تحریر: حافظ نعیم احمد سیال
خالو ہلاگلا آج کل بہت پریشان تھے، جب سے کورونا جیسا وبائی مرض پھوٹا تھا، خود پھوٹی کوڑی کے بھی نہ رہے، اچھے بھلے ایک پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر تھے، جب بھی اسکول بند ہوئے، انہیں تعطیلات کی تنخواہ نہ ملی، اب پتہ نہیں پرائیویٹ سکول کے مالکان اپنے مؤقف میں سچے تھے یا نہیں کہ ہمیں بھی والدین فیسیں نہیں دے رہے تو ہم آپ کو تنخواہ کہاں سے دیں؟ بہرحال خالو ہلاگلا نے اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ سکول مالکان تمام بچوں سے فیسیں وصول کر رہے ہیں، لیکن سکول مالکان کے سامنے بولنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا اس لئے اللّٰہ تعالی کی رضا سمجھ کر خاموش رہے، انہوں نے یہ بات اللّٰہ پر چھوڑ دی کہ اللّٰہ جانے اور سکول مالکان جانیں، آخر اللّٰہ تو سب کچھ دیکھ رہا ہے نا۔۔۔۔۔
ان کی بیگم خالہ ہلچل ان کی یہ پریشانی دیکھ کر بہت افسوس کرتی تھیں، انہیں بھی اپنے شوہر کی پریشانی کا احساس تھا، آخر ایک دن اپنے شوہر کی پریشانی دیکھ کر بول اٹھیں۔
"آپ چائے کا کھوکھا ہی لگا لیں، محلے کے لوگ شوق سے چائے پیتے ہیں، تھانےدارنی کہہ رہی تھی کہ اس کا شوہر تھانےدار دن میں چار چار کپ چائے پی جاتا ہے، کچھ نہ کرنے سے بہتر ہے بندہ یہی کام کر لے، چار پیسے تو آتے ہیں۔" خالہ ہلچل کی یہ تجویز خالو ہلاگلا کے دماغ میں سیدھی جاکے لگی۔
"کہتی تو تم ٹھیک ہو، میں ابھی باہر جا کے کوئی مناسب جگہ دیکھتا ہوں، جہاں بیٹھ کے کھوکھا لگا سکوں۔" یہ کہتے ہی وہ باہر نکل پڑے۔
گھر کے پاس ہی بازار تھا وہ پورے بازار کا چکر لگانے لگے اور مشاہدہ کر رہے تھے کہ کھوکھا لگانے کی مناسب جگہ کون سی رہے گی، آخر انہیں کَلّو قصائی کی دکان کی نکڑ پر چھوٹی سی جگہ نظر آ ہی گئی اس کے لیے صرف کَلّو قصائی سے اجازت کی ضرورت تھی۔
"کَلّو قصائی صاحب! آپ کو تو پتا ہے کہ حالات کیسے چل رہے ہیں؟ میں یہاں چائے کا کھوکھا لگانا چاہتا ہوں، آپ کی اجازت کی ضرورت ہے۔" خالو ہلاگلا کَلّو قصائی کو سلام کرنے کے بعد بولے۔
"بسم اللّٰہ بسم اللّٰہ! جی آیاں نوں! آپ شوق سے یہ کھوکھا لگا سکتے ہیں۔ آپ کی ہی جگہ ہے۔" کَلّو قصائی نے فوراً ہی اجازت دے دی۔
اگلے دن خالو ہلاگلا کی چائے کی دکان کا افتتاح تھا، چند لوگوں کی موجودگی میں دکان کا افتتاح کیا گیا، تھانےدار بھی اپنی ڈیوٹی میں سے وقت نکال کر آں پہنچا، مولوی بشیر نے خالو ہلاگلا کے کاروبار میں برکت کے لیے دعا کی۔
