تحریر: حافظ نعیم احمد سیال


         حمزہ کالج سے پڑھ کر گھر واپس آیا تو امی جان کو سلام کرکے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ آج وہ بہت تھک گیا تھا کیوں کہ آج اس کی سائیکل خراب تھی جس کی وجہ سے وہ پیدل کالج گیا اور واپس بھی پیدل کالج سے آیا۔ امی جان نے اسے یوں کمرے میں جاتے ہوئے دیکھا توسمجھ گئیں کہ وہ ضرور تھک گیا ہے اس لیے اس کا کھانا لے کر وہ خود ہی اس کے کمرے میں آ گئیں۔ کھانا کھانے کے بعد وہ بیڈ پر لیٹ گیا مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ بیڈ پر پڑے ہوئے ایک رسالے پر اس کی نظر پڑی تو اس نے بے اختیار وہ رسالہ اٹھا لیا اور ورق گردانی کرنے لگا، ورق گردانی کرتے کرتے اچانک اس کی ایک کہانی پر نظر پڑی، کہانی کے عنوان نے اسے اپنی طرف متوجہ کرلیا، کہانی کا عنوان تھا "ایماندار آدمی" ساتھ لکھنے والے کا نام بھی جگمگا رہا تھا "شغف ادیب" اسے اس عنوان اور لکھاری کے نام میں دلچسپی محسوس ہونے لگی آہستہ آہستہ اس نے کہانی پڑھنا شروع کر دی، عام طور پر  وہ کہانیاں پڑھنے کا عادی نہیں تھا۔ اس کے گھر کافی میگزین آتے تھے لیکن وہ صرف سرسری جائزہ لیتا یا پھر صرف وہی تحریر پڑھتا جو اس کی توجہ کا مرکز بن جاتی اس کے دیگر بہن بھائی اور گھر والے مطالعے کے کافی شوقین تھے اس لیے کئی کئی میگزین اور اخبارات اس کے گھر آتے۔
           اس کی چھوٹی بہن اس کی غیر موجودگی میں اس کے کمرے میں ایک رسالہ پڑھ رہی تھی کہ کوئی کام یاد آنے پر وہ رسالہ وہی رکھ کر چلی گئی اب جب حمزہ کی نظر اس رسالے پر پڑی تو وہ اسے اٹھا کر دیکھنے لگ گیا، اس نے جیسے ہی کہانی پڑھنی شروع کی وہ اس کے سحر میں گم ہوتا چلا گیا کہانی کا آغاز ہی چونکا دینے والا تھا کہ جو پڑھنا شروع کرتا، پڑھتا ہی چلا جاتا، اسے وہ کہانی بہت اچھی لگی، اتنی سبق آموز کہانی اس نے زندگی میں کبھی نہیں پڑھی تھی کہانی میں ملتان کے ریلوے اسٹیشن کا نقشہ کھینچا گیا تھا، ساتھ یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ اسٹیشن کے ساتھ ایک کچی بستی ہے جہاں کچھ کچے پکے مکان بنے ہوئے ہیں وہ کہانی پڑھ رہا تھا اور کہانی سے بہت متاثر ہو رہا تھا کیوں کہ کہانی میں کسی بے بس انسان کی مدد کا ذکر کیا جا رہا تھا کہانی یہ تھی کہ لاہور سے ملتان ایک میاں بیوی حضرت شاہ رکن عالمؒ کے دربار پر حاضری دینے آتے ہیں جیسے ہی وہ ملتان اسٹیشن پہنچتے ہیں تو ایک چور ان کا سارا سامان لے کر بھاگ جاتا ہے ان کے پاس جتنی بھی جمع پونجی تھی وہ بھی اس سامان کے ساتھ رکھی ہوئی تھی اس لئے وہ بالکل خالی ہاتھ ہو گئے تھے اور مزید کچھ کرنے کے قابل نہ رہے ان کا کوئی رشتہ دار کوئی جان پہچان والا بھی یہاں نہیں تھا جن سے وہ رابطہ کرتے اور لاہور واپس بھی نہیں جا سکتے تھے کیوں کہ ان کے پاس ٹکٹوں کے پیسے بالکل نہیں تھے۔ آخر تھکی ہاری ہوئی شکل کے ساتھ سر پکڑ کر کسی بنچ پر بیٹھ گئے اچانک ایک نوجوان آدمی اپنی فیملی کے ساتھ اندر داخل ہوا اس نوجوان آدمی نے جب ان دونوں میاں بیوی کی ایسی حالت دیکھی تو ہمدردی کے ناطے ان سے وجہ دریافت کی ان دونوں میاں بیوی نے روتے ہوئے اپنی ساری کہانی سنا دی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر وہ نوجوان انہیں دس ہزار روپے دے دے تو جب وہ دوبارہ ملتان آئیں گے تو اس کی رقم لوٹا دیں گے، اس نوجوان نے ترس کھا کر مدد کے لیے فوراً دس ہزار روپے دے دیے، اس نوجوان آدمی کے گھر والے اسے روکتے ہیں کہ ایسے ٹھگ باز لوگ جگہ جگہ پھر رہے ہوتے ہیں جو جھوٹ بول کر دوسروں کا مال لوٹتے ہیں وہ ان کی مدد نہ کرے لیکن وہ نوجوان انسانیت کے ناطے ان میاں بیوی کی اس بات پر مدد کر دیتا ہے کہ جب وہ دوبارہ ملتان آئیں گے تو یہی رقم لوٹا دیں گے، اب اس نوجوان کے گھر والے اسے طعنے دیتے ہیں کہ وہ آدمی اب پیسے دینے واپس نہیں آئے گا تمہارے دس ہزار روپے لے کر وہ بھاگ گیا ہے مگر اس نوجوان کو پکی امید ہوتی ہے کہ مجھے میرے پیسے مل جائیں گے آخر ایک دن وہ آدمی پیسے دینے آ جاتا ہے اور یوں کہانی کا اختتام ہو جاتا ہے۔
