تحریر: حافظ نعیم احمد سیال
"میرے شوہر کی جان بخشی کر دیں۔" ماسی کریمن چودھری کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔
"جاؤ! دفع ہو جاؤ۔" چودھری دھاڑا۔
ماسی کریمن سہم کر چلی گئی۔ وہ لوگوں کو کیا بتاتی۔ لوگوں کے سامنے تو چودھری کسی مسیحا سے کم نہیں تھا۔ اس کا شوہر ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا تھا۔ بس چند لوگ ہی چودھری کی اصلیت سے واقف تھے۔
وہ بڑی بڑی تقریریں کر کے لوگوں کے دل جیت لیتا تھا مگر اندر سے روسیا تھا۔
آج بھی وہ ایسے ہی تقریر کر رہا تھا۔ ماسی کریمن نے دور سے دیکھا آج اس کے منہ سے پھول نہیں بلکہ گندگی نکل رہی تھی۔ لوگ اس کو جوتے مار رہے تھے اصلیت کھل چکی تھی۔
0 Comments