تحریر: حافظ نعیم احمد سیال 

”ارے ابھی تک بیٹھا ہے کٹورا پکڑ اور دفعہ ہو ہڈحرام“۔ میں پانی کے ساتھ سوکھے نوالے ابھی حلق سے اتار ہی رہا تھا کہ ابا چلایا۔

”اس طرح پڑا رہے گا تو کچھ نہیں ہوگا“ ابانے مجھے لا ماری میں جلدی سے ا ٹھا کٹورا اٹھایا اور باہر نکل آیا۔ یہ روز کا ہی معمول تھا۔ ابا نے مجھے گدا گری جیسے ذلیل پیشے کے ساتھ منسلک کر دیا تھا۔ ابا دونوں ہاتھوں سے محروم تھا اور اپنا پیٹ بھرنے کی خاطر مجھ سے ہی بھیگ منگوایا کرتا تھا۔

مجھے یہ کام بالکل پسند نہیں تھا ابا کی گالیاں اور لاتوں سے بچنے کے لئے مجھے یہ کام کرنا پڑتا تھا۔ ہنر سیکھنے کے لئے بھی وقت چاہئے تھا لیکن ابا کو یہ بھی گوارا نہیں تھا۔ صاف ظاہر ہے جب تک میں ہنر نہ سیکھ پاتا آمدنی تو ہونی ہی نہیں تھی۔

میں کٹورا ہاتھ میں پکڑے چھن چھن کی آوازیں پیدا کرتا ہوا آگے کی طرف بڑھ رہا تھا اچانک ہی میری نظر ایک سکول پر پڑی۔ جہاں بہت سے بچے بیٹھے پڑھ رہے تھے اور کرسی پر ایک ماسٹر صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے میں کٹورا لے کے ان کے پاس چلا آیا اور حسب عادت کٹورا ان کے آگے کر دیا ماسٹر صاحب نے مجھے دیکھا۔

”بھیک چاہئے“؟ ان کے لب ہلے۔

”ہاں“ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔

”تمہیں بھیک ملے گی مگر علم کی بھیک-“ ماسٹر صاحب مسکرا کر بولے۔

”ماسٹر صاحب علم بھیک لے کر میں کیا کروں گا ؟ابا دونوں ہاتھوں سے معذور ہے۔ اماں گھر کو سنبھالتی ہیں اگر میں بھیک نہ مانگوں تو گھر کا خرچہ کیسے چلے گا“؟۔ میں نے ماسٹر صاحب کو جواب دیا۔

”مگر میں تو تمہیں علم کی ہی بھیک دے سکتا ہوں لینی ہو تو روزانہ آ جایا کرو“۔ ماسٹر صاحب نے مجھے کہا تو میں وہاں سے چلا آیا۔علم حاصل کرنے کا شوق تو مجھے تھا مگر ابا ایسابالکل بھی نہ ہونے دیتا اسے تو میری کوئی پروا ہی نہیں تھی. وہ تو میرے دوسروں سے مانگے ہوئے پیسوں سے اپنا پیٹ بھر رہا تھا۔ کاش میرا ابا ایسا نہ ہوتا میں نے خیالات کو ذہن سے جھٹکا اور آگے کی طرف بڑھ گیا. شام تک میرا کٹورا سکوں اور روپوں سے بھر چکا تھا۔ ابا کو تو صرف بھرے ہوئے کٹورے سے دلچسپی تھی۔ جیسے اس کا جینا مرنا یہی ہو۔

میں نے کٹورا ابا کے آگے رکھا اوراپنی چار پائی کی طرف چل پڑا. ابا خوش ہو گیا کیوں کہ میں نے بھرا ہوا کٹورا اس کے آگے رکھا تھا ورنہ بھیک کم ملنے پر مجھ پر ٹانگوں کی بارش بھی ہوتی تھی۔

چار پائی پر سونے کے لئے لیٹا تو مجھے نیند بالکل نہ آئی۔ ماسٹر صاحب کے الفاظ میرے دماغ میں گونج رہے تھے۔ اگر مجھے علم کی بھیک ملتی تو کتنا اچھا تھا، میں نے پہلو بدلا اور آہستہ سے مجھے نیند آنے لگی۔سونے سے پہلے میں ایک فیصلہ کر چکا تھا۔

اگلے دن میں نے کٹورا پکڑا اور باہر نکل آیا۔”آج تو چھوڑا خود ہی چلا گیا ہے.“ ابا کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی میں بھی دل میں مسکرایا۔ تھوڑی دور جا کر میں نے کٹورا پھینک دیا اور سکول کی طرف چلا گیا۔ جہاں ماسٹر صاحب بچوں کو پڑھا رہے تھے۔

”ہاں بیٹا آج پھر بھیک لینے آئے ہو“ ماسٹر صاحب مجھے دیکھ کر بولے۔

”جی ماسٹر صاحب میں علم کی بھیک لینے آیا ہوں میں نے آج سے اپنا گھر اور بھیک مانگنے کا کام چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگرآپ مجھے اپنی شفقت میں لے لیں تو آپ کا مجھ پر احسان ہوگا“۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔ ماسٹر صاحب نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور صاف ستھرا ہونے کے لئے مجھے اپنے بیٹے کے کپڑے منگوا کر دیئے. نہا دھو کر فارغ ہوا تو انہوں نے مجھے کھانا منگوا کر دیا. کھانا کھانے کے بعد میں پڑھنے والے بچوں کے ساتھ بیٹھ گیا مجھے پڑھنے میں اتنا مزا آنے لگا کہ پتا ہی نہ چلا کہ وقت کیسے گزر رہا ہے میرے دن اور رات سکول کے اندر ہی گزرنے لگے. ساتھ ہی ماسٹر صاحب کا گھر تھا۔ ضرورت پڑنے پر مجھے ہرچیز میسر ہوجاتی تھی۔ میرے ذمے ماسٹر صاحب نے سکول کی صفائی ستھرائی کا کام لگا دیا تھا جو میں خوشی سے کرتا تھا۔ بھیک مانگنے والے کام سے تو یہ کام کئی درجے اچھا تھا۔ میٹرک اچھے نمبروں کے ساتھ کرتے ہی میں شہر کے بڑے کالج میں چلا گیا۔ یہاں کالج والوں نے میری میٹرک میں اتنی اچھی کارکردگی دیکھی تو میری فیس معاف کر دی۔ میں دل  لگا کر پڑھتا رہا یہ دو سال بھی پر لگا کر اڑ گئے ایف ایس سی میں پہلی پوزیشن آئی تو میں نے انجینئر یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ یہاں بھی مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ انٹری ٹیسٹ پاس کرنا میرے لئے مشکل نہیں تھا میں نے وہاں بھی محنت کو برقرار رکھا۔ چار سال گزرتے دیر نہیں لگی۔ وہ دن آ گیا جب مجھے انجینئر کی ڈگری تھمائی جا رہی تھی خوشی سے میرے قدم زمین پر نہیں لگ رہے تھے آنکھوں سے آنسو نکل پڑے مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ کامیابیاں میرے قدم چومے گی۔

٭٭٭٭٭٭

ماسٹر صاحب کے گھر کے سامنے جا کر میں رک گیا بیل بجائی ان کا بیٹا باہر نکلا۔ وہی بیٹا جس کے کپڑے پہننے کے لئے انہوں نے مجھے دئیے تھے وہ مجھے دیکھتے ہی خوشی سے اچھل پڑا اور فوراً ہی میرے لئے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول دیا اس دوران ماسٹر صاحب بھی آ گئے۔ میں انہیں دیکھتے ہی ان کے قدموں میں گر پڑا۔

”ماسٹر صاحب میں وہی بھکاری ہوں۔ جب سے آپ نے مجھے علم کی بھیک دینا شروع کی. کامیابی کے دروازے مجھ پر کھلتے گئے۔ آج وہ بھکاری ایک انجینئر کے روپ میں آپ کے سامنے ہے آپ نے مجھے ذلت کی زندگی سے بچا کر عزت سے جینا کا طریقہ سکھایا۔ اگر آپ مجھے علم کی بھیک نہ دیتے تو نجانے میں کہاں ہوتا“۔

ماسٹر صاحب کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے انہوں نے مجھے اٹھا کر گلے سے لگا لیا۔

”بیٹا یہ میرا فرض تھا جو میں نے نبھایا ہے تمہارا ایک اور فرض بھی ہے وہ بھی میں نبھا رہا ہوں“۔ ماسٹر صاحب کی بات سن کر میں چونک گیا اسی وقت پردے کے پیچھے سے میری ماں نکلی اور میں انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔

”ماں جی آپ۔۔۔۔۔“ میں دور کر ان کے گلے لگ پڑا۔

”ابا کیساہے“؟ میں نے جلدی سے پوچھا۔

”بیٹا وہ تو کب کا اس دنیاسے جاچکا اس کے جانے کے بعد یہ ماسٹر صاحب ہی تھے جنہوں نے مجھے سہارا دیا ہے. اگر انہوں نے تجھے ذلت کی زندگی سے بچایا ہے تومیرے سر پر بھی تاج رکھا ہے. تو نے تو اپنے جانے کے بعد کوئی خبر ہی نہیں دی. مجھ سے ملنے نہیں آ سکتا تھا تو ماسٹر صاحب سے تو ملنے آجاتا انہوں نے تو تجھے پال پوس کر بڑا کیا ہے“۔ ماں جی مجھ سے شکائتیں کرنے لگیں۔ میں نے ماسٹر صاحب کو تشکر آمیز نظروں سے دیکھا انہوں نے ناصرف مجھے پڑھا لکھا کر اس مقام تک پہنچایا بلکہ میری ماں کو بھی نکاح میں لے کرمجھ پر بہت بڑا احسان کیا تھا۔