تحریر: حافظ نعیم احمد سیال
انور نے فرہاد کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے، فرہاد اس وقت اپنی بیگم کے ساتھ شاپنگ سنٹر آیا ہوا تھا اس کے چہرے پر آئی ہوئی مسکراہٹ اس کی خوبصورت زندگی کا پتا دے رہی تھی فرہاد نے اپنی نظریں اوپر اٹھائیں تو اس نے اپنا رخ موڑ لیا تاکہ وہ فرہاد سے اوجھل ہی رہے۔ آنکھوں میں آنسو لیے وہ شاپنگ سنٹر سے باہر آ گیا۔ گرد و غبار سے اٹا ہوا چہرہ، میلے بال اور کپڑوں پر کئی کئی جگہ مٹی کے لگے ہوئے دھبے اور پیوند اس کی غریبی کو صاف واضح کر رہے تھے۔ شاپنگ سنٹر کے باہر لگے ہوئے شیشے میں اس نے اپنا عکس دیکھا تو اسے اپنی حالت پر اور بھی زیادہ رونا آیا اور اس کا ذہن ماضی کے واقعات میں کھو گیا۔
******
”بیٹا آپ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن جانا ہو گا آخر آپ کا دو ست فرہاد بھی تو جا رہا ہے“۔ اس کے پاپا اسے کہہ رہے تھے۔
”ہاں بیٹا تم نے پڑھ لکھ کر اپنے ملک کا نام روشن کرنا ہے تم نے ساری توجہ تعلیم پر دینی ہے“۔ اس کی مما بھی اسے کہہ رہی تھیں۔ اس طرح وہ اور فرہاد دونوں اکھٹے ہی لندن تعلیم حاصل کرنے کے لیے چلے گئے۔
******
ائیر پورٹ پر قدم رکھتے ہی اس نے ادھر ادھر دیکھا ایک اجنبی سا ماحول اسے نظر آیا فرہاد اس کے ساتھ ہی تھا ایک انجانی سی خوشبو آئی اور پورے ماحول کو انجان کر گئی ایک لمحے کے لئے تو اسے لگا کہ یہاں اس کا کوئی جاننے والا ہے ہی نہیں وہ یہاں لندن اپنی زندگی کیسے گزارے گا؟ لیکن جب فرہاد پر نظر پڑی تو اسے کچھ سکون سا محسوس ہو ا۔ ”فرہاد ہے نا آخر وہ بھی تو یہاں اجنبی ہے ہم دونوں مل کر ہی ایک دوسرے کی اجنبیت دور کریں گے“۔ اس نے فرہاد کے کندھوں پر اپنا ہاتھ رکھا اور دونوں مسکراہتے ہوئے ائیر پورٹ سے باہر نکل آئے۔
فلیٹ پہنچ کر وہ دونوں آرام کرنے کی غرض سے سو گئے اگلی صبح انہوں نے اپنی زندگی کے معمولات کا آغاز کرنا تھا یہاں پردیس میں تو پردیسی لوگوں کو اپنے کام خود ہی کرنے پڑتے ہیں، اپنی دیکھ بھال اور ضرورتوں کا خیال رکھنا، انسان خود ہی کرتا ہے۔
”انور تم نے اپنا سامان سیٹ کر لیا“۔ اگلی صبح فرہاد نے پوچھا۔
˝ہاں یار اور تم نے۔۔۔“ انور نے فرہاد سے کہا۔
˝میرا بھی سامان سیٹ ہو گیا ہے اب ہمیں پڑھنے کے لئے یونیورسٹی جانا ہوگا“۔ فرہاد نے کہا تو دونوں یونیورسٹی کی طرف چل پڑے۔
******
یونیورسٹی جوائن کیے انہیں کچھ دن ہی ہوئے تھے مگر فرہاد نوٹ کر رہا تھا کہ انور کے اندر کچھ تبدیلی آتی جارہی ہے اس کا خیال کہیں اور ہوتا جا رہا ہے ایک صبح کلاس روم میں وہ دونوں داخل ہوئے تو انور شیتا کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔ شیتا ان کی کلاس فیلو تھی۔
”ٗہائے۔۔۔۔۔“ انور نے شیتا کو اشارہ کیا۔ شیتا نے مسکرا کر اسے بھی ہائے کہا اور اسے بیٹھنے کے لیے جگہ دے دی۔ فرہاد کہیں اور ہی بیٹھ گیا۔
