تحریر: حافظ نعیم احمد سیال۔

        خالو ہلاگلا جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے، خالہ ہلچل منہ پھلائے بیٹھی تھیں ان کا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا، ماتھے پر تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں۔
        "یا الہی! خیر۔" خالو ہلاگلا نے دل میں کہا اور بیگم کے پاس جا پہنچے۔
        "خیر تو ہے بیگم! یہ منہ کے زاوے کیوں بگڑے ہوئے ہیں؟ میں نے تو دور دور تک سوچ کے دیکھ لیا ہے، مجھ سے تو کوئی غلطی نہیں ہوئی۔" خالو ہلاگلا ابھی مزید کچھ کہنے ہی والے تھے کہ خالہ ہلچل زور سے پھٹ پڑیں ان کے پھٹنے سے گھر کے سامان کے ساتھ ساتھ خالو ہلاگلا بھی اچھل کر دور جا گرے۔
        "بیگم بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے۔؟" خالو ہلاگلا رونے والے انداز میں  ٹانگوں کو مسلتے ہوئے بولے۔
        "یہ پوچھو کیا نہیں ہوا ہے۔۔۔۔؟ ارے یہ سب دیکھنے سے پہلے میں مر کیوں نہ گئی، اتنا کچھ ہو گیا مجھے پتا بھی نہیں چلا بلکہ مجھے تو ہوا تک نہ لگنے دی۔" خالہ ہلچل غصے سے بولیں۔
        "اب منہ سے کچھ پھوٹو گی بھی یا یوں ہی شور شرابا کرتی رہو گی۔" خالو ہلاگلا نہ سمجھنے والے انداز میں بڑبڑائے۔
        "یہ کیا ہے۔؟" خالہ ہلچل نے ماہنامہ کرن کرن روشنی کے کچھ شمارے خالو ہلاگلا کے آگے کر دیے خالو ہلاگلا نے ایک نظر ماہنامہ کرن کرن روشنی کے شماروں پر ڈالی اور پھر مسکراتے ہوئے بولے۔
        "اس میں ہمارے کرداروں پر لکھی گئیں مزاحیہ تحریریں ہیں، جو ہر ماہ شائع ہوتی ہیں، جسے لوگ پڑھ کر ہنستے ہیں۔
        "تو ہر دفعہ عنوان پر آپ کا نام کیوں آتا ہے؟ اور مرکزی کردار آپ کو کیوں بنایا جاتا ہے؟ مگر اب سن لیجئے، اس دفعہ کہانی میں مرکزی کردار میرا ہونا چاہیے اور عنوان پر بھی میرا نام ہو۔" خالہ ہلچل نے غصے سے آنکھیں دکھائیں  تو خالو ہلاگلا کو ساری بات سمجھ میں آ گئی، ان کو پتا چل گیا کہ بیگم صاحبہ کیوں غصے سے بھری بیٹھی ہیں، پہلے تو خالو ہلاگلا کا منہ کھلا، پھر خالہ ہلچل کی طرح ان کے منہ کے زاویے بگڑے، پھر خود بگڑ کر بولے۔
        "کیوں بھئی! تمہیں کیا اعتراض ہے۔؟ لکھاری جو مرضی کرے، وہ ہر بات کا حق رکھتا ہے۔"
        "ہاں۔۔۔۔ہاں مجھے اعتراض ہے، کیا میں لکھاری کو نظر نہیں آتی؟ ہر وقت ہر کہانی میں آپ کو مرکزی کردار بناتا ہے، عنوان پر بھی آپ کا نام لکھتا ہے، دیکھو ہر شمارے میں  آپ کے نام پر کہانی شائع ہوئی، "خالو ہلاگلا گئے سالگرہ میں"، "خالو ہلاگلا بھاگے"، "خالو ہلاگلا کا چائے خانہ" یہ بتاؤ، تمہیں چائے خانہ کھولنے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟ تمہیں چائے بنانا کس نے سکھائی؟ اور اس دن تھانےدار کے بیٹے کی سالگرہ میں تم اکیلے گئے تھے کیا؟ میں نہیں گئی تھی تمہارے ساتھ سالگرہ میں؟ لکھاری کو صرف تم نظر آتے ہو۔؟" خالہ ہلچل بھی بگڑ گئیں۔
        "اچھا ٹھیک ہے، یوں نہ بگڑو، ہماری کہانیاں طنزومزاح پر ہوتی ہیں تو کچھ مزاحیہ کر کے دکھاؤ ورنہ قارئین بھی بور ہو جائیں گے، کہیں گے کس ہلچل ماڑی سے پالا پڑ گیا ہے۔" خالو ہلاگلا نے کہا۔
        "ماڑے ہو گے تم۔۔۔۔۔ بس میں نے بھی ٹھان لی ہے، اس دفعہ کہانی کا مرکزی کردار میں بنوں گی اور عنوان بھی میرے نام سے ہوگا۔" خالہ ہلچل نے آنکھیں دکھائیں۔
        تھانےدارنی اس وقت تھانےدار کو تھانے میں کھانا دینے جا رہی تھی، کھانے کی پوٹلی اس نے ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی، جیسے ہی وہ خالو ہلاگلا کے گھر کے آ گے سے گزری تو اس کے کان کھڑے ہو گئے، ان کی لڑائی سن کر اندر چلی آئی۔
پہلے تو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بھوکے ندیدوں کی طرح دونوں کی حرکتیں دیکھتی رہی، پھر بولی۔
