزکس ، ریاضی اور کیمسٹری پڑھاتے تھے اور سر اپنے تمام مضامین میں میرے ساتھ ایسا کرتے یہاں تک کہ دیگر استاتذہ بھی جو باقی کتابیں پڑھانے آتے ان کو بھی سر نے یہی کہا ہوا تھا کہ نعیم کے نمبر پورے پورے نہ لگائیں بلکہ آدھے لگائیں، سر کی ان باتوں سے میرا دل خون کے آنسو روتا پتہ نہیں سر کو مجھ سے کیا دشمنی تھی وہ میرے ساتھ ایسا کیوں کرتے تھے اگر میں سر کو کہتا کہ سر میرے نمبر کم کیوں لگے ہیں سر کہتے بیٹا کافی ساری غلطیاں ہیں ۔میں پھر سر کو کہتا کہ میں نے ٹھیک ہی تو لکھا ہے۔۔۔ پھر سر مجھے واضح کرتے کہ یہاں تم نے قوما نہیں لگایا یہاں فل سٹاپ آنا تھا اور یہاں ڈیش لگانی تھی اور تمہاری لکھائی بھی ٹھیک نہیں اس وجہ سے تمہارے نمبر آدھے کٹ جاتے ہیں حالاں کہ میری لکھائی سب سے اچھی تھی میں نے خوشخطی کا کورس کیا ہوا تھا بس ایک آدھ جگہ رموز اوقاف کی غلطی ہو جاتی تھی جس کو پکڑ کر سر میرے آدھے نمبر کاٹ لیتے تھے اور اگر کبھی رموز اوقاف کی بھی غلطی نہ آتی تو سر لکھائی خراب ہونے کا بہانہ بنا کر میرے نمبر کاٹ لیتے۔
میں سر کی ہدایات پر عمل کرتا اور جب بھی ٹیسٹ یاد کرتا تو ساتھ ساتھ رموز اوقاف بھی ضرور یاد کرکے جاتا مگر پھر بھی نتیجہ وہی ہی ہوتا یعنی مجھے آدھے نمبر ہی ملتے۔ سیکنڈ ٹرم کا آغاز ہوا اب کی بار میں پانچویں نمبرپر تھا میری آنکھو ں سے آنسو جاری تھے میں نے سر سے پوچھنے کی کوشش کی مگر سر نے سختی سے ڈانٹ دیا اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ آئندہ اگر آپ نے مجھ سے پو چھنے کی کوشش کی تو بہت برا ہوگا۔
میں اپنے دل کو تسلی دینے لگا اور نئے سرے سے محنت کرنے لگا مگر سر کا رویہ نہ بدلا، مجھے اچھی طرح یاد ہے جب جمال کے نمبر دسمبر ٹیسٹ میں کم لگے تھے تو اس نے کلاس میں کتنا طوفان برپا کیا تھا اگلے دن وہ اپنے والدین کو بلا لایاجنہوں نے سر کی خوب بے عزتی کی تھی آخر کار سر کو مجبوراً دو نمبر بڑھانے پڑے کیوں کہ دو نمبر کے بڑھ جانے سے اس کی اول پوزیشن بن جانی تھی ،یہ سیشن ختم ہوا اور ہم دسویں جماعت میں آ گئے ان دنوں نویں کا بورڈ علیحدہ نہیں تھا نویں اور دسویں کے اکٹھے بورڈ کے امتحان ہوا کرتے تھے اس لئے ہمیں ایک سال مزید محنت کرنا تھی مگر سر کا رویہ میرے ساتھ ویسے ہی بدستور رہا، اب بھی سر میرے نمبر کم لگاتے تھے میں نے کئی بار سوچا کہ میں بھی اپنے والدین کو بلا لاؤں اور کہوں کہ سر میرے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں مگر میری ہمت نہیں ہوتی تھی مجھے استاد کا ادب سکھایا گیا تھا، استاد کے آگے بولنے سے منع کیا گیا تھا، مجھے گھر سے سختی کے ساتھ تاکید تھی کہ اگر سر آپ کی غلطی نہ ہونے کے باوجود پھر بھی آپ کو ڈانٹ دیں تو آپ نے آگے سے نہیں بولنا اس لئے مجھے پتہ تھا کہ اگر میں گھر جاکر بھی کچھ کہوں گا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا میں نے امی سے ایک دو دفعہ ذکر بھی کیا تھا اپنے ٹھیک حل شدہ ٹیسٹ بھی دکھائے تھے اور یہ بھی کہا تھا کہ نمبر دیکھیں کتنے کم لگے ہیں لیکن امی جان نے کوئی توجہ نہیں دی صرف یہی کہا تھا کہ استاد کا ادب کرنا ان کے سامنے نظریں جھکا کر رکھنا، ہم تیری ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں اس کے بدلے ہم تجھ سے صرف باادب رہنے کی امید کرتے ہیں ۔
