تحریر: حافظ نعیم احمد سیال ملتان۔

        خالو ہلاگلا کو آج کے دن کا بڑی شدت سے انتظار تھا، ایک یہی دن ہی تو تھا جس کا وہ بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے، یہ دن ان کے لئے کسی عید سے کم نہیں ہوتا تھا، اس دن کے آنے سے ایک ہفتہ پہلے ہی وہ تیاریاں شروع کر دیتے، وہ اور ان کی بیگم خالہ ہلچل اس دن کو خوب دھوم دھام سے مناتے،  آخر کیوں نہ مناتے، یہ دن ہماری آزادی کا دن تھا، پاکستان بننے کا دن تھا اور 14اگست کا دن تھا ۔

        "اے نیک بخت! آج کی رات ذرا جلدی اٹھ جانا، تہجد پڑھنی ہے اپنے ملک پاکستان کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگنی ہیں، تہجد کے وقت اللہ تعالی دعائیں سنتے ہیں۔"  انہوں نے خالہ ہلچل کو کہا۔

          " ہاں ہاں کیوں نہیں، میں قربان جاؤں اپنے پیارے ملک پاکستان پر، اللہ اسے سلامت رکھے۔"  خالہ ہلچل نے ابھی سے دعائیں مانگنا شروع کر دیں اور دونوں سو گئے۔

          تہجد کے وقت خالو ہلاگلا اٹھے،  وضو کیا، جائے نماز اٹھائی اور اوپر چھت پر ہی کھلے آسمان تلے نوافل ادا کرنے چلے گئے،  خالہ ہلچل کمرے میں ہی نماز پڑھنے لگیں کیوں کہ گرمی بہت تھی اور خالو ہلاگلا ویسے ہی گرمی کے ستائے ہوئے تھے، انہیں سردیوں میں تو سردی کا احساس نہ ہوتا تھا لیکن گرمیوں میں گرمی کا احساس خوب ہوتا تھا ۔

          خالو ہلاگلا نے چھت پر جائے نماز بچھائی تو دوسری طرف مولوی بشیر بھی نوافل ادا کرنے کی تیاری کر رہا تھا، چھت سے چھت ملی تھی اس لئے دونوں ایک دوسرے کو ٹھیک طرح دیکھ سکتے تھے،  مولوی بشیر خالو ہلاگلا کو جائے نماز بچھاتے دیکھ کر چونک اٹھا ۔

          "ارے خالو ہلاگلا ویسے تو آپ کبھی تہجد کے وقت چھت پر نظر نہیں آئے اور مسجد میں بھی کبھی کبھار ہی نظر آتے ہیں، آج اللہ نے آپ کو تہجد پڑھنے کی توفیق کیسے دے دی؟" مولوی بشیرطنزیہ لہجہ اپناتے ہوئے بولا ۔

        "ارے نہیں نہیں۔۔۔ نماز تو میں باقاعدگی سے پڑھتا ہوں،  بس تہجد خاص خاص راتوں میں ہی پڑھتا ہوں، تمہیں پتا ہے نا آج کی رات اور دن کتنے خاص ہیں۔"  یہ کہتے ہی خالو ہلاگلا نے نیت باندھ لی،  مولوی بشیر کا تو روز کا معمول تھا وہ تہجد باقاعدگی سے پڑھتا تھا، نوافل ادا کر کے خالو ہلاگلا نے گڑگڑا کر پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا مانگی اور جائے نماز اٹھا کر نیچے آ گئے، خالہ ہلچل بھی نوافل پڑھ کر فارغ ہو چکی تھیں ۔

          نماز فجر کی ادائیگی کے بعد خالو ہلاگلا نے نہا دھو کر سبز کرتا اور سفید شلوار پہنی تو ایسے لگ رہا تھا جیسے انہوں نے اپنے آپ کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ لیا ہو، انہوں نے یہ لباس خاص کر آج ہی کے دن کے لئے بنوایا تھا۔

        "بیگم آج میں نے جشن آزادی کی ایک تقریب میں شرکت کرنی ہے، وہاں بڑی بڑی مشہور و معروف شخصیات آئیں گی، مجھے بھی انہوں نے مہمان خصوصی میں شامل کیا ہے اسی لئے واپسی دیر سے ہوگی۔ خالو ہلاگلا نے کہا اور اٹھ کر باہر جانے لگے، ابھی وہ باہر نکلے ہی نہیں تھے کہ تھانےدارنی مٹھائی کا ڈبہ پکڑے اندر داخل ہوئی۔