لیکچر کے دوران انور شیتا کو ہی دیکھتا رہا فرہاد بھی اس کی یہ حرکت نوٹ کر رہا تھا لیکچر کے بعد فرہاد نے انور کو روک لیا۔
˝انور تمہیں پتا ہے شیتا ایک غیر مسلم لڑکی ہے تم نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ کیوں بڑھایا۔“؟ فرہاد نے انور سے پوچھا۔
”دوستی۔۔۔ارے تم اسے دوستی سمجھتے ہو ہم تو ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں اور جلد ہی ہم دونوں ایک ہو جائیں گے”۔ انور نے فرہاد کو جواب دیا۔فرہاد اس کا یہ جواب سن کر وہاں سے چلا گیا۔ جب کہ انور شیتا کو ہی آوازیں دینے لگا شیتا نے انور کو اپنے جال میں اچھی طرح پھنسا لیا تھا اس کا خوبصورت چہرہ، گلابی ہونٹ، نرم و نازک ہاتھ، پتلی کمر اور سنہری بال، انور اس حسن پر مر مٹا تھا۔ اس نے شیتا کا ہاتھ پکڑا اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
******
”انور تم کن چکروں میں پھنس گئے ہو۔ ہم یہاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے آئے ہیں اور تم ایک غیر مسلم لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو، کیا ہمارا مذہب اسلام اس کی اجازت دیتا ہے؟ نامعلوم وہ کس قسم کی لڑکی ہو تم اپنی پڑھائی پر ہی توجہ دو ان چکروں میں نہ پڑو۔“ فرہاد انور کو سمجھا رہا تھا۔ مگر اس نے فرہاد کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی اسے تو بس شیتا سے ہی محبت ہو گئی تھی وہ شیتا کو ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتا تھا۔ محبت بھی اندھی چیز ہوتی ہے انسان اس کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے وہ شیتا کی مکاریوں کو نہ سمجھ سکا اور اسے اپنی زندگی بنا کر فلیٹ میں لے آیا اس نے اپنا فلیٹ علیحدہ لے لیا تھا پہلے فرہاد اور وہ ایک ہی فلیٹ میں رہتے تھے۔
فرہاد اپنی پڑھائی پر توجہ دے رہا تھا اس کی زندگی کا مقصد ایک بڑا انسان بننا تھا۔ اپنے والدین کے خوابوں کو پورا کرنا تھا اس نے جب دیکھا کہ انور کو سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے تو اس نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔
******
وقت کا کام گزرنا ہے وقت گزر گیا فرہاد کی تعلیم مکمل ہو گئی اوروہ اعلیٰ ڈگری حاصل کیے اپنے وطن واپس لوٹ آیا جب کہ انور وہی کا ہو کر رہ گیا انور نے شیتا کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا یہاں تک کہ اپنے والدین بھی۔ اس نے اپنی جائیداد سب کچھ شیتا کے نام کر دیا۔ وہ شیتا کو ایک لمحے بھی اپنے سے دور نہیں رکھ سکتا تھا اس نے ساری زندگی شیتا کی پوجا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ شیتا ایک چالاک اور مکار عورت تھی اس نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے انور کو کافی بیوقوف بنایا اس نے انور کے جذبات کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا انور بھی اس کے اشاروں پر ناچنے لگا اسے نہیں پتا تھا کہ شیتا ایک مکار اور دھوکے باز عورت ہے شیتا کا جب مطلب پورا ہو گیا تو وہ انور سے دور دور رہنے لگی انور اب اس کی زندگی کا کانٹا بن چکا تھا جو اسے چبھ رہا تھا وہ انور سے چھٹکارا پانا چاہتی تھی۔ جلد ہی اس نے طلاق کا مطالبہ کردیا اور کورٹ میں اپیل کرکے انور سے طلاق لے لی چوں کہ انور کی ساری جائیداد شیتا کے نام تھی اور شیتا اسے چھوڑ کر چلی گئی۔
