تحریر: حافظ نعیم احمد سیال
"کیا میں ہلاک ہو جا ؤ ں گا؟" یہ وہ سوال تھا جو میرے ذہن میں گونج رہا تھا۔ میرے دل میں ایک خوف بیٹھ گیا تھا میرا سانس پھولا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ میرا ذہن پچھلی باتوں میں گھومتا چلا گیا۔
یہ رمضان کا مہینا تھا، گرمی اپنے جوبن پر تھی، میری عمر سولہ سال تھی اور روزے مجھ پر فرض تھے لیکن میں نے روزے نہ رکھے امی ابو نے بار بار کہا مگر میری ایک ہی ضد تھی کہ مجھ سے بھوکا پیاسا رہنا برداشت نہیں ہوتا اس بات پر گھر میں بحث چھڑ گئی مگر میں اپنی ضد پر قا ئم رہا اور امی ابو سے لڑتا جھگڑتا رہا۔ میں اپنی مرضی سے زندگی گزارنا چاہتا تھا مگر والدین کی روک ٹوک مجھے پسند نہیں تھی۔ سب نے مجھے سمجھایا لیکن میں نے کسی کی نہ سنی پورا ماہ رمضان غفلت میں گزرتا گیا۔ گھر والے اس مہینے میں عبادت کرتے نوافل پڑھتے، تراویح ادا کرتے میں سب کو کسی نہ کسی عبادت میں مصروف دیکھتا، مگر میرے دل میں اتنا بھی خیال نہ آیا کہ میں تھوڑی سی عبادت کر لوں، یہ جو اتنا بڑا موقع تھا جس سے ہم فائدہ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکتے تھے وہ میں فضول کاموں میں گزار رہاتھا۔
ٍٍ یہ پندرھویں روزے کا دن تھا میں اسکول سے گھر آیا اور آتے ہی ٹی وی چلا دیا، مختلف گانو ں کی آوازیں پورے گھر میں گونجنے لگیں امی نے جلدی سے لاحول ولاقوۃ پڑھا، ٹی وی بند کیا اور مجھے کان سے پکڑتے ہوئے نیچے کمرے میں لے گئیں۔ دادی جان وہاں بیٹھی ہوئی تھیں جب سے ماہ رمضان شروع ہوا تھا دادی جان نے اپنے آپ کو اس کمرے میں بند کر لیا تھا۔ دن رات اللہ کی عبادت میں مصروف رہتیں، ٹی وی کی آواز دادی جان کے کانوں تک بھی گئی تھی۔ دادی جان نے مجھے غصے سے دیکھا اور ایک زور دار تھپر میرے منہ پر رسید کر دیا جس سے میرے چہرے پر سرخ نشان بن گئے۔
"یہ ہمارا اسلامی معاشرہ ہے، رمضان جیسے مقدس مہینے کا کچھ بھی احترام نہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر ہر وقت گانے چل رہے ہیں غیر اسلامی ممالک چینلز کا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہیں اس مہینے کی کیا پرواء، لیکن ہمارے اپنے اسلامی ممالک چینلز کو بھی پرواء نہیں ہے آج کل تو نئے چینلز اور نئے ایف ایم کی بھر مار ہے۔ نجانے کون کون سے چینلز اور ایف ایم ایجاد ہو گئے ہیں کوئی بھی چینل یا ایف ایم چلاؤ وہاں گانے ہی چل رہے ہیں اللہ ہمیں معاف کرے۔" دادی جان غصے سے بول رہی تھیں۔
"بیٹا رمضان تو اللہ کو خوش کرنے کا مہینا ہے۔" ابھی دادی جان نے اتنا ہی کہا تھا کہ میں وہاں سے بھاگ گہا۔ امی مجھے آوازیں دیتی رہیں پھر سر پکڑتے ہوئے وہ بھی آ گئیں جیسے ہی وہ میرے کمرے میں داخل ہوئیں میں نے ان کو خو ب برا بھلا کہا ان سے جھگڑا کیا اور اپنے کمرے سے چلے جانے کو کہہ دیا۔ مجھے امی جان پر سخت غصہ آ رہا تھا کیوں کہ ان کی وجہ سے ہی مجھے دادی جان سے مار پڑی تھی، گھر میں میں صرف دو افراد سے ہی ڈرتا تھا ایک ابو جان اور دوسرا دادی جا ن۔ ابو جان توآفس چلے جاتے تھے جب کہ دادی جان ہر وقت موت کے سائے کی طرح میرے سر پر منڈلاتی رہتی تھیں اگر ابو جان اس وقت گھر ہوتے تو میری اس سے بھی زیادہ درگت بنتی۔ امی جان نے قریب آ کر مجھے بانہوں میں لینے کہ کوشش کی لیکن میں نے ان کی بانہیں جھٹک دیں اور انہیں ایک دفعہ پھر اپنے کمرے سے چلے جانے کا کہا وہ آنسو بہاتے ہوئے چلی گئیں اور میں نے دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی لگا دی مجھے اتنی بھی شرم نہ آئی کہ ماں باپ کے ادب کا حکم تواللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور میں نے امی جان کا دل دکھا دیا تھا۔
