حافظ نعیم احمد سیال
وقت کافی بیت چکا تھا میں نے جلدی گھر پہنچنا تھا اس وقت میرے ساتھ میری بیگم اور میری ایک بچی تھی، میں ڈاکوؤں کے نرغے میں آگیا تھا، میری بیگم اور بیٹی سہمے ہوئے بہت دور کھڑے تھے۔
اچانک ایک ڈاکو میرے پاس آیا اور گرج آواز میں بولا۔
"جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ نکالو ورنہ میں تم سب کو گولی سے چھلنی کر دوں گا" یہ کہتے ہی اس نے پستول میری کنپٹی پر رکھ دیا اور اپنے دوسرے ساتھی کو اشارہ کیا تو وہ میری بیگم کی طرف بڑھنے لگا میری بیگم اور بچی نے اس وقت سونے کے زیورات پہنے ہوئے تھے ۔
میں اپنے دوست کی شادی سے گھر واپس آرہا تھا، خالد سے میری دوستی بہت گہری تھی ہم ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کو شریک کرتے اب اس کی شادی تھی تو اس نے بڑی چاہت سے مجھے بلایا تھا اور میں انکار بھی نہ کر سکا واپسی پہ آتے ہوئے نجانے یہ ڈاکو کہاں سے ٹپک پڑے اور ان کو کیسے پتہ چل گیا کہ میری بیگم اوربچی نے زیور پہنے ہوئے ہیں راستے میں ہی ہمیں روک لیا۔
"ٹھٹھ۔۔۔۔ٹھٹھ۔۔۔۔ ٹھہرو" میں نے اسے پکارا جو میری بیگم کی طرف بڑھ رہاتھا۔
"رک جاؤ! تم وہاں نہیں جا سکتے، جو کچھ ہمارے پاس ہے ہم وہ تمہیں دینے کے لیے تیا ر ہیں، بس تم میری بیگم اور بچی کو کچھ نہ کہو میں خود ان سے زیور اتروا کر تمہیں دے جاتاہوں" میں نے اٹک اٹک کر کہا یہ سنتے ہی ڈاکو مسکرایا۔
"ہمیں بے وقوف بنانے کی کوشش نہ کرو تم وہی جاتے ہی اپنی بیگم اور بچی کو لے بھاگو گے ۔ چل شیدے جا اپنا کام کر" اس نے اپنے ساتھی کو پھر اشارہ کیا وہ اور پھر آگے بڑھنے لگا۔
"نن۔۔۔نن۔۔۔۔ نہیں میں تم سے وعدہ کرتا ہوں ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے ہم تمہیں وہ دینے کے لیے تیار ہیں، تم اپنے ساتھی کو وہاں جانے سے منع کر دو" پتہ نہیں میری آواز میں کیا اثر تھا یہ سنتے ہی اس نے اپنے ساتھی کو روک دیا۔
"چلو جاؤ جلدی سے اپنی بیگم اوربچی کے زیور اتار کر لے آؤ اگر کوئی چلاکی دکھانے کی کوشش کی تو یہی سے فائر کھول دوں گا"یہ کہتے ہی اس نے پستول میری کنپٹی سے نیچے کیا اور مجھے جانے کا اشارہ کیا ۔
میری بیگم اور بچی یہاں سے بہت دور کھڑے تھے، میں جلدی سے ان کے پاس گیا اور انہیں زیور اتارنے کو کہا میں نے جیب سے چھو ٹا رومال نکالا اور اس میں زیور باندھ کر ڈاکوؤں کی طرف چل پڑا۔
"لو بھائی ہمارے پاس جو کچھ تھا وہ میں نے تمہارے حوالے کر دیا تمہارا بہت بہت شکریہ کہ تم نے مجھ پر اعتماد کیا اور میری بیگم اور بچی کو کچھ نہیں کہا" یہ کہتے ہی میں نے وہ زیور اس کے ہاتھوں میں رکھ دیا اس کے بعد میں نے بیگم او ر بچی کو ساتھ لیا اور گھر کی طرف چل پڑا مجھے خوشی تھی کہ میری بیگم اور بچی کو ڈاکوؤ ں نے کچھ نہیں کہا تھا اور نہ ہی ان پر کوئی غلط نگاہ ڈالی تھی۔
