تحریر: حافظ نعیم احمد سیال
جنگل کے تمام جانور پریشان تھے، چڑیا نے چہچہانا چھوڑ دیا تھا، خرگوش نے پھدکنا چھوڑ دیا تو شیر نے گرجنا چھوڑ دیا تھا۔ کوے نے بھی کافی دنوں سے کائیں کائیں نہیں کی تھی، بکری کو خاموشی لگ گئی وہ بھی کافی دنوں سے نہیں ممنائی تھی، کبوتر چپکے چپکے پھر رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے جنگل ویران ہو گیا ہے اور تھا بھی ایسا، کافی دنوں سے بادل نہیں رویا تھا سب جانتے ہیں کہ بادل روتا ہے تو دنیا میں زندگی نظر آتی ہے۔ دنیا ہری بھری لگتی ہے۔ باغات سرسبز ہو جاتے ہیں اور کھیتوں میں ہریالی آجاتی ہے۔ دریاؤں کا پانی خوشی سے ناچتا رہتا ہے مگر اب بادل کے نہ رونے کی وجہ سے یہ سب کچھ ویران ہوگیا۔ پودے سوکھ گئے، دریا خالی ہوگئے اور درختوں پر خزاں کا منظر دکھائی دینے لگا ایسے میں جنگل کے تمام جانوروں بوکھلائے بوکھلائے پھر رہے تھے ان کی خوشیاں ماند پڑ چکی تھیں۔
کبوتر نڈھال سا ہو کر اڑا جا رہا تھا اس کی ملاقات بادل سے ہوئی۔
”بادل میاں! تم کیوں نہیں روتے۔؟ کیا تمہارے آنسو ختم ہو چکے ہیں۔؟ تم دیکھتے نہیں تمہارے رونے میں ہم سب کی زندگی ہے۔ تم روتے ہو تو کائنات مسکراتی ہے۔ اب تم خاموش ہو تو ایسے لگتا ہے پوری کائنات رو رہی ہے، براہ مہربانی کچھ تو خیال کرو۔˝ کبوتر نے بادل سے التجا کی، بادل نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور چپکے سے آگے بڑھ گیا۔
آگے بادل کی ملاقات ایک چڑیا سے ہوئی، چڑیا بھی اسے دیکھ کر بولی۔
”بادل بھائی! کیا حال ہے؟ خیریت ہے۔ پلیز تم کو ہم سب کی حالت پر رحم آنا چاہیے۔ دیکھو کائنات کتنی سونی سونی لگ رہی ہے، یہ تو ہم اڑنے والے پرندے پوری دنیا کا نظارہ کرتے ہیں تو ہمیں پتا ہے، تم نیچے جا کر دیکھو بکری کے بچے پیاسے مر رہے ہیں، ریچھ کمزور ہو چکا ہے، ہرن سوکھ کر کانٹا بن چکا ہے، تم ہم پر نہ سہی انسانوں پر رحم کر لو، انسانوں کے بچے بھوک اور پیاس سے بلبلا رہے ہیں، کھیت ویران پڑے ہیں، فصلیں نہیں اگ رہیں، ہر کوئی پریشان ہے، براہ مہربانی تم کو رونا پڑے گا۔“ چڑیا بادل کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئی۔
بادل نے بھی چڑیا کو دیکھا اور آگے چلا گیا۔ بادل خود پریشان تھا اس سے رویا نہیں جا رہا تھا۔ وہ رونے کی کوشش کرتا مگر آنسو نہ نکلتے، وہ چلتے چلتے ایک کچی بستی کی طرف آ گیا اس نے مرجھائے ہوئے پھولوں اور پھر بچوں کو دیکھا دونوں میں کوئی فرق اسے نظر نہ آیا۔
”مجھے رونا پڑے گا کھیتوں کے لیے، باغات کے لیے، ان معصوم بچوں کے لئے، تاکہ سب کے چہرے خوشی سے سرشار ہو سکیں، میرا کام خود رو کر دوسروں کو خوش کرنا ہے، اللہ نے ہم سب کو بنایا ہی اس لئے ہے کہ ہم ایک دوسرے کا احساس کریں، دکھ درد بانٹیں، یہی زندگی ہے، یہ سوچ کر بادل کھل کر رونے لگا وہ روتے روتے آگے بڑھتا جارہا تھا جب کہ جنگلوں میں، میدانوں میں، پہاڑوں میں، صحراؤں میں، پوری کائنات میں خوشحالی آتی جا رہی تھی۔
0 Comments