تحریر: حافظ نعیم احمد سیال
چاروں طرف گولیوں کی برسات ہو رہی تھی، جنت کے ٹکڑے کشمیر کو سرخ آلود خون سے نہایا جا رہا تھا، خوبصورت وادی لہو لہو ہو رہی تھی، مقبوضہ کشمیر میں موجود حیمس کا قصبہ، جو پہاڑوں کے درمیان تھا، جہاں کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں دل کو لبھاتی رہتی تھیں سارا کا سارا خون سے نہا گیا تھا۔
عبداللہ بھی اسی قصبے میں رہتا تھا، بھارتی فوج کے ظلم و ستم سے سارے مسلمان گھروں میں قید ہو کر رہ گئے تھے جو بھی باہر نکلتا اسے گولیوں سے بھون دیا جاتا۔
"امی یہ ظلم و ستم کب تک ہم پر جاری رہے گا؟ ہم کب آزاد ہوں گے؟" عبداللہ ماں کی گود میں سر رکھے رو رہا تھا۔
"ان شاءاللہ ایک دن ضرور ہمیں آزادی ملے گی ہمارے بزرگوں کا خون رنگ لائے گا اور یہ بربریت کی داستان ختم ہو جائے گی اور ہم سرخرو ہوں گے۔" ماں عبداللہ کو دلاسہ دے رہی تھی۔
"امی میں سکول کب جاؤں گا؟ کافی دنوں سے سکول بند ہیں، وہ رنجیت کہہ رہا تھا کہ ہم تم پر علم کے دروازے بند کر دیں گے، امی پہلے تو وہ میرا بہت اچھا دوست تھا لیکن اب ایسے لگتا ہے وہ میرا دشمن بن گیا ہے۔" عبداللہ بدستور روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
"نہیں بیٹا روتے نہیں ہیں، دل بڑا کرتے ہیں، یہ ہندو ہمارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے، ان کا مقصد ہم مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنا ہے۔" ابھی ماں بیٹا یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ دروازہ زور زور سے بجنے کی آواز آئی۔ "لگتا ہے بیٹا کہ تمہارے ابو آ گئے ہیں، خدا خیر کرے" ماں نے بڑھ کر دروازہ کھولا۔
"خیر تو ہے عبد اللہ کے ابا، اتنے پریشان اور گھبرائے ہوئے کیوں ہیں؟" امی جان نے انہیں دروازے سے دیکھ کر کہا۔
"کیا کروں نیک بخت! بڑی مشکل سے جان بچا کر آیا ہوں، اپنے کھیتوں کو دیکھنے گیا تھا، بے غیرتوں نے مسلمانوں کے سارے کھیت جلا ڈالے ہیں، اشرف بھائی کا تو کھیتوں کے ساتھ ساتھ مکان بھی جل گیا اور ان کی بیٹی کو بھی ظالم اغوا کر کے لے گئے۔" اباجان نے دکھ بھری کہانی سنائی۔
"اللہ روزینہ (اشرف کی بیوی ) کو صبر دے، اتنا بھی نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کے گھر جاکر اس دکھ کی گھڑی میں انہیں دلاسا دے آئیں، میرا تو یہ سن کر دل پھٹا جا رہا ہے۔" امی روتے ہوئے بول رہی تھیں۔
"ابو نعمان کا کیا حال ہے؟ وہ کیسا ہے؟" عبداللہ نے اپنے دوست نعمان (اشرف صاحب کا بیٹا) کے بارے میں پوچھا۔
"بیٹا مجھےخود بھی کچھ اتنا پتا نہیں، مجھے تو خود اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے، بہت سے لوگوں کو میری آنکھوں کے سامنے شہید کر دیا گیا، میں بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگا ہوں۔" ابو کی آواز میں رنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ایک بات کہوں۔۔۔۔۔" رات کو جب عبداللہ سو گیا تو ابو نے امی سے کہا۔
"جی کہیں کیا بات ہے؟" امی نے جواب دیا۔
"میں سوچ رہا ہوں کہ ان کھیتوں میں میں نے کتنی محنت کی ہے، فصلوں کو کیڑوں سے بچانے کے لیے کیا کیا جتن کیے ہیں، آج جب مجھے میری محنت کا صلہ ملنے لگا تھا کہ میری فصل جلا دی گئی، ایسے لگتا ہے کہ جیسے میرا جوان بیٹا میری آنکھوں کے سامنے شہید ہوگیا ہو اور میں خالی ہاتھ ہو گیا ہوں، میں اپنی فصل کو جلتا ہوا دیکھتا رہا لیکن کچھ نہیں کر پایا۔" ابّا کی آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے یہ سنتے ہی امی جان بھی رو پڑیں۔
"عبداللہ کے ابو! ان شاء اللہ ہمیں ایک دن آزادی ضرور ملے گی، ہمارے پاکستانی مسلمان بہن بھائی دکھ کی اس گھڑی میں ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے وہ ضرور ہماری مدد کو آئیں گے پاکستان ہماری آزادی کی جدوجہد کے لیے بہت کوششیں کر رہا ہے وہ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوگا ایک دن آئے گا کہ ہم بھی آزاد فضاؤں میں سانسیں لے رہے ہوں گے ہماری مسجدوں اور تعلیمی اداروں کی رونقیں ایک نہ ایک دن ضرور بحال ہوں گی اور ہم سکھ چین اور امن کی زندگی گزاریں گے۔" امی کی آنکھوں میں ایک چمک تھی ابو نے بھی وہ چمک واضح طور پر محسوس کی اور دعائیں کرتے ہوئے اچھی امیدوں کا سہارا لے کر سوگئے، عبداللہ بھی پرسکون نیند کی وادیوں میں کھویا ہوا تھا۔
0 Comments