        "خالہ ہلچل اور خالو ہلاگلا! کیا ہوگیا ہے؟ کیوں شور مچا رکھا ہے؟ پورے محلے میں تمہارے شور کی آوازیں گونج رہی ہیں، تھانے دار صاحب نے مجھے فون کیا ہے کہ جا کر ان کی لڑائی ختم کرواؤ، ملزم سے تفتیش کرتے ہوئے دقت ہو رہی ہے۔"
        "اچھا تو سیدھی طرح یوں کہو ناں کہ انہوں نے تمہیں ہماری تفتیش کے لیے بھیجا ہے، اب ضروری تو نہیں کہ تم ملزم کا بہانہ بناؤ، جاؤ اپنا کام کرو، ہر وقت منہ لٹکا کے چلی آتی ہو۔" خالہ ہلچل نے ناک بھوں چڑھا کر کہا۔
        "خدا کا نام لو ہلچل! تھانےدارنی نے کہاں منہ لٹکا کر رکھا ہوا ہے؟ البتہ ہاتھ میں کھانے کی پوٹلی ضرور لٹکی ہوئی ہے۔" خالو ہلاگلا بولے۔
        "تم چپ رہو۔" انہوں نے خالو ہلاگلا کو ڈانٹا، پھر تھانےدارنی سے مخاطب ہوئیں۔
        "جاؤ تھانےدار صاحب کو کھانا دے آؤ، بے چارے بھوک سے بلبلا رہے ہوں گے، اپنے میاں کی فکر نہیں، دوسروں کے گھروں میں تاک جھانک کرنے آجاتی ہو۔"
        تھانےدارنی تلملا گئی اور غصے سے پیر پٹختے ہوئے باہر چلی گئی، اس کے بعد انہوں نے خالو ہلاگلا کو بھی گھر سے باہر نکال کر دروازہ اندر سے بند کر دیا، خالو ہلاگلا لاکھ چیختے رہے، اپنی صفائیاں دیتے رہے، منتیں سماجتیں کرتے رہے کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں، لکھنے والا جو مرضی کرے، مگر خالہ ہلچل نے خوب ہلچل مچائی ہوئی تھی۔
        خالو ہلاگلا دروازہ بجاتے رہے مگر خالہ ہلچل نے بالکل دروازہ نہ کھولا، مولوی بشیر گھر میں نوافل پڑھ رہا تھا جو اس نے منت کے لئے مانگے ہوئے تھے، خالو ہلاگلا کے مسلسل دروازہ بجانے سے وہ رکعتوں کی تعداد بھول گیا، جلدی سے سلام پھیرا اور غصے سے بڑبڑاتے ہوئے باہر نکلا اور خالو ہلاگلا پر برس پڑا۔
        "خالو ہلاگلا! شرم کرو، کچھ تو خیال کر لو، بیگم کے غصے کا بدلہ پورے محلے سے کیوں لے رہے ہو؟ خود تو نماز پڑھتے نہیں دوسروں کی عبادات میں خلل ڈالتے ہو۔"خالو ہلاگلا نے یہ سنا تو شرم کے مارے دروازہ بجانا بند کر دیا، مولوی بشیر نے گھر آ کر سکون سے نوافل ادا کیے۔
        خالو ہلاگلا بہت پریشان تھے کافی دیر سے وہ گھر کے باہر کھڑے ہوئے تھے مگر خالہ ہلچل دروازہ کھولنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں، آخر انہوں نے دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔ "یا اللہ لکھاری کے دل میں رحم پیدا فرما، اس کہانی کا عنوان ہلچل کو عطا فرما، کلو قصائی اپنی بکریاں چرا کر گھر جا رہا تھا اس نے خالو ہلاگلا کو گھر کی دہلیز پر بے یارومددگار بیٹھے ہوئے دیکھا تو سمجھ گیا کہ دونوں میاں بیوی میں پھر لڑائی ہوئی ہے۔ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے طنزیہ نگاہ خالو ہلاگلا پر ڈال کر آگے بڑھ گیا، جواب میں خالو ہلاگلا نے بھی اسے دس انگلیاں دکھائیں اس کے بعد وہ پھر دعائیں مانگنے لگے۔ ابھی وہ دعائیں مانگ ہی رہے تھے کہ جھٹ سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور خالہ ہلچل کا مسکراتا چہرہ باہر نکلا۔
       پہلے تو انہوں نے خالو ہلاگلا کو محبت بھری نظروں سے دیکھا پھر ان کا ہاتھ پکڑا اور ادب سے بولیں۔
         "آئیں اندر آئیں۔" خالو ہلاگلا بہت حیران ہوئے، ان کو یقین ہوگیا تھا کہ اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول کر لی ہے، جلد ہی ماہنامہ کرن کرن روشنی کے اگلے شمارے میں کہانی کے عنوان پر ہلچل کا نام جگمگا رہا ہوگا، یہ سوچتے ہوئے وہ خالہ ہلچل کے ساتھ گھر کے اندر داخل ہوگئے، ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ رینگ رہی تھی، آخر خالہ ہلچل نے اپنے ہلچل ہونے کا ثبوت دے ہی دیا تھا۔