پہلے دن خالو ہلاگلا نے سب کو مفت میں چائے پلوائی، جسے پی کر سارے واہ واہ کرنے لگے، خالہ ہلچل کا دیا ہوا تجربہ خالو ہلاگلا کے کام آ گیا تھا۔
اب تو روز خالو ہلاگلا کے کھوکھے کے سامنے محفلیں جمتیں، آتے جاتے لوگ چائے پیے بغیر نہ جاتے، تھانےدار خود بھی چائے پیتے رہتے اور اپنے ماتحتوں کو بھی چائے پلواتے رہتے، کَلّو قصائی بھی کام کے دوران دو کپ چائے پی جاتا تھا، خالو ہلاگلا کی دکان اب خوب چل پڑی اور سارا دن محفلیں جمتی رہتیں۔
ایسے ہی ایک دن کا ذکر ہے خالو ہلاگلا حسب معمول اپنے کھوکھے پر بیٹھے تھے، بدھ کا دن تھا اور کَلّو قصائی کی دکان بند تھی۔ منگل، بدھ کو تو ویسے ہی سارے قصائی اپنی دکانیں بند رکھتے ہیں، اس لیے کَلّو قصائی بنچ کی ایک سائیڈ پر بیٹھا چائے پی رہا تھا، دوسری سائیڈ پر مولوی بشیر بیٹھا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا، اچانک ہی تھانےدار صاحب کی موٹر سائیکل تیزی سے آ کر رک گئی۔
"آئیں آئیں تھانےدار صاحب آپ کی کمی تھی۔" مولوی بشیر چہکا، کَلّو قصائی بھی انھیں دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔ تھانےدار صاحب موٹرسائیکل سے اترے اور ان کے درمیان آ کر بیٹھ گئے۔
"بھائی واہ! خوب چائے پی جا رہی ہے، خالو ہلاگلا ایک کپ مجھے بھی دو۔" تھانےدار نے بیٹھتے ہی کہا تو خالو ہلاگلا جلدی سے ان کے لیے بھی چائے بنانے لگے۔
"آج تو آپ وردی کے بغیر بھی تھانےدار ہی لگ رہے ہیں۔" کَلّو قصائی نے تھانےدار کو دیکھ کر کہا۔
"ہاں جیسے تم دکان بند ہونے کے باوجود قصائی دکھائی دے رہے ہو۔" تھانےدار نے بھی دوبدو جواب دیا، جسے سن کر خالو ہلاگلا اور مولوی بشیر کی ہنسی نکل گئی۔
"بھائی آج تھانےدار صاحب اپنے گھر کی ڈیوٹی کر رہے ہیں اور گھر کی ڈیوٹی کے لیے کسی وردی کی ضرورت نہیں ہوتی۔" مولوی بشیر نے بھی مزاحیہ انداز اختیار کیا، اس دوران نماز کا وقت ہوگیا، مولوی بشیر سمیت سارے نماز پڑھنے چل پڑے۔
خالو ہلاگلا نے بھی کام روکا، کھوکھا بند کیا اور مسجد کی طرف چل دیے، وہ اللّٰہ کا شکر ادا کر رہے تھے کہ اللٌّہ نے ان کی روزی میں برکت دی ہے، ان حالات میں جو گھر کی پریشانیاں تھیں وہ کسی حد تک کم ہوگئی تھیں۔
دور کھڑا لکھاری اپنے کرداروں کی ان حرکات و سکنات کو نوٹ کر رہا تھا، وہ اپنی کہانی کے ذریعے ان کرداروں کو آگے بڑھانا چاہتا تھا مگر اچانک اسے لگا کہ اس کے یہ کردار ایک روبوٹ کی مانند ہیں جو اپنا کام خود بخود کرتے جا رہے ہیں اور کہانی بڑھتی جا رہی ہے، اس نے خیالات کو ذہن سے جھٹکا اور مسکرا کر اپنے کرداروں کو دیکھا اور انہی کے ساتھ وہ بھی مسجد کی طرف چل پڑا۔
0 Comments