تحریر: حافظ نعیم احمد سیال

        اکبر صاحب کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی، وہ دل کے مریض تھے، کسی بھی وقت انہیں کچھ ہوجاتا تھا، بعض دفعہ تو گھر والے یہ کہتے کہ اللہ نہ کرے، آج ان کا آخری دن ہے، ان کے بیٹے انہیں ہسپتال لے جاتے مگر اللہ کی قدرت دیکھیں، ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں ان کی طبیعت ٹھیک ہو جاتی اور ڈاکٹر صاحب ہلکا سا چیک اپ کر کے دوائی دے دیتا تھا۔

        آج پھر ان کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی، وہ درد سے تڑپنے لگے، چہرے پر زردی پھیلتی جا رہی تھی، اور وہ بے سدھ ہو کر گڑ پڑے، گھر والے پریشان ہوگئے، بیٹیوں کا تو رو رو کر برا حال ہو گیا تھا اور سب ان کی صحت یابی کیلئے دعائیں مانگنے لگیں۔

        ان کے بڑے بیٹے نے گھر والوں کی مدد سے انہیں کار میں بٹھایا اور ہسپتال کی جانب چل دیا، اکبر صاحب کی طبیعت مزید خراب ہوتی جارہی تھی، اب کی بار ایسا نہ ہوا جیسے پہلے ہوتا تھا، یعنی ہسپتال پہنچنے سے پہلے راستے میں ان کی طبیعت ٹھیک نہ ہوئی، اب تو ان کے دل کا درد بڑھ گیا اور وہ زور زور سے چیخنے لگے اور اب پکا یقین ہو چلا تھا کہ اکبر صاحب اس وقت اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ہیں، ان کے بیٹے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس کے لبوں پر بھی دعائیہ کلمات جاری ہوگئے۔

        اس نے کار کی رفتار مزید تیز کر دی، وہ جلد از جلد ہسپتال پہنچ جانا چاہتا تھا، اسے اپنے والد صاحب سے بہت محبت تھی۔ ہسپتال پہنچ کر اس نے اللہ کا شکریہ ادا کیا اور اپنے والد کو ایمرجنسی وارڈ کی طرف لے گیا اس نے اپنے والد کا چہرہ کبھی سرخ اور کبھی زرد ہوتے ہوئے دیکھا، ان کا بولنا بھی بند ہوگیا تھا اور وہ درد سے تڑپتے جارہے تھے بلکہ ان کا جسم بھی کچھ حد تک ٹھنڈا ہونا شروع ہو گیا تھا، یہ صورتحال دیکھ کر ان کا بیٹا گھبرا گیا۔

        ہسپتال والوں نے ان کی سیریس حالت دیکھی تو انہیں فورا  ایمرجنسی وارڈ میں داخل کر دیا اور  جلدی سے ان کی ای سی جی چیک کی جانے لگی، ڈاکٹر صاحب نے ان کے بیٹے کو باہر کھڑا رہنے کو کہا، وہ باہر کھڑا ہو کر والد صاحب کی صحت یابی کے لئے دعائیں کرنے لگا کیوں کہ اس نے اپنے والد صاحب کی جو حالت دیکھی تھی اس سے شک ہو چلا تھا کہ وہ اس دنیا کو چھوڑ کر جانے والے ہیں۔

                     ********

          ڈاکٹر میجر تاشفین کافی دیر سے اکبر صاحب کے اوپر جھکا ہوا تھا اور ان کا علاج کر رہا تھا اچانک اس کے چہرے کے رنگ بدلنے لگے اور وہ پریشان ہو گیا کیوں کہ معاملہ ہی پریشان کن تھا، ساتھ کھڑے دوسرے ڈاکٹر بھی اکبر صاحب کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئے، تمام ڈاکٹروں کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ان حالات میں کریں تو کیا کریں، انہوں نے حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، ایسا تو زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، انہوں نے اکبر صاحب کا علاج کرنا چھوڑ دیا اور ان کے چہرے کو حیرت سے دیکھنے لگے، اسی لمحے ایک جونیئر ڈاکٹر بڑی تیزی سے بھاگتا ہوا آیا اس کی سانسیں بہت پھولی ہوئی تھیں۔

        "سر ایک ایمرجنسی کیس ہے، باہر ایک شخص اچانک دل کا دورہ پڑنے سے بے ہوش ہو گیا ہے، اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے، ایسے لگتا ہے وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہے اس کی حالت بہت خطرناک لگ رہی ہے اور سنبھلنے کی بجائے بگڑتی جا رہی ہے۔" ڈاکٹر میجر تاشفین نے اکبر صاحب کا علاج چھوڑا اور اپنے ساتھی ڈاکٹروں کو اشارہ کرنے کے بعد باہر کی طرف بھاگا اور اب ویسے بھی اکبر صاحب کو علاج کی ضرورت نہیں رہی تھی، علاج تو بیمار لوگوں کا کیا جاتا ہے اور اکبر صاحب اس وقت اس بیماری سے آزاد ہو چکے تھے۔

        ڈاکٹر صاحب نے باہر قدم رکھا تو یہ دیکھ کر وہ واقعی پریشان ہو گیا کہ مریض چند لمحے کا مہمان ہے، اچانک اسے دل کا دورہ پڑا تھا جو جان لیوا ثابت ہو رہا تھا، ڈاکٹر صاحب نے اسے بچانے کی بہت کوشس کی، اس کے دل کی ای سی جی کرائی مگر ای سی جی رکی ہوئی تھی، ڈاکٹر صاحب اس مرض کا علاج نہ کر پایا اور مریض ہمیشہ کے لئے دم توڑ گیا۔

        "زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔" یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے اپنا سر جھکا دیا اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے اکبر صاحب کے بیٹے کی آنکھیں بند کر دیں۔ اکبر صاحب بھی کمرے سے نکل کر باہر آ چکے تھے انہوں نے یہ منظر دیکھا تو بڑی مشکل سے برداشت کیا ان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، قدرت کا فیصلہ سمجھ کر انہوں نے اپنے بیٹے کو ایمبولینس میں ڈالا اور خود پیچھے کار چلاتے ہوئے گھر کی طرف چل پڑے اور یہ وہی کار تھی جس میں ان کا بیٹا انہیں لے کر ہسپتال آیا تھا۔