گھر پہنچتے ہی میرے قدم چونک گئے اورمیں ٹھٹک گیا بچی کے گلے میں سونے کا لاکٹ تھا۔
"یہ تم نے نہیں اتارا"؟ میں نے بیگم سے پوچھا۔
"شکر کرو یہ لاکٹ بچ گیا ہے ورنہ توسارا زیور چلا گیا ہے آج کل کے حساب سے تو اس زیور کی قیمت لاکھوں میں بنتی ہے"۔ میری بیگم نے مجھے کہا۔
"نہیں بیگم یہ وعدہ خلافی ہے میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ تمہیں اور بچی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے تو سارا زیور انہیں دے دوں گا، انہوں نے اپنا وعدہ نبھایا لیکن ہم اپنا وعدہ نہیں نبھا سکے، لاؤ جلدی سے یہ لاکٹ، میں انہیں دے آؤں"میں نے جلدی سے بچی کے گلے سے لاکٹ اتارا اور تیزی سے باہر نکل گیا وہاں پہنچا تو وہ دونوں ڈاکو ابھی اسی جگہ پرہی کھڑے تھے اورزیور نکال کر دیکھ رہے تھے۔ اچانک ہی ان کی نظر مجھ پر پڑ گئی اور انہوں نے مجھ پر پستول تان لیا انہوں نے سمجھا شاید میں پولیس کو ساتھ لے آیا ہوں ۔
"خبر دار اگر آگے بڑھنے کی کوشش کی یا ہمیں پولیس کے حوالے کرنے کی کوشش کی تو تمہیں بھون ڈالیں گے" ان میں سے ایک نے کہا۔
"نن۔۔۔ نن۔۔۔۔ نہیں بھائی میں پولیس کو نہیں بلا آیا اور نہ ہی تم سے یہ زیور لینے آیا ہوں، میں تو تم سے معافی مانگنے آیا ہوں یہ لاکٹ میری بچی کے گلے میں تھا میری بیگم اسے اتارنا بھول گئی تھی جب کہ میں تم لوگوں سے وعدہ کر چکا تھا کہ اگر تم میری بیگم اور بچی کو کچھ نہیں کہوگے تو جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ ہم تمہیں دے دیں گے، تم نے اپنا وعدہ نبھایا لیکن میں اپنا وعدہ نہیں نبھا سکا میں وعدہ خلاف نکلا اس بات کی میں تم سے معافی چاہتا ہوں یہ لاکٹ رکھ لو" یہ کہتے ہی میں نے وہ لاکٹ ان کی طرف بڑھا دیا۔
ڈاکو نے میری طرف دیکھا اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اس کے چہرے کے رنگ بدل رہے تھے اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے، پل بھر میں ہی اس کا دل نرم ہو گیا۔
"نا بھئی نا۔۔۔۔ یہ لاکٹ بھی رکھ لو اور یہ سارا زیور بھی رکھ لو آج تم نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا ہے نجانے کیوں میں برے راستے کی طرف چل پڑا تھا آج مجھے پتہ چلا ہے کہ اصل زندگی کیا ہوتی ہے دلوں کو سکون کیسے نصیب ہوتا ہے میں تمہیں گواہ بنا کر توبہ کرتا ہوں کہ یہ برا کام چھوڑ دوں گا چل بھئی رشید آج سے ہم حق حلال کمائیں گے ان کا زیور انہیں واپس کر دو" اس نے رشید کو کہا تو رشید نے سارا زیور مجھے واپس کردیا۔
"بھئی تمہا را بہت بہت شکریہ" یہ کہتے ہی دونوں نے اپنے آنسو صاف کیے اور آگے کی طرف بڑھ گئے میں انہیں حیرت سے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ میرا چھوٹا سا عمل ان کی ہدایت کا ذریعہ بنے گا۔
0 Comments