شیتا نے انور کو کبھی نہیں چاہا تھا یہ انور ہی تھا جو اس پر مر مٹا تھا اور اس چال باز لڑکی کی چال میں پھنس کر اپنا سب کچھ گنوا دیا تھا۔ محبت دونوں طرف سے ہو تو پھر شادی کامیاب ہوتی ہے جب شیتا نے اس سے محبت کی ہی نہیں تو پھر کامیابی کیسی۔؟ اب انور کی زندگی کانٹوں پر گزر نے لگی اس کا بستر کانٹوں کا ہو چکا تھا جب اوڑھتا تو اسے کانٹے چبھنے لگتے۔ وہ ایسی زندگی سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا اس کو اپنے والدین کی کوئی خبر ہی نہیں تھی وہ تو اس کی راہ تکتے تکتے اس دنیا سے چلے گئے تھے، پچھتاوے کے سوا اس کے پاس اب کچھ بھی نہیں بچا تھا اس نے جیسے تیسے ہمت کی اور اپنے وطن واپس لوٹ آیا اپنا سب کچھ گنوا کر اپنی زندگی ختم کر کے خالی ہاتھ اپنے وطن واپس آگیا۔
اپنے وطن کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی اسے کچھ سکون سا محسوس ہوا سب اسے اپنے اپنے نظر آئے کوئی انجانا پن نہیں تھا وہی سڑکیں، وہی جگہ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا بدلی تھی تو صرف اس کی زندگی ہی بدل گئی تھی۔ اسے اپنے دوست فرہاد کی باتیں یاد آنے لگیں۔ وہ اپنے ملک کی سڑکوں پر ہی مارا مارا پھرتا رہا۔
******
تین چار دن گزر گئے اس کو کسی جگہ ملازمت نہیں مل رہی تھی آخر وہ شاپنگ سنٹر کی طرف چل پڑا۔ وہاں فرہاد کو دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی مگر جلد ہی وہ شاپنگ سنٹر سے باہر آ گیا تاکہ فرہاد اسے دیکھ نہ لے۔ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ اپنی زندگی کے سارے عکس دیکھ رہا تھا ماضی کے واقعات اس کے گرد گھومنے لگے اچانک اسے کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فرہاد کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
”فرہاد تم۔۔۔“ اس کے منہ سے بشکل نکلا۔
”ہاں میں۔۔۔ میں نے ناصرف تمہیں دیکھا ہی نہیں بلکہ اس شیشے کے عکس میں تمہاری زندگی کے سارے حالات بھی پڑھ لیے اس شیشے نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا اور تم کن حالات سے گزر کر اپنے وطن واپس لوٹے ہو، کانٹوں کے بستر میں سو رہے ہو نا تم، میں تمہیں اس بستر سے نکالوں گا تم میرے دوست ہو نا اور میں اپنے دوست کے لئے اتنا کچھ بھی نہیں کر سکتا آؤ میرے گلے لگ جاؤ “۔ فرہاد نے خوشی سے اپنی بانہیں آگے کر دیں انور روتے ہوئے اس کے گلے لگ گیا اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ واقعی کانٹوں کے بستر سے نکل آیا ہے اب وہ کبھی بھی کانٹوں کے بستر میں نہیں سوئےگا۔
0 Comments