     "واہ واہ خالو ہلاگلا خوب بن سنور کر جا رہے ہو۔ کہاں کی تیاری ہے؟"  تھانےدارنی ان کا راستہ روکتے ہوئے بولی۔ 

     "بس۔۔۔ وہ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ ایک تقریب۔۔۔" ابھی خالو ہلاگلا بولنے ہی لگے تھے کہ تھانےدارنی نے ان کا جملہ اچک لیا۔

        "اچھا تو ایک تقریب میں جا رہے ہیں، ارے پہلے منہ تو میٹھا کر لو، کیا آج کے دن کی خوشی صرف تمہیں ہے؟ ہمیں نہیں ہے کیا؟" تھا نےدارنی نے منہ پھٹ آواز کے ساتھ مٹھائی کا ڈبہ آ گے کیا۔

        "ہم نے کب کہا کہ آج کے دن کی خوشی منانے کا حق صرف ہمیں ہے، تم بھی برابر کی شریک ہو، جاؤ خوشیاں مناؤ۔" خالہ ہلچل نے تیوریاں چڑھائیں۔ وہ ہمیشہ ہی تھانےدارنی سے خار کھاتی تھیں، بقول ان کے کہ دونوں میاں بیوی (تھانےدار اور تھانےدارنی) ہر وقت رنگ میں بھنگ ڈالتے رہتے ہیں۔

        "توبہ۔۔۔ توبہ۔۔۔ ایک تو مٹھائی کھلانے آؤں اوپر سے ان کے نخرے۔۔۔" تھانےدارنی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے مٹھائی کھلائے بغیر ہی وہاں سے چلی گئی۔

        "جاؤ جاؤ! ہمیں تمہاری مٹھائی کی ضرورت نہیں۔" خالہ ہلچل نے اونچی آواز میں کہا اور ملی نغمہ گنگنانے لگیں۔

        خالو ہلاگلا تقریب میں پہنچے تو تھانےدار نے ان کا استقبال کیا۔

        "آؤ۔۔۔آؤ۔۔۔خالو ہلاگلا ہم تو آپ کی راہ میں آنکھیں بچھائے کھڑے ہیں، آپ کا انتظار ہو رہا تھا کہ آپ آئیں تو تقریب کا آغاز کریں۔" تھانےدار خوشامد والا لہجہ اپناتے ہوئے بولا۔

        "تم آنکھیں نہ بچھاؤ بلکہ اپنی ڈیوٹی نبھاؤ، ابھی تھوڑی دیر پہلے تمہاری بیگم بھی سر کھانے آ گئی تھی۔" انہوں نے دو ٹوک جواب دیا اور ہال میں گھس گئے۔ تھانے دار زبان باہر نکالے انہیں حیرت سے تکتا رہا۔

        ہال میں پہنچے تو ان کی ملاقات کَلّو قصائی سے ہو گئی۔

        "تم۔۔۔ تم۔۔۔ یہاں کیسے؟" خالو ہلاگلا کَلّو قصائی کو دیکھ کر اچھل پڑے، کیوں کہ کل جب وہ ایک ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے تو کَلّو قصائی ان کے جوتے اٹھا کر بھاگ گیا تھا۔ خالو ہلاگلا نے کَلّو قصائی کو دیکھ کر دانت بھینچ لئے۔ بقول ان کے کہ سارے محلے والے مل کر مجھے تنگ کرتے ہیں۔

        "تم یہاں کیا کرنے آئے ہو؟" خالو ہلاگلا نے غصے سے کَلّو قصائی سے پوچھا۔

        "کیوں؟ قصائی جشن آزادی نہیں منا سکتے کیا؟" عقب سے مولوی بشیر کی آواز آئی تو خالو ہلاگلا کا سر چکرانے لگا۔ حیرت کے شدید ترین جھٹکے لگنے لگے، آج سارے کردار ایک ہی جگہ پر اکھٹے ہو گئے تھے دور سے انہوں نے خالہ ہلچل اور تھانےدارنی کو بھی آتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور ماشاءاللہ تھانےدار صاحب تو پہلے سے ہی یہاں موجود تھے۔ سبز رنگ کی جھنڈیوں اور غباروں سے سجا یہ ہال مختلف کرداروں کی زینت بنا ہوا تھا سارے کردار لڑائی جھگڑوں، نفرتوں، بغض اور طنز کے تیروں کو بھلا کر ایک دوسرے کے گلے لگ رہے تھے، سارے کرداروں کی زبانوں پر ملی نغمے اور اپنے وطن سے محبت کے گیت تھے کیوں کہ آج کا دن کا پیغام یک جہتی اور جذبہ حب الوطنی تھا۔