        کہانی میں مزید بھی بہت ساری باتیں تھیں کچھ قلیوں کا ذکر تھا اور ان کے نام بھی لکھے ہوئے تھے ریلوے اسٹیشن پر جس بنچ پر وہ میاں بیوی بیٹھے ہوئے تھے اس  کا بھی نقشہ کھینچا گیا تھا اور ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ اس بنچ کے ساتھ ایک دروازہ ہے جہاں سے وہ نوجوان اپنی فیملی کے ساتھ اندر آتا ہے اور ان میاں بیوی کی مدد کرتا ہے۔
          حمزہ نے اس کہانی کے ایک ایک لفظ کو یاد کر لیا اور کہانی کے اندر بتائے گئے سارے مناظر اپنے ذہن میں محفوظ کر لیے، اگلے دن وہ ملتان ریلوے اسٹیشن میں موجود تھا کیوں کہ اس کی خواہش تھی کہ وہ بھی وہ بنچ اور وہ بستی دیکھے اور ان قلیوں سے ملاقات کرے جن کے نام اس کہانی میں لکھے ہوئے تھے اور شاید ان قلیوں کی مدد سے وہ اس نوجوان تک بھی پہنچ جاۓ جس نے اس دور میں انسانیت کے ناطے ان میاں بیوی کی مدد کی تھی، واقعی اس نے بہت بڑی نیکی کمائی تھی اسے اس نوجوان سے ملنے کا تجسس بے قرار کر رہا تھا۔
        وہ ملتان ریلوے اسٹیشن پہنچا اس نے وہ بنچ تلاش کرنا شروع کیا لیکن اسے اس طرح کا بنچ نہ ملا جس کا نقشہ کہانی میں کھینچا گیا تھا اور کسی بنچ کے ساتھ دروازہ بھی نہیں تھا آخر اس نے ایک قلی کو اپنی طرف آتے دیکھا اس نے کہانی میں جتنے بھی قلیوں کے نام پڑھے تھے وہ سارے اس کے آگے رکھ دیے مگر وہ قلی انکار میں سر ہلاتا رہا کہ ان ناموں میں سے یہاں پر موجود کسی بھی قلی کا نام نہیں ہے اور یہاں پر ایسا کوئی واقعہ بھی نہیں ہوا ہے جو آپ بتا رہے ہیں اور نہ ہی کسی نوجوان نے کسی میاں بیوی کی مدد کی۔ وہ قلی معذرت کر کے چلا گیا اب حمزہ فکرمند ہو گیا تھا کیوں کہ وہ اسی نوجوان سے ملنے کے لیے بے تاب تھا اس نے کچھ دوسرے قلیوں کو پکڑا انہوں نے بھی انکار میں سر ہلا دیا آخر اس نے کہانی میں پڑھی ہوئی کچی بستی کا نقشہ پیش کر دیا کہ شاید کوئی قلی پہچان جائے اور وہ اس نوجوان تک پہنچ جائے۔ ایک قلی نے اس کی طرف دیکھا اور ہنسنے لگا "پاجی یہاں کوئی کچی بستی نہیں ہے اور نہ ہی کچے مکانات ہیں اب سارے مکان پکے اور کافی بڑے ہوگئے ہیں، آپ کس زمانے کی باتیں کر رہے ہیں؟" اسے دیکھ کر باقی قلی بھی ہنستے ہوئے چلے گئے وہ پریشانی کی حالت میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا آخر تھک ہار کر گھر واپس آ گیا۔ اس کی امی نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو وجہ دریافت کی، دوسرے بہن بھائی بھی اسی گرد جمع ہوگئے آخر اس نے سارا کچھ سب کو بتا دیا، اس دوران ابو بھی آ چکے تھے گھر میں اچھی خاصی محفل جم چکی تھی سب اس کی باتیں سن سن کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے اور وہ شرمندگی سے سرجھکائے ہوئے تھا۔
          "ارے بے وقوف کہانیوں میں ایسی باتیں فرضی ہوتی ہیں تم نے سب کچھ سچ سمجھ لیا۔" ابو جان نے کہا تو سارے ایک دفعہ اس پر ہنسنے لگے اور اس کا مذاق اڑانے لگے اسے شغف ادیب پر بے حد غصہ آ رہا تھا کیوں کہ وہ کہانی بھی ایسے لکھتا ہے جیسے حقیقت بیان کر رہا ہوں۔