وقت گزرتا رہا سکول کے فائنل امتحان نزدیک آ گئے یہ ہمارے سکول میں آخری امتحان تھے اس کے بعد بورڈ کے امتحان دینے تھے میں نے بہت محنت کی تھی اچھی طرح ساری کتابوں کو یاد کیا تھا مجھے پکی امید تھی کہ اب میں فرسٹ آؤں گا میں اپنی کلاس کے سب لڑکوں کو پیچھے چھوڑ دوں گا مگر جب رزلٹ آیا تو میرے سارے خوابوں پر پانی پھر گیا میں ایک دفعہ پھر چوتھے نمبر پر تھا میری نظریں سر پر جمی ہوئی تھیں اور سر مسکرا کر پوزیشن ہولڈرز طلباء کو مبارک باد اور انعامات دے رہے تھے۔
’’میں ایک دفعہ یہاں سے چلا جاؤں پھر میں سر سے کبھی بھی نہیں بولوں گا میری ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ جائے گی ۔‘‘میں نے دل میں سوچا اور کلاس روم میں داخل ہو گیا سر کلاس روم میں آچکے تھے سر کے ساتھ ساتھ باقی بچے بھی کلاس روم میں آ گئے کیوں کہ سب نے اپنی اپنی رول نمبر سلپ لینی تھی جب رول نمبر سلپ لینے کی میری باری آئی تو سر نے میرا نام پکارا میں آرام سے اپنی جگہ سے اٹھا اور سر کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا میرے دل میں غصہ تھا ۔
’’یہ لو بیٹا ۔۔۔‘‘سر نے رول نمبر سلپ مجھے پکڑائی اور مجھے پیار کرنے لگے میں نے جلدی سے سر کا ہاتھ پکڑا اور دوسری طرف کر کے اپنا منہ پھیر لیا کیوں کہ سر مجھے پیار کرنے کا حق نہیں رکھتے تھے میں آنکھوں میں آنسو لئے کلاس روم سے باہر نکلنے لگا ابھی میں دروازے تک پہنچا ہی تھا سر کی آواز میرے کانوں سے ٹکڑائی ۔
’’جا نعیم تو بورڈ میں ٹاپ کرے گا میں تجھے لکھ کر دیتا ہوں میری دعائیں تیرے ساتھ ہیں ۔‘‘سر کے ان جملوں کو میں نے مذاق سمجھا، میں جلد ازجلد اس سکول سے جاناچاہتا تھا کیوں کہ مجھے اب سکول میں اور سر میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی، بورڈ کے پیپرز شروع ہوئے اور مجھے پتہ ہی نہ چلا پیپرز کیسے گزر گئے پیپرز کے بعد فراغت ہی فراغت تھی اور مجھے خوشی تھی کہ ایسے سر سے جان چھوٹی اب کالج جاؤں گا تو وہاں اپنی مرضی سے پڑھوں گا ایک دن میں ایسے ہی انہی خیالوں میں گم تھا کہ سکول کے پرنسپل صاحب کی کال آ گئی ان کی آواز میں مسکراہٹ تھی اور وہ بہت خوش لگ رہے تھے ۔
’’نعیم کہاں ہو؟ تمہیں پتہ ہے اتنی بڑی خوشخبری تمہاری منتظر ہے تمہاری بورڈ میں پہلی پوزیشن ہے بورڈ والوں نے تمہیں بلایا ہے تاکہ کل کی تقریب میں تمہیں انعام سے نوازا جا سکے تم تیاری کر کے وقت پر پہنچ جانا میں بھی تمہیں وہی ملوں گا‘‘ یہ کہتے ہی پرنسپل صاحب نے فون رکھ دیا اس وقت سر کے یہ الفاظ پھر میرے کانوں میں گونجنے لگے ’’جا نعیم تو بورڈ میں ٹاپ کرے گا میں تجھے لکھ کر دیتا ہوں میری دعائیں تیرے ساتھ ہیں‘‘میری آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے اور میں اپنے ہی آنسوؤں میں شرمندگی سے گرتا چلا گیا مجھے پتہ چل گیا تھا کہ سر کا رویہ میرے ساتھ سخت کیوں تھا؟ اگلے دن میں نے جمال کا رزلٹ دیکھا کلاس میں اپنے آپ کو زبردستی فرسٹ پوزیشن پر لانے والا جمال دو مضامین میں فیل تھا۔
0 Comments