اگلے دن پھر میرا وہی حال تھا، دادی جان سحری کے وقت مجھے اٹھانے کے لیے آیا کرتیں ان کے ڈر کی وجہ سے میں اٹھ تو جاتا لیکن ان کے چلے جانے کے بعد پھر سوجاتا اس دوران بھی میں اپنے گھر والوں کو دیکھا کرتا تھا کہ وہ سحری کے وقت بھی نوافل اور اذکا ر کا خوب اہتمام کرتے ہیں لیکن مجھ پر کسی چیز کا بھی اثر نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح پورا ماہ رمضان گزر گیا عید آ گئی اور میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ خوب انجوائے کیا، سینما گھر گئے فلمیں دیکھیں بازاروں میں گھو متے پھرتے رہے۔ پیسہ خوب پانی کی طرح بہایا گھر والے مجھے روکتے رہے لیکن میں نے کسی کی نہ سنی امی جان کا کہنا تو میں ویسے بھی نہیں مانتا تھا، ابو جان سے بھی ان کے ڈر کی وجہ سے ادب سے بات کر لیتا سب گھر والے میری ان عادتوں سے پریشان تھے۔ وقت گزر رہا تھا سال گزرتے پتہ ہی نہ چلا ایک دفعہ پھر ماہ رمضان آنے کو تھا۔
یہ شعبان کی ستائیسویں تاریخ تھی اس دن میں ایک دوست سے مل کر گھر واپس آ رہا تھا کہ راستے میں عصر کی اذانیں شروع ہو گئیں ناجانے میرے قدم مسجد کی طرف کیسے اٹھ گئے، کوئی ایسی قوت تھی جو مجھے مسجد کی طرف کھینچتی چلی جا رہی تھی۔ شاید میری ہدایت کا فیصلہ ہو رہا تھا میں نے وضو کیا اور باجماعت نماز ادا کی نماز کے بعد امام صا حب نے ایک کتاب اٹھائی اور اسے کھول کر پڑھنے لگے میں بھی تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ گیا امام صاحب ماہ رمضان کی فضیلت پر احادیث سنانے لگے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ جتنا شعبان کے ایام گننے کا اہتمام کرتے اتنا دیگر کسی مہینا کا اہتمام نہ فرماتے پھر رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھتے (مشکوۃ)
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا رجب میرا مہینا ہے شعبان اللہ کا مہینا ہے اوررمضان میری امت کا مہینا ہے(ابن ماجہ۔ مسند امام الا اعظم)
کعب بن عجرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں منبر کے قریب ہونے کا حکم دیا ہم حاضر ہو گئے پھر آپ ﷺ نے منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا آمین جب دوسرے درجے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین جب تیسرے درجے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آ ج ہم نے آپ سے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب میں نے پہلے درجے پر قدم رکھا تو اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے بددعا کی تھی وہ شخص ہلاک ہو جسے کوئی رمضان کا مہینا ملے پھر اس کی مغفرت نہ ہو تو میں نے کہا آمین پھر جب دوسرے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا وہ شخص برباد ہو جس کے سامنے آپ ﷺ کا ذکر مبارک کیا جائے اور وہ آپ پر درود نہ بھیجے تو میں نے کہا آمین پھر جب تیسرے درجے پر چڑھا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا وہ شخص بھی ہلاک ہو جو اپنی زندگی میں اپنے والدین یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے کے زمانے میں پائے اور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکے تو میں نے کہا آمین
یہ حدیث سنتے ہی میرے چہرے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے اور میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، میں جلدی جلدی گھر لوٹ آیا خوف کے مارے میرا براحال ہوا جا رہا تھا اور بار بارذہن میں سوال اٹھ رہا تھا کہ کیا میں ہلاک ہو جاؤ ں گا؟ پچھلے سال تو میں نے ماہ رمضان کی قدر بھی نہ کی تھی اور والدین سے بھی لڑتا جھگڑتا رہتا تھا۔ امی جان کا تو میں نے بہت دل دکھایا تھا قدم قدم پر ان کو تکلیفیں دی تھیں پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا دادی جان نے مجھے دیکھ لیا اور پیار سے پوچھا۔
"بیٹے کیا بات ہے؟ پریشا ن دکھائی دے رہے ہو؟"
"وہ۔۔۔وہ۔۔۔وہ دادی جان" میں نے تمام تفصیل دادی جان کو سنا دی یہ سن کر دادی جا ن مسکرا اٹھی اور جواب میں مجھے ایک اور حدیث سنائی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے حالت ایمان میں ثواب کی نیت سے ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اس کی راتوں میں قیام کیا تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ (بخاری)
"بیٹے اب دو دن بعد ماہ رمضان آنے والا ہے تم اس ماہ میں روزے رکھ کے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ بخشوا سکتے ہو اور اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکتے ہو اور رہا آپ کی امی کا سوال تو ان سے جا کر معافی مانگ لو۔ ماں کا دل تو نرم ہوتا ہے جب تم ان سے معافی مانگو گے تو وہ بھی تمہیں معاف کر دیں گی اور گلے سے لگا لیں گی بس مجھے خوشی اس بات پر ہے کہ تمہیں احساس ہو گیا ہے یاد رکھو ہم حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کر کے ہی جنت میں جا سکتے ہیں آ پ ﷺ نے ہماری راہنمائی کے لیے بہت کچھ فرمایا ہے آپ ﷺ کے ارشادات پر عمل کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ اب جاؤ اپنی امی جان سے معافی مانگو اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے ماہ رمضان تو آ رہا ہے نا۔۔۔۔ جاؤ اپنی امی کے پاس اب دیر مت کرو۔"
دادی جان نے مجھے پیار کیا اور میرے قدم امی جان کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ میں دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا امی جان کے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ امی جان نے مجھے دیکھا اور خوشی سے اپنی بانہیں پھیلا دیں ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اسی انتظار میں ہی بیٹھی ہوں، ان کے چہرے پر سجی ہو ئی مسکراہٹ سے صاف واضح ہو رہا تھا کہ انہوں نے مجھے معافی مانگنے سے پہلے ہی معاف کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ تو ستر ماؤ ں سے بھی بڑھ کر اپنے بندے سے پیار کرتا ہے تو وہ کیسے اپنے بندے کو تنہا چھوڑ سکتا ہے۔ جب ایک ماں اپنے بیٹے کو معاف کر سکتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی ذات تو غفور الرحیم ہے وہ بھی مجھے معافی ما نگنے پر بخش دے گا، یہ سوچتے ہی میں امی جان کے قدموں میں سر رکھ کے رونے لگا۔ احساس ندامت کے ساتھ ہچکیوں سے پورا کمرا گونج رہا تھا۔ اور امی جان کے ہاتھوں کا لمس میں اپنے بالوں میں محسوس کر رہا تھا۔
0 Comments