تحریر: حافظ نعیم احمد سیال
ایک جنگل میں ایک شیر رہتا تھا، وہ شیر بہت ایماندار تھا، اپنی رعایا کا خیال رکھتا تھا، سارا دن جنگل میں گھومتا رہتا اور رعایا کا حال احوال پوچھتا رہتا، جس جانور یا پرندے کو کوئی پریشانی ہوتی یا کسی کو کسی مدد کی ضرورت ہوتی تو شیر اس کی مدد ضرور کرتا۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ شیر جنگل میں گھوم رہا تھا اسے ایک چوہا زخمی حالت میں ملا، وہ درد سے کراہ رہا تھا، شیر نے اس سے پوچھا۔ "چوہے میاں کیا ہوا ہے تمہیں۔؟" چوہے نے ادب سے جواب دیا۔
"بادشاہ سلامت! میری اور بلی کی دشمنی تو صدیوں سے چلتی آ رہی ہے، بلیوں کا خاندان ہماری نسل کو ختم کرنا چاہتا ہے مگر میں اپنی نسل کی بقا کے لیے بلیوں سے جنگ لڑ رہا ہوں مگر ان سے مقابلہ نہیں کر پا رہا، اس لیے ایک بلی نے میرا یہ حال کر دیا۔" اب شیر پریشان تھا کہ چوہے کی طبی امداد کے لیے میں کس کو کہوں کیوں کہ جس بلی نے اس کا یہ حال کیا تھا وہ خود ایک بہت بڑی نرس تھی، آخر شیر نے اپنی مدد آپ کے تحت دوائی منگوائی اور چوہے کی مرہم پٹی کی، چوہا تھوڑی دیر میں ہی ٹھیک ہو کر چلنے لگا۔ اس کے بعد شیر بلی کے پاس آیا بلی اس وقت خرگوش کو انجکشن لگا رہی تھی، شیر کو دیکھتے ہی انجکشن بلی کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر پڑا۔
"تم نے چوہے کو زخمی کیوں کیا۔؟" شیر نے پوچھا۔
"بادشاہ سلامت! مجھے بھوک لگی تھی اس لئے میں نے چوہے کو کھانے کی کوشش کی مگر وہ میرے قابو میں نہیں آیا۔" بلی نے جواب دیا۔
"اگر تم نے اس جنگل میں رہنا ہے تو اپنی یہ حرکتیں بند کرنی ہوں گی تم ایک نرس اور ایک ماہر ڈاکٹر کی بیٹی ہو تمہارا کام زندگی بچانا ہے زندگی لینا نہیں، اپنی خاندانی دشمنی کو اس جنگل سے باہر رکھو، مجھے دیکھو میں ایک گوشت خور جانور ہوں مگر میں کسی جانور کا شکار نہیں کرتا، کسی کی زندگی نہیں لیتا، دوسری چیزیں کھا کر گزارہ کرتا ہوں کیوں کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں۔" شیر زور سے گرجا۔
"معاف کر دیں بادشاہ سلامت! آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔" بلی ڈرتے ہوئے بولی۔ شیر نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور چلا گیا جب کہ بلی کی "کانپیں ٹانگ رہی تھیں"۔
0 Comments