تحریر: حافظ نعیم احمد سیال

     وقاص صاحب لاٹھی ٹیکتے ہوئے آگے کی طرف بڑھتے چلے جارہے تھے اچانک ہی انہیں لگا کہ سودا لینے کے لئے جو پیسے ان کے ہاتھ میں تھے وہ کہیں گر گئے ہیں۔ اپنے خالی ہاتھ دیکھ کر وہ بہت افسردہ ہوئے۔

     وہ واپس پیچھے کی طرف بھی نہیں جاسکتے تھے، بوڑھا وجود اوپر سے تیز دھوپ، پیچھے جانے کی سکت نہیں تھی، فرض کریں وہ دوبارہ پیچھے چلے بھی جاتے تو آنکھوں کی روشنی کم ہونے کی وجہ سے وہ پیسے ڈھونڈ نہیں سکتے تھے آخر انہوں نے ایک چلتے ہوئے شخص کو دیکھ کر کہا۔

”بیٹا میری مدد کرو گے، میں مجبور ہوں۔“ وہ شخص تھوڑی دیر کے لیے رکا اور پھر غور سے انھیں دیکھا اور بغیر جواب دیے ہی چلا گیا، وقاص صاحب دیکھتے رہ گئے، وہ پریشان تھے کہ اب وہ کیا کریں ان کے پاس تو صرف یہی پیسے ہی تھے۔ ان کو دھڑکا تھا کہ کہیں کوئی پیسے نہ اٹھا کر لے جائے اگر پیسے نہیں ملتے تو بچے بھوکے رہ جائیں گے صبح بھی انہوں نے کچھ نہیں کھایا تھا، اشرف صاحب جو ان کے ہمسائے تھے انہوں نے کچھ پیسے دے دیے تھے جس سے انھیں امید ہو چلی تھی کہ آج کھانا پک جائے گا۔

     ان کے دو پوتے اور ایک پوتی تھی، پوتی کافی بڑی اور سمجھ دار تھی گھر کا کام کاج اور کھانا وغیرہ بنا لیتی تھی۔ وقاص صاحب کا بیٹا اور بہو اس دنیا میں نہیں رہے تھے اس لئے ان کا بوڑھا وجود ان چھوٹے بچوں کو سنبھالنے کے لیے مجبور تھا، محلے والے اکثر اوقات کچھ نہ کچھ دیتے رہتے جس سے ان کا گزر بسر ہو جاتا تھا۔

     انھوں نے اداس بھرا چہرہ اس امید پر دوسری طرف گھمایا کہ شاید کوئی اور آتا ہوا نظر آ جائے اور وہ ان کے ساتھ جا کر پیسے ڈھونڈنے میں ان کی مدد کرے مگر کوئی بھی نہ آیا آخر وہ خود ہی پیسے ڈھونڈنے کے لیے پیچھے کی طرف مڑ گئے۔

     احسان دس سال کی عمر کا ایک خوبصورت بچہ تھا وہ کافی دیر سے ہی اپنے گھر کی کھڑکی پر کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا اسے بابا جی پر ترس آ گیا۔ وہ بابا جی کی طرف بڑھا اور پوچھا۔

     ”بابا جی کیا معاملہ ہے۔“

     ”بیٹا وہ میں اپنے پیسے پیچھے کہیں گرا آیا ہوں آنکھوں کی روشنی کم ہے ٹھیک طرح نظر نہیں آتا تم میرے ساتھ چلو اور پیسے ڈھونڈنے میں میری مدد کرو، ہوسکتا ہے پیسے مل جائیں۔“ باباجی نے روتے ہوئے جواب دیا۔

     ”ْٖآئیں بابا جی۔“ احسان نے بابا جی کا ہاتھ پکڑا اور آگے کی طرف بڑھنے لگا تھوڑی دور جا کر احسان کو گرے ہوئے پیسے نظر آ گئے، اس نے پیسے اٹھائے اور بابا جی کو پکڑا دیے۔

     بابا جی نے احسان کو دیکھا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے سوچنے لگے نیکی بھی نصیب والوں کو ہی ملتی ہے چھوٹا سا بچہ اس بڑے شخص سے سبقت لے چکا تھا۔