تحریر: حافظ نعیم احمد سیال
"پاپا مجھے گڑیا لا دو۔" میری بیٹی نے راستے میں ہی گڑیوں کو دیکھ کر کہا تو میں نے اس طرف دیکھا جہاں فٹ پاتھ پر مختلف رنگوں کی خوبصورت گڑیا سجی ہوئی تھیں، میں نے موٹرسائیکل کا رخ اس طرف موڑ دیا، میری بیٹی کے چہرے پر اچانک مسکراہٹ سج گئی، جسے دیکھنے کے لئے میں ہمیشہ بے چین رہتا تھا، اس کی مسکراہٹ میرے جینے کا سہارا تھی۔
"دیکھو بیٹا! کون سی گڑیا آپ کو پسند ہے۔؟" میں اسے فٹ پاتھ کے قریب لے جا کر بولا تو اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں آخر ایک گڑیا اسے پسند آہی گئی۔
"پاپا یہ والی۔" میری بیٹی نے اس گڑیا کے اوپر ہاتھ رکھا تو میں نے جھٹ سے اسے خرید لیا اس کے چہرے پر مزید خوشی نکھر گئی۔
"پاپا میں بھی آپ کی گڑیا ہوں نا۔" راستے میں ہی اس نے عجیب سا سوال کر دیا۔
"ہاں بیٹا! کیوں نہیں؟ تم بھی میری گڑیا ہو۔" میں نے جواب دیا، اس دوران گھر آ گیا میں نے موٹر سائیکل سائیڈ پر کھڑی کی اور اپنی گڑیا کو اٹھا کر اندر چل پڑا، میری بیٹی کی گڑیا اس کے ہاتھ میں تھی۔
"دیکھو مما! پاپا نے مجھے گڑیا لا دی، دیکھو کتنی پیاری ہے۔؟" وہ اپنی ماں کو گڑیا دکھاتے ہوئے خوشی سے جھوم کر بولی، اس کی ماں نے بھی خوشی کا اظہار کیا اس کے بعد ہم کھانا کھانے لگے، کھانا کھانے کے بعد وہ خوشی سے اپنی گڑیا کے ساتھ کھیلنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد مجھے میرے ایک دوست کی کال آ گئی، اس کے بیٹے کی طبیعت بہت خراب تھی۔ بےچارا بہت غریب آدمی تھا، اس کو ہر وقت میری مدد کی ضرورت رہتی تھی، اس کے پاس کوئی سواری نہیں تھی، اس لیے کہیں آنے جانے کے لیے وہ مجھے ہی زحمت دیتا، ویسے وہ مجبوری کے وقت ہی مجھے تکلیف دیتا تھا، میں خوشی سے اس کا کام کر دیتا، اب اس کے بیٹے کی طبیعت خراب تھی تو وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ میں موٹر سائیکل لے کر آؤں اور اس کے ساتھ اس کے بیٹے کو ہسپتال لے چلوں، میں نے جلدی سے موٹر سائیکل نکالی اور فورا" اپنے دوست کے گھر چلا گیا، اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔
میں جانتا تھا کہ اصل عبادت تو یہ ہے کہ آدمی آدمی کے کام آئے، مشکل وقت میں کسی کی مدد کرنے کا ثواب کتنا ہوتا ہے یہ کوئی بھی نہیں جانتا، ہسپتال سے فارغ ہو کر میں گھر واپس آ گیا تھا، میرے دوست کے بیٹے کی طبیعت اب بالکل ٹھیک تھی۔
جیسے ہی میں گھر واپس آیا، میری گڑیا میرے انتظار میں جاگ رہی تھی، رات کے گیارہ بج رہے تھے مجھے دیکھتے ہی وہ فورا" مجھ سے لپٹ گئی۔
"پاپا میں نے اپنی گڑیا کو سلا دیا ہے لیکن آپ کی گڑیا کو آپ کے بغیر نیند نہیں آ رہی۔" میں نے جھٹ پٹ اسے اپنی بانہوں میں لے لیا اور اسے پیار کرنے لگا، تھوڑی دیر بعد وہ سو گئی۔
"پاپا مجھے یہ ڈاکٹر کے سامان والا کھلونا لادو، میری گڑیا کبھی کبھی بیمار ہو جاتی ہے تو میں اس کا علاج کروں گی۔" اگلے دن سکول سے واپسی پر اس کی نظر کھلونوں والی دکان پر پڑی تو اس نے وہ سامان خریدنے کی ضد کر ڈالی، میں اپنی بیٹی کی خواہش کبھی رد نہیں کرتا تھا اس لیے میں نے فورا" اس کی خواہش پوری کر دی، گھر جاکر وہ ان اوزاروں کا استعمال کرکے ایسے گڑیا کا علاج کرنے لگی جیسے اصل کی ڈاکٹر ہو، اس نے اسٹیتھو سکوپ کان سے لگایا ہوا تھا اور گڑیا کے دل کی دھڑکن چیک کرنے لگی، کھیل کھیل میں اس نے انجکشن بھی گڑیا کو لگا دیا، میں اور میری بیگم اسے اس طرح کھیلتے ہوئے دیکھ کر مسکراتے رہے۔
باپ بیٹی کا رشتہ بھی کتنا عجیب ہوتا ہے، باپ بیٹی کے بغیر نہیں رہ سکتا اور بیٹی باپ کے بغیر نہیں رہ سکتی، میں جب بھی گھر ہوتا ہوں وہ اپنی مما کے پاس نہیں جاتی تھی، اس کے ہاتھوں کھانا بھی نہیں کھاتی تھی وہ کہتی تھی کہ میرے سارے کام بابا خود ہی کریں، وہ ہی مجھے کھانا کھلائیں اس لیے بیٹی کی محبت میں سرشار میں سارے کام اس کے خود ہی کرتا تھا۔
پھر وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا، میری گڑیا بڑی ہوتی گئی اور ایک دن سچ مچ ڈاکٹر بن گئی، اس نے دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کا عزم کر لیا تھا۔
"بابا جی! یہ میں نے آپ سے ہی سیکھا ہے کہ ہمدردی کیا ہوتی ہے؟ آپ مشکل وقت میں دوسروں کی مدد کرتے تھے نا تو میں بھی آپ کے نقش قدم پر چلوں گی، ہمیشہ غریبوں کا علاج مفت کروں گی۔" میری بیٹی خوشی سے بول رہی تھی اور میں فخر سے سینہ تان کر کھڑا تھا، میں اپنے نیک جذبات خواہشات اور احساسات کا عکس اپنے بیٹی میں دیکھ رہا تھا، وہ ہسپتال میں کھڑی ایک بوڑھے آدمی کا چیک اپ کر رہی تھی